سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کراچی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 75 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔
رپورٹ کے مطابق مرحوم کی نمازِ جنازہ آج (منگل ) نمازِ عصر کے بعد ڈیفنس فیز 8 کی حمزہ مسجد میں ادا کی جائے گی۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی کا شمار پاکستان کی اعلی عدلیہ کے باوقار اور اصول پسند ججوں میں ہوتا تھا، انہوں نے 1998 میں سندھ ہائیکورٹ کے جج کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور 2009 میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے والے ججز میں شامل تھے، جس پر انہیں عدلیہ میں آئینی مزاحمت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران انہوں نے دوبارہ حلف لیا اور انہیں جسٹس عبدالحامد ڈوگر کی سفارشات پر سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
جسٹس عثمانی سپریم کورٹ کے اس 14 رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
اس فیصلے کی روشنی میں جسٹس ڈوگر کے دور میں ججز کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
ان کی وفات پر عدالتی حلقوں، وکلا برادری، اور مختلف سیاسی و سماجی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمد جلال عثمانی کورٹ کے
پڑھیں:
26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کی سماعت میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر ججز کے سخت سوالات
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت 8 رکنی آئینی بینچ نے کی، جس میں آئینی بینچ اور فل کورٹ پر سخت سوالات کیے گئے۔
اہم کیس کی سماعت کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی جب کہ جبکہ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر مختلف بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل عابد زبیری نے اپنے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے پہلے تعینات ججز پر مشتمل فل کورٹ اس کیس کی سماعت کرے۔ بینچ کی تشکیل کسی فریق کا حق نہیں، تاہم اس معاملے کی نوعیت آئینی ہے، اس لیے اسے فل کورٹ کے سامنے سنا جانا چاہیے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی فریق کو خاص بینچ کی ڈیمانڈ کا حق حاصل ہے؟ اگر ہم آپ کی استدعا مان لیں تو کیا ججز بھی مرضی کے ہوں گے؟۔ اس پر عابد زبیری نے جواب دیا کہ وہ مخصوص ججز کی نہیں بلکہ فل کورٹ کی استدعا کر رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جس ترمیم کے تحت آئینی بینچ قائم ہے، اگر اسی پر اعتراض ہے تو پھر فیصلہ کون کرے گا؟۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آئینی معاملات آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، اس لیے فل کورٹ کی تشکیل کا اختیار آئین میں واضح طور پر درج نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ آپ کی درخواست کیا ہے؟" جس پر وکیل نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے پہلے تعینات ججز پر مشتمل فل کورٹ کیس سنے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ کا کہنا مان لیا جائے تو پھر موجودہ ججز کو باہر کرنا ہوگا، تو کیس سنے گا کون؟۔
جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے تمام دلائل پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ترمیم سے پہلے کے ہیں۔ اب آئین کے تحت بینچز کی تقسیم واضح ہے اور چیف جسٹس بھی آئینی بینچ میں ججز شامل نہیں کرسکتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ چیف جسٹس 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بنے ہیں، اگر یہ ترمیم نہ ہوتی تو یحییٰ آفریدی چیف جسٹس بنتے؟۔ اب اگر ہم خود بینیفیشری ہیں تو کیا ہم کیس سن سکتے ہیں؟۔ اس پر وکیل نے کہا کہ وہ کسی جج کو متعصب نہیں کہہ رہے، بلکہ چاہتے ہیں کہ آئین کے مطابق فل کورٹ تشکیل پائے۔
عدالت میں دورانِ سماعت فل کورٹ، آئینی بینچ کے دائرہ اختیار، چیف جسٹس کے اختیارات اور آرٹیکل 191 اے کی تشریح پر تفصیلی بحث جاری رہی۔
وکیل عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے تمام ججز کی اجتماعی رائے سامنے آئے گی، جس سے آئین کی وضاحت مضبوط ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ 17 ججز پر مشتمل فل کورٹ کیوں چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ میں تو اس وقت 24 ججز موجود ہیں۔
بحث کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے واضح کیا کہ فل کورٹ کا لفظ آئین میں موجود نہیں اور اب چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا اختیار نہیں رہا۔ آئینی معاملات صرف آئینی بینچ ہی سنے گا۔
تفصیلی دلائل کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔