Express News:
2025-06-16@11:21:31 GMT

پاکستان بھارت جنگ روکنا ہوگی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

بھارت اور پاکستان پر جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت پہلگام کے واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے بیانیے کا مقدمہ تیار کر رہا ہے۔ لیکن ابھی تک بھارت نے کوئی ٹھوس، شفاف اور واضح ثبوت پیش نہیں کیے۔

کچھ دفاعی ماہرین یا سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے بقول اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ بھارت پاکستان کی سرزمین پر کچھ نہ کچھ سرجیکل اسٹرائک کرے گا۔اگر واقعی ایسا کچھ بھارت کرتا ہے یا ابتدائی طورپر کسی بھی طرز کی جنگی مہم جوئی کرتا ہے تو اس کے ردعمل میں پاکستان کو کچھ کرنا پڑے گا تو پھر اس جنگ کی شدت اور پھیلاؤ کو آسانی سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

اس لیے دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ اور جنگ کے امکانات کو ہر صورت روکنا ہوگا۔پاکستان اور بھارت میں موجود ایسے افراد ، جماعتیں یا وہ طبقہ جو ایک دوسرے کے خلاف جنگی جنون کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ سمجھتے ہیں یا جنگ کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں ، ان کے خلاف مزاحمت کرنا ہماری مشترکہ ذمے داری ہونی چاہیے تا کہ پاکستان اور بھارت اس جنگی تناؤ سے باہر نکل سکیں۔

اگرچہ ماضی میں بھی پاک بھارت تعلقات خراب رہے ہیں لیکن حالیہ شدت پسندی اور جنگی عزائم زیادہ غالب ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ بھارت اور نریندرمودی کی حکومت کی وہ سیاست ہے جو اس وقت بھارت پر غالب ہے۔ بھارت کے بقول وہ ہر صورت دنیا میں یہ ثابت کرے گا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔اسی بنیاد پر بھارت کسی بھی صورت پاکستان سے مذاکرات کا حامی نہیں اور موجودہ ڈیڈلاک بھی اسی کا پیدا کردہ ہے۔

یہ ہی وجہ ہے دونوں ممالک کے درمیان جو بھی تنازعات ہیںاس کا حل سیاسی طور پر تلاش کرنے کی بجائے بھارت ان مسائل کا حل جنگ میں تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے جو دونوں ممالک کے لیے خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے اور ان خطرات کو ہر صورت روکنا ہوگا۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جلد یا فوری نتائج کا حل جنگ میں ہے تو اسے اس غلطی سے باہر نکلنا ہوگا۔جنگ کو شروع کرنا آسان اور ختم کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب ایک بار جنگ شروع ہوتی ہے تو پھر سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسائے ہیںاور ہمسایوں میں اگر تنازعات جنم لیں تو اس کا علاج سیاسی اور سفارتی سطح پر تلاش کرنا ہی ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔جب ایسے حالات میں جہاں ہم اپنی معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر جنگ یا تنازعات میں شدت کو پیدا کرنا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

اچھی بات یہ ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے میں امریکا بھی کافی سرگرم ہوا ہے اور امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیوکی پاک بھارت وزراء خارجہ سے گفتگو، پھر امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے گفتگو، سعودی عرب، کویت،ایران کا دونوں ممالک کو تحمل کا مشورہ اور کشیدگی سے گریز اختیار کرنے کا مشورہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جنگ کو معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بھارت کو تباہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی طرح کے لوگ بھارت میں بھی کثرت سے موجود ہیں۔

اصل میں دونوں ممالک کو امن اور جنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ جو لوگ جنگ مخالف ہیں وہ امن یا بہتر تعلقات کی بات کریں گے۔ان کی خواہش ہوگی کہ موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو ۔ اسی طرح دونوں ممالک موجود مسائل پر بات چیت کا راستہ کھولیںاور بات چیت کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔کیونکہ اگر دونوں ممالک نے حالات کی بہتری کی طرف جانا ہے تو بات چیت کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ پاکستان کو دو سطحوں پر جواب دینا چاہیے۔

اول ہمیں بھارت کے جنگی جنون کا جہاں جواب دینا چاہیے  وہیں اسے سفارتی سطح پراس مقدمہ کو بھی داخلی اور خارجی سطح پر لڑنا چاہیے کہ ہم دنیا کو باور کروا سکیںکہ بھارت کا جنگی جنون پاکستان سمیت خطے کے لیے خطرناک ہوگا۔ دوئم، ہمیں جہاں جنگ سے گریزکرنا ہے وہیں عالمی قوتوں کی مدد سے کشیدگی کو کم کرنا ہے اور بھارت کے جنگی عزائم کو روکنا ہے۔

ہمیں خود کو دنیا کے سامنے اس تاثر کو پیدا کرنا ہے کہ ہم جنگ کے مقابلے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور جنگ کسی بھی صورت میں ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ہمیں بھارت کے دوہرے معیارات کو ہر سطح پر چیلنج بھی کرنا ہے اور اسے بے نقاب بھی۔لیکن اس سارے عمل میں ہمیں بھی جذباتیت کی سیاست سے ہر سطح پر گریز کرناچاہیے۔اگر بھارت پر جنگی جنون ہے تو ہمیں اس عمل میں مکمل طور پر امن کی بات کرنا ہوگی۔ امن کی بات کو کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ امن اور مفاہمت کے ایجنڈے کو ہی بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان سفارتی عمل میں جنگ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے کیونکہ حالات کی کشیدگی خود پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور پاکستان کا تواتر کے ساتھ عالمی دنیا میں یہ پیغام دینا کہ وہ بھارت کی اشتعال انگیزی اور جنگی جنون کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت مسلسل جنگ ہی کی دھمکیاں دے رہا ہے جو حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کی مودی حکومت پر جو جنگ کا بھوت سوار ہے اس کو کیسے کم کیا جاسکے گا۔

بھارت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی حکومت اور میڈیا نے جو جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے کیسے پیچھے ہٹا جائے۔ کیونکہ اگر بھارت کی حکومت جنگ سے پیچھے نہیں ہٹتی تو پھریہ جو ماحول اس نے پیدا کردیا ہے اس میں کسی بھی قسم کی مہم جوئی بھارت کی مجبوری بن سکتی ہے۔

اس لیے دونوں ممالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ جنگ کے ماحول سے باہر نکلیں اور جنگ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے سے گریز کیا جائے۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے حالات میں بہتری اور مفاہمت ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔اس میں اگر عالمی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور جنگ کی کشیدگی کو کم کرتی ہیں تویہ ہی سب کے مفاد میں ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ترجیحات کا حصہ دونوں ممالک کے کے مفاد میں جنگی جنون کے درمیان بھارت کی ہیں اور کرنا ہے کے خلاف کسی بھی کرتا ہے اور جنگ میں بھی جنگ کے ہے اور جنگ کو تو پھر

پڑھیں:

ایران‘ اسرائیل جنگ؛ 6 ممالک کی فضائی حدود بند ہونے سے بھارت کی مشکلات میں اضافہ

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2025ء)مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے مابین شدید کشیدگی کے باعث خطے کے فضائی راستے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسرائیلی حملے اور اس پر ایرانی جوابی کارروائی کے بعد 6 ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کردی ہیں، جس کے اثرات عالمی ہوا بازی پر پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔6 ممالک کی فضائی حدود بند ہونے کے سب سے زیادہ اثرات بھارت پر پڑے ہیں جو پہلے ہی پاکستان کے ساتھ تناؤ کے بعد فضائی حدود کی پابندیاں بھگت رہا ہے۔

فضائی حدود کی بندش کے بحران نے بھارت کو بری طرح جکڑ لیا ہے۔ایوی ایشن ذرائع کے مطابق، بھارتی ایئرلائنز کو اپنے درجنوں بین الاقوامی اور اندرونِ ملک پروازوں کے رخ موڑنے پڑے ہیں، جبکہ متعدد پروازیں مکمل طور پر منسوخ کردی گئی ہیں۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ گزشتہ رات کے اسرائیلی حملے کے فوراً بعد ایران نے تمام قسم کی پروازوں کیلیے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں، جس کے بعد عراق، اردن، شام، لبنان اور خود اسرائیل نے بھی احتیاطی تدابیر کے تحت فضائی سرگرمیاں معطل کردی تھیں۔

اس صورتحال کا فوری اثر بھارت پر یہ پڑا کہ دہلی سے ایران کے راستے جانے والی دو پروازیں ایران میں پھنس گئیں، جنہیں مختصر وقت میں واپس موڑ کر نکالا گیا۔ فضائی راستوں میں اس غیر متوقع تبدیلی کی وجہ سے کئی عالمی پروازوں کا رخ بدلنا پڑا۔ نیویارک، لندن، ٹورنٹو، ویانا، فرینکفرٹ، شارجہ، جدہ اور استنبول جیسے شہروں میں بھارتی پروازیں اتاری گئیں، جس سے مسافروں کو طویل انتظار اور الجھن کا سامنا کرنا پڑا۔

حالات یہاں تک پہنچے کہ امریکا سے بھارت جانے والی پروازوں نے کینیڈا کے ذریعے روس، منگولیا، چین اور بنگلادیش جیسے طویل راستوں کو اختیار کیا، جس کی وجہ سے 15 گھنٹے کی پرواز اب 18 گھنٹے سے زائد وقت لے رہی ہے۔پاکستان کی فضائی سرگرمیاں بھی کچھ حد تک متاثر ہوئیں۔ ایران اور اسرائیل کی کشیدگی کے باعث نجف سے کراچی، باکو سے لاہور، اور کراچی سے جدہ جانے والی کل 7 پروازیں منسوخ کردی گئیں۔ اسی طرح کویت سے کراچی آنے والی غیر ملکی پروازیں 6 گھنٹے سے زائد تاخیر کا شکار ہوئیں، جبکہ دبئی، شارجہ، استنبول، مسقط، فیصل آباد، سیالکوٹ اور ملتان کی جانب آنے اور جانے والی کئی پروازیں بھی ایک سے پانچ گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور ترکیے کے وزرائے خارجہ کا ٹیلیفونک رابطہ، ایران پر اسرائیلی حملے پر غم و غصے کا اظہار
  • سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ریڈلائن، بھارت نے پانی روکا تو جنگ ہوگی، بلاول بھٹو
  • ہمایوں سعید کا فلم لو گرو” کے ٹکٹس سستے کرنے عندیہ، نئی قیمت کیا ہوگی؟
  • ایران‘ اسرائیل جنگ؛ 6 ممالک کی فضائی حدود بند ہونے سے بھارت کی مشکلات میں اضافہ
  • بھارتی حملے میں ہتھیار اسرائیلی تھے، پاکستان کو سنجیدہ حکمت عملی اپنانی ہوگی، اسد قیصر
  • مسلم ممالک متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کریں‘ حافظ ادریس
  • ہمایوں سعید کا فلم “لو گرو” کے ٹکٹس سستے کرنے عندیہ، نئی قیمت کیا ہوگی؟
  • ہمایوں سعید کا فلم لو گرو کے ٹکٹس سستے کرنے عندیہ، نئی قیمت کیا ہوگی؟
  • اسرائیل کے حملوں کو روکنا ضروری ہے،ترک صدر
  • پانی جیسے حساس وسائل کا بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک رججان ہے؛ بلاول بھٹو