نیٹ میٹرنگ سے پاکستان میں شمسی توانائی کو اپنانے کے رجحان میں اضا فہ ہوا ہے . ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 فروری ۔2025 )پاکستان میں شمسی توانائی کو اپنانے کے عمل میں نیٹ میٹرنگ کے ذریعے اضافہ ہوا ہے جس کی حوصلہ افزائی پینل کی قیمتوں میں کمی اور گرڈ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہوتی ہے تاہم حکام کو گرڈ کی جدید کاری کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کے بارے میں خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شمسی اتار چڑھاو کو منظم کیا جا سکے اور گرڈ کے استحکام کو یقینی بنایا جا سکے پاکستان شمسی توانائی کو اپنانے میں غیر معمولی اضافے کا سامنا کر رہا ہے جو بنیادی طور پر سازگار نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کے ذریعے ہوا جیسا کہ رینیوایبل فرسٹ رپورٹ”پاکستان میں عظیم شمسی رش“میں روشنی ڈالی گئی ہے.
(جاری ہے)
نیٹ میٹرنگ سسٹم جو 2015 میں متعارف کرایا گیا تھاجو صارفین کو اپنے احاطے میں چھوٹے پیمانے پر قابل تجدید توانائی سسٹمز کو انسٹال کرنے کے قابل بناتا ہے اور انہیں موثر طریقے سے بجلی کے پروڈیوسر اور صارفین دونوںمیں تبدیل کرتا ہے اپنے قیام کے بعد سے اس پالیسی میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنے اور وسیع تر شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے کئی ترامیم کی گئی ہیں کلیدی تبدیلیوں میں تقسیم شدہ جنریشن لائسنس کو تین سے سات سال تک بڑھانا اور 25کلو واٹ سے کم کے سسٹم کو جنریشن لائسنس کی ضرورت سے مستثنی کرنا شامل ہے ان ترامیم نے چھوٹے صارفین کے لیے شمسی توانائی کی پیداوار میں مشغول ہونا آسان بنا دیا ہے. حالیہ برسوں میں شمسی تنصیبات کے لیے اقتصادی منظر نامے میں بھی ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے صرف 2023 میں عالمی سولر پینل کی قیمتوں میں 42فیصدکی کمی واقع ہوئی جس سے سولر سسٹم آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے زیادہ سستے ہو گئے اس کے ساتھ ہی پاکستان میں گرڈ بجلی کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ مہنگی ہوتی جا رہی ہے زیادہ استعمال کرنے والے رہائشی صارفین کو اب 22 سینٹ فی یونٹ تک کے ٹیرف کا سامنا ہے شمسی توانائی اور گرڈ بجلی کی لاگت کے درمیان اس وسیع فرق نے شمسی سرمایہ کاری کی کشش کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے مزید برآںوہ ضوابط جو نیٹ میٹرنگ کے تحت منظور شدہ لوڈ کے 1.5 گنا تک شمسی صلاحیت کی تنصیب کی اجازت دیتے ہیں مالی فوائد میں بہتری لائے ہیں. عام شمسی سرمایہ کاری پاکستان بھر کے صارفین کے لیے شمسی توانائی ایک تیزی سے پرکشش آپشن بن رہی ہے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے چیئرمین ڈاکٹر فیاض چوہدری نے شمسی توانائی کو تیزی سے اپنانے کے درمیان ملک کے پاور گرڈ کی موجودہ حالت پر تشویش کا اظہار کیا انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ انفراسٹرکچر اور ضوابط پرانے تھے جس کی وجہ سے نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے مالیاتی عدم توازن پیدا ہوتا ہے شمسی توانائی کے استعمال کنندگان گرڈ کی بحالی کے اخراجات میں مناسب حصہ نہیں ڈال رہے ہیں. انہوںنے توانائی کی منصوبہ بندی میں ایک تاریخی نگرانی پر روشنی ڈالی جہاں بنیادی طور پر ڈیمانڈ پروفائلز پر غور کیے بغیر بیس لوڈ پاور پلانٹس پر توجہ مرکوز کی گئی جس کے نتیجے میں آپریشنل چیلنجز سامنے آئے ہیں این ٹی ڈی سی کے چیئرمین نے اس بات پر زور دیا کہ گرڈ کو اس لچکدار پیداوار کو سنبھالنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا جو شمسی توانائی متعارف کراتی ہے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے انہوں نے سمارٹ میٹرنگ کے فوری انضمام پر زور دیا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شمسی توانائی کو پاکستان میں نیٹ میٹرنگ اور گرڈ کے لیے گرڈ کی
پڑھیں:
ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
ماہرِ امور خارجہ کا پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہنا تھا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ماہرخارجہ امور محمد مہدی نے کہا کہ مئی کے حالیہ واقعات نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کے تصورات کو ہلا کر رکھ دیا ہے، یہ تصور کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا امکان معدوم ہوچکا ہے، اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے اور روایتی جنگ میں بالادستی کا تصور بھی اب ختم ہو چکا ہے، بھارت کی بی جے پی حکومت سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ سائوتھ ایشین نیٹ ورک فار پبلک ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ''جنوبی ایشیائی ممالک اور بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال'' کے موضوع پر پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے محمد مہدی نے کہا کہ 1998 میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے جوابی دھماکوں کے نتیجے میں دونوں ممالک نے امن کی اہمیت کو سمجھا تھا، مگر مئی کے واقعات نے ثابت کیا کہ خطے کی دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کشیدگی کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے موجودہ تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے سارک اور دیگر علاقائی ڈائیلاگ کے امکانات مفقود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں بیروزگاری اور معاشی عدم استحکام کا مسئلہ سنگین ہوچکا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی تحریک اسی صورتحال کا نتیجہ ہے، جب نوجوانوں کو روزگار کے مواقع نہیں ملتے تو ان کے ردعمل کے طور پر اس قسم کی تحریکیں ابھرتی ہیں۔ انہوں نے امریکہ میں صدر ٹرمپ کی کامیابی کو اس تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے امریکہ میں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کو حل کیا جو ان کی سیاسی کامیابی کی وجہ بنی۔ محمد مہدی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بیروزگاری کا بحران تو ہر جگہ موجود ہے، مگر ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس کا سامنا کر رہا ہے، بنگلا دیش میں طلباء کی بے چینی اور تحریک اسی صورت حال کا آئینہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بنگلا دیش کی تعلیمی سطح خطے کے کچھ دیگر ممالک سے بہتر سمجھی جاتی ہے مگر وہاں کے معاشی مسائل نے عوام کو احتجاج پر مجبور کیا۔ دوسری جانب افغانستان، سری لنکا اور مالدیپ جیسے ممالک میں مختلف نوعیت کے مسائل ہیں، جہاں بے روزگاری کی نوعیت اور شدت مختلف ہے، اس لیے ان ممالک میں بنگلا دیش جیسے حالات کا پیدا ہونا کم امکان ہے۔ انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حالیہ ایران، اسرائیل جنگ کے بعد ایران اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، تاہم ایران سے توانائی کے منصوبے جیسے پاکستان ایران گیس پائپ لائن اور تاپی پائپ لائن عالمی پابندیوں کی وجہ سے مشکل کا شکار ہیں۔ ایران کیساتھ توانائی کے تعاون کے حوالے سے پاکستان کو واضح مشکلات کا سامنا ہے، مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
محمد مہدی نے کہا کہ ایران کا بھارت کیساتھ تعلقات میں بھی سردمہری آئی ہے، خاص طور پر جب بھارت نے ایران کیساتھ تعلقات میں تذبذب کا مظاہرہ کیا تو ایران نے بھارت کے رویے کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا۔ ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ محمد مہدی نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار علاقائی تعاون کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات، بالخصوص مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتے۔ خطے کی بیوروکریسی اور حکومتی سطح پر اصلاحات تب تک ممکن نہیں جب تک جنوبی ایشیاء کے ممالک ایک دوسرے کیساتھ امن و تعاون کے راستے پر نہیں چلتے، اگر یہ ممالک ایک دوسرے کیساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات اور محاذ آرائی کی بجائے ایک دوسرے کیساتھ اقتصادی اور سیاسی تعاون کی سمت میں قدم بڑھائیں تو خطے میں ترقی اور استحکام ممکن ہو سکتا ہے۔
محمد مہدی نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک کو اپنے اندرونی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے کی عوام کے درمیان بے چینی اور تناؤ کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک گڈ گورننس، شفاف میرٹ اور بہتر معاشی ماڈلز پر عمل نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس خطے میں پائیدار امن اور ترقی کا خواب دیکھنا محض ایک خام خیالی بن کر رہ جائے گا۔ ڈاکٹر میزان الرحمان سیکرٹری پبلک ایڈمنسٹریشن و جنوبی ایشیائی نیٹ ورک سیکرٹری حکومت بنگلہ دیش نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی اور سیاسی چیلنجوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، اورغربت کے خاتمے جیسے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے کہا کہ مئی 2025 کا بحران صرف ایک فلیش پوائنٹ نہیں تھا، بلکہ یہ اس بات کا مظہر تھا کہ پلوامہ بالاکوٹ 2019 کے بعد سے پاکستان کی کرائسس گورننس کی صلاحیت کتنی بڑھی ہے۔ 2019 میں، ہم ردعمل کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ 2025 میں، ہم تیار تھے۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر امجد مگسی اور بنگلہ دیش کی حکومت کے ریٹائرڈ سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر شریف العالم نے بھی خطاب کیا۔