استاد الاساتذہ ، عظیم شاعر راغب مراد آبادی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
راغب مراد آبادی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں ایک شاعر ادیب، دانشور اور استاد کے روپ میں پہچانا جاتا ہے۔ ان کی مختلف موضوعات پر 50 سے زائد کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ انھیں بے شمار اعزازات کے علاوہ پرائیڈ آف پر فارمنس سے بھی نوازا گیا۔
راغب مراد آبادی کا اصل نام اصغر حسین ہے، وہ 27 مارچ 1918 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر محمد حسین تھا۔ ان کی تین بہنیں اور دو بھائی تھے، بہن بھائیوں میں ان کا نمبر پانچواں تھا۔ بچپن میں انھیں کھیلوں کا کافی شوق تھا اور وہ بیڈمنٹن اور فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔
وہ خاصے خاموش طبع تھے اور ان کا زیادہ وقت مطالعے میں صرف ہوتا تھا۔ وہ بہت ہی قابل طالب علم تھے اور انھوں نے ہمیشہ اپنی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے مراد آباد، شملہ اور دہلی سے حاصل کی اور 1935 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کیا۔
1942 میں انھوں نے ادیب فاضل اور 1943 میں منشی فاضل کا امتحان دیا۔ زمانہ طالب علمی میں وہ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ ان کے پاس قائد اعظم کے ساتھ ایک 70 سال پرانی تصویر بھی ہے، وہ اس تصویر کو ہمیشہ حرز جاں بنائے رہے۔ انھوں نے بانی پاکستان کو بہت قریب سے اور بارہا دیکھا۔ بابائے قوم کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ سخت مزاج تھے لیکن ساتھ ہی وہ بہت با اخلاق بھی تھے، دراصل وہ اصولوں کے پابند تھے، وہ نوجوانوں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ ‘‘
راغب مراد آبادی نوجوانی میں مسلم لیگ اور پاکستان کی تائید میں نظمیں لکھا کرتے تھے، ان کی سیکڑوں نظمیں قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوئیں۔ 1946 میں ’’عزم و ایثار‘‘ کے نام سے ان کی قومی اور سیاسی نظموں کی کتاب دہلی سے شایع ہوئی۔
تقسیم کے بعد ستمبر 1947 میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے ایک ’’سینٹرل گورنمنٹ ایمپلائز ایوی ایشن کمیٹی‘‘ قائم کی اور راغب صاحب کو اس کا سیکریٹری مقررکیا۔ اس کمیٹی نے مہاجرین کی آمد کے سلسلے میں ایک جامع پروگرام مرتب کیا۔ گریجویشن کے بعد 1939 میں راغب صاحب دہلی میں سینٹرل آرڈیننس ڈپو سے منسلک ہو گئے تھے۔
کچھ عرصے انھوں نے ’’سپلائی ڈیپارٹمنٹ‘‘ میں بھی کام کیا۔ 45ء میں وہ انڈین گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ آف ری سیٹلمنٹ اینڈ ایمپلائمنٹ سے وابستہ ہوئے اور 1947 میں پاکستان آکر اسی ادارے سے منسلک ہو گئے تھے، وہ 67 سے 68 تک سندھ کے فیملی پلاننگ بورڈ کے پبلسٹی آفیسر رہے۔
ساتھ ہی انھوں نے لیبر ڈیپارٹمنٹ سندھ میں افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے بھی کام کیا اور وہ 1980 میں ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت سندھ نے انھیں وقتاً فوقتاً تین ہاؤسنگ سوسائٹیز کا ایڈمنسٹریٹر مقررکیا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق قیام پاکستان سے لوگوں کو جو امیدیں وابستہ تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ راغب مراد آبادی نے 9 سال کی عمر میں پہلی نظم محلے میں ساس بہو کا جھگڑا دیکھ کر مثنوی کے انداز میں کہی:
بہو کا میاں سے ہوا کل جو جھگڑا
تو بی ساس لے آئیں آنگن سے پتھر
قریب آئے فرمایا غیض و غضب میں
کمینی ابھی توڑ دوں گی تیرا سر
بڑی جنگجو ہے بڑی تند خو ہے
چلاتی ہے تو اپنے شوہر پر نشتر
نکل جاری ڈائن ابھی تو یہاں سے
نہیں تیرے ابا کا ، یہ ہے میرا گھر
اس وقت وہ چوتھی جماعت کے طالب علم تھے جب 1930 میں انھوں نے شاعری کا باقاعدہ آغاز کیا۔
درج ذیل اشعار ان کی شاعری کے آغاز کے دور سے متعلق ہیں۔
جو تیرے در پہ جبیں اپنی جھکا لیتے ہیں
اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بنا لیتے ہیں
جب کبھی دل کی تڑپ حد سے گزر جاتی ہے
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں
کون ہے عالم تنہائی میں مونس راغب ؔ
دل ہی کو قصہ غم اپنا سنا لیتے ہیں
اس شعبے میں وہ مولانا ظفر علی خان مرزا یگانہ چنگیزی، سید علی اختر اور مولوی صفی لکھنو کو اپنا استاد قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے ان تمام افراد سے اصلاح لی لیکن زیادہ عرصہ وہ مولانا ظفر علی خان کی شاگردی میں رہے۔ انھوں نے روزنامہ قومی اخبار کو مارچ 2006 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ آج شاعری کی اصلاح کا سلسلہ تقریباً ختم ہی ہوگیا اور آج ہر شخص خود کو غالبؔ اور میرؔ سے بڑا شاعر تصورکرتا ہے۔‘‘
اردو زبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’اردو کی سرکاری سطح پر سرپرستی نہیں کی گئی، اگر اسے سرکاری دفاترکی زبان کی حیثیت دے دی جائے تو یہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔
ہمارے ہاں شاعری اور ادب کو وہ اہمیت حاصل نہیں جس کے یہ شعبے مستحق ہیں، اسی وجہ سے آج نہ لکھنے والے ہیں اور نہ پڑھنے والے۔ یہی اردو کے زوال کی اصل وجہ ہے۔‘‘ راغب مراد آبادی کی شاعر مشرق علامہ اقبال سے خط و کتابت بھی رہی اور ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ راغب مراد آبادی کے مطابق وہ مولانا ظفر علی خان کے ساتھ علامہ اقبال سے ملے تھے اور وہ ان کے ساتھ بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آئے۔
راغب مراد آبادی نے سات ہزار سے زائد رباعیات کہیں یہی وجہ ہے کہ انھیں خیام ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور انھیں جوش کے بعد اردو شاعری کی اس صنف میں سب سے بڑی شخصیت تصور کیا جاتا ہے، راغب مراد آبادی معروف دانشور اور فلسفی علامہ نیاز فتح پوری کے بھی نیاز مند رہے۔ ان کے مطابق نیاز فتح پوری عقلیت پسند تھے اور وہ بغیر دلیل کسی بات کے قائل نہیں ہوتے تھے۔
راغب صاحب ان کے بیش تر خیالات سے متفق تھے۔ راغب مراد آبادی قرآن کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے اور وہ ترقی پسند نظریات کے بھی قائل تھے لیکن کبھی باقاعدہ ترقی پسند گروہ کا حصہ نہیں رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی پسند نظریات مستقبل میں فروغ حاصل نہیں کریں گے اور اب جمہوری نظام ہی ریاستوں کا مستقبل ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کو جاگیرداروں اور آمروں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ شاعری میں وہ جوشؔ، علامہ اقبالؔ، میرؔ، غالبؔ، رئیسؔ امروہوی اور پروفیسر منظور حسین شورؔ کو پڑھ کر لطف اندوز ہوتے تھے۔ راغب مراد آبادی خاصے عرصے علیل رہے۔ اسی دوران کرامت غوری نے ان کے لیے درج ذیل چند اشعار کہہ کر حکومت کی توجہ ان کی بیماری کی جانب مبذول کروائی تھی۔
علیل حضرت راغب ہیں یہ بری ہے خبر
ہے صاحبان ادب کو یہ جیسے تیر و تبر
ہماری کشور شعر و سخن کی آن ہیں وہ
کہ ان کے دم سے سجی ہے بساط فکر و نظر
خبر لے ان کی یہ سرکار کا فریضہ ہے
علاج ان کا ہو بہ اہتمام حسن نظر
کوئی دقیقہ نہ باقی رہے توجہ میں
ثبوت پیش کریں کج کلاہ چارہ گر
دعا یہ مل کے کریں صحت یاب ہوں راغبؔ
کہ فی زمانہ کہاں ان کے جیسا دیداہ ہو
یہ اشعار روزنامہ امن میں 28 مارچ 2009 کو شایع ہوئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور وہ اسی علالت میں مزید دو سال زندہ رہ کر 19 جنوری 2011 کو یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گئے۔
ہو رہا ہے خیر سے دار و رسن کا اہتمام
بعد اک مدت کے شاید ان کو ہم یاد آئے ہیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے تھے انھوں نے کے مطابق لیتے ہیں تھے اور علی خان شایع ہو اور وہ اور ان میں وہ کے بعد
پڑھیں:
بس اب بہت ہو چکا
7 اکتوبر 2023کو حماس نے اسرائیل پر میزائلوں کے تابڑ توڑ حملے کیے جن سے اسرائیل کے بارہ افراد ہلاک ہوئے مگر جب اسرائیل نے فلسطینیوں پر میزائل حملے شروع کیے، اس سے درجنوں فلسطینی شہید ہو گئے۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور اب تک پچاس ہزار فلسطینی مرد عورتیں اور بچے شہید ہو چکے ہیں۔
گو کہ تمام مسلم ممالک کے علاوہ کچھ غیر مسلم ملک بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو ختم کرانے کے لیے کوشاں ہیں مگر اسرائیل پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا، وہ فلسطینیوں کے قتل عام میں بدستور مصروف ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ جس کا حکم دنیا کے ہر ملک کو ماننا لازمی ہے۔ اسرائیل ان کی کیا برطانیہ، فرانس اور کینیڈا جیسے حلیف ممالک کی بھی نہیں سن رہا۔ عالمی عدالت انصاف بھی نیتن یاہو کو انسانیت کا قاتل قرار دے کر اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکا ہے مگر نیتن یاہو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کر رہا۔ وہ اسرائیل سے باہر ملکوں کا دورہ کر رہا ہے مگر اسے عالمی عدالت انصاف کے حکم کے باوجود کوئی ملک گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں پر یہ آفت حماس کے اسرائیل پر بغیر سوچے سمجھے میزائل حملے کا نتیجہ ہے۔ جب حماس نے اسرائیل پر میزائل حملہ کیا تھا اس وقت بھی راقم الحروف نے حماس کے اقدام سے اتفاق نہیں کیا تھا اور اپنے کالم میں اس کے بھیانک مضمرات کا ذکر کیا تھا کہ حماس کی اس غلطی سے فلسطینیوں پر کتنا بڑا عذاب آ سکتا ہے اور وہی ہوا۔ اسرائیلی اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسرائیلی قیادت تو حماس کے حملے کا جیسے کہ انتظار ہی کر رہی تھی کہ اسے موقع ملے تو وہ فلسطینیوں پر اپنا قہر ڈھائے اور غزہ کو تباہ کر کے فلسطینیوں کو نقل مکانی پر مجبور کرے اور غزہ پر قبضہ جما سکے، اب اسرائیل بالکل وہی کر رہا ہے جس کا ڈر تھا۔ اسرائیل ایسا کیوں کر رہا ہے کیوں کہ اسے اپنے آقا یعنی امریکا کی مکمل آشیرباد حاصل ہے اس کے علاوہ یورپی ممالک بھی اس کا دم بھر رہے ہیں۔
صرف مغربی ممالک ہی نہیں دیگر ممالک بھی اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو اس کا حق دفاع قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے اسی وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ حماس نے حملے میں پہل کی تھی حالاں کہ اس غلطی کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے جیسے کہ اب بھارت نے پاکستان پر حملے میں پہل کی ہے وہ عالمی قوانین کے مطابق جارحیت کا مرتکب ہوا ہے مگر کوئی بھی ملک اسے جارح قرار دے کر اس کی مذمت نہیں کر رہا البتہ بغیر ثبوت کے پاکستان پر جارحیت کرنے کو ایک نامناسب اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ دراصل دنیا میں دہرا معیار چل رہا ہے سب ہی طاقتور کے ساتھ ہیں پھر یہاں بھارت کو یہ فائدہ پہنچ رہاہے کہ اس نے سرائیل کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا ہے،دونوں ہی غاصب ملک ہیں۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور بھارت نے کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ چنانچہ امریکا اور یورپی ممالک اگر بھارت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے کشمیر خالی کرنے کے لیے کہتے ہیں اور جوکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صحیح اقدام ہوگا تو ادھر اسرائیل کو فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کرنے کے لیے بھی زور ڈالنا ہوگا جوکہ ان کی اپنی پالیسی کے خلاف ہوگا، بس عالمی طاقتوں کی انھی مصلحتوں کی وجہ سے اب تک نہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکا ہے اور نہ مسئلہ فلسطین پر کوئی پیش رفت ہو سکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اقوام متحدہ نے محکوم قوموں کو غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد کرنے کا اختیار دیا ہے اور حماس نے اسی نظریے کے تحت اسرائیل پر حملہ کیا تھا کہ وہ اپنی آزادی کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف علم بغاوت بلند کر رہے ہیں مگر اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا اسی طرح کشمیر میں جو مجاہدین بھارت کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں انھیں دہشت گرد گردانا جاتا ہے جب کہ ایسا کہنا اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حماس کا اسرائیل کے خلاف میزائلوں سے حملہ بھی ان کی اپنی جدوجہد آزادی کا حصہ تھا جسے کسی طرح بھی دہشت گردی سے نہیں جوڑا جانا چاہیے مگر افسوس کہ حماس کو یہ اقدام بہت مہنگا پڑ گیا اور ان کی قوم کے لیے ایک وبال بن گیا جس کا قہر وہ پونے دو سالوں سے مسلسل جھیل رہے ہیں۔
عرب ممالک اس جنگ کو بند کرانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں وہ اسرائیل پر دباؤ تک نہیں ڈال سکتے کیونکہ اسرائیل کے پیچھے امریکا ہے جس سے آنکھیں ملانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ امید تو یہ کی جا رہی تھی عرب ممالک امریکا سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کو ٹرمپ سے شٹ اپ کال دلوا سکیں گے مگر وہ فلسطینیوں کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب ممالک بھی جلد از جلد جنگ بند کرانا چاہتے ہیں مگر افسوس کہ امریکا کے آگے بے بس ہیں اور نیتن یاہو امریکی پشت پناہی سے فائدہ اٹھا کر غزہ کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
ٹرمپ کے بارے میں یہ ایک اہم سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جنگ کے خلاف ہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی جنگ ہو رہی ہے اسے ختم کرانا ان کا مشن ہے مگر اسرائیل تو تقریباً پونے دو سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے اور روز ہی شہادتیں ہو رہی ہیں مگر ٹرمپ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک عرصے سے جنگ بندی کرانے اور نئی فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے عرب ممالک اور امریکی نمایندوں کے درمیان گفت و شنید جاری ہے مگر یہ کب عملی شکل اختیار کرے گا، اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ اس میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی آڑے آ رہی ہے وہ نہ تو جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تو وہ بالکل بھی تیار نہیں ہے۔ وہ فلسطینی ریاست کو کیا تسلیم کرے گا کیونکہ وہ تو گریٹر اسرائیل کا پرچار کرتا نظر آ رہا ہے۔