پاکستانی جامعات کی بربادی کے ذمہ دار کون؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
چند ہفتے قبل بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں ایک ٹریننگ کورس میں گفتگو کے لیے گیا، تو معلوم ہوا کہ وہاں ملازمین کو اس ماہ بھی بس ’چوتھائی تنخواہ‘ ہی دی گئی ہے۔ یہ بحران کسی ایک یونیورسٹی کو ہی درپیش نہیں ہے بلکہ تقریباً تمام یونیورسٹیاں اس کا سامنا کر رہی ہیں۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے گرتے ہوئے معیار، وفاقی اور صوبائی سرکاری جامعات میں بدانتظامی کے متعلق سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ 24 اکتوبر 2024ء کو جاری کیا تھا۔ اب چونکہ اس فیصلے کو 6 مہینے سے زائد ہوچکے ہیں، تو دیکھنا چاہیے کہ اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا ہے اور عمل درآمد نہ کرنے کے لیے کون ذمہ دار ہیں؟
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکاتاس فیصلے سے قبل عدالت نے تعلیم کی وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور ایچ ای سی کے علاوہ سرکاری جامعات کے وائس چانسلروں کو بھی تفصیل سے سنا۔ وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی نے متعدد جامعات کے متعلق شکایات کا انبار لگا دیا۔ چار تفصیلی سماعتوں کے بعد عدالت کے سامنے کئی اہم مسائل آئے۔ مثلاً اکثر جامعات مستقل وائس چانسلر کے بغیر چلائی جارہی ہیں؛ جامعات کے فیصلہ ساز اداروں (سینڈیکیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ) کے اجلاس باقاعدگی سے، اور بروقت، منعقد نہیں کیے جاتے؛ جامعات میں اہم عہدوں (جیسے رجسٹرار، ڈین، چیئرپرسن وغیرہ) پر عارضی تعیناتیاں ہوتی ہیں جبکہ قانون ان عہدوں پر مقررہ مدت کے لیے مستقل تعیناتی لازم کرتا ہے؛ جامعات مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا اور انتظامیہ آمریت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے؛ کیمپس اور ہاسٹلوں میں تشدد اور منشیات کی شکایات بھی ہیں۔
عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں بعض جامعات کے متعلق خصوصی احکامات بھی دیے اور آخر میں عمومی احکامات بھی دیے جن کا اطلاق تمام جامعات پر ہوتا ہے۔
3 جامعات اب بھی صرف کاغذ پر ہی پائی جاتی ہیں!وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت 12 جامعات میں صرف 3 (نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن، لاہور، اور نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی، فیصل آباد) کے متعلق بتایا گیا کہ وہ قانون اور قاعدے ضابطے کے مطابق چل رہی ہیں اور ایک جامعہ (علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد) میں معمولی مسائل تھے۔ 3 جامعات (حیدر آباد انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ مینیجمنٹ، حیدر آباد، پیر روشن انسٹی ٹیوٹ آف پروگریسو سائنسز، میران شاہ، اور کلام بی بی انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین، بنوں) کے متعلق بتایا گیا کہ ابھی انھوں نے کام ہی شروع نہیں کیا۔ افسوسناک امر یہ ہےکہ 6 مہینے گزرنے کے بعد آج بھی یہ 3 جامعات صرف کاغذات میں ہیں، لیکن ان کے کرتا دھرتا قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔
باقی 5 جامعات کا حال بھی دیکھ لیں۔
قائدِ اعظم یونیورسٹیقائدِ اعظم یونیورسٹی میں خازن (treasurer) کا عہدہ 2017ء سے تاحال خالی ہے؛ یونیورسٹی کے ارد گرد دیوار کی تعمیر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکی؛ اور طلبہ یونین کے لیے انتخابات ابھی تک منعقد نہیں کیے جاسکے۔ وائس چانسلر نے ان تینوں کاموں کی یقین دہانی عدالت کو کرائی تھی۔
وفاقی اردو یونیورسٹیوفاقی اردو یونیورسٹی میں 2019ء سے کئی اہم عہدے خالی ہیں۔ عدالت نے وزارتِ تعلیم اور ایچ ای سی کی تجویز مان کر وائس چانسلر کو اختیار دیا کہ ان عہدوں کو پھر مشتہر کیا جائے لیکن جنھوں نے پہلے درخواستیں دی ہیں، انھیں بھی مقابلے میں شامل کیا جائے۔ وائس چانسلر کی یقین دہانی کے باوجود آج بھی یہ عہدے خالی ہیں۔
نیشنل سکلز یونیورسٹینیشنل سکلز یونیورسٹی میں رجسٹرار اور خازن نہیں تھے اور وائس چانسلر کے عہدے پر سابق وائس چانسلر کو عارضی چارج دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی بازپرس پر رجسٹرار اور خازن کی تعیناتی کی گئی اور یقین دہانی کرائی گئی کہ چند دنوں میں وائس چانسلر کی تعیناتی ہوجائے گی مگر ایسا اب تک نہیں ہوسکا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی عارضی وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مختار اس کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی (انسٹی ٹیوٹ آف سدرن پنجاب، ملتان) کے ریکٹر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے رہے ہیں!
یہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے، یہاں اساتذہ کو ہائرنگ اور میڈیکل کی سہولیات میسر نہیں مگر عارضی وائس چانسلر مسلسل سلیکشن بورڈ کرکے نئی بھرتیاں کرتے جارہے ہیں۔ مریدکے میں کیمپس 2 سال پہلے کھولا گیا مگر وہاں تاحال کوئی پروگرام شروع نہیں کیا جاسکا اور وہاں کے لیے بھرتی کیےگئے اساتذہ سے اسلام آباد میں کام لیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چونکہ ایچ ای سی کے چیئرمین کی مدت ملازمت جون میں ختم ہو رہی ہے اور وہ اپنے لیے مزید توسیع کے خواہاں ہیں، اس لیے اب وفاقی وزیرِ تعلیم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس یونیورسٹی کا ایک کیمپس کراچی میں بھی کھولنے کی بات ہورہی ہے۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کا محاورہ شاید اسی موقع کے لیے بنایا گیا تھا۔
این ایف سی ملتاناین ایف سی انسٹی ٹیوٹ فار انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے عہدے پر 2018ء سے ایک شخص ناجائز طور پر قابض تھا۔ عدالت نے اسے فوری طور پر ہٹا کر عارضی ذمہ داری کے لیے مناسب بندوبست کرنے اور قانون کے مطابق مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی کے لیے حکم دیا۔ وزارتِ تعلیم نے 12 نومبر 2024ء کو ’ایچ ای سی کی مشاورت سے‘ 90 دن کے لیے اس عہدے کا ’اضافی چارج‘ ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل کو دیا۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ انھی جرنیل صاحب کو جولائی 2024ء میں ایچ ای سی نے ’نیشنل ٹیکنالوجی کونسل‘ کے چیئر پرسن کی حیثیت سے 4 سال کے لیے تعینات کیا تھا اور انھی کے پاس نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ریکٹر کا عہدہ بھی ہے!
اسلامی یونیورسٹیبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا معاملہ تو اس سے بھی برا ہے۔ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے 9 نومبر 2024ء کو اس کے عارضی ریکٹر کا چارج سنبھالا، لیکن ان کے نوٹی فیکیشن میں 90 دن کا ذکر نہیں ہے۔ عدالت نے سابق ریکٹر ڈاکٹر ثمینہ ملک کو معطل کرتے ہوئے ان کی برطرفی اور نئے ریکٹر کی تعیناتی کے لیے بھی حکم دیا تھا، لیکن تا حال سابق ریکٹر کی برطرفی کا نوٹی فیکیشن نہیں کیا گیا، نہ ہی نئے ریکٹر کی تعیناتی کے لیے اشتہار دیا گیا ہے۔ شنید ہے کہ ڈاکٹر مختار مستقل ریکٹر بننا چاہتے ہیں اگرچہ ان کی عمر 65 سال سے زائد ہوچکی ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ عمر کی یہ حد وائس چانسلر کے لیے ہے، نہ کہ ریکٹر کے لیے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ڈاکٹر مختار اس جامعہ میں صدرِ جامعہ کو بھی وائس چانسلر کی حیثیت نہیں دینا چاہتے۔ چنانچہ انھوں نے صدرِ جامعہ کے لیے جو ’معیارات‘ منظور کروائے، ان میں یہ شرط ہی نہیں ہے کہ وہ ’فل پروفیسر‘ ہو۔
ڈاکٹر ثمینہ کو ہٹا کر ان کی جگہ عارضی چارج ڈاکٹر مختار کو دینے کا ایک سبب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ ذکر کیا تھا کہ ریکٹر کی حیثیت سے ڈاکٹر ثمینہ اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی تھیں اور بورڈ آف گورنرز کے اجلاس قانون کے مطابق مقررہ وقت پر نہیں کرتی تھیں۔ ڈاکٹر مختار نے بھی یہی روش جاری رکھی ہے۔ چنانچہ 5 مہینوں سے انھوں نے بورڈ کا کوئی اجلاس نہیں بلایا حالانکہ قانون کے مطابق ہر 3 مہینوں میں کم از کم ایک اجلاس لازمی ہے۔ یہ اس کے باوجود کہ کئی ارکان نے تحریری طور پر ان سے اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔
ڈاکٹر مختار، سپریم کورٹ اور 18 ویں ترمیمڈاکٹر مختار کو جولائی 2024ء میں بطور چیئرمین ایچ ای سی مزید ایک سال کی توسیع دی گئی تھی اور اس توسیع کی قانونی حیثیت پر کئی سوالات ہیں، لیکن شاید وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں، اس لیے چند ہفتے قبل وائس چانسلروں کے اجلاس میں انھوں نے وائس چانسلروں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کی اور جب کئی وائس چانسلروں نے ان کو یاد دلایا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایچ ای سی صوبوں میں مداخلت نہیں کرسکتی، تو انھوں نے اس ترمیم کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے نظرانداز کرکے بس یہ دیکھنا چاہیے کہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا ہے! چند مہینے قبل اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں بھی ڈاکٹر مختار نے جامعات کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے متعلق اس قسم کا رویہ اختیار کیا اور یہاں تک کہا کہ سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ختم ہوگیا ہے!
سیرت چیئر اور وزیرِ اعظم لیپ ٹاپ سکیم کا تنازعہپچھلے سال جب ڈاکٹر مختار کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع دی گئی، تو اس کے بعد کئی دیگر تنازعات بھی اٹھے ہیں جن میں ایک اہم تنازعہ ’سیرت چیئرز‘ کے متعلق ہے۔ وفاقی حکومت اور بالخصوص جناب احسن اقبال کی خصوصی دلچسپی کے باوجود ابھی تک جامعات میں سیرت چیئرز پر تعیناتی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان شعبوں کو فعال کیا گیا، اور ان معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرینِ تعلیم کا کہنا ہے کہ سیرت چیئرز کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر مختار ہی ہیں۔ شنید ہے کہ بعض بزرگ اہلِ علم کی جانب سے اس ضمن میں تحریری شکایات بھی ریکارڈ پر لائی گئی ہیں۔
ایک اور مسئلہ ایچ ای سی کے چیئرمین کا اپنے ہی اداے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیاء القیوم کے ساتھ تنازعہ ہے۔ پچھلے دنوں بعض موقر اخبارات میں اس کے متعلق کئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں سب سے تکلیف دہ مسئلہ وزیرِ اعظم لیپ ٹاپ سکیم کے ٹھیکے میں تاخیر اور منظورِ نظر افراد کو ٹھیکہ دینے کی کوشش کے الزام کا ہے۔ اس معاملے میں انکوائری کی بات بھی چلی اور ’مٹی پاؤ‘ کی کوشش بھی جاری ہے۔
کیا اعلیٰ تعلیم کے نظام کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے شخص کی موجودگی میں، جسے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع سے دلچسپی ہو اور جس کاآئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کے متعلق یہ رویہ ہو، توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ نظام قانون کے مطابق چلایا جاسکے گا اور اس میں بہتری لائی جاسکے گی؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلامی یونیورسٹی قانون کے مطابق وائس چانسلر کی وائس چانسلروں یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف ڈاکٹر مختار ایچ ای سی کے سپریم کورٹ کی تعیناتی جامعات میں اسلام آباد جامعات کے کے اجلاس کی حیثیت ریکٹر کی عدالت نے انھوں نے کے متعلق کے ساتھ نہیں ہے ہی ہیں کے لیے ہیں ہے کے بعد
پڑھیں:
مولانا طارق جمیل کے بیٹے کی ڈاکٹر نبیہا علی پر کڑی تنقید
کراچی:مولانا طارق جمیل کے بیٹے یوسف جمیل نے ڈاکٹر نبیہا علی کا نکاح پڑھانے کے بعد سوشل میڈیا پر والد پر ہونے والی تنقید سے متعلق خاموشی توڑ دی۔
اپنے ویڈیو پیغام میں مولانا یوسف جمیل نے کہا کہ مولانا طارق جمیل نے حال ہی میں ایک ڈاکٹر صاحبہ (ڈاکٹر نبیہا علی) کا نکاح پڑھایا، جس کے بعد اُن پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا طارق جمیل اس خاتون کو جانتے تک نہیں تھے۔ مولانا کے ایک دوست نے نکاح پڑھانے کی درخواست کی تھی، جس پر انہوں نے انکار نہیں کیا، کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ہزاروں نکاح پڑھا چکے ہیں اور جو بھی نکاح پڑھوانے کی درخواست لے کر آتا ہے، وہ اسے رد نہیں کرتے۔
یوسف جمیل نے کہا کہ مولانا کی ذات اور زندگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان کی دینی خدمات طویل عرصے پر محیط ہیں۔ ایک ایسا شخص جو دین کی خدمت کے باعث عوامی ہو، اُسے اخلاقی طور پر بہت سی باتوں کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی غلطی ہو تو تنقید ضرور ہونی چاہیے مگر اس معاملے میں چند گزارشات ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی سمجھتا ہے کہ مولانا پر تنقید ہونی چاہیے، تو ضرور کرے۔
یوسف جمیل نے بتایا کہ والد صاحب نے صحت کے مسائل اور عمر رسیدگی کے باعث اب بہت کم نکاح پڑھانے شروع کر دیے ہیں، تاہم مکمل طور پر یہ سلسلہ ختم نہیں کیا۔ ایک انسان کا برسوں پرانا معمول بدلنا آسان نہیں، اور لوگ بھی خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا نکاح مولانا پڑھائیں۔ اس لیے وہ نہیں دیکھتے کہ کون نکاح پڑھوانے آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی فلٹر لگا سکے کہ کس کا نکاح پڑھانا ہے اور کس کا نہیں، خاص طور پر جب کوئی عوامی شخصیت ہو۔
یوسف جمیل نے تسلیم کیا کہ مولانا طارق جمیل کو خاتون کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے تھا، اور شرعاً اس کی اجازت بھی نہیں ہے لیکن یہ پہلو بھی دیکھنا چاہیے کہ مولانا 72 برس کے بزرگ ہیں، نہ وہ 30 سال کے ہیں اور نہ خواہش کی عمر میں۔ جن خواتین کا نکاح وہ پڑھاتے ہیں وہ ان کی بیٹیوں کی عمر کی ہوتی ہیں، یہ وہ بچیاں ہوتی ہیں جن کیلئے مولانا ایک بزرگ کی مانند ہیں۔
یوسف جمیل نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نبیہا نے حد سے تجاوز کیا، انہوں نے یہ خیال نہیں رکھا کہ ان کا نکاح کون پڑھا رہا ہے، اور ہماری رہائش گاہ کے تقدس کا بھی خیال نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ مولانا طارق جمیل ایک بڑے بزرگ ہیں، اور ان کے گھر آنے والوں پر لازم ہے کہ ادب و احترام کو پیش نظر رکھیں۔ نکاح کے موقع پر ویڈیوز بنائیں گئیں جن میں گانے بھی شامل تھے۔ خوشی منانے پر کوئی پابندی نہیں، لیکن یہ ضرور دیکھنا چاہیے تھا کہ یہ سب کس شخصیت کے گھر میں ہورہا ہے۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ اس واقعے کے بعد مولانا پر منفی ردعمل سامنے آیا ہے، لوگ ویڈیوز اور پیغامات بھیج رہے ہیں، جس کا دباؤ مولانا کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ تنقید ضرور کریں، مگر یہ بھی دیکھیں کہ اس میں اصل ذمہ دار کون ہے، کیونکہ مولانا کو اندازہ نہیں تھا کہ خاتون ایسا رویہ اختیار کریں گی یا اس واقعے کو سوشل میڈیا پر اس طرح پیش کریں گی۔
یوسف جمیل نے آخر میں کہا کہ ایک واقعے کی بنیاد پر کسی کی پوری زندگی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر نبیہا نے نکاح کی تقریب کو سنجیدہ موقع کے بجائے سوشل میڈیا ایکٹیویٹی بنایا۔ مولانا کی شخصیت اور ویڈیو کا غلط استعمال ہوا حالانکہ وہ ایک نہایت نرم دل اور سادہ مزاج انسان ہیں۔ اگر انہیں ذرا بھی اندازہ ہوتا کہ یہ سب کچھ ہوگا، تو وہ ضرور منع کردیتے کہ میرے گھر میں ایسا نہ کیا جائے۔