سعودی عرب کے دورے پر پہنچے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں شام پر عائد ’ظالمانہ پابندیوں‘ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے وہیں انہوں نے ایران کو متنبہ کیا ہے کہ وہ یا تو اپنا جوہری پروگرام ترک کردے ورنہ پھر ’شدید دباؤ‘ کا سامنا کرے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں اپنی تقریر کے دوران، صدر ٹرمپ نے ایران کو ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے جوہری عزائم ترک کردے یا زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ محمد بن سلمان کی درخواست پر شام پر عائد تمام پابندیاں ہٹانے پر رضامند

’میں آج یہاں ایران کے رہنماؤں کے ماضی کی افراتفری کی مذمت کرنے کے لیے نہیں ہوں، بلکہ انہیں ایک نیا راستہ پیش کرنے کے لیے ہوں، جو کہ ایک بہت بہتر اور زیادہ پر امید مستقبل کی جانب ایک بہتر راستہ ہے۔‘

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی مستقل دشمن رکھنے پر یقین نہیں کیا ہے، لیکن بعض اوقات، دشمن آپ کو ترغیب دیتے ہیں، امریکا کے کچھ قریبی دوست ایسی قومیں ہیں جن کے خلاف ہم نے جنگیں لڑی ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران امریکا مذاکرات: فریقین کا جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنے پر اتفاق

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’لیکن اگر ایران زیتون کی اس شاخ کو مسترد کرتا ہے اور اپنے پڑوسیوں پر حملے جاری رکھتا ہے تو ہمارے پاس بڑے پیمانے پر، زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔‘

امریکی صدر نے ایرانی قیادت کو خبردار کیا کہ ان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہو سکتے، ان کے مطابق یہ ایک ایسی پیشکش ہے جو ہمیشہ نہیں رہے گی۔ ’انتخاب کرنے کا ابھی وقت ہے، ہمارے پاس انتظار کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی صدر ایران جوہری پروگرام جوہری ہتھیار دباؤ ڈونلڈ ٹرمپ ریاض زیتون.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ایران جوہری پروگرام جوہری ہتھیار ڈونلڈ ٹرمپ ریاض زیتون کرنے کے لیے نے ایران

پڑھیں:

سلامتی کونسل: ایران پر پابندیوں میں نرمی برقرار رکھنے کی قرارداد نامنظور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو دی گئی پابندیوں میں نرمی کی مدت میں توسیع کی قرارداد منظور نہیں ہو سکی۔

یہ قرارداد چین اور روس نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی جسے 15 رکنی کونسل میں صرف چار ووٹوں کی حمایت ملی۔ نو ممالک نے اس کی مخالفت کی جبکہ دو نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد میں جوہری معاہدے 'مشترکہ جامع عملی منصوبہ عمل اور اس کی توثیقی قرارداد 2231 (2015) کو آئندہ اپریل تک توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ علاوہ ازیں اس میں ایران اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے درمیان مسلسل روابط کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔

پابندیوں کی واپسی

قرارداد کو منظوری نہ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ معاہدے کے تحت ایران پر جو پابندیاں ختم کی گئی تھیں وہ آج شام سے دوبارہ نافذ ہو جائیں گی۔

(جاری ہے)

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب اس معاہدے کے دستخط کنندگان میں شامل فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایک ماہ قبل سلامتی کونسل کو مطلع کیا تھا کہ ایران نے جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے اہم سطح پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور معاہدے کی شرائط کی متعدد خلاف ورزیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ اس اطلاع کے بعد پابندیوں کی بحالی کے طریقہ کار 'سنیپ بیک میکانزم' کو متحرک کر دیا گیا۔

علاقائی بحران کا خدشہ

چین کے نمائندے نے اس قرارداد کو منظوری نہ ملنے پر گہرا افسوس کا اظہار کیا اور علاقائی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی جوہری مسئلے کے حل میں ناکامی سلامتی کے ایک نئے علاقائی بحران کو جنم دے سکتی ہے جو بین الاقوامی برادری کے مشترکہ مفادات کے منافی ہو گا۔

اقوام متحدہ میں برطانیہ کی مستقل سفیر باربرا ووڈورڈ نے وضاحت کی کہ ان کے ملک نے قرارداد کے خلاف اس لیے ووٹ دیا کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے نظام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔

گزشتہ چھ برس میں 'آئی اے ای اے' کی 60 سے زیادہ رپورٹوں میں ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کو ترقی دیے جانے کی تفصیلات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ایران کے اقدامات کا مطلب یہ ہے کہ 'آئی اے ای اے' اس بات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ایران نے جو اقدامات کیے ہیں، ان میں سب سے اہم ایک ایسی بلند سطح پر افزودہ یورینیم کا ذخیرہ جمع کرنا ہے جس کی کوئی قابل اعتبار توجیہہ نہیں ہے اور ایسے ملک کے حوالے سے پہلی مثال ہے جس کا جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام نہیں ہے۔

چین اور روس کی 'آخری کوشش'

امریکہ کی نائب نمائندہ ڈوروتھی شیا نے قرارداد مسترد ہونے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اسے روس اور چین کی آخری کوشش قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ متن دراصل ایران جوہری مسئلے پر ضوابط کی سنگین پامالیوں کے حوالے سے جواب دہی سے بچانے کی ایک کھوکھلی کوشش تھی۔

روس کے نائب مستقل نمائندے دیمتری پولیانسکی نے قرارداد کی مخالفت کرنے والے ممالک کے نمائندوں سےمخاطب ہو کر کہا کہ اب کوئی غلط فہمی باقی نہیں رہی۔ ان ممالک نے کھل کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ انہوں نے سالہا سال سے اس مسئلے کے سفارتی حل پر زور دینے کی جو یقین دہانیاں کرائیں وہ محض وعدے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • ہم ایران کیساتھ "نیا معاہدہ" کرنے کو تیار ہیں، جرمنی کا دعوی
  • سلامتی کونسل: ایران پر پابندیوں میں نرمی برقرار رکھنے کی قرارداد نامنظور
  • ٹرمپ کی جانب سے غزہ جنگ ختم کرنے کے لیے نیتن یاہو پر دباؤ
  • ایران جوہری ہتھیاروں کے پیچھے نہیں، عراقی صدر
  • افغان حکومت پر عالمی دباؤ، پاکستان، چین، روس اور ایران کا مشترکہ اعلان
  • ایران کا جوہری مسئلہ دباو اور پابندیوں سے حل نہیں ہو گا، بیجنگ
  • ٹیلر سوئفٹ کو ہراسانی کا سامنا، سیکیورٹی سخت کردی گئی
  • روس اور چین کی ایران پر پابندیاں موخر کروانے کے لئے چارہ جوئی
  • بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھ چکا ہے، اعزاز چوہدری
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری کشیدگی میں ممکنہ کمی کے آثار