پی ٹی آئی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کیخلاف محاذ کھول دیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
پی ٹی آئی کی رہنما اور اسلام آباد خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان کے خلاف محاذ کھول دیا۔
رپورٹ کے مطابق پارٹی زوم میٹنگ کی کنول شوزب کی ایک ویڈیو منظر عام پر آگئی، کنول شوزب نے کہا کہ پی ٹی آئی ہماری فیملی ہے، بہت افسوس ہوا جب علیمہ خان نے کہا کہ کون گوہر؟ اگر آپ کی تنظیم کے عہدوں کی فکر نہیں ہو گی تو پارٹی کی عزت کون کرے گا؟
کنول شوزب نے کہا کہ کوئی کون ہوتا ہے کسی کو منشی کہنے والا، علیمہ خان سیدھی طرح سیاست میں آنے کا اعلان کر دیں، مجھے جب بھی علیمہ آپاملیں گی میں ان سے لڑوں گی پوچھوں گی۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کنول شوزب نے علیمہ خان پی ٹی آئی
پڑھیں:
میں نے ہار نہیں مانی
محترمہ شین فرخ گنتی کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی مرضی سے شعبہ صحافت کا انتخاب کیا۔ صحافت کے تمام اتار چڑھاؤ برداشت کیے مگر زندگی کی آخر رمق تک صحافت سے منسلک رہیں۔ ش، فرخ ایک صحافی کے علاوہ ایک ترقی پسند ادیبہ بھی تھیں۔ ش فرخ پنجاب میں پیدا ہوئیں۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ شین نے پہلے شعبہ تدریس کو اختیار کیا۔ انھیں ساہیوال کے گرلز کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ شین فرخ کا تعلق اگرچہ ایک قدامت پرست خاندان سے تھا مگر ان کے والد ایک روشن خیال انسان تھے۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس ملازمت کو خیر آباد کہا اور کراچی چلی آئیں۔
کامرس کے شعبہ میں کمرشل جغرافیہ کے مضمون کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی، یوں انھیں کراچی کے اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی، مگر وہ جلد ہی اس کام سے اکتا گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ مشرق کے بانی عنایت اللہ خواتین کا پہلا اخبار ’’ اخبارِ خواتین‘‘ شایع کر رہے تھے۔ اخبارِ خواتین کی پہلی ٹیم میں معروف صحافی فرہاد زیدی، مسرت جبیں اور حسن عابدی بھی شامل تھے۔ فرہاد زیدی اور مسرت جبیں کے کچھ عرصہ بعد عنایت اللہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور پھر ترقی پسند ادیب و دانشور حسن عابدی اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حسن عابدی کی زندگی کا بیشتر حصہ بائیں بازو کے معروف دانشور ادیب سید سبط حسن اور عظیم شاعر فیض احمد فیض کی صحبت میں گزرا تھا، یوں حسن عابدی نے اخبار خواتین کو صرف خواتین کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبار خواتین میں حالاتِ حاضرہ، تاریخ، سماجیات، فلم اور فن کے بارے میں خبریں، آرٹیکلز اور کالمز شایع ہوتے تھے۔
شین فرخ نے بھی اخبار خواتین میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت شمیم اختر، معروف ایکٹیوسٹ انیس ہارون ، زاہدہ حنا، راشدہ حسن اور نوشابہ زبیری بھی اس ٹیم کا حصہ تھیں۔ شین فرخ ترقی کرتے کرتے اس اخبار کے ایڈیٹرکے عہدے پر فائز ہوئیں۔ جب پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کیا گیا تو اخبار خواتین بھی اس صورتحال کا شکار ہوا۔ شین فرخ کو کراچی سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر کی اسامی کی پیش کی گئی۔ شین فرخ ایک ذہین اور محنت خاتون تھیں۔
وہ کام کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتی تھیں، یوں انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ وہ ایسے وقت روزنامہ مشرق کی سٹی ایڈیٹر بنیں جب کراچی شہر شدید بدامنی کا شکار تھا۔ خاص طور پر شام کی شفٹ میں کا م کرنے والے صحافیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا مگر شین نے بہادری سے اسی طرح فرائض انجام دیتی رہیں جس طرح مرد صحافی انجام دیے تھے۔ انھوں نے گلشن اقبال بلاک 4 میں صحافیوں کو ملنے والے پلاٹ پر ایک گھر تعمیر کیا تھا۔ گلشن اقبال سے شاہراہ فیصل آنا اور جانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ شین فرخ مشکل کام کرنے کی عادی تھیں، یوں وہ مشرق میں کام کرتی رہیں۔ شین فرخ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک رہیں۔
وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے مختلف عہدوں پر کئی بار منتخب ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں عظیم صحافی منہاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے میں کام کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا تھا، خاص طور پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں کام کرنے والوں کے لیے حالات زیادہ خطرناک تھے مگر شین فرخ نے کبھی اس پرواہ نہیں کی۔ شین فرخ ایک ترقی پسند سوچ کی مالک تھیں۔ معروف وکیل عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن، معروف دانشور آئی اے رحمن، ڈاکٹر ہارون، کرامت علی، انیس ہارون اور محمد تحسین کی طرح وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان مستقل رابطوں اور دوستی سے دونوں ممالک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہ خطہ ترقی کی کرسکتا ہے۔
اس لیے وہ پاک انڈیا پیپلز فورم کے پلیٹ فارم پر متحرک رہیں۔ فورم کے اکابرین کی کوششوں سے دونوں ممالک کی حکومتوں نے عام آدمی کے لیے ویزے حاصل کرنے کی سہولت بہت آسان کردی۔ شین فرخ ہمیشہ سے خوب صورت افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف تھیں۔ انھوں نے پانچ کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ عظیم ادیب انتظار حسین نے ان کی خود نوشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
دراصل یہ خود نوشت ایک آزاد خیال عورت کی المیہ کہانی کے طور پر زیادہ بہتر پڑھی جا سکتی ہے۔ شین کے دکھ اُس وقت شروع ہوتے ہیں جب اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ خاندانی بندھنوں کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب وہ ان زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
شین فرخ نے اپنی زندگی میں ہی بذریعہ وصیت اپنے گھر کو شین فرخ ٹرسٹ بنایا۔ شین نے اپنی خود نوشت میں آخری جملہ یہ لکھا تھا ’’ میں نے ہار نہیں مانی‘‘ یہی سچائی ہے۔