Express News:
2025-11-03@06:09:36 GMT

استاد الاساتذہ ، عظیم شاعر راغب مراد آبادی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

راغب مراد آبادی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں ایک شاعر ادیب، دانشور اور استاد کے روپ میں پہچانا جاتا ہے۔ ان کی مختلف موضوعات پر 50 سے زائد کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ انھیں بے شمار اعزازات کے علاوہ پرائیڈ آف پر فارمنس سے بھی نوازا گیا۔

راغب مراد آبادی کا اصل نام اصغر حسین ہے، وہ 27 مارچ 1918 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر محمد حسین تھا۔ ان کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے، بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا۔ بچپن میں انھیں کھیلوں کا کافی شوق تھا اور وہ بیڈمنٹن اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔

وہ خاصے خاموش طبع تھے اور ان کا زیادہ وقت مطالعے میں صرف ہوتا تھا۔ وہ بہت ہی قابل طالب علم تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے مراد آباد، شملہ اور دہلی سے حاصل کی اور 1935 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

1942 میں انھوں نے ادیب فاضل اور 1943 میں منشی فاضل کا امتحان دیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کے پاس قائد اعظم کے ساتھ ایک 70 سال پرانی تصویر بھی ہے، وہ اس تصویر کو ہمیشہ حرز جاں بنائے رہے۔ انھوں نے بانی پاکستان کو بہت قریب سے اور بارہا دیکھا۔ بابائے قوم کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سخت مزاج تھے لیکن ساتھ ہی وہ بہت با اخلاق بھی تھے، دراصل وہ اصولوں کے پابند تھے، وہ نوجوانوں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ ‘‘

راغب مراد آبادی نوجوانی میں مسلم لیگ اور پاکستان کی تائید میں نظمیں لکھا کرتے تھے، ان کی سیکڑوں نظمیں قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوئیں۔ 1946 میں ’’عزم و ایثار‘‘ کے نام سے ان کی قومی اور سیاسی نظموں کی کتاب دہلی سے شایع ہوئی۔

تقسیم کے بعد ستمبر 1947 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک ’’سینٹرل گورنمنٹ ایمپلائز ایوی ایشن کمیٹی‘‘ قائم کی اور راغب صاحب کو اس کا سیکریٹری مقررکیا۔ اس کمیٹی نے مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں ایک جامع پروگرام مرتب کیا۔ گریجویشن کے بعد 1939 میں راغب صاحب دہلی میں سینٹرل آرڈیننس ڈپو سے منسلک ہو گئے تھے۔

کچھ عرصے انھوں نے ’’سپلائی ڈیپارٹمنٹ‘‘ میں بھی کام کیا۔ 45ء میں وہ انڈین گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ آف ری سیٹلمنٹ اینڈ ایمپلائمنٹ سے وابستہ ہوئے اور 1947 میں پاکستان آکر اسی ادارے سے منسلک ہو گئے تھے، وہ 67 سے 68 تک سندھ کے فیملی پلاننگ بورڈ کے پبلسٹی آفیسر رہے۔

ساتھ ہی انھوں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ سندھ میں افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور وہ 1980 میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سندھ نے انھیں وقتاً فوقتاً تین ہاؤسنگ سوسائٹیز کا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق قیام پاکستان سے لوگوں کو جو امیدیں وابستہ تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ راغب مراد آبادی نے 9 سال کی عمر میں پہلی نظم محلے میں ساس بہو کا جھگڑا دیکھ کر مثنوی کے انداز میں کہی:

بہو کا میاں سے ہوا کل جو جھگڑا

تو بی ساس لے آئیں آنگن سے پتھر

قریب آئے فرمایا غیض و غضب میں

کمینی ابھی توڑ دوں گی تیرا سر

بڑی جنگجو ہے بڑی تند خو ہے

چلاتی ہے تو اپنے شوہر پر نشتر

نکل جاری ڈائن ابھی تو یہاں سے

نہیں تیرے ابا کا ، یہ ہے میرا گھر

اس وقت وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے جب 1930 میں انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا۔

درج ذیل اشعار ان کی شاعری کے آغاز کے دور سے متعلق ہیں۔

جو تیرے در پہ جبیں اپنی جھکا لیتے ہیں

اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنا لیتے ہیں

جب کبھی دل کی تڑپ حد سے گزر جاتی ہے

تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں

کون ہے عالم تنہائی میں مونس راغب ؔ

دل ہی کو قصہ غم اپنا سنا لیتے ہیں

اس شعبے میں وہ مولانا ظفر علی خان مرزا یگانہ چنگیزی، سید علی اختر اور مولوی صفی لکھنو کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے ان تمام افراد سے اصلاح لی لیکن زیادہ عرصہ وہ مولانا ظفر علی خان کی شاگردی میں رہے۔ انھوں نے روزنامہ قومی اخبار کو مارچ 2006 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ آج شاعری کی اصلاح کا سلسلہ تقریباً ختم ہی ہوگیا اور آج ہر شخص خود کو غالبؔ اور میرؔ سے بڑا شاعر تصورکرتا ہے۔‘‘

اردو زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’اردو کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہیں کی گئی، اگر اسے سرکاری دفاترکی زبان کی حیثیت دے دی جائے تو یہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔

ہمارے ہاں شاعری اور ادب کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کے یہ شعبے مستحق ہیں، اسی وجہ سے آج نہ لکھنے والے ہیں اور نہ پڑھنے والے۔ یہی اردو کے زوال کی اصل وجہ ہے۔‘‘ راغب مراد آبادی کی شاعر مشرق علامہ اقبال سے خط و کتابت بھی رہی اور ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق وہ مولانا ظفر علی خان کے ساتھ علامہ اقبال سے ملے تھے اور وہ ان کے ساتھ بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آئے۔

راغب مراد آبادی نے سات ہزار سے زائد رباعیات کہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں خیام ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور انھیں جوش کے بعد اردو شاعری کی اس صنف میں سب سے بڑی شخصیت تصور کیا جاتا ہے، راغب مراد آبادی معروف دانشور اور فلسفی علامہ نیاز فتح پوری کے بھی نیاز مند رہے۔ ان کے مطابق نیاز فتح پوری عقلیت پسند تھے اور وہ بغیر دلیل کسی بات کے قائل نہیں ہوتے تھے۔

راغب صاحب ان کے بیش تر خیالات سے متفق تھے۔ راغب مراد آبادی قرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور وہ ترقی پسند نظریات کے بھی قائل تھے لیکن کبھی باقاعدہ ترقی پسند گروہ کا حصہ نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پسند نظریات مستقبل میں فروغ حاصل نہیں کریں گے اور اب جمہوری نظام ہی ریاستوں کا مستقبل ہے۔

ان کے مطابق پاکستان کو جاگیرداروں اور آمروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ شاعری میں وہ جوشؔ، علامہ اقبالؔ، میرؔ، غالبؔ، رئیسؔ امروہوی اور پروفیسر منظور حسین شورؔ کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ راغب مراد آبادی خاصے عرصے علیل رہے۔ اسی دوران کرامت غوری نے ان کے لیے درج ذیل چند اشعار کہہ کر حکومت کی توجہ ان کی بیماری کی جانب مبذول کروائی تھی۔

علیل حضرت راغب ہیں یہ بری ہے خبر

ہے صاحبان ادب کو یہ جیسے تیر و تبر

ہماری کشور شعر و سخن کی آن ہیں وہ

کہ ان کے دم سے سجی ہے بساط فکر و نظر

خبر لے ان کی یہ سرکار کا فریضہ ہے

علاج ان کا ہو بہ اہتمام حسن نظر

کوئی دقیقہ نہ باقی رہے توجہ میں

ثبوت پیش کریں کج کلاہ چارہ گر

دعا یہ مل کے کریں صحت یاب ہوں راغبؔ

کہ فی زمانہ کہاں ان کے جیسا دیداہ ہو

یہ اشعار روزنامہ امن میں 28 مارچ 2009 کو شایع ہوئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اسی علالت میں مزید دو سال زندہ رہ کر 19 جنوری 2011 کو یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گئے۔

ہو رہا ہے خیر سے دار و رسن کا اہتمام

بعد اک مدت کے شاید ان کو ہم یاد آئے ہیں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے تھے انھوں نے کے مطابق لیتے ہیں تھے اور علی خان شایع ہو اور وہ اور ان میں وہ کے بعد

پڑھیں:

تجدید وتجدّْد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

 

3

مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔

متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔

مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔

تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)

آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔

الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔

غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔

(جاری)

مفتی منیب الرحمن

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے،شرجیل میمن
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں: مراد علی شاہ
  • سابق وزیراعلیٰ سندھ آفتاب شعبان میرانی کا انتقال: زرداری،  شہباز‘مراد شاہ کا افسوس
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • ایشوریہ رائے 52 سال کی ہوگئیں؛ جواں نظر آنے کا راز بھی بتادیا
  • میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
  • ڈپٹی میئرکراچی سلمان مراد کے ایم سی بلڈنگ میں کونسل اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • نیو ماڈل سڑک شاعر اعجاز رحمانی سے منسوب کی جارہی ہے‘ محمد یوسف
  • تجدید وتجدّْد
  • وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے دوسرے ورلڈ کلچرل فیسٹیول کا افتتاح کردیا