ترقی پذیر ممالک اب دفاعی ہتھیاروں کیلئے چین کا رخ کر سکتےہیں،بلومبرگ
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
بلومبرگ نے بھارت کے خلاف چینی طیاروں کی افادیت کا اعتراف کرلیا۔
بلومبرگ کی رپورٹ کےمطابق ایشیا میں مغربی ہتھیاروں سے متعلق نقطہ نظر تبدیل ہورہا ہے،جے 10 بنانےوالی کمپنی کےشیئرزکی مالیت میں 7.6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا،چین کے پی ایل 15 میزائل بھی مغرب کی نظروں میں آگئے ہیں۔
بلومبرگ کےمطابق ترقی پذیر ممالک اب دفاعی ہتھیاروں کیلئے چین کا رخ کرسکتےہیں،پاکستان کے کامیاب حملوں کے بعد تائیوان کا خوف بڑھ گیا ہے۔
خیال رہےکہ پاکستان اور بھارت کےدرمیان فضائی جھڑپ کے بعد رافیل بنانے والی فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ ایوی ایشن کے شیئرزکی قدر میں مسلسل کمی کا رجحان ہے۔ڈسالٹ ایوی ایشن کے شیئرز کی قدر میں آج مزید 4.
یاد رہے کہ بھارت جارحیت کے جواب میں بھرپور کارروائی کرتے ہوئے پاک فضائیہ نے بھارت کے 5 طیارے اور ڈرونز مار گرائے۔پاک فضائیہ نے جو بھارتی طیارے مار گرائے ان میں فرانسیسی کمپنی کے تیار کردہ جدید طرز کے تین رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔ Post Views: 6
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
روس نے بھارت کو S-400 کی ترسیل موخر کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو (صباح نیوز) روسی اخبار ماسکو ٹائمز کے مطابق روس نے بھارت کو جدید ترین فضائی دفاعی سیکورٹی نظام S-400 کی ترسیل3 سال کےلیے موخر کر دی ہے۔ یہ فیصلہ روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف اور ان کے بھارتی ہم منصب راج ناتھ سنگھ کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آیا۔ یہ میزائل سسٹم 2018ءکے ایک معاہدے کے تحت بھارت کو 5.4 ارب ڈالر میں فراہم کیے جانے تھے، اور ترسیل 2024 تک مکمل ہونی تھی۔ اب نئی تاریخ کے مطابق یہ ترسیل 2027ءمیں مکمل ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق تاخیر کی بڑی وجہ روس کی یوکرین کے ساتھ جاری جنگ ہے، جس سے اس کے دفاعی سازوسامان کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔ اس تاخیر کے ساتھ ہی بھارت اور روس کے درمیان دفاعی تعاون میں بھی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ ہر S-400 یونٹ میں 2 بیٹریاں شامل ہوتی ہیں، جن میں کل 128 میزائل موجود ہوتے ہیں، جو 380 کلومیٹر دور فضائی اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان سسٹمز میں ریڈار اور آل ٹیرین گاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں بھارت نے روس کے بجائے فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک سے فوجی سازوسامان خریدنے کو ترجیح دی ہے۔ مثال کے طور پر 2023ءمیں بھارت نے روسی آبدوزوں کی بجائے جرمنی کی کمپنی سے 6 آبدوزیں خریدنے کا فیصلہ کیا اور فرانسیسی رافیل طیاروں کی خریداری بھی اسی رجحان کا حصہ ہے۔ اس رجحان کی تصدیق اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) نے بھی کی ہے، جس کے مطابق بھارت کی دفاعی درآمدات میں روس کا حصہ 2010 سے 2014 کے درمیان 72 فیصد تھا، جو 2020 سے 2024 کے درمیان گھٹ کر صرف 36 فیصد رہ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی دفاعی پالیسی میں تبدیلی لا رہا ہے اور اب وہ مغربی ممالک، خاص طور پر فرانس، اسرائیل اور امریکا سے زیادہ فوجی تعاون حاصل کر رہا ہے۔