قدرتی وسائل سے اقتصادی ترقی کا راستہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
یہ ایک نہایت اہم اورحساس مسئلہ ہے جونہ صرف پاکستان کی معیشت بلکہ اس کی ثقافتی وراثت اورقدرتی وسائل کے تحفظ سے بھی جڑاہواہے۔پاکستان کے ہمالیائی گلابی نمک کوانڈیاکی طرف سے عالمی منڈی میں’’ انڈین ہمالیئن سالٹ‘‘ کے نام سے فروخت کرناایک قسم کی تجارتی چالاکی،دھوکہ دہی اورغلط نمائندگی ہے،جس کا مقصدپاکستان کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھاکرخودکومنافع پہنچاناہے۔
یادرہے کہ یہ نمک صرف پاکستان کے ضلع جہلم میں واقع”کھیوڑہ”کی کانوں سے حاصل ہوتاہے جودنیاکی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے۔ پاکستان دنیابھرمیں یہ نمک بڑی مقدارمیں برآمد کرتا ہے، مگراکثریہ نمک بغیربرانڈیاغیرمناسب لیبلنگ کے برآمد ہوتا ہے،جس سے دوسرے ممالک (خاص طور پر انڈیا) اسے ری پیکیج کرکے اپنانام لگاکر بیچتے ہیں۔ انڈیا ’’ہمالیئن پنک سالٹ‘‘کے لیبل سے اس نمک کومارکیٹ کررہاہے،جبکہ یہ نمک انڈیا میں کہیں پیدانہیں ہوتا۔اس مسئلے کے تدارک کے لئے حکومت پاکستان کودرج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کواپنے گلابی نمک کی عالمی رجسٹریشن کیلئے:جیوگرافیکل انڈی کیشن،یعنی جی آئی ٹیگ کے حصول کے لئے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جیسے باسمتی چاول پر پاکستان نے جی آئی ٹیگ کے ذریعے یورپ میں حق تسلیم کروایا،ویسے ہی گلابی نمک کے لئے بھی جی آئی ٹی رجسٹریشن کراناضروری ہے۔جی آئی ٹیگ کسی مخصوص علاقے میں پیداہونے والی منفرد اشیاء کی قانونی شناخت ہوتاہے،جودنیابھرمیں اس کی اصلیت اورماخذکوتسلیم کراتا ہے۔
عالمی اداروں میں انڈیاکی غلط لیبلنگ کے خلاف عالمی سطح پرقانونی کاروائی کے لئے ڈبلیوٹی او(ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن) اورڈبلیوآئی پی او (ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن) میں کیس دائر کیا جا سکتا ہے۔یہ بالکل ویساہی کیس ہوسکتاہے جیسے باسمتی چاول پرہواتھا۔
نمک کی برآمدپرپالیسی ریویو کرتے ہوئے برآمدسے قبل نمک کومناسب لیبلنگ،برانڈنگ اور پیکجنگ کے ساتھ بھیجنے کی پالیسی بنانی چاہیے۔جس کے لئے ’’کھیوڑہ اوریجنـ‘‘ اور میڈ ان پاکستان جیسے لیبلز لازمی قراردیئے جائیں۔
حکومت کوچاہیے کہ وہ دنیابھرمیں موجود سفارتخانوں کے ذریعے ایک عوامی وسفارتی مہم چلائے جس میں بتایاجائے کہ یہ نمک صرف پاکستان میں پایاجاتاہے۔بین الاقوامی تجارتی میلے،نمائشیں اور میڈیا میں اس کاپرچارکیاجائے۔
مقامی صنعت کی بہتری کے لئے نمک کی پروسیسنگ،پیکنگ اوربرانڈنگ کے لئے مقامی صنعتکاروں کوسبسڈی اورٹریننگ فراہم کی جائے تاکہ وہ بین الاقوامی معیارپرنمک ایکسپورٹ کرسکیں۔
انڈیانے بھی باسمتی کوصرف اپنی پراڈکٹ ظاہرکرکے یورپی یونین میں رجسٹریشن کرانے کی کوشش کی تھی۔پاکستان نے مثر قانونی دلائل اورتاریخی شواہد کے ساتھ اپنادعویٰ ثابت کیا ۔نتیجتا،یورپی یونین نے باسمتی کوپاکستانی پراڈکٹ تسلیم کرتے ہوئے انڈیا کومتنبہ کیاکہ وہ اپنے کسی بھی چاول کے ساتھ ’’باسمتی‘‘ کا ٹائیٹل استعمال نہیں کرسکتاالبتہ انڈین چاول کہہ سکتا ہے۔ اسی طرح گلابی نمک کے بارے میں پاکستان کامؤقف تواورزیادہ مضبوط ہے۔پاکستان کے پاس گلابی نمک کے حوالے سے تاریخی،جغرافیائی اورقانونی جوازموجودہے ۔ اگرحکومت سنجیدگی سے اس معاملے پر توجہ دے،تونہ صرف عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی شناخت مضبوط ہوگی بلکہ ملک کوقیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔
یادرکھیں!پاکستان معدنی دولت سے مالامال ملک ہے،لیکن انتظامی،سیاسی اورسکیورٹی رکاوٹیں اس دولت کوقومی خوشحالی میں تبدیل کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔اگران چیلنجزپر قابو پالیاجائے توپاکستان اپنی معیشت کوصرف چندبرسوں میں ایک نئی بلندی تک لے جاسکتاہے۔پاکستان کے پاس قیمتی معدنی وسائل کی کمی نہیں،لیکن ان سے بھرپورفائدہ نہ اٹھانا ایک المیہ ہے۔شفاف پالیسی، شراکت دارانہ ترقی اورسکیورٹی کی بحالی کے بغیریہ وسائلسوئے ہوئے دیوہی رہیں گے۔ اگر سیاسی وانتظامی استحکام،شفاف قوانین،مقامی شرکت داری اورعالمی معیار کے مطابق منصوبہ بندی کی جائے تویہ ذخائرملک کی معیشت کونئی بلندیوں تک لے جا سکتے ہیں۔مقامی آبادی کو اعتماد میں لے کر،غیرملکی سرمایہ کاروں کوبہتر ماحول فراہم کرکے،اورسیاسی ارادے کومضبوط بناکر پاکستان معدنیات سے حاصل ہونے والی دولت سے اپنی معیشت کوایک نئی بلندی تک لے جاسکتاہے۔
چنیوٹ میں لوہے اورتانبے کے ذخائرکی دریافت پاکستان کے لئے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتی ہے،جبکہ شمالی علاقوں میں سونے کے ذخائرکی موجودگی اس بات کوثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں معدنیات کی کافی دولت موجودہے۔تاہم،ان ذخائرسے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کومضبوط حکمت عملی اوربین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان معدنیات کے شعبے میں عالمی سطح پراپنی اہمیت بڑھاسکے۔
اٹک میں سونے کی موجودگی کاحالیہ دعوی ایک امیدافزاپیش رفت ہے،لیکن جب تک اس کی مکمل جیولوجیکل تصدیق،کمرشل ویلیویشن اورمائننگ انفرا سٹرکچر کاقیام نہ ہو،یہ دعویٰ محض مفروضہ ہی رہے گاالبتہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سونے جیسی قیمتی دھات کے وسیع امکانات موجود ہیں،خصوصاً بلوچستان، خیبرپختونخو ااورپنجاب میں۔ان ذخائر سے استفادہ کرنے کے لئے حکومت کوشفاف حکمتِ عملی، جدید ٹیکنالوجی ،اورعالمی سطح پرقابلِ اعتماد شراکت داری کی ضرورت ہے۔
پاکستان معدنی وسائل کے میدان میں ایک بڑی قوت بننے کی صلاحیت رکھتاہے۔تاہم،یہ صلاحیت صرف اسی وقت کارگرثابت ہو سکتی ہے جب ہم چیلنجزکاادراک کرتے ہوئے سنجیدہ اصلاحات،مقامی شراکت داری،اورعالمی سرمایہ کاری کے لئے پراعتماد ماحول پیداکریں۔
شفاف سرمایہ کاری فریم ورک بنایاجائے جومقامی حقوق کی ضمانت دے،پربلوچستان اورخیبرپختونخوا میں سیکیورٹی اورگورننس کو بہتر بنایاجائے ۔منرل اکنامک زونزکو فعال اوربااختیاربنانے کے لئے انرجی اوراسٹریٹجک منرلزپرقومی پالیسی تشکیل دی جائے ۔قانون سازی میں ہم آہنگی پیداکی جائے تاکہ وفاق اورصوبے ایک صفحے پر ہوں۔
پاکستان کی معدنیات کے ذخائرکے حوالے سے متعدد اہم دعوے اورتحقیقات کی گئیں ہیں۔میں نے آج بلاکم وکاست پاکستان کے مختلف علاقوں میں معدنیات کی اس رپورٹ میں چنیوٹ کے ذخائر،شمالی علاقوں میں سونے کے ذخائر،اوردیگر متعلقہ پہلوں کوتفصیل سے بیان کیاہے اوراس کے ساتھ ہی بیوریو کریسی اوردیگر اداروں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ تجاویز بھی دی ہیں تاکہ صاحبانِ اقتداراس غریب اورمقروض ملک پررحم کرتے ہوئے اس پراپنی بھرپور توجہ دیں کہ قوم کوان سنہرے خواب دکھانے کی بجائے عملی اقدامات کی اشدضرورت ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے پاکستان کے گلابی نمک کرتے ہوئے کے ساتھ کے لئے یہ نمک نمک کی
پڑھیں:
پہلی ششماہی کے دوران اقتصادی نمو سست ہو گئی، اسٹیٹ بینک
کراچی:اگرچہ معیشت میں بحالی کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں، تاہم مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی (H1-FY25) کے دوران پاکستان کی اقتصادی نمو سست ہو گئی.
کیونکہ صنعتی شعبے میں کمی اور زرعی شعبے کی رفتار میں کمی نے مجموعی کارکردگی کو متاثر کیا، اگرچہ خدمات کے شعبے میں معمولی بہتری دیکھی گئی.
تاہم مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں سست رہی، اس کی وجہ معیشت میں موجود مسلسل اسٹرکچرل کمزوریاں ہیں، جیسا کہ اسٹیٹ بینک پاکستان (SBP) کے تازہ جائزے میں بتایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: کچھ عرصے بعد افراط زر 5 تا 7 فیصد رہنے کی توقع ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
اسٹیٹ بینک کی "دی اسٹیٹ آف پاکستان اکانومی" رپورٹ میں بین الاقوامی ایجنسیوں کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بڑھائے جانے کو ملک کے معاشی ماحول میں بہتری کا اعتراف قرار دیا گیا ہے.
رپورٹ کے مطابق "مالی سال 2024-25 کی پہلی ششماہی میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو میں کمی آئی، جس میں صنعت کے شعبے میں سکڑاؤ اور زراعت میں کمزور ترقی کا کردار نمایاں رہا۔
رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ عمومی مہنگائی میں تیزی سے کمی آئی، جاری کھاتے کا توازن سرپلس میں تبدیل ہوگیا اور مالیاتی خسارہ مالی سال 05ء کے بعد سے پست ترین سطح تک آگیا۔
رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) پروگرام کی منظوری کے ساتھ ساتھ زرعی پالیسی کے متوازن موقف، مالیاتی یکجائی اور عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں کمی نے بنیادی طور پر ان سازگار نتائج کو تقویت دی۔
مزید پڑھیں: مہنگائی کا دباؤ کم؛ 2024ء میں ملکی مجموعی معاشی حالات میں بہتری آئی، اسٹیٹ بینک
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مہنگائی کے دباؤ میں نمایاں کمی آئی ہے کیونکہ مارچ 2025ء تک عمومی مہنگائی کئی دہائیوں کی کم ترین سطح 0.7 فیصد تک پہنچ گئی۔ مہنگائی میں اس نمایاں کمی کی وجہ کئی عوامل تھے جن میں سخت زری پالیسی موقف اور مالیاتی یکجائی، جس نے ملکی طلب کو قابو میں رکھا، رسد کی بہتر صورتِ حال، توانائی کی قیمتوں میں کمی اور اجناس کی پست عالمی قیمتیں شامل ہیں.
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2024-25 کے لیے جی ڈی پی کی شرح نمو 2.5% سے 3.5%، مہنگائی کی شرح 5.5% سے 7.5% اور مالی خسارہ 5.5% سے 6.5% کے درمیان رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ تاہم، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ عالمی تحفظ پسندی میں اضافہ، جغرافیائی سیاسی کشیدگی، اور مہنگائی کی واپسی جیسے عوامل پاکستان کی معاشی صورتحال پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔