کراچی کے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر، عملے کی بھی قلت
اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT
کراچی:
کراچی کی 3 کروڑ آبادی والے شہر کے لیے سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہیں جس کے باعث ہزاروں مریض اسپتال کے باہر راہداریوں میں رہنے پر مجبور ہیں جبکہ صاحب استطاعت مریض نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور غریب مریضوں کی اکثریت اسپتالوں میں اپنے آپریشن کے لیے کئی کئی ماہ کا انتظار کرتے ہیں۔
اندرون سندھ اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کی بڑی تعداد اسپتالوں کے باہر فٹ پاتھوں پر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ اپنے قیام کے لیے ہوٹل کرائے پر لے لیں، اس وقت کراچی کے 9 سرکاری اسپتالوں میں مجموعی طور پر بستروں کی تعداد ساڑھے 6ہزار سے زائد ہے اور وینٹیلیٹر کی تعداد 250 سے زیادہ ہے تاہم ان اسپتالوں میں ڈاکٹر اور طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
کراچی کے بڑے سرکاری اسپتال ایسے گنجان آبادی میں قائم ہیں جہاں پر ہر وقت ٹریفک کا شدید دباؤ رہتا ہے، اکثر و بیشتر واقعات میں ایمبولینس کے ڈرائیوروں کو مریضوں کو اسپتال پہنچانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایم اے جناح روڈ پر واقع سول اسپتال، ایس آئی یو ٹی، بزنس سینٹر، ٹراما سینٹر، سروسز اسپتال اور پولیس سرجن آفس بھی اسی روڈ پر واقع ہے، ان سرکاری اسپتالوں کے اطراف میں شاپنگ سینٹرز، تجارتی مراکز اور تجاویزات بھی قائم ہیں جبکہ رفیقی شہید روڈ پر واقع پر این آئی سی ایچ، این آئی سی وی ڈی، جناح اسپتال، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی، ادویات کا ڈپو، مردہ خانہ قائم ہیں جس کی وجہ سے ان اسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو شدید ٹریفک کے دباؤ کا سامنا ہر وقت رہتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں بستروں کی تعداد کے لحاظ سے بجٹ تقسیم کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف سول، جناح، ایس آئی یو ٹی میں مریض کے دباؤ کی وجہ سے داخلے ملنا مشکل ہوتا ہے، کراچی کے ضلعی اسپتالوں میں 60 فیصد بستر پر مریض داخل رہتے ہیں جبکہ 40 فیصد بستر خالی رہتے ہیں تاہم ان اسپتالوں کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ان کے اسپتال میں 100 فیصد مریض داخل ہوتے ہیں۔
کراچی کے ضلعی اسپتالوں میں صحت کی پرائمری طبی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ پیچیدہ امراض اور پروسیجر کیس سول یا جناح اسپتال ریفر کیے جاتے ہیں۔ بیشتر ضلعی اسپتالوں میں ڈاکٹروں سمیت پیرا میڈیکل اور نرسنگ عملے کی بھی شدید کمی ہے۔
ان ضلعی اسپتالوں میں اینستھیزیا، نیفرولوجسٹ، پلمونولوجی سمیت دیگر ماہرین تعینات ہی نہیں کیے گئے، ایسے مریضوں کو بھی سول یا جناح بھیجا جاتا ہے جس کی وجہ سے سول، جناح اسپتال میں مریضوں کا دباؤ غیر معمولی ہوگیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبون روپوٹ کے مطابق ڈاکٹر روتھ فاؤ سول اسپتال کراچی میں بستروں کی مجموعی طور پر 2 ہزار ہے، 60 سے زائد وینٹیلیٹر اور 25 سے زائد آپریشن تھیٹر ہیں، اسپتال میں شعبہ حادثات میں یومیہ 2 ہزار مریض رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ او پی ڈی میں 8 ہزار مریض معائنے کے لیے آتے ہیں۔ اسپتال میں یومیہ 200 مریضوں کو داخلے دیے جاتے ہیں۔
اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر خالد بخاری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سول اسپتال کراچی میں سندھ اور بلوچستان سے آنے والے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس کے وجہ سے مریضوں کو داخلے کے لیے بعض اوقات ایک ماہ کا ٹائم دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپتال میں 6 ہزار سے زائد کینسر کے مریض رجسٹرڈ ہیں جنہیں کیموتھراپی کی ادویات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سول اسپتال کے ماتحت بزنس سینٹر بھی ہے جہاں مجموعی طور پر بستروں کی تعداد 66 ہے، سندھ اور بلوچستان کے لیے یہ کراچی میں یہ واحد بزنس وارڈ موجود ہے جہاں مختلف حادثات میں جھلسے ہوئے مریضوں کو طبی امداد دی جاتی ہے۔
جناح اسپتال میں 2200 بستر جبکہ 40 وینٹیلیٹر موجود ہیں۔ ترجمان جناح اسپتال جہانگیر درانی کے مطابق اسپتال میں 50 فیصد عملے کی قلت کی وجہ سے اسپتال کے بیشتر آئی سی یو غیر فعال ہیں، انہوں نے کہا کہ آئی سی یو کو چلانے کے لیے آئی سی یو ٹیکنیشن کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔
عملے کی قلت کے حوالے سے ترجمان نے بتایا کہ قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے گزشتہ 10 سال سے بھرتیاں نہیں کی جا سکیں۔ اسپتال میں بستروں کے مقابلے میں عملے کی تعداد نصف ہے، جناح اسپتال کے آئی سی یو یونٹوں میں عملے کی شدید کمی کی وجہ سے چیسٹ آئی سی یو کے 15 بستروں میں سے صرف 5 بستروں پر مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے، اسی طرح سرجیکل آئی سی یو میں 21 بستر ہیں جس میں سے 8 بستروں پر مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے۔
شہید بے نظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اور ایمرجنسی ٹراما سینٹر ایک ایسی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں ٹریفک کا شدید دباؤ کا سامنا رہتا ہے، اس کے اطراف میں ایس آئی یو ٹی جبکہ دوسری سول اسپتال کی عمارت قائم ہے، ٹراما سینٹر آنے والے مریضوں اور تیمارداروں کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
ٹراما سینٹر کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر صابر میمن نے بتایا کہ ٹراما سینٹر میں مجموعی طور پر 500 بستر موجود ہیں جس میں سے 60 بستر غیرفعال ہیں جبکہ آئی سی یو میں 20 وینٹ ہیں۔
سندھ گورنمنٹ لیاقت آباد اسپتال جو تین ہٹی سے سراب گوٹھ، ناظم آباد سے سوک سینٹر 40 لاکھ آبادی پر ایک اسپتال ہے جس میں صرف 200 بستر، 4 آپریشن تھیٹر اور 16 وینٹیلیٹر موجودہ ہیں۔ اسپتال میں 75 فیصد بستر کی اوکوپنسی رہتی ہے۔ ضلع وسطی کے اتنی بڑی آبادی والے اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین نہیں جبکہ امراض قلب کے مریضوں کے لیے کوئی بھی ابتدائی طبی سہولت موجود نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لیاقت آباد کی آبادی 40 لاکھ ہے اور اس اسپتال میں سراب گوٹھ سے گرومندر، ناظم آباد، سوک سینٹر سے مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسپتال میں آئی سی یو ٹیکنیشن کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
کیماڑی، سائٹ ایریا، شیر شاہ اور گارڈن سمیت 45 لاکھ سے زائد کی آبادی والے لیاری جنرل اسپتال میں 700 بستر اور 14 وینٹیلیٹر موجود ہیں جبکہ اسپتال کے 70 فیصد بستر پر مریض داخل رہتے ہیں۔ لیاری اسپتال میں یومیہ مختلف او پی ڈی میں 6 ہزار افراد آتے ہیں، آبادی کے لحاظ سے ایک اسپتال میں 700 بستروں کی تعداد بہت کم ہے۔ لیاری جنرل اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر جمیل مٖغل نے بتایا کہ اسپتال میں لسبیلا، حب سے بھی مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔
اورنگی ٹاؤن کی 24 لاکھ غیر معمولی آبادی پر سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال ہے جہاں مجموعی طور پر بستروں کی تعداد صرف 450 جبکہ 15وینٹیلیٹر موجود ہیں۔ اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر رشید خان زادہ نے بتایا کہ اسپتال میں 40 عملے کی کمی کا سامنا ہے، 2012 سے تقرریاں نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے اسپتال انتظامیہ اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ضلع ملیر کی 31 لاکھ آبادی کے لیے سندھ گورنمنٹ سعود آباد اسپتال ہے جہاں صرف 200 بستروں کی سہولت میسر ہے، اس اسپتال میں بھی کسی قسم کے پروسیجر اور پیچیدہ امراض کا علاج نہیں کیا جاتا اور ایسے مریضوں کو سول یا جناح اسپتال ریفر کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس اسپتال میں کنسلٹنٹ اور دیگر عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
ضلع کورنگی 32 لاکھ آبادی پر مشتمل ہے، اس ضلع میں سندھ گورنمنٹ کورنگی اسپتال موجود ہے جہاں بستروں کی تعداد 200 ہے، اس اسپتال میں پرائمری ہیلتھ کیئر والی سہولتیں میسر ہیں جبکہ پیچدہ امراض کے لیے جناح، سول اسپتال ریفر کیا جاتا ہے، اسپتال میں ڈاکٹر سمیت طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
اسی طرح، 30 لاکھ آبادی پر سندھ گورنمنٹ نیو کراچی اسپتال ہے جہاں پر صرف 200 بستروں کی سہولت موجود ہے اور اسپتال میں صرف 5 وینٹیلیٹر ہیں جبکہ اس اسپتال میں سرجانی سے لے کر نارتھ کراچی، نیو کراچی، شادمان ٹاؤن سے بھی مریض رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس اسپتال میں بھی کسی بھی پیچیدہ امراض کی سہولت موجود نہیں ہے، اس میں کنسلٹینٹ سمیت طبی عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عملے کی کمی کا سامنا ہے سرکاری اسپتالوں میں ضلعی اسپتالوں میں آنے والے مریضوں بستروں کی تعداد مریضوں کو داخل سرکاری اسپتال اس اسپتال میں میں بستروں کی کہ اسپتال میں سندھ گورنمنٹ جناح اسپتال کیا جاتا ہے نے بتایا کہ لاکھ آبادی سول اسپتال اسپتال کے موجود ہیں فیصد بستر اسپتال ہے کی وجہ سے آئی سی یو ہیں جبکہ ہوتے ہیں کراچی کے انہوں نے نہیں کی رہتا ہے ہے جہاں کے لیے ہیں جس
پڑھیں:
کراچی: طویل عرصے تک غیر استعمال شدہ گاڑی کا ای چالان جاری
ویب ڈیسک :کراچی میں نافذ کردہ ای چالان سسٹم کی ایک کے بعد ایک خامی سامنے آنے لگی جس سے شہری شدید نفسیاتی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہونے لگے ہیں،تازہ ترین واقعے میں شہری کو کسی اور کی گاڑی کا 10 ہزار روپے کا ای چلان اس کے گھر کے ایڈریس گلشن اقبال پر بھیج دیا گیا۔
شہری فیصل ستار کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سوزوکی کلٹس گاڑی ہے جبکہ اس کو موصول ہونے والا چلان سوزوکی مہران گاڑی کا ہے۔
پی جی ٹرینی ڈاکٹروں کی سنی گئی
شہری کا کہنا ہے کہ مہران گاڑی کبھی اس کے زیر استعمال نہیں رہی اس کی ملکیت کلٹس گاڑی ہے جس کا رنگ سلور ہے جبکہ ای چلان میں دکھائی گئی گاڑی کا رنگ سرخ اور وہ مہران ہے۔
متاثرہ شہری نے مزید انکشاف کیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے گاڑی اس کے زیراستعمال ہی نہیں اس کی گاڑی گھر پر کھڑی ہے اور متواتر کھڑی رہنے کی وجہ سے اس کی بیٹری بھی ڈیڈ ہو چکی ہے۔
شہری فیصل ستار نے بتایا کہ اس نے شک ہونے پر ایکسائز کی ویب سائٹ پر بھیجے گئے ای چلان کی گاڑی کی تصدیق کے لیے اس کا رجسٹریشن نمبر ڈالا۔
طلبہ کی موج مستیاں ختم، تعلیمی اداروں پر ایک بڑی پابندی عائد
بعد ازاں دلچسپ انکشاف ہوا کہ اے ایس ایف 813 نمبر کی گاڑی مہران ماڈل 2003 ہی ہے اور گاڑی مس مون لائٹ انڈسٹریز کے نام رجسٹرڈ ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ان کی گاڑی کا نمبر اے ایس ایف 613 اور ماڈل 2004 ہے۔
ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والی مہران گاڑی کی نمبر پلیٹ درسٹ طریقے سے ریڈ نہیں کی گئی۔
گاڑی نمبر اے ایس ایف 813 کے بجائے اے ایس ایف کے 613 کے مالک کو 10 ہزار روپے کا ای چلان بھیج دیا گیا۔
عمران خان سے وکلاء کی ملاقات نہ کرانے پر عدالت برہم، سیکرٹری داخلہ و دیگر کو نوٹس
شہری نے کہا کہ جب وہ شکایت لےکر ٹریفک پولیس کے سہولت سینٹر پہنے تو ان سے کہا گیا کہ اس کا کیس کمیٹی کو بھیجا جائے گا جس کے بعد فیصلہ ہوگا۔
فیصل کا کہنا تھا کہ وہ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم ہے اور دس ہزار روپے کی بڑی رقم کا ناجائز ای چلان موصول ہونے کے بعد شدید ذہنی دباو کا شکار ہے۔
اس کا کہنا تھا وہ شدید پریشان ہے کہ اس نئی مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے اس کو سرکاری دفاتر کے نجانے کتنے چکر کاٹنے پڑیں۔
بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار پریم چوپڑا طبیعت بگڑنے پر ہسپتال منتقل
سارے ثبوت موجود ہونے کے باوجود اس کو آئندہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔