افغان حکام کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کا کابل اور پورے خطے پر ’براہ راست منفی اثر‘ پڑے گا۔
22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے تحقیقات یا ثبوت کے بغیر حملہ آوروں کے ’سرحد پار روابط‘ کا عندیہ دیا۔
تاہم پاکستان نے اس دعوے کو سختی سے مسترد کیا اور غیرجانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا جس پر اب تک بھارت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
بھارت کے خلاف جارحانہ اقدامات کے ردعمل میں پاکستان نے جوابی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں سرحدی تجارت کو معطل کرنا، بھارتی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود اور بندرگاہوں کی بندش کے علاوہ بھارتی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنا شامل ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز (سی ایس ایس) کے ڈپٹی ڈائریکٹر حکمت اللہ زالند نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ’چونکہ پاکستان اور بھارت ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں، اس لیے اگر یہ کشیدگی پھیلتی ہے تو اس کے خطے کے دیگر ممالک سمیت افغانستان پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس وقت اپنی متوازن پالیسی کی روشنی میں دونوں ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
افغان حکام نے واہگہ بارڈر کی بندش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے افغان تاجروں کو نقصان ہوگا۔
خیال رہے کہ پہلگام واقعے کے اگلے روز 23 اپریل کو بھارت نے اٹاری چیک پوسٹ کی بندش کے اعلان کے ساتھ دیگر اقدامات بھی کیے۔
اگلے ہی روز پاکستان نے بھی بھارت کے ساتھ ہر قسم کی تجارت کے لیے واہگہ بارڈر بند کر دیا، چاہے وہ اپنی ملک کی تجارت ہو یا کسی اور ملک کے قافلے ہوں۔
تاہم، پاکستان کی جانب سے بھارت کے لیے سامان لے جانے والے 150 پھنسے ہوئے افغان ٹرکوں کو واہگہ بارڈر عبور کرنے کی اجازت دینے کے باوجود بھارت نے انہیں اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی، جس کے باعث افغان ٹرک ڈرائیور مشکلات کا شکار ہو گئے۔
پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مرکزی رہنما کے مطابق، پاکستان نے بھی بھارت سے درآمد شدہ اشیا لے جانے والی گاڑیوں کو افغانستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
افغان تاجروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ٹرانزٹ معاہدے کے تحت بھارت سے تقریباً 2 ہزار کنٹینرز پر مشتمل سامان کراچی کی بندرگاہوں پر پہنچ چکا ہے لیکن یہ گاڑیاں پاکستان میں ہی پھنسی ہوئی ہیں، جن میں سے کچھ تورخم اور چمن میں افغانستان داخل ہونے کے انتظار میں کھڑی ہیں۔
افغان وزارت خارجہ کے پہلے سیاسی ڈائریکٹر مفتی نور احمد نور نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام حملے نے پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی بندش کے باعث افغانستان کا تجارتی سامان عملی طور پر پھنس کر رہ گیا، جس سے افغان تجارت کے شعبے کو شدید نقصان پہنچا۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو ممکنہ واقعات کے لیے پیشگی تیاری کرنی چاہیے، جب کہ افغانستان کے پاکستان اور بھارت، دونوں کے ساتھ ’مثبت روابط‘ ہیں اور ہم دونوں حریفوں کے درمیان جنگ نہیں چاہتے۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت پاکستان نے بھارت کے کی بندش کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-3

 

پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  •  امریکی ڈرون پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر کے کابل میں داخل ہو رہے ہیں، افغانستان
  • لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • افغانستان سے حملہ کرنیوالوں کیخلاف کارروائی کی ذمے داری کابل پر ہے،عطا تارڑ
  • پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
  • جہادِ افغانستان کے اثرات
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغانستان کے ساتھ مؤثر مکینزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیر مملکت طلال چوہدری
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ