بھارتی جارحیت افسوسناک، دونوں ممالک تحمل کا مظاہرہ کریں: عالمی برادری WhatsAppFacebookTwitter 0 7 May, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) عالمی برادری نے بھارتی جارحیت کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ دونوں ممالک تحمل کا مظاہرہ کریں۔

چینی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دونوں ملک پر سکون رہیں، تحمل کا مظاہرہ کریں، خطے میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش ہے، پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت افسوسناک ہے، ایسے اقدامات سے اجتناب کریں جو خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالیں۔

ادھر اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونی مینول نے پاک بھارت جنگ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان موجودہ صورتحال تشویش ناک ہے، تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے دونوں ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔

یو اے ای کا پاک بھارت کشیدگی پر اظہارِ تشویش، تحمل اور سفارتکاری پر زور
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جو علاقائی یا عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

یو اے ای کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ موجودہ صورتحال حساس نوعیت کی ہے اور اس کا واحد پائیدار حل سفارتکاری اور بات چیت سے ہی ممکن ہے، پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازع کو مزید بڑھانے کے بجائے امن کی راہ اختیار کریں تاکہ خطے میں استحکام قائم رہے۔

شیخ عبداللہ بن زاید نے کہا کہ یو اے ای ہمیشہ سے خطے میں امن و استحکام کا داعی رہا ہے اور موجودہ صورتحال میں بھی ہر ممکن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ٹرمپ نے بھارت کے پاکستان پر حملے کو شرمناک قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کاردعمل سامنے آگیا، انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے یہ شرمناک حرکت ہے ہم نے پاکستان کے خلاف بھارت کے حملے بارے سنا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت کے پاکستان پر حملے کے بعد دنیا بھر میں ایک بار پھر بھارت کو سفارتی سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اور سب سے پہلے امریکی صدر کا مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔

پاکستان کا منہ توڑ جواب، بھارت کی عرب دنیا سے کشیدگی کم کرانے کی اپیل
دوسری جانب پاکستان کے بھارتی جارحیت کے بھرپور جواب کے بعد بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا اور عرب دنیا سے کشیدگی کم کرانے کے لیے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔

سفارتی ذرائع کے مطابق بھارتی حکام نے عرب ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے حکام سے رابطہ کر کے درخواست کی کہ وہ پاکستان پر اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے کشیدگی کو کم کرائیں۔

ذرائع نے بتایا کہ بھارت نے عرب دنیا کے حکمرانوں سے پاک بھارت تنازع میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے تاہم پاکستان نے واضح کیا ہے کہ بھارتی جارحیت کا جواب دینا اس کا حق ہے اور وہ اپنے دفاع میں کسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔

جواب دینے کے وقت اور جگہ کا تعین ہم کریں گے: پاکستان نے عالمی برادری کو آگاہ کر دیا
علاوہ ازیں پاکستان نے بھی بھارتی جارحیت کے بارے میں عالمی برادری کو آگاہ کرنا شروع کر دیا، پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کیا۔

پاکستان نے بھارتی جارحیت سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو لاحق خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپنا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، وقت اور جگہ کا تعین پاکستان کرے گا، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں درج اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرقومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس شروع، اہم فیصلے متوقع قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس شروع، اہم فیصلے متوقع بھارتی حملوں میں 26 پاکستانی شہید اور 46 زخمی ہوئے: ڈی جی آئی ایس پی آر کی تصدیق بھارت کا بڑا نقصان، کئی بڑے ہوائی اڈے بند، فلائٹ آپریشنز معطل پاک بھارت کشیدگی: اسپتالوں میں ہنگامی حالت، ڈاکٹرز کی چھٹیاں منسوخ پاکستان کا منہ توڑ جواب، بھارت گھبرا گیا، عرب دنیا سے مدد مانگ لی بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر سفید جھنڈا لہرا کر اپنی شکست تسلیم کر لی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: تحمل کا مظاہرہ کریں بھارتی جارحیت عالمی برادری دونوں ممالک پاکستان نے پاکستان کے پاکستان پر پاک بھارت بھارت کے عرب دنیا کہ بھارت یو اے ای کے لیے ہے اور

پڑھیں:

دو ہمسائے، دو راستے، امن یا تصادم

جنوبی ایشیاء کے دو اہم ممالک، پاکستان اور بھارت، اپنے قیام سے ہی باہمی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی نہ صرف ان دو ممالک کے عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لےکرموجودہ دور تک، دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی بار بہتری کی امید پیدا ہوئی، لیکن ہربار یہ امیدیں یا تو جنگ کی دھول میں گم ہو گئیں یا سفارتی تنازعات میں تحلیل ہو گئیں۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کی جڑیں 1947ء کی تقسیم ہند میں پیوست ہیں۔ تقسیم کے بعد پہلا بڑا تنازعہ کشمیر کے مسئلے پر سامنے آیا۔ 1948ء، 1965ء، اور 1999ء میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1971ء کی جنگ نے تو پاکستان کے ایک بازو کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نیاملک بنوا دیا۔کشمیر کا مسئلہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، جبکہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اس تنازعے نے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل دشمنی، فوجی دوڑ، اور سفارتی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے۔
سفارتی تعلقات اور سرحدی جھڑپیں پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی صرف میدانِ جنگ یا سرحدی جھڑپوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ سفارتی سطح پر بھی یہ تعلقات اکثر نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔ سفیروں کی ملک بدری، مذاکرات کی معطلی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا معمول بن چکا ہے۔پلوامہ حملے (فروری 2019ء) کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملےکیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو حراست میں لےکر بعد میں خیرسگالی کے طور پر واپس کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف جنگ کے خطرے کو ہوا دے رہا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کے امکانات کو بھی بڑھا رہا تھا۔پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اکثر کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے۔ جذباتی اور جانبدار رپورٹنگ نے عوام میں نفرت کو ہوا دی اور سیاسی مقاصد کے لیےمخالف ملک کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ دونوں ممالک کےٹی وی چینلز اور اخبارات اکثر حب الوطنی کے نام پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جس سے عوامی شعور متاثر ہوتا ہے اور تنازعے کےحل کی راہ مزیددشوار ہو جاتی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان دونوں ممالک کے عوام کو پہنچا ہے۔ اگر ہم دفاعی اخراجات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفاعی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ وسائل اگر تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ کئے جائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔کشیدگی کی وجہ سے باہمی تجارت بھی محدود ہوچکی ہےحالانکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ مشترکہ منصوبے، تجارتی راستے، اور سیاحتی ترقی پورے خطے کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی،جس پر پاکستان نےشدید ردعمل دیا۔ اس اقدام کےبعد سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں معمول بن گئیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس تنازعے کےحل کے لیے کئی بار اپیل کر چکے ہیں لیکن دونوں ممالک کی پالیسیوں میں لچک نہ ہونےکیوجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی۔2025 ء میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اگرچہ کچھ مواقع پر خفیہ سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے حالات میں نرمی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ طویل مدتی حل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سرحدوں پر کبھی سکون ہوتا ہے تو کبھی اچانک فائرنگ یا حملوں کی خبریں آ جاتی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی آواز بلند رہتی ہے جبکہ بھارت اسے اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ کشیدگی اور دشمنی کے اس چکر سےباہرنکل کر امن، ترقی، اورباہمی احترام کی راہ اپنائیں۔ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی ہر کشیدگی کو عالمی خطرہ بناتی ہے۔دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ویزہ پالیسی میں نرمی، ثقافتی تبادلے اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر کے مشترکہ اقتصادی منصوبے دونوں ممالک کو قریب لا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس معاملے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک پر دباؤ ہو کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ایک پیچیدہ اورحساس معاملہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر دونوں ممالک صبر، برداشت اور عقل مندی کا مظاہرہ کریں ۔ دشمنی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، جبکہ امن کی راہ پر چل کر دونوں ممالک نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ جذباتی ردعمل کے بجائےدانشمندی سےکام لیں اور باہمی احترام کو فروغ دیں ۔ اگر دونوں ممالک اپنے عوام کے بہتر مستقبل کو مقدم رکھیں تو دشمنی کے بجائے دوستی کا راستہ اپنایاجاسکتا ہے اور میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں اور امن کے فروغ میں مثبت کردار ادا کریں اور ایسے حالات میں میڈیا کو جنگی جنون کے بجائے امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت کشیدگی پر دنیا کو تشویش
  • پاکستان اور بھارت تحمل، دانش مندی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں: متحدہ عرب امارات
  • عالمی برادری کا پاک بھارت کشیدگی پر شدید ردعمل سامنے آگیا، انڈین جارحیت پر اظہار تشویش
  • بھارتی جارحیت افسوسناک، دونوں ممالک تحمل کا مظاہرہ کریں. عالمی برادری کی اپیل
  • دو ہمسائے، دو راستے، امن یا تصادم
  • بھارتی جارحیت قابل مذمت ہے، عالمی برادری بھارت کو فوراً روکے، علی رضا سید
  • اقوام متحدہ کا بھارتی میزائل حملوں پر اظہارِ تشویش، دونوں ممالک سے تحمل برتنے کی اپیل
  • عالمی برادری اور اقوام متحدہ پاک بھارت کشیدگی ختم کروائے،اکرم گِل
  • بھارت اور بنگلا دیش کے درمیان تجارتی تعلقات کشیدگی،ایک دوسرے پر پابندیاں عائد