کتے تاریخ نہیں پڑھتے (آخری قسط)
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا ’’میں کسی گورے کا برادر تو بن سکتا ہوں برادر ان لا نہیں‘‘ صدر ٹرمپ یہودیوں کے برادر بھی ہیں اور برادران لا بھی۔ اپنے پہلے دور حکومت میں انہوں نے خود کو یہود کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ثابت کیا تھا۔ اب دوسرے دور حکومت میں وہ پہلے سے بڑھ کر یہود نواز ثابت ہوں گے۔ وہ بین الاقوامی قراردادیں امریکا اور بڑے ممالک نے جنہیں منظور کیا تھا، جن کی خلاف ورزی کرنے والوں کی امریکا سرزنش کرتا تھا، اب ٹرمپ یہود کے مفادات کی مخالف ان قراردادوں کو خود روند رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کو بھی روند ڈالا جن کے مطابق مغربی کنارہ مقبوضہ علاقہ ہے، جس پر یہودی وجود کو آباد کاری کا حق نہیں ہے، بلکہ یہودی وجود کو ان علاقوں سے نکل کر 4 جون 1967 کے حدود تک محدود ہونا ہے۔ انہوں نے القدس الشریف کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو بھی روند ڈالا جس کے مطابق یہ مقبوضہ فلسطینی علاقہ ہے۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں کا شام کے مقبوضہ علاقے ہونے کی قرارداد کو بھی ملیامیٹ کر کے القدس اور گولان پر یہودی قبضے کو جواز فراہم کر دیا ہے۔ اب وہ غزہ سے اہل غزہ کے انخلا اور مغربی کنارے میں اب تک کی جانے والی آباد کاریوں اور یہود کے قبضے کو قانونی حیثیت دے کر مزید آباد کاری یا اس کی توسیع کے جائز ہونے کی حمایت کرنا چا ہتے ہیں۔ اس کی ابتدا اس وقت ہو گئی تھی جب انہوں نے ان آباد کاروں کے لیے معافی کا اعلان کیا جن پر بائڈن انتظامیہ کے دور میں سزائیں عائد کی گئی تھیں۔
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ روابط میں اضافے اور تعلقات میں توسیع کے اپنے سابق منصوبے پر توجہ مرکوز رکھیںگے تاکہ اسرائیلی مظالم کو اور اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی سرزمین کو غصب کرنے کو خود مسلم ممالک کی طرف سے جواز فراہم ہوسکے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے جن ممالک کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ٹرمپ کے ساتھ گہرے مراسم ہیں، جو سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے آرزو مند بھی ہیں اور اس معاملے میں ٹرمپ کے معاون کا کردار بھی اداکرچکے ہیں۔ ٹرمپ کی طرف ان کے غیر معمولی جھکائو کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید اس معاملے میں زیادہ تاخیر نہ ہو۔ ٹرمپ کی ایک ٹیلی فون کال پر امریکی معیشت کو 600 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے سعودی ولی عہد سے کیسے ممکن ہے کہ وہ اگلی کال پر یہود کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا اعلان نہ کر دیں؟
غزہ کو اہل ِ غزہ سے صاف کرنے اور مغربی کنارے کو ان کے باسیوں سے خالی کرکے اسرائیل میں ضم کرنے کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیان کو اقوام متحدہ کے اسٹیفن ڈیو جاری نے مستردکرتے ہوئے کہا ’’ہم کسی بھی ایسے منصوبے کے خلاف ہیں جس میں لوگوں کو زبردستی بے دخل کیا جائے یا وہ کسی طرح کی نسلی صفائی کا سبب بنے‘‘۔ مصر، اردن، عرب ممالک، جرمنی اور دیگر کئی ممالک نے بھی اس بیان کی مذمت کی ہے لیکن ٹرمپ کو اس احتجاج کی کیا پروا ہوسکتی ہے؟ تو پھر کیا ٹرمپ اردن اور مصر کے حکمرانوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کو مشکل میں ڈال رہے ہیں پہلے ہی جن کے اقتدار کی بقا ٹرمپ کی حمایت اور امریکی امداد سے مشروط ہے لیکن اس کے باوجود جنہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس نقل مکانی کے حامی نہیں ہیں۔ یا پھر یہ بیان ٹرمپ کی اس عادت کے مطابق ہے جس میں ابتدا وہ انتہائی پرشور دھماکے دار مطالبے سے کرتے ہیں اور ماحول گرمانے کے بعد پھر وہ دوسرا مطالبہ لے آتے ہیں۔
جہاں تک ٹرمپ کے اس بیان کا تعلق ہے کہ ’’میں جب مشرق وسطیٰ کے نقشے پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اسرائیل بہت چھوٹا سا ٹکڑا نظر آتا ہے۔ میں سنجیدگی سے سوچتا ہوں کہ کیا مزید علاقے حاصل کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ یہ بہت چھوٹا ہے‘‘۔ یہ بیان اسرائیل کی توسیع کے بارے میں تھا جبکہ موجودہ بیان اسرائیل کی توسیع کے ’’طریقے‘‘ کے بارے میں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ، اردن اور مصرکے ایجنٹ حکمرانوں کے لیے حالات سازگار کر رہے ہیں تاکہ زبردستی نقل مکانی کا راستہ آسان ہو جائے یا پھر یہ نبض دیکھنے کا عمل ہے کہ کیا یہ حکمران ان کے بیان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں؟ اور لوگوں کو ان کی زمین سے نکال کر زمین کو لوگوں سے خالی کر کے یہودی وجود کے حوالے کر سکتے ہیں؟ یا پھر اگر لوگ ان دونوں حکومتوں کے سامنے ڈٹ جائیں اور ان دونوں ممالک کے حکمرانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے ساتھ خیانت کرنے والے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے روک سکیں تو اس منصوبے کو کسی اور موزوں وقت تک موخر کر دیا جائے۔
صدر ٹرمپ غزہ کو ایک ایسی ڈیمولیشن سائٹ قرار دیتے ہیں جہاں ہر چیز منہدم ہوچکی ہے اور تعمیر کے لیے ہر چیز کو توڑ کر صاف کیا جائے گا جب تک وہ عرب ملکوں مصر اور اردن سے کہیں گے کہ وہ ان لوگوں کو جن کی تعداد تقریباً 15 لاکھ ہے اپنے یہاں رکھیں اور کسی اور جگہ ان کے لیے مکانات تعمیر کریں جہاں وہ امن سے رہ سکیں۔ صدر ٹرمپ نے تو شاید تاریخ نہیں پڑھی لیکن اہل غزہ اور فلسطینی اپنی تاریخ اور ماضی نہیں بھولے جب وہ فلسطینی پناہ گزین بن کر دوسرے ملکوں میں گئے تھے اور اسرائیل نے ان کا واپس آنے کا حق ان سے چھین لیا تھا۔ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان طویل تنازع کے کسی حل کی طرف نہ پہنچنے کا ایک سبب اسرائیل کا ان فلسطینیوں کو ان کی واپسی کا حق نہ دینا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کو غزہ سے فلسطینیوں کی نسلی صفائی قرار دیا جارہا ہے۔
صدر ٹرمپ اس وقت کا انتظار کریں جب رسول اللہؐ کی امت کے جواں مرد اور مجاہدین ایسے منصوبوں اور بیانات کو گرد و غبار کی طرح اُڑا کر رکھ دیں گے۔ پندرہ ماہ تک امریکا اور یہودی وجود اسرائیل کے وحشیانہ مظالم اور بے حدو حساب بمباری کے باوجود اہل فلسطین نے اپنے گھروں سمیت اپنی سرزمین کو مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔
سخت موسمی حالات اور نا گفتہ بہ زمینی صورتحال کے باوجود وہ ہزاروں کی تعداد میں پیدل چلتے ہوئے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں بدبخت یہودیوں نے ان کے گھروں کو برباد کردیا ہے پھر بھی وہ گھر جانے کی جلدی میں ہیں اور واپس پہنچنے کو عظیم کامیابی باورکر رہے ہیں۔ دنیا یہ سب دیکھ لے، غور وفکرکرلے اور جان لے کہ ٹرمپ کے بیانات اور فلسطین کو اس کے باشندوں سے خالی کرنے کی اس کی سازش، چاہے غدار مسلم حکمران بھی اس کے ساتھ مل جائیں، پھر بھی یہ سب اس پر الٹا پڑے گا۔ جلد اور بہت جلد یہ مبارک سرزمین دار الاسلام بن کر اس کے لوگوں کو ہی ملے گی، اور یہ تمام غدار حکمران ہٹا دیے جائیں گے۔ اللہ کے اذن سے خلافت ِ راشدہ قائم ہونے والی ہے، یہود سے قتال اور ان کے وجود کے خاتمے کا وقت آنے والا ہے۔ مسند احمد میں حذیفہ سے روایت کردہ مخبر صادق رسالت مآبؐ کا فرمان ہے ’’پھر نبوت کے نقشِ قدم پر خلافت قائم ہو گی‘‘۔ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’یہود تم سے قتال کریں گے پھر تم ان پر غالب آ جاؤ گے‘‘۔ تب دنیا، القوی اور العزیز اللہ کی مدد سے منور ہو جائے گی۔ تاریخ سے ناآشنا بھونکنے والے کتے تب دھتکار دیے جائیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کے یہودی وجود انہوں نے لوگوں کو توسیع کے کے ساتھ ٹرمپ کی رہے ہیں ہیں اور یہود کے ٹرمپ کے اور اس کی طرف کے لیے باد کا
پڑھیں:
لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
یہودی ایک انتہا پسند، شرپسند، تخریب کار اور دہشت گرد قوم ہے، جن کے ساتھ ہماری جنگ روز اول سے روز آخر تک رہے گی۔ امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنا یہودیت کی سرشت میں نہیں۔ قرآن کریم کی آیات اس پر شاہد ہیں کہ یہودیوں نے اپنی قوم اور نسل سے آنے والے انبیائے کرامؑ کو بھی سکون سے جینے نہیں دیا، ان کی نافرمانیاں کیں، مذاق اڑایا حتیٰ کہ بہت سے انبیاء کو شہید کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ یہودیت بربریت کا دوسرا نام ہے اور یہودی بربریت کے قصے تاریخ کے ابواب میں محفوظ ہیں، مگر آج یہودیوں کی بربریت کے ساتھ ان کے سہولت کار امت کے غداروں کے پوسٹ مارٹم کا ارادہ ہے۔
یہود، نصریٰ کی آشیرباد سے ارض مقدس پر انسانی حقوق کی پامالیوں میں ہر حد پار کرچکے ہیں، جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ رمضان المبارک میں جنگ بندی کے باوجود پاگل یہودی بربریت سے باز نہیں آئے۔ عید کے دن بھی مظلوم فلسطینیوں کو خون میں نہلایا گیا۔ مساجد محفوظ ہیں نہ گھر۔ گھر ملبے کے ڈھیر اور مساجد شہید ہوچکی ہیں۔
اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ حتیٰ کہ قبرستان بھی یہودی بربریت سے محفوظ نہیں رہے۔ غزہ کو اہل غزہ سے خالی کروانا گریٹر اسرائیل کے قیام کے خاکے میں رنگ بھرنے کی ابتداء ہے۔ یہودیت کے اس ناپاک و غلیظ منصوبے کی راہ میں صرف حماس کے مجاہدین سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر پوری ایمانی غیرت کے ساتھ کھڑے ہیں، حالانکہ گریٹر اسرائیل منصوبہ تو پورے مڈل ایسٹ کے نقشے کے ساتھ دنیا کے نظام کو بھی تہس نہس کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو عرب ریاستیں گریٹر اسرائیل کی اس ناپاک دلدل میں غرق ہو جائیں گی، لیکن صرف اہل فلسطین ڈٹ کر کھڑے ہیں اور اب تک 55 ہزارسے زائد فلسطینی یہودی بربریت کی بھینٹ چڑھ کر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ لے کر مسلم امہ کی بے حسی کا نوحہ سنا رہے ہیں۔
آج کے لبرلز برملا اور مسلمان حکمران اپنے طرز عمل سے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگوں سے ملک تباہ ہو جاتے ہیں اور بظاہر ان کی سوچ صحیح بھی لگتی ہے لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں تو گزشتہ دو صدیوں سے امریکا مسلسل جنگوں میں مصروف ہے اور ان کے ناجائز بغل بچہ اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک مسلسل حالت جنگ میں ہے مگر وہ تو تباہ نہیں مضبوط ہو رہے ہیں جب کہ جنگ سے بھاگنے والے عرب ممالک دن بدن کمزور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ صدی میں سب سے طویل اور خوفناک جنگیں جاپان جرمنی اور کوریا نے لڑیں لیکن پھر بھی یہی ممالک ترقی میں سب سے آگے نکل گئے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو مسلمان کئی صدیوں تک مسلسل جہاد (جنگوں) میں مصروف رہے اور اس دوران تمام عالمی طاقتیں ان کے سامنے سرنگوں اور مسلمان سب سے ترقی یافتہ اور طاقتور رہے۔
اے مسلمان حکمرانوں اور سپہ سالاروں کیا ہوگیا آپ لوگوں کو؟ جہاد فی سبیل اللہ کا حکم تو قرآن پاک میں سیکڑوں دفعہ آیا ہے، جہاد ہمارے ایمان کا حصہ اور حکم ربانی ہے، مگر جب سے مسلمانوں کو جنگوں سے ڈرنا اور بزدلی کا سبق پڑھایا گیا ہے مسلمان غربت کا شکار اور ترقی میں پیچھے رہ کر ذلیل وخوار ہوگئے ہیں۔
ماضی میں جب بربریت کے علمبرداروں نے الاقصیٰ پر قبضہ کیا تو شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ جیسے عالم دین مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کے عمل کو موقوف کرکے خلیفہ وقت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے نکلے اور خلیفہ وقت کے خطبہ جمعہ کے دوران کھڑے ہو کر خلیفہ وقت کے سامنے بہتی آنکھوں اور درد سے کی گئی تقریر نے خلیفہ وقت کے دل کی دنیا بدل ڈالی اور صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس کی فتح ہوئی۔
آج عرب و عجم کے ہزاروں علماء شیخ زین الاسلام الھراوی ثانیؒ بن کر مسلمان حکمرانوں کو پکار رہے ہیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی ثانی کی تلاش میں ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں مفتی اعظم پاکستان شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمٰن نے بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کی فرضیت کا فتویٰ دیا۔ مگر افسوس کہ اس فتوے کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی کردار کُشی اور بہتان تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں یہودی ہیں نہ ہم فلسطین کے پڑوسی ہیں اس کے باوجود ہمارے ملک میں اسرائیل کے جتنے ہمدرد اور سہولت کار سامنے آئے، الامان الحفیظ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاد کے لفظ سے کفار سے زیادہ منافقین کو تکلیف ہوئی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ہمدردی کا تو کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستان کے مسلمان تو بحیثیت قوم دستوری اور آئینی طور پر اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں جو ایمان کے ساتھ پاکستانیت کی نشانی ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں غزہ میں اسرائیلی بربریت اور مسلمان حکمرانوں کی بے حسی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسرائیل کے خلاف احتجاج تو دور کی بات کوئی اپنے کارکنوں کو جاندار مذمتی بیانیہ بھی نہیں دے سکے نتیجتاً اسرائیل کے لیے ان جماعتوں میں موجود لبرلز کے دلوں میں پہلے سے موجود نرم گوشہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے دلائل میں بدل رہا ہے۔
اسپیکر ایاز صادق نے غزہ پر بمباری روکنے کے لیے رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کو قرار داد پیش کرنے کی اجازت دی تو اصولًا، عقلاً اور شرعاً یہ متفقہ طور پر منظور ہونا چاہیے تھی لیکن سابق اسپیکر اسد قیصر کی جانب سے اس قرارداد کو بلڈوز کرنے کی حرکت نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا، انھوں کہا کہ "اگر اس ایوان میں عمران خان کے حق میں قرار داد پیش نہیں ہوگی تو فلسطینیوں کے حق میں بھی قرار داد پیش نہیں ہوگی۔" پاکستانیوں یہ ہے پی ٹی آئی کا وہ چہرہ جس کے بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے قوم کو خبردار اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ و حکیم سعیدؒ نے پیش گوئیاں کی تھیں۔
اسرائیل کے غزہ میں مظالم نے امت مسلمہ میں واضح لکیر کھینچ دی ہے جس کے ایک طرف فلسطین کے حامی اور دوسری طرف یہود پرست ہوں گے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ "پاکستان تو فلسطین سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے ہم کیسے اسرائیلی بربریت کے لیے ان کا ساتھ دے سکتے ہیں؟" انھیں کون سمجھائے کہ فلسطین ہزاروں کلومیٹر دور مگر مسجد الاقصیٰ تو ہمارے دل کی دھڑکنوں اور خون کے رگوں میں ہے تو پھر مسجد الاقصیٰ کے سربکف محافظوں کو کون ہمارے دلوں سے دور کرسکتا ہے؟ قصہ مختصر علماء کرام نے اپنی ذمے داری پوری کردی، اب امت حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے، ہم بھی ان حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے پی ایس ایل میں فلسطین کا پرچم لہرانے کی اجازت نہیں، ان حکمرانوں کی طرف جن کے حکم سے اسرائیل مخالف ریلیوں پر لاٹھی چارج اور شرکاء کو گرفتار کیا جاتا ہے، ان حکمرانوں کی طرف جن کا امریکن جیوش کانگریس نے اسرائیل سے متعلق ایک قرار داد میں اہم تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا اور اسرائیل کے خلاف او آئی سی کے موقف کو نرم بنانے پر شکریہ ادا کیا، ان رویوں کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہوگا کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل کے پنجوں سے معصوم فلسطینیوں کو بچائیں گے مگر ہم مایوس نہیں، انشاء اللہ احادیث مبارکہ میں دی گئی بشارت نبوی کے مطابق وہ وقت ضرور آئے گا جب بیت المقدس آزاد ہو جائے گا۔ اس وقت امت کے غدار یہود پرست گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔