بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
مشہور شاعر جون ایلیا نے کہا تھا ، ’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک، بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی‘۔
ایسے ہی معاملہ عورت کے ساتھ بھی ہے، یہاں کوئی نہیں جو عورت کو سنے، سمجھے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے۔ کچھ خاموش صدائیں عدالتوں میں نہیں گونجتیں، نہ ہی تھانوں کی فائلوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ وہ چیخیں ہیں جو انسان کے اندر ہی دب جاتی ہیں، یہ دھیرے دھیرے انسان کو ایک پراسرار دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔
کتنا افسوسناک ہے کہ ایک ہنستا کھیلتا شخص چپ سادھ لے، اس شخص کے چہرے کی رونق گھٹتے گھٹتے ختم ہوجائے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی چراغ آہستہ آہستہ بجھ جائے، جیسے بہار پہ خزاں کا غلبہ آجائے، جیسے دن رات میں ڈھل جائے۔
یہ پراسرار اور اندرون جنگ کا شکار انسان اگر عورت ہو تو حالات مزید گمبھبیر ہوجاتے ہیں، کیونکہ بلاشبہ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مسائل جھیلتی ہے، جبکہ تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں میں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عورت کو انسان کے بجائے ایک چیز سمجھتے ہیں، جو مالک کی ملکیت ہے اور خادم و غلام ہے۔ مرد جیسا چاہیے اس سے رویہ رکھے۔
پسماندہ معاشرے کی عورت جو دن بھر گھر سنبھالتی ہے، بچوں کو پالتی ہے، شوہر کے غصے اور سماج کے طعنے سہتی ہے، جب یہ دن بھر کے کام کاج اور ذلالت سہنے کے بعد رات کو چپ چاپ اپنے آنسو تکیے میں جذب کرتی ہیں تو آنسو خشک ہونے پر وہ بستر پہ سوتی نہیں، مر جاتی ہے۔
عورت نئی صبح کو نئے امید کے ساتھ اٹھتی ہے، وہ رات کے غم کو چہرہ دھوتے وقت مٹا دیتی ہے اور اپنے گھر بار کو گیت گاتے ہوئے سجانے لگتی ہے کہ آن ہی آن میں مالک و آقا کا نزلہ ایک مرتبہ پھر اسی پر گرتا ہے، یہ آقا جب معاشرے میں کوئی ڈھنگ کا کارنامہ نہیں کر پاتا تو اپنی بھڑاس نکالنے کیلئے گھر کی معصوم و مظلوم عورت سے دو دو ہاتھ کر کے خود کو تسکین پہنچانے کی کوشش ناکام کوشش کرتا ہے۔
ویسے تو عورت زمین کی طرح جازب ہے، یہ ہر دکھ درد کو سہہ جاتی ہے، مگر ایک مسئلہ ہے، اس کے جسم پر پڑے نیل کے نشان تو شاید کچھ دنوں میں مٹ جائیں گے، لیکن اس کی روح پر لگنے والے دھبے اور زخم کبھی نہیں ختم ہوتے۔
جب جبر اور گھٹن سے عورت ٹوٹ بکھر جاتی اور گھر نما قید سے نکل کر جاتی ہے تو یہی معاشرہ اسے کبھی صلح کے نام پر واپس اسی در پر بھیج دیتا ہے جہاں سے وہ بھاگی تھی، تو کبھی اُسے ہی موردِ الزام ٹھرا دیا جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا۔ ایسے میں نفسیاتی تکلیف، مسلسل خوف اور بےیقینی اُس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
پسماندہ معاشرے میں عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی کی علامت ہے، اور اس جبر کو سہنا عورت کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اگر وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے باغی کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یہ روایتوں میں لپٹی ہوئی خاموشی کی سزا ہے، جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔
اعداد شمار کیا ہیں ؟اس پس منظر میں عالمی اور ملکی سطح پر گھریلو تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کسی نہ کسی وقت جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے۔
پاکستان میں، اقوام متحدہ کی خواتین کے ادارے کے مطابق، ہر 3 خواتین میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں Aurat Foundation کے مطابق، صرف 2019 میں پاکستان میں 5,200 خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 55 فیصد خواتین نے کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے۔
پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، لیکن اس جدید دور میں بھی وہ نہ کسی عدالت تک پہنچتی ہیں، نہ پولیس کے پاس جا سکتی ہیں، اور نہ ہی کسی مدد کی تلاش میں نکل سکتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے علاقوں میں آج بھی عورتوں کا سخت پردے کا رواج ہے۔ ایسے میں وہ ایک محدود دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔
یہاں ویمن کرائسز سنٹر یا دارالامان جیسی سہولیات تو موجود ہیں، مگر ثقافتی جکڑ بندیاں اتنی سخت ہیں کہ کوئی خاتون اکیلے ان دروازوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ جو خواتین سرکاری اداروں تک پہنچ بھی جائے تو اسے غیرت اور انا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں عورت صرف جسمانی تشدد کا ہی شکار نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ذہن اور روح پر بھی زخم لگتے ہیں۔ جب روز روز کے طعنوں، مار پیٹ، اور نظر انداز کیے جانے سے اس کی نفسیاتی حالت بگڑنے لگتی ہے، جب وہ خاموش رہنے لگتی ہے، نیند نہیں آتی، خود سے باتیں کرتی ہے، یا دیر تک چھت کو تکتی رہتی ہے، تو اس کے دکھ کو کبھی ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کو مکاری چالاکی یا جادو ٹونہ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے بہت سے گاوں دیہاتوں میں آج بھی نفسیاتی مسائل کو موضوعِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے، وہاں ایسی عورت کو فوراً یہ کہہ کر چھپایا جاتا ہے کہ “اس پر جن کا سایہ ہے۔” اُسے عاملوں کے پاس لے جایا جاتا ہے، جہاں اس کی اذیت کا علاج دم درود سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس دوران وہ نہ تو مناسب دوا تک پہنچ پاتی ہے، نہ صحیح مشورے تک اور نہ ہی کسی ہمدرد انسان تک۔ وہ عورت جو صرف توجہ، تعاون اور تحفظ مانگ رہی ہوتی ہے، اسے ایک اور امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کی لکیریں گڈمڈ ہو جاتی ہیں، اور اصل سماجی مسئلہ اندھے یقین کی نظر ہو جاتا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم خواتین اپنی قانونی اور شرعی حقوق سے واقف ہیں، خاص کر گاوں دیہاتوں میں۔ جبکہ جو خواتین اپنے حقوق سے واقف ہوں، اُن کیلئے بھی اپنا حق لینا سِہل نہیں۔
نکاح نامہ کیا ہے، اس میں کیا حقوق درج ہیں، شوہر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان سب کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی پوچھے تو کہتی ہیں: “نکاح کے وقت بڑوں نے کہا دستخط کرو، ہم نے کر دیے۔” عورت کے اَن پڑھ ہونے کا فائدہ یہاں مرد کو ملتا ہے، جس سے عورت ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں رہ جاتی ہے۔
معاشرے کی ان گمنام عورتوں کی کہانیاں شاید خبروں میں نہ آئیں، نہ ہی کسی رپورٹ کا حصہ بنیں، نہ مسجد اور ایوان میں موضوعِ بحث ہو، لیکن ان کی خاموشی چیخوں سے زیادہ بھاری ہے۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو دیواروں سے ٹکرا کر واپس عورت کے منہ پر لگتی ہیں، یاد رہے کہ یہ تکلیف جو عورت اکیلے سہہ رہی ہے، یہ کل کو لاوا بن کر پھوٹ بھی سکتا ہے، لاوا جب پھوٹتا ہے تو زد میں آنے والے چیزوں کو راکھ کر دیتی ہے۔
وہ عورتیں جو اپنی ذات کے وجود کو روز مٹا کر گھر بسانے کا فرض نبھاتی ہیں، وہ دراصل معاشرے کی بے حسی کا بوجھ اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ یہ وزن جو آج اکیلی عورت کے سر پر ہے، کل کو یہ پورے معاشرے کے سر پر ہوگا، کیونکہ نسل عورت ہی سے چلنی ہے، عورت کو پسماندہ، مظلوم اور گھٹن میں رکھیں گے تو نسل کو کیسے کار آمد بناو گے ؟
سماجی ماہر کی رائےپاکستانی نژاد کینیڈین شہری روبینہ یاسمین سماجی مسائل پہ برسوں سے لکھتی رہی ہیں، انہوں نے عورتوں کے مسائل کے حل کیلئے بنیادی نکات پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے بنیادی ضرورت تعلیم کی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو شعور، اعتماد اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے درکار حکمت سے روشناس کرواتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں، عورتوں کی آواز سنیں، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں۔ اس حوالے سے قانونی، سماجی اور تعلیمی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ عورتوں کو ان کے حقوق دیے جا سکیں اور وہ ایک محفوظ اور باعزت زندگی گزار سکیں۔
روبنیہ شاہین نے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ “بات کہی جائے، اور سنی جائے”، تاکہ ہمارے معاشرے کی عورتیں بھی ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی امید رکھ سکیں‘۔
اب بھی وقت ہے، توانا اور صحت مند نسل چاہیے تو عورت کو زندگی کی آسائشیں دیں، زیادہ نہیں تو بس اتنا لازمی کریں جو مذہب، قانون اور انسانیت کا بھی درس ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دیا جاتا ہے معاشرے کی کے مطابق بات نہیں عورت کو عورت کے جاتی ہے تشدد کا اور ان ہیں جو نے کہا
پڑھیں:
خبردار!سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سانس پھول جاتی ہے یاسانس لینا مشکل لگتا ہے؟تو یہ ضرور خطرے کی گھنٹی ہے،جانئے کیوں
یہ جسم کے اندر چھپی کسی بیماری کی جانب اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ سانس کا پھول جانا مخصوص حالات میں جسم کا عام ردعمل ہوتا ہے، جیسے سخت ورزش کے دوران سانس لینے کی رفتار بڑھ جاتی ہے تاکہ خون میں آکیسجن کی مقدار بڑھ سکے۔
مگر سانس پھولنے کا سامنا ایسے کاموں کے دوران ہو جن میں پہلے کبھی مسئلہ نہیں ہوتا تھا، جیسے سیڑھیاں چڑھنے کے دوران، تو یہ جسم میں چھپی کسی بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
خاص طور پر اگر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہر بار سانس پھولنے کا سامنا ہو تو یہ ضرور خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ کوئی کام بار بار کرنے سے جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے، اس لیے صحت مند افراد کو روزانہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھولنے کا سامنا نہیں ہوتا۔
پھیپھڑوں یا نظام تنفس کے مسائلنظام تنفس کو پھیپھڑوں، دماغ اور سینے کے مسلز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر سکے اور خون کو آکسیجن فراہم کر سکے۔
اس نظام کو پہنچنے والے ہر نقصان سے سانس پھولنے کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے، جیسے پھیپھڑوں کے ورم یا رکاوٹ سے سانس زیادہ پھولنے لگتا ہے۔
دل کی شریانوں کے مسائلدل کی شریانیں پھیپھڑوں سمیت پورے جسم کو خون فراہم کرتی ہیں اور ان کو پہنچنے والے نقصان سے بھی سانس پھولنے کے مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
جسمانی وزن بڑھ جانے سے بھی سیڑھیاں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور ایسا کرنے پر بہت جلد سانس پھول جاتا ہے۔
جسمانی فٹنس میں کمیاگر آپ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے کے عادی ہیں تو معمولی کاموں سے بھی سانس پھولنے لگتا ہے۔
البتہ جسمانی فٹنس بہتر بنانے سے اس مسئلے پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
خون کی کمیجسم میں خون کی کمی کے باعث بھی تھکاوٹ، سانس پھولنے اور سینے میں تکلیف جیسی علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
عموماً آئرن کی کمی کے باعث خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کا علاج نہ کرایا جائے تو امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔
دمہدمہ کے مریضوں کا سانس بھی سیڑھیاں چڑھنے کے دوران پھول جاتا ہے۔
گردوں اور جگر کے امراضگردوں اور جگر کے امراض کے شکار افراد کا سانس بھی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ان امراض کے دوران اکثر جسم میں اضافی مقدار میں سیال جمع ہونے لگتا ہے جس کے باعث عام جسمانی سرگرمیاں بھی مشکل محسوس ہونے لگتی ہیں۔