Jasarat News:
2025-09-18@17:45:45 GMT

ایک عہد، حوصلے اور امید کا دن

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

ایک عہد، حوصلے اور امید کا دن

یوم یکجہتی کشمیر ایک رسمی دن نہیں بلکہ ایک عہد، ایک حوصلہ، ایک امید کا دن ہے۔ یہ دن اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد صرف یہ کہ کشمیریوں کی حمایت کرنا بلکہ دنیا کو یہ باور کرانا بھی ہے کہ پاکستان کے عوام کشمیر کی آزادی کے بغیر سکون سے نہیں بیٹھیں گے اور کشمیر کی آزادی تک کشمیری بھائیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ آزادی کی اس جنگ میں پوری پاکستانی قوم اْن کے پشت پر کھڑی ہے اور وہ دن بھی دور نہیں جب کشمیر آزاد ہوگا اور وہاں کے عوام سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ کشمیریوں کی جدو جہد کامیاب و کامران ہوگی۔ کشمیریوں کا واحد مطالبہ آزادی ہے اور وہ اپنے اس مطالبے سے ایک انچ بھی پیچھے بہنے کو تیار نہیں۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے غیر قانونی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم کی کوشش سے یکجہتی کشمیر ہر سال با قاعدہ پانچ فروری کو منایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں اس دن کو مناتے ہوئے ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی آواز بلند کریں اور کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کریں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی تاریخ ہمیشہ قربانیوں اورجد و جہد کی لازوال داستان رہی۔ وہ ہمیشہ سے اپنی جد و جہد سے تاریخ رقم کرتے آ رہے ہیں۔

یہ دن ایک موقع ہے جب دنیا کو یاد دلایا جاتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف سیاسی تنازع نہیں بلکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے اور اس انسانی المیہ کی تاریخ کو کشمیری عوام اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوری 1989 سے لیکر اب تک قابض بھارتی فورسز نے خواتین اور بچوں سمیت 96 ہزار 388 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں اور پر تشدد کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ رپورٹ میں بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کے اس دعوے کو بھی بے نقاب کیا گیا کہ 2019 میں دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے جبکہ حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق 2019 سے اب تک 1000 مظلوم کشمیریوں کو شہید کیا گیا جن میں 18 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس دوران 251 کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں یا دوران حراست قتل کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2 ہزار 480 کشمیریوں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی اور 25 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اسی طرح کشمیریوں کا معاشی قتل کرنے کے لیے مکانوں، دوکانوں سمیت ایک ہزار سے زائد املاک کو نزر آتش کیا گیا۔ بھارتی فوج کی طرف سے 150 کے قریب خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔

بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے اپنی ریاستی دہشت گردی کی جاری کارروائیوں میں گزشتہ ماہ جنوری میں 6 کم عمر بچوں سمیت 11 کشمیریوں کو شہید کیا اور یہ سب ریاستی مظالم مودی حکومت کی طرف سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے لیکر اب تک کے ہیں جس میں مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے صورتحال بہتر ہوئی، یہ محض دنیا کو دھوکا دینے کے مترادف ہے اور کچھ نہیں۔ مذہبی اعتبار سے کشمیر صدیوں سے اسلامی تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے۔ یہاں اسلام کی روش صوفیا اور علماء کے ذریعے پھیلی جس نے اس خطے کی روایات، تمدن اور طرز زندگی کو تشکیل دیا۔ کشمیری عوام نے ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے ساتھ گہرے مذہبی، ثقافتی اور جزباتی تعلقات قائم رکھے۔ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور مذہبی آزادی پر قدغن ہے۔ بلکہ پوری امت مسلمہ کے لیے باعث تشویش ہے۔ سیکڑوں مساجد کی بے حرمتی، مذہبی اجتماعات پر پابندی اور اسلامی تہواروں کے دوران ریاستی جبر اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں بظاہر سیکولرزم کا راگ الاپنے والا انڈیا کشمیریوں کو ان کی مذہبی تشخص سے محروم رکھنے کی منظم کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تنازع نہ صرف زمین کے ایک ٹکڑے کے حصول کا ہے بلکہ ایمان، انصاف اور انسانی وقار کا معاملہ بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی بیسوں قراردادوں کے با وجود کشمیر کے مسائل کا حل نہ ہونا خود اقوام متحدہ کے وقار اور سالمیت کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کشمیریوں کو کشمیر کی دنیا کو کیا گیا ہے اور کے لیے

پڑھیں:

سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-03-6
متین فکری
سید علی گیلانی کی چوتھی برسی یکم ستمبر کو منائی گئی۔ اس موقع پر اسلام آباد کے قومی عجائب گھر میں سید علی گیلانی کارنر کا افتتاح کیا گیا جس میں ان کے زیر مطالعہ قرآن پاک، جائے نماز اور دیگر اشیا رکھی گئی ہیں۔ انہیں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ، مصور پاکستان علامہ اقبالؒ اور دیگر اکابرین کے ساتھ ان اہم شخصیات کی صف میں جگہ دی گئی ہے۔ جنہوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ گیلانی صاحب سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ اتنے سچے اور کھرے کہ شاید ہماری حکمران اشرافیہ ان کے مقابلے میں خاک چاٹتی نظر آئے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے درمیان جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے نعرہ لگاتے تھے ’’ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے‘‘ سامعین پوری قوت سے اس نعرے کو دہراتے اور مقبوضہ کشمیر کی سرزمین دیر تک اس نعرے سے گونجتی رہتی۔ یہ نعرہ گیلانی صاحب کی پہچان بن گیا تھا وہ جہاں بھی جاتے یہ نعرہ ان کے ہمرکاب ہوتا تھا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے وہیں پلے بڑھے اور کم و بیش 60 سال تک اِس مقتل میں سینہ تانے کھڑے اپنے پاکستانی ہونے کا برملا اعتراف کرتے رہے لیکن کوئی طاقت انہیں ان کے موقف سے منحرف نہ کرسکی۔ بتایا جاتا ہے کہ جب گیلانی صاحب نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہیں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے گھیر لیا اور انہیں مالی و مادی ترغیبات کے ذریعے ٹریپ کرنے کی کوشش کی۔ ان سے کہا گیا کہ آپ بے شک بھارت کی حکومت پر تنقید کریں اس کی کشمیر پالیسی کے بخیے اُدھیڑیں، بھارتی فوج کے مظالم کو نشانہ ہیں لیکن ہمارا آپ سے صرف ایک مطالبہ ہے کہ آپ کشمیر کے بھارت سے الحاق کو متنازع نہ بنائیں۔ اس کے بدلے میں ہم آپ کی ہر طرح خدمت کو تیار ہیں، آپ کو ماہانہ وظیفہ دیں گے، اگر حکومت نے آپ کو گرفتار کرلیا تو آپ کی فیملی کی دیکھ بھال کی جائے گی اور اس کی تمام ضرورتیں پوری کی جائیں گی۔ آپ کو بیرون ملک سفر کی بھی اجازت ہوگی۔ گیلانی صاحب نے خفیہ اہلکاروں سے کہا کہ یہ پیش کش کسی اور کو کرو وہ بکائو مال نہیں ہیں۔ گیلانی صاحب نے بھارت پر یہ بھی واضح کردیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کو کسی صورت بھی جائز نہیں سمجھتے، یہ ایک غیر فطری الحاق ہے جو لازماً ختم ہو کر رہے گا اور کشمیر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔ ان کے اس واضح اور دو ٹوک موقف نے بھارت کو ان کا جانی دشمن بنادیا۔ انہیں بار بار گرفتار کیا جاتا رہا، اس طرح انہوں نے پندرہ سال سے بھی زیادہ عرصہ سلاخوں کے پیچھے گزارا جبکہ عمر کا آخری حصہ انہوں نے گھر میں نظر بندی کی حالت میں بسر کیا۔

گیلانی صاحب کی پاکستانیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ایک سازش کے تحت مظفرآباد سے سرینگر تک دوستی بس کا اجرا ہوا تو بھارت اور پاکستان دونوں کی خواہش تھی کہ افتتاحی سفر میں دوسرے کشمیری لیڈروں کے ساتھ گیلانی صاحب بھی اس بس میں مظفر آباد آئیں۔ پرویز مشرف نے حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کے ذریعے گیلانی صاحب پر دبائو ڈالا کہ وہ دوستی بس کے ذریعے پاکستان

ضرور تشریف لائیں اس طرح نہ صرف پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ کشمیر کاز کو بھی تقویت ملے گی۔ گیلانی صاحب نے ہر طرف سے دبائو کے بعد فیصلہ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ پر چھوڑ دیا جس نے ان کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ گیلانی صاحب کو دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں جانا چاہیے، حقیقت یہ ہے کہ گیلانی صاحب پاکستان آنا چاہتے تھے اور بار بار آنا چاہتے تھے، پاکستان ان کے دل کی دھڑکنوں میں بسا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنی طالب علمانہ زندگی کے کئی قیمتی سال لاہور میں گزارے تھے اور اس کی یاد انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے، لیکن ان کی پاکستانیت ان سے تقاضا کررہی تھی کہ وہ بھارتی پاسپورٹ پر پاکستان نہ جائیں اور ایک آزاد پاکستانی کی حیثیت سے پاک سرزمین پر قدم رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی شہری ہونے کی حیثیت سے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ مزید برآں ان کی دور اندیش نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ دوستی بس کے ذریعے مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالنے کی سازش کی گئی ہے، چنانچہ انہوں نے اس سازش کا حصہ بننے سے گریز کیا۔ دوسرے کشمیری لیڈر دوستی بس کے ذریعے پاکستان آئے لیکن ان کی حیثیت دولہا کے بغیر براتیوں کی سی تھی اور پاکستانیوں نے ان کی پزیرائی سے آنکھیں چرالیں۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ دوستی بس چند ماہ سے آگے نہ چل سکی۔

گیلانی صاحب اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنے کے قائل تھے۔ ان کے اس موقف میں کبھی تبدیلی نہیں آئی پاکستان بھی سرکاری سطح پر اسی موقف کا علمبردار تھا، چنانچہ جب جنرل پرویز مشرف نے اس موقف سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کا ’’آئوٹ آفس بکس‘‘ حل پیش کیا تو گیلانی صاحب نے اسے قبول کرنے سے گریز کیا۔ وہ اس حد تک برہم ہوئے کہ انہوں نے دہلی کے پاکستانی سفارت خانے میں صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں پرویز مشرف نے ناراض ہو کر گیلانی صاحب کے خلاف کئی انتقامی کارروائیاں کیں۔ ان کی حریت کانفرنس کی جگہ میر واعظ عمر فاروق کی حریت کانفرنس کو سرکاری سطح پر تسلیم کرلیا اور اس کی سرپرستی شروع کردی۔ او آئی سی میں گیلانی صاحب کی جگہ عمر فاروق کو مبصر کا درجہ دلوا دیا۔ ان تمام ناانصافیوں کے باوجود گیلانی صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

مقبوضہ کشمیر میں جب پرامن سیاسی جدوجہد کی ناکامی کے بعد جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوجوں کے خلاف بندوق اٹھالی تو گیلانی صاحب نے بلاتوقف اس کی حمایت کا اعلان کیا اور سیاسی محاذ پر اسے تقویت دینے کے لیے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے برملا کہا کہ بھارت کے غیر مصالحانہ رویے نے نوجوانوں کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا موقف چونکہ اس کے برعکس تھا اس لیے انہوں نے ایک سمجھوتے کے تحت جماعت اسلامی سے علاحدگی اختیار کرلی اور خود کو نوجوانوں کی سیاسی حمایت کے لیے وقف کردیا۔ گیلانی صاحب اب ہم میں نہیں ہیں لیکن انہوں نے ایک سچے اور کھرے پاکستانی کی حیثیت سے صبر و استقامت اور عزم و ہمت کی جو مشعل فروداں کی ہے وہ اب بھی ہر طرف اُجالا کررہی ہے اور ان کی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔

متعلقہ مضامین

  • چین سے 21 جدید بسیں بلوچستان کیلیے روانہ، سفری سہولتوں میں بہتری کی امید
  • امید ہے ایک دن صیہونی حکمران سلاخوں کے پیچھے ہوں گے، انسپکٹر اقوام متحدہ
  • بھارتی سائفر نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور بھارتی ایجنسیوں کے تعلق کو بے نقاب کر دیا: چوہدری انوارالحق
  • جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور بھارتی تعلق کو نقاب کردیا: وزیراعظم آزاد کشمیر
  • پاکستان امت مسلمہ کی واحد امید ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • عالمی برادری کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرے، حریت کانفرنس
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی