Express News:
2025-08-01@08:30:08 GMT

پاکستان بھارت جنگ روکنا ہوگی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

بھارت اور پاکستان پر جنگ کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت پہلگام کے واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے بیانیے کا مقدمہ تیار کر رہا ہے۔ لیکن ابھی تک بھارت نے کوئی ٹھوس، شفاف اور واضح ثبوت پیش نہیں کیے۔

کچھ دفاعی ماہرین یا سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے بقول اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ بھارت پاکستان کی سرزمین پر کچھ نہ کچھ سرجیکل اسٹرائک کرے گا۔اگر واقعی ایسا کچھ بھارت کرتا ہے یا ابتدائی طورپر کسی بھی طرز کی جنگی مہم جوئی کرتا ہے تو اس کے ردعمل میں پاکستان کو کچھ کرنا پڑے گا تو پھر اس جنگ کی شدت اور پھیلاؤ کو آسانی سے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔

اس لیے دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ اور جنگ کے امکانات کو ہر صورت روکنا ہوگا۔پاکستان اور بھارت میں موجود ایسے افراد ، جماعتیں یا وہ طبقہ جو ایک دوسرے کے خلاف جنگی جنون کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ سمجھتے ہیں یا جنگ کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں ، ان کے خلاف مزاحمت کرنا ہماری مشترکہ ذمے داری ہونی چاہیے تا کہ پاکستان اور بھارت اس جنگی تناؤ سے باہر نکل سکیں۔

اگرچہ ماضی میں بھی پاک بھارت تعلقات خراب رہے ہیں لیکن حالیہ شدت پسندی اور جنگی عزائم زیادہ غالب ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ بھارت اور نریندرمودی کی حکومت کی وہ سیاست ہے جو اس وقت بھارت پر غالب ہے۔ بھارت کے بقول وہ ہر صورت دنیا میں یہ ثابت کرے گا کہ پاکستان بطور ریاست بھارت کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔اسی بنیاد پر بھارت کسی بھی صورت پاکستان سے مذاکرات کا حامی نہیں اور موجودہ ڈیڈلاک بھی اسی کا پیدا کردہ ہے۔

یہ ہی وجہ ہے دونوں ممالک کے درمیان جو بھی تنازعات ہیںاس کا حل سیاسی طور پر تلاش کرنے کی بجائے بھارت ان مسائل کا حل جنگ میں تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے جو دونوں ممالک کے لیے خطرناک رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے اور ان خطرات کو ہر صورت روکنا ہوگا۔ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جلد یا فوری نتائج کا حل جنگ میں ہے تو اسے اس غلطی سے باہر نکلنا ہوگا۔جنگ کو شروع کرنا آسان اور ختم کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب ایک بار جنگ شروع ہوتی ہے تو پھر سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے جو کسی کے مفاد میں نہیں۔

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ہمسائے ہیںاور ہمسایوں میں اگر تنازعات جنم لیں تو اس کا علاج سیاسی اور سفارتی سطح پر تلاش کرنا ہی ہماری حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔جب ایسے حالات میں جہاں ہم اپنی معیشت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر جنگ یا تنازعات میں شدت کو پیدا کرنا ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔

اچھی بات یہ ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے خاتمے میں امریکا بھی کافی سرگرم ہوا ہے اور امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیوکی پاک بھارت وزراء خارجہ سے گفتگو، پھر امریکی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف سے گفتگو، سعودی عرب، کویت،ایران کا دونوں ممالک کو تحمل کا مشورہ اور کشیدگی سے گریز اختیار کرنے کا مشورہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو جنگ کو معمولی کھیل سمجھتے ہیں اور بھارت کو تباہ دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی طرح کے لوگ بھارت میں بھی کثرت سے موجود ہیں۔

اصل میں دونوں ممالک کو امن اور جنگ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ جو لوگ جنگ مخالف ہیں وہ امن یا بہتر تعلقات کی بات کریں گے۔ان کی خواہش ہوگی کہ موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو ۔ اسی طرح دونوں ممالک موجود مسائل پر بات چیت کا راستہ کھولیںاور بات چیت کے دروازے بند نہ کیے جائیں۔کیونکہ اگر دونوں ممالک نے حالات کی بہتری کی طرف جانا ہے تو بات چیت کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ پاکستان کو دو سطحوں پر جواب دینا چاہیے۔

اول ہمیں بھارت کے جنگی جنون کا جہاں جواب دینا چاہیے  وہیں اسے سفارتی سطح پراس مقدمہ کو بھی داخلی اور خارجی سطح پر لڑنا چاہیے کہ ہم دنیا کو باور کروا سکیںکہ بھارت کا جنگی جنون پاکستان سمیت خطے کے لیے خطرناک ہوگا۔ دوئم، ہمیں جہاں جنگ سے گریزکرنا ہے وہیں عالمی قوتوں کی مدد سے کشیدگی کو کم کرنا ہے اور بھارت کے جنگی عزائم کو روکنا ہے۔

ہمیں خود کو دنیا کے سامنے اس تاثر کو پیدا کرنا ہے کہ ہم جنگ کے مقابلے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور جنگ کسی بھی صورت میں ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ہمیں بھارت کے دوہرے معیارات کو ہر سطح پر چیلنج بھی کرنا ہے اور اسے بے نقاب بھی۔لیکن اس سارے عمل میں ہمیں بھی جذباتیت کی سیاست سے ہر سطح پر گریز کرناچاہیے۔اگر بھارت پر جنگی جنون ہے تو ہمیں اس عمل میں مکمل طور پر امن کی بات کرنا ہوگی۔ امن کی بات کو کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ امن اور مفاہمت کے ایجنڈے کو ہی بالادستی حاصل ہونی چاہیے۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت پاکستان سفارتی عمل میں جنگ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے کیونکہ حالات کی کشیدگی خود پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے اور پاکستان کا تواتر کے ساتھ عالمی دنیا میں یہ پیغام دینا کہ وہ بھارت کی اشتعال انگیزی اور جنگی جنون کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت مسلسل جنگ ہی کی دھمکیاں دے رہا ہے جو حالات کو مزید خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کی مودی حکومت پر جو جنگ کا بھوت سوار ہے اس کو کیسے کم کیا جاسکے گا۔

بھارت کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پہلگام واقعہ کے بعد بھارت کی حکومت اور میڈیا نے جو جنگ کا ماحول پیدا کردیا ہے اس سے کیسے پیچھے ہٹا جائے۔ کیونکہ اگر بھارت کی حکومت جنگ سے پیچھے نہیں ہٹتی تو پھریہ جو ماحول اس نے پیدا کردیا ہے اس میں کسی بھی قسم کی مہم جوئی بھارت کی مجبوری بن سکتی ہے۔

اس لیے دونوں ممالک کی ذمے داری بنتی ہے کہ جنگ کے ماحول سے باہر نکلیں اور جنگ کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنانے سے گریز کیا جائے۔اس وقت پاکستان اور بھارت کے حالات میں بہتری اور مفاہمت ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔اس میں اگر عالمی قوتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور جنگ کی کشیدگی کو کم کرتی ہیں تویہ ہی سب کے مفاد میں ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ترجیحات کا حصہ دونوں ممالک کے کے مفاد میں جنگی جنون کے درمیان بھارت کی ہیں اور کرنا ہے کے خلاف کسی بھی کرتا ہے اور جنگ میں بھی جنگ کے ہے اور جنگ کو تو پھر

پڑھیں:

امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا

امریکا نے تجارتی پالیسی میں اہم فیصلہ کرتے ہوئے پاکستانی مصنوعات پر 19 فیصد ٹیرف نافذ کر دیا ہے، جبکہ بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ اس اقدام کو جنوبی ایشیا میں پاکستان کے لیے ایک سفارتی رعایت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں پاک-امریکا تجارتی ڈیل ہوگئی، اب تک کیا کچھ ہوا؟

وائٹ ہاؤس کے اعلامیہ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے مختلف ممالک پر جوابی محصولات (Retaliatory Tariffs) کے طور پر مختلف شرحیں مقرر کی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے 3 بڑے ممالک میں سے پاکستان کو سب سے کم ٹیرف کا سامنا ہے، جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مؤثریت کو ظاہر کرتا ہے۔

مختلف ممالک پر امریکی ٹیرف کی تفصیل

پاکستان: 19 فیصد

بھارت: 25 فیصد

جنوبی افریقہ: 30 فیصد

سوئٹزرلینڈ: 39 فیصد

ترکیہ، اسرائیل، جاپان، افغانستان و دیگر: 15 فیصد

کینیڈا: 35 فیصد (پہلے 25 فیصد تھا)

شام: سب سے زیادہ 41 فیصد

پاکستان کی طرح جن ممالک پر 19 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے ان میں انڈونیشیا، ملائیشیا، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا شامل ہیں، جبکہ بنگلہ دیش، سری لنکا، ویتنام اور تائیوان پر 20 فیصد ٹیرف لاگو کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے پاک امریکا تجارتی معاہدہ پاکستانی معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟

پاکستان کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو دی گئی رعایت پاکستان کی مؤثر سفارتی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اس سلسلے میں چیف آف آرمی اسٹاف  ،  فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات، وزیر اعظم شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان روابط، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی امریکی حکام سے ملاقاتوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔

ماہرین کی رائے

معاشی ماہرین نے اس رعایت کو پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو اپنی برآمدات بڑھانے، مصنوعات کے معیار میں بہتری اور عالمی منڈی میں مؤثر شراکت داری کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی ٹیرف بزنس پاکستان

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا گنڈاپور کے بیان کو فیٹف میں استعمال کرنا پی ٹی آئی کیلئے شرمناک ہے: عظمیٰ بخاری
  • امریکا نے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد کر دیا، بھارت کو سختی کا سامنا
  • بھارت کو اب چین، امریکہ، پاکستان کے سیاسی چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، کانگریس
  • وفاقی کابینہ نے افغانستان کیساتھ تجارتی ٹیرف میں رعایتوں کی منظوری دیدی: ذرائع
  •  پاک امریکہ سفارتی و اسٹریٹجک تعلقات نئی بلندیوں پر گامزن ہیں :ابراہیم حسن مراد
  • صیہونی، اسلامی ممالک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، محمد باقر قالیباف
  • تائیوان کی علیحدگی پر مبنی نصابی کتابوں کو آبنائے کے دونوں اطراف کے چینیوں کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، چینی ریاستی کونسل کے تائیوان امور کا دفتر
  • اولمپکس کرکٹ: پاکستان اور نیوزی لینڈ کی شرکت خطرے میں پڑگئی
  •  دہشت گردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کی بجائے زائرین کا راستہ روکنا جگ ہنسائی ہے، علامہ قاضی نادر حسین علوی 
  • اسرائیل کا مقصد عرب ممالک سے دوستی نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا ہے، سعودی اخبار