آرمی ایکٹ کی اصل شکل میں بحالی، جسٹس مندوخیل و جسٹس نعیم افغان کا اختلافی نوٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان—فائل فوٹوز
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آرمی ایکٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے 2 ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اختلافی نوٹ جاری کر دیا۔
ججز کا مختصر اختلافی نوٹ 2 صفحات پر مشتمل ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کےلیے ہے۔
اختلافی نوٹ کے مطابق آرٹیکل 175 کے تحت عدالتوں کے قیام اور اختیارات واضح ہیں، عدالتی نظام ایگزیکٹیو سے مکمل الگ ہے۔
دونوں ججز نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ آئین اور اسلام میں شفاف ٹرائل اور معلومات تک رسائی کا حق دیا گیا ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے اور آرٹیکل 25 بالکل واضح ہے، 9 مئی کے ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان نے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ 9 مئی کے تمام کیسز عام عدالتوں میں چلائے جائیں۔
اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتار ملزمان کا درجہ انڈر ٹرائل قیدی کا ہو گا۔
سپریم کورٹ نے سویلین کے کورٹ مارشل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا، عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ پانچ دو کے تناسب سے سنایا۔
واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی ایکٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے سویلین کے کورٹ مارشل کیس میں انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلہ سنا دیا، عدالتِ عظمیٰ نے یہ فیصلہ پانچ دو کے تناسب سے سنایا۔
سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی شقیں بھی بحال کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے جبکہ اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں میں جسٹس امین الدین، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے وزارتِ دفاع اور دیگر اپیلیں منظور کر لیں اور 23 اکتوبر کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے کے مطابق آرمی ایکٹ کی شق 2 (1) (ڈی) (ون)، 2 (1) (ڈی) (ٹو) اور 59 (4) بحال کر دی گئی ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے، ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔
فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: مندوخیل اور جسٹس نعیم کی اصل شکل میں بحال سپریم کورٹ نے کہا گیا ہے کہ جسٹس جمال آرمی ایکٹ بحال کر میں کہا کورٹ ا
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی: کیا ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی کی انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ وہ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ جو باتیں آپ بتا رہے ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں، کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے، آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں۔
جسٹس عقیل عباسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا، آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے، آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں اور آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں پہلے یہ بتاٸیں۔
یہ بھی پڑھیں:
سپریم کورٹ کے پی ٹی آئی کے حق میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ نظرثانی اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق، جسٹس باقر نجفی بینچ میں شامل ہیں، سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ ن کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آگئے، ان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی۔
جس پر جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کے مطابق عدالت کے سامنے آراو کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا۔
مزید پڑھیں:
حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکلا کی فوج نے بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ عدالت نے سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا، جسٹس عقیل عباسی بولے؛ آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں لیکن نظر ثانی کے گراؤنڈز نہیں بتا رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی دائر ہے، پی ٹی آئی کے وکیل رہنما سلمان اکرم راجہ بولے؛ توہین عدالت کی درخواست آج لگی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں:
جسٹس ہاشم کاکڑ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے، ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن بولے؛ ہم نے ایک پیرااگراف کی حد تک عمل کیا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے دریافت کیا کہ کیا یہ آپ کی منشا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے، اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو لے کہاں جا رہے ہیں، کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا۔
جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ انہیں دائر کردہ پٹیشن کے قابل سماعت ہونے سے متعلق ایک سوال ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کیخلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھا لیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
الیکشن کمیشن جسٹس جمال مندوخیل جسٹس عائشہ ملک جسٹس عقیل عباسی جسٹس ہاشم کاکڑ حارث عظمت سپریم کورٹ سکندر بشیر مہمند مخصوص نشستوں نظر ثانی