مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوے اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
حکومت ہر ہفتے مہنگائی کی شرح میں کمی کے دعوے کرتی ہے اور دوسری جانب عوام کی معاشی حالت میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کے بجائے مایوسی ہی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ عالمی اور مقامی قرضوں میں مسلسل اضافہ، ترقیاتی منصوبوں کے بڑھتے تخمینے، واجبات ختم ہونے بجائے ری شیڈول ہونا سمیت حکومت کو کئی طرح کے اقتصادی چیلنجز درپیش ہیں۔ اب نئے سال کا بجٹ بھی تیار کیا جارہا ہے، جس میں ہمیشہ کی طرح دستاویزات میں تو عوام کےلیے خوشخبریاں سنائی جائیں گی مگر حقیقت میں نئے ٹیکسز اور سختیوں کے نتیجے میں نچلے طبقے ہی پر مشکلات کے پہاڑ لادے جائیں گے۔
وفاقی حکومت کا ادارہ شماریات ہر ہفتے مہنگائی کی سالانہ اور ہفتہ وار شرح میں کمی کے دعوے کرتا ہے اور دوسری طرف عوام کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار کاغذی دعوے اور زمینی حقائق سے قطعی برعکس ہوتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتی بیانات اور دعوے خوش نما سہی، لیکن درحقیقت عوام کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
مہنگائی کے حکومتی اعداد و شمار بمقابلہ زمینی حقائق
وفاقی ادارہ شماریات ہر ہفتے حساس قیمتوں کے اشاریے (SPI) کے تحت مہنگائی کی رپورٹ جاری کرتا ہے، جس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ ظاہر کیا جاتا ہے۔ ان رپورٹس میں عموماً یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئی ہے، مگر جب عوام بازار کا رخ کرتے ہیں تو حقائق ان دعوؤں کے برعکس نظر آتے ہیں۔
دالیں، آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، گوشت اور دودھ جیسی بنیادی اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ایک عام شہری کی قوت خرید اس حد تک متاثر ہوچکی ہے کہ لوگ اپنا معیار زندگی نیچے لانے پر مجبور ہو کر کھانے پینے کی اشیا کم کرنا شروع کر چکے ہیں۔ عوام کےلیے ایک وقت کا پیٹ بھر کھانا بھی ایک چیلنج کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
کاروباری طبقے اور ملازمت پیشہ افراد کی بے چینی
کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں صارفین کی آمد بہت کم ہوچکی ہے۔ لوگ زیادہ تر اشیا خریدنے سے گریز اور انتہائی ضروری اشیا ہی خریدنے کی کوشش کررہے ہیں، جس میں بھی قیمتوں کی وجہ سے انہیں مشکلات درپیش ہیں۔ حتیٰ کہ ضروری اشیاء کے معاملے میں بھی محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کاروبار میں مندی اور بے یقینی پیدا ہو رہی ہے۔
دوسری جانب ملازمت پیشہ طبقہ شدید مالی دباؤ کا شکار ہے۔ تنخواہوں میں کئی برس سے کوئی اضافہ نہیں ، جب کہ مہنگائی میں سال بہ سال کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، رہائش اور روزمرہ ضروریات کے اخراجات میں اضافے کے باوجود آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا، جس سے متوسط طبقہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔
حکومتی ریلیف کے نام نہاد دعوے
حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں معمولی کمی کر کے عوام کو ریلیف دینے کا دعویٰ تو کیا ہے مگر دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کرکے عالمی مارکیٹ میں کم قیمتوں کا براہ راست فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیا، جس کے نتیجے میں انہیں بجلی سستی ہونے کا خاطر خواہ فائدہ محسوس نہیں ہوا، کیوں کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم نہ ہونے سے ضروریات زندگی کی تمام اشیا مہنگی ہونے کا براہ راست تعلق ہے۔ پٹرول کی زیادہ قیمت نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو بڑھانے کا سبب بنتی ہے بلکہ ہر قسم کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو بھی متاثر کرتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اشیا کی ترسیل کا انحصار بڑی حد تک سڑکوں پر ہے۔
کرایوں اور تعلیم کے شعبے میں بے قابو مہنگائی
بڑے شہروں میں گھروں کے کرایے عوام کی آمدن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ ایک درمیانے درجے کا فلیٹ یا گھر بھی 30 سے 50 ہزار روپے ماہانہ کرایے پر دستیاب ہوتا ہے، جو کہ ایک ملازم کی پورے مہینے کی تنخواہ جتنا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تعلیمی اداروں کی فیسیں بھی آسمان چھو رہی ہیں، جس کے باعث متوسط طبقے کے لیے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
پرائس کنٹرول کے غیر مؤثر حکومتی اقدامات
حکومت کی جانب سے پرائس کنٹرول کمیٹیاں بنائی گئی ہیں مگر ان کا کردار زیادہ تر رسمی نوعیت کا ہے۔ بازاروں میں گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت معمول بن چکی ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے چھاپے اور جرمانے میڈیا کی حد تک محدود ہیں جب کہ عملاً دکان دار من مانی قیمتیں ہی وصول کرتے ہیں۔
عوام کو درپیش مشکلات کی چھوٹی سی جھلک
* متوسط طبقہ دباؤ میں: وہ طبقہ جو نہ تو غریبوں میں شمار ہوتا ہے اور نہ ہی امیروں میں، یہی آج سب سے زیادہ پس رہا ہے۔
* بے روزگاری کا بڑھتا گراف: نوجوانوں کو ڈگریاں ہونے کے باوجود نوکریاں نہیں ملتیں۔
* مہنگے قرضے اور مالی اداروں کا شکنجہ: بینکوں کے قرضوں پر بھاری سود اور اقساط نے چھوٹے کاروباروں کی کمر توڑ دی ہے۔
* سوشل سیکیورٹی کا فقدان: عام شہریوں کے لیے کوئی مؤثر سوشل سکیورٹی سسٹم موجود نہیں، جس سے وہ مشکل وقت میں سہارا لے سکیں۔
* آمدن میں جمود: شہریوں کی آمدن میں برس ہا برس سے اضافہ نہیں ہو رہا لیکن مہنگائی پچھلے برسوں میں بے انتہا بڑھ چکی ہے، جس سے لوگوں کی قوت خرید تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
کیا واقعی مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے؟
حکومتی دعووں کے مطابق اگر مہنگائی واقعی کم ہو رہی ہے تو عوام کیوں مسلسل پریشان ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ادارہ شماریات کی رپورٹس مخصوص پیمانوں اور منتخب اشیا کی بنیاد پر تیار کی جاتی ہیں، جن کا زمینی حقیقت سے تعلق بہت محدود ہوتا ہے۔ عوام کی حقیقی مشکلات کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اخراجاتِ زندگی، آمدن اور روزمرہ کی ضروریات کے پورا ہونے کے تخمینوں کو سمجھا جائے۔
مسائل کے حل کےلیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
1.
تنخواہوں اور اجرتوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ: سرکاری و نجی ملازمین کی آمدن میں حقیقی بہتری لانا ناگزیر ہے۔
2. پرائس کنٹرول کو مؤثر بنانا: صرف جرمانے نہیں، بلکہ ٹھوس اور مؤثر حکمت عملی کے ساتھ ذخیرہ اندوزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔
3. پٹرولیم لیوی میں کمی: حکومت کو اپنے اخراجات کم کر کے عوام پر پڑنے والا بوجھ کم کرنا ہوگا۔
4. حکومتی تعلیمی و صحت کے اداروں کو بہتر بنانا: تاکہ عوام نجی اداروں کی مہنگی خدمات سے بچ سکیں۔
5. سوشل سیکیورٹی نیٹ ورک کا قیام: بے روزگار اور کم آمدن والے افراد کے لیے مالی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
6. کاروبار دوست پالیسیوں کا فروغ: ٹیکس میں آسانیاں، سبسڈیز اور نرم ترین شرائط پر (یا غیر سودی) قرضے۔
7. شفاف ڈیٹا جاری کرنا: اعداد و شمار کی بنیاد عوامی مشاہدوں ، سروے اور حقیقت پر ہونی چاہیے، نہ کہ صرف فارمولوں پر۔
اصل مسئلہ ہے کیا؟
پاکستان میں مہنگائی کا مسئلہ محض معاشی نہیں بلکہ انتظامی، سیاسی اور سماجی بھی ہے۔ جب تک حکومت عوامی اعتماد بحال کرنے کے لیے عملی اقدامات نہیں کرتی، تب تک صرف بیانات اور رپورٹس مسائل کا حل نہیں دے سکتے۔
مہنگائی کا جن قابو میں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز، خواہ وہ حکومت ہو، نجی شعبہ یا عوام، سب کا باہمی اعتماد بحال اور مضبوط بنایا جائے، جس کے نتیجے میں ایک ایسا نظام تشکیل پائے گا، جو سب کے لیے آسانیوں، رعایتوں اور ترقی کا باعث بنے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے نتیجے میں مہنگائی کی عوام کی کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
پہلگام فالس فلیگ حملہ: بھارتی عوام اور میڈیا کے سخت سوالات، مودی حکومت تاحال خاموش
پہلگام، بھارت — حالیہ پہلگام حملے کے بعد بھارتی عوام، میڈیا اور تجزیہ کاروں کی جانب سے مودی حکومت پر شدید سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، مگر بی جے پی حکومت کی جانب سے تاحال کوئی واضح ردعمل سامنے نہیں آیا۔
ذرائع کے مطابق اس حملے کو ‘فالس فلیگ قرار دیتے ہوئے کئی سیاسی مبصرین نے اسے ایک منصوبہ بند کارروائی کہا ہے، جس کا مقصد بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف نفرت انگیزی کو ہوا دینا ہو سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا نے اپنی رپورٹنگ میں متعدد سخت سوالات اٹھائے ہیں:
جدید اسلحے سے لیس دہشتگرد پہلگام جیسے حساس علاقے تک 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کیسے پہنچے؟
بھارتی انٹیلیجنس ایجنسیاں ایسی بڑی ناکامی کا شکار کیسے ہوئیں؟
پہلگام جیسے سیاحتی مقام پر ہزاروں سیاحوں کی موجودگی کے باوجود سکیورٹی کا معقول بندوبست کیوں نہ تھا؟
واقعہ کے کئی روز گزر جانے کے بعد بھی کسی کو ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا گیا؟
بھارتی عوام سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارمز پر بی جے پی حکومت سے شفاف جواب مانگ رہے ہیں۔ کئی صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی خاموشی مزید شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔
ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار نے کہا: “بھارتی عوام اور میڈیا کے سوالات نہ صرف جائز ہیں بلکہ مودی کو ان کا جواب دینا ہو گا۔ اگر یہ واقعی ایک فالس فلیگ تھا تو اس کا مقصد نہایت خطرناک ہے، جس کا تعلق بھارت کے اندرونی سیاسی مقاصد سے ہو سکتا ہے۔”
پہلگام واقعہ نے ایک بار پھر بھارتی حکومت کی پالیسیوں، انٹیلیجنس نظام اور اقلیتوں سے متعلق رویوں پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، جن کا جواب دینا اب مودی حکومت کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔