بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
مشہور شاعر جون ایلیا نے کہا تھا ، ’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک، بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی‘۔
ایسے ہی معاملہ عورت کے ساتھ بھی ہے، یہاں کوئی نہیں جو عورت کو سنے، سمجھے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے۔ کچھ خاموش صدائیں عدالتوں میں نہیں گونجتیں، نہ ہی تھانوں کی فائلوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ وہ چیخیں ہیں جو انسان کے اندر ہی دب جاتی ہیں، یہ دھیرے دھیرے انسان کو ایک پراسرار دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔
کتنا افسوسناک ہے کہ ایک ہنستا کھیلتا شخص چپ سادھ لے، اس شخص کے چہرے کی رونق گھٹتے گھٹتے ختم ہوجائے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی چراغ آہستہ آہستہ بجھ جائے، جیسے بہار پہ خزاں کا غلبہ آجائے، جیسے دن رات میں ڈھل جائے۔
یہ پراسرار اور اندرون جنگ کا شکار انسان اگر عورت ہو تو حالات مزید گمبھبیر ہوجاتے ہیں، کیونکہ بلاشبہ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مسائل جھیلتی ہے، جبکہ تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں میں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عورت کو انسان کے بجائے ایک چیز سمجھتے ہیں، جو مالک کی ملکیت ہے اور خادم و غلام ہے۔ مرد جیسا چاہیے اس سے رویہ رکھے۔
پسماندہ معاشرے کی عورت جو دن بھر گھر سنبھالتی ہے، بچوں کو پالتی ہے، شوہر کے غصے اور سماج کے طعنے سہتی ہے، جب یہ دن بھر کے کام کاج اور ذلالت سہنے کے بعد رات کو چپ چاپ اپنے آنسو تکیے میں جذب کرتی ہیں تو آنسو خشک ہونے پر وہ بستر پہ سوتی نہیں، مر جاتی ہے۔
عورت نئی صبح کو نئے امید کے ساتھ اٹھتی ہے، وہ رات کے غم کو چہرہ دھوتے وقت مٹا دیتی ہے اور اپنے گھر بار کو گیت گاتے ہوئے سجانے لگتی ہے کہ آن ہی آن میں مالک و آقا کا نزلہ ایک مرتبہ پھر اسی پر گرتا ہے، یہ آقا جب معاشرے میں کوئی ڈھنگ کا کارنامہ نہیں کر پاتا تو اپنی بھڑاس نکالنے کیلئے گھر کی معصوم و مظلوم عورت سے دو دو ہاتھ کر کے خود کو تسکین پہنچانے کی کوشش ناکام کوشش کرتا ہے۔
ویسے تو عورت زمین کی طرح جازب ہے، یہ ہر دکھ درد کو سہہ جاتی ہے، مگر ایک مسئلہ ہے، اس کے جسم پر پڑے نیل کے نشان تو شاید کچھ دنوں میں مٹ جائیں گے، لیکن اس کی روح پر لگنے والے دھبے اور زخم کبھی نہیں ختم ہوتے۔
جب جبر اور گھٹن سے عورت ٹوٹ بکھر جاتی اور گھر نما قید سے نکل کر جاتی ہے تو یہی معاشرہ اسے کبھی صلح کے نام پر واپس اسی در پر بھیج دیتا ہے جہاں سے وہ بھاگی تھی، تو کبھی اُسے ہی موردِ الزام ٹھرا دیا جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا۔ ایسے میں نفسیاتی تکلیف، مسلسل خوف اور بےیقینی اُس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔
پسماندہ معاشرے میں عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی کی علامت ہے، اور اس جبر کو سہنا عورت کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اگر وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے باغی کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یہ روایتوں میں لپٹی ہوئی خاموشی کی سزا ہے، جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔
اعداد شمار کیا ہیں ؟اس پس منظر میں عالمی اور ملکی سطح پر گھریلو تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کسی نہ کسی وقت جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے۔
پاکستان میں، اقوام متحدہ کی خواتین کے ادارے کے مطابق، ہر 3 خواتین میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں Aurat Foundation کے مطابق، صرف 2019 میں پاکستان میں 5,200 خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 55 فیصد خواتین نے کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے۔
پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، لیکن اس جدید دور میں بھی وہ نہ کسی عدالت تک پہنچتی ہیں، نہ پولیس کے پاس جا سکتی ہیں، اور نہ ہی کسی مدد کی تلاش میں نکل سکتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے علاقوں میں آج بھی عورتوں کا سخت پردے کا رواج ہے۔ ایسے میں وہ ایک محدود دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔
یہاں ویمن کرائسز سنٹر یا دارالامان جیسی سہولیات تو موجود ہیں، مگر ثقافتی جکڑ بندیاں اتنی سخت ہیں کہ کوئی خاتون اکیلے ان دروازوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ جو خواتین سرکاری اداروں تک پہنچ بھی جائے تو اسے غیرت اور انا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
اس گھٹن زدہ ماحول میں عورت صرف جسمانی تشدد کا ہی شکار نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ذہن اور روح پر بھی زخم لگتے ہیں۔ جب روز روز کے طعنوں، مار پیٹ، اور نظر انداز کیے جانے سے اس کی نفسیاتی حالت بگڑنے لگتی ہے، جب وہ خاموش رہنے لگتی ہے، نیند نہیں آتی، خود سے باتیں کرتی ہے، یا دیر تک چھت کو تکتی رہتی ہے، تو اس کے دکھ کو کبھی ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کو مکاری چالاکی یا جادو ٹونہ قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان کے بہت سے گاوں دیہاتوں میں آج بھی نفسیاتی مسائل کو موضوعِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے، وہاں ایسی عورت کو فوراً یہ کہہ کر چھپایا جاتا ہے کہ “اس پر جن کا سایہ ہے۔” اُسے عاملوں کے پاس لے جایا جاتا ہے، جہاں اس کی اذیت کا علاج دم درود سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس دوران وہ نہ تو مناسب دوا تک پہنچ پاتی ہے، نہ صحیح مشورے تک اور نہ ہی کسی ہمدرد انسان تک۔ وہ عورت جو صرف توجہ، تعاون اور تحفظ مانگ رہی ہوتی ہے، اسے ایک اور امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کی لکیریں گڈمڈ ہو جاتی ہیں، اور اصل سماجی مسئلہ اندھے یقین کی نظر ہو جاتا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم خواتین اپنی قانونی اور شرعی حقوق سے واقف ہیں، خاص کر گاوں دیہاتوں میں۔ جبکہ جو خواتین اپنے حقوق سے واقف ہوں، اُن کیلئے بھی اپنا حق لینا سِہل نہیں۔
نکاح نامہ کیا ہے، اس میں کیا حقوق درج ہیں، شوہر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان سب کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی پوچھے تو کہتی ہیں: “نکاح کے وقت بڑوں نے کہا دستخط کرو، ہم نے کر دیے۔” عورت کے اَن پڑھ ہونے کا فائدہ یہاں مرد کو ملتا ہے، جس سے عورت ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں رہ جاتی ہے۔
معاشرے کی ان گمنام عورتوں کی کہانیاں شاید خبروں میں نہ آئیں، نہ ہی کسی رپورٹ کا حصہ بنیں، نہ مسجد اور ایوان میں موضوعِ بحث ہو، لیکن ان کی خاموشی چیخوں سے زیادہ بھاری ہے۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو دیواروں سے ٹکرا کر واپس عورت کے منہ پر لگتی ہیں، یاد رہے کہ یہ تکلیف جو عورت اکیلے سہہ رہی ہے، یہ کل کو لاوا بن کر پھوٹ بھی سکتا ہے، لاوا جب پھوٹتا ہے تو زد میں آنے والے چیزوں کو راکھ کر دیتی ہے۔
وہ عورتیں جو اپنی ذات کے وجود کو روز مٹا کر گھر بسانے کا فرض نبھاتی ہیں، وہ دراصل معاشرے کی بے حسی کا بوجھ اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ یہ وزن جو آج اکیلی عورت کے سر پر ہے، کل کو یہ پورے معاشرے کے سر پر ہوگا، کیونکہ نسل عورت ہی سے چلنی ہے، عورت کو پسماندہ، مظلوم اور گھٹن میں رکھیں گے تو نسل کو کیسے کار آمد بناو گے ؟
سماجی ماہر کی رائےپاکستانی نژاد کینیڈین شہری روبینہ یاسمین سماجی مسائل پہ برسوں سے لکھتی رہی ہیں، انہوں نے عورتوں کے مسائل کے حل کیلئے بنیادی نکات پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے بنیادی ضرورت تعلیم کی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو شعور، اعتماد اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے درکار حکمت سے روشناس کرواتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں، عورتوں کی آواز سنیں، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں۔ اس حوالے سے قانونی، سماجی اور تعلیمی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ عورتوں کو ان کے حقوق دیے جا سکیں اور وہ ایک محفوظ اور باعزت زندگی گزار سکیں۔
روبنیہ شاہین نے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ “بات کہی جائے، اور سنی جائے”، تاکہ ہمارے معاشرے کی عورتیں بھی ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی امید رکھ سکیں‘۔
اب بھی وقت ہے، توانا اور صحت مند نسل چاہیے تو عورت کو زندگی کی آسائشیں دیں، زیادہ نہیں تو بس اتنا لازمی کریں جو مذہب، قانون اور انسانیت کا بھی درس ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان میں دیا جاتا ہے معاشرے کی کے مطابق بات نہیں عورت کو عورت کے جاتی ہے تشدد کا اور ان ہیں جو نے کہا
پڑھیں:
جعلی پاسپورٹ
رات گئے جب ماسکو کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر پہنچا‘ تو بالکل خالی نظرآیا۔ مسافروں کی گہما گہمی ‘ نہ فلائٹس کے آنے جانے کے اعلانات‘ نہ ہی عملہ کی موجودگی ‘ ایسا لگا جیسے کسی ویرانہ میں پہنچ گیا ہوں۔ یہ رات کے دس بجے کاعالم تھا۔ پاکستان کے وفد میں ہم تقریباً آٹھ افسر تھے اور تمام لوگ‘ سرکاری طور پر روس آئے تھے۔
سب کے پاس آفیشل نیلے پاسپورٹ تھے۔بلیو پاسپورٹ پر روس کا ویزہ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ امیگریشن کاؤنٹر پر ایک خاتون براجمان تھیں۔ میں قطار میں دوسرے نمبر پر تھا۔ آگے ایک پولیس افسر کھڑا ہوا تھا۔ جیسے ہی سرکاری بلیو پاسپورٹ ‘ خاتون نے شیشے کے نیچے سے پکڑا ‘ تو اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ پہلے تو اس نے انتہائی غور سے تصویر کا معائنہ کیا۔ پھر الٹ پلٹ کر کے پاسپورٹ کو غور سے دیکھتی رہی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سفارت خانے کا جو افسر‘ وفد کو لینے آیا ہوا تھا۔ بے بسی سے دائیں بائیں دیکھنے میں مصروف تھا۔ پھر خاتون افسر نے کسی کو ٹیلیفون کیا۔ دو چار منٹ بعد‘ ایک ادھیڑ عمر کا روسی اہلکار کیبن میں آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مشین تھی ۔
اس نے بہت احتیاط سے مشین میں پاسپورٹ ڈالا۔ اور ایک دوربین سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ اب پندرہ بیس منٹ گزر چکے تھے۔ ہم‘ سب ‘ طویل سفر کے بعد‘ روس پہنچے تھے اور کافی تھک چکے تھے۔ یہ دس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ میرے دل میں صرف ایک احساس بار بار ‘ سر اٹھا رہا تھا کہ یہ صورت حال‘ قطعاً نارمل نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ ورنہ کسی بھی ملک کے سرکاری پاسپورٹ ‘ پر اتنا وقت نہیں لگتا ۔ بلکہ طالب علم کو یہ رویہ‘ توہین آمیز محسوس ہو رہا تھا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب ایک تیسرے صاحب کو بلایا گیا۔
وہ بلب کی روشنی ڈال کر ہر زاویہ سے دستاویز کو پرکھتے رہے۔ جب تینوں کو یقین ہو گیا کہ نیلا پاسپورٹ درست ہے۔ تو اس نے مہر لگائی اور اس افسر کو جانے دیا۔ اس کے بعد میری باری تھی۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ تینوں روسی اہلکار سرکاری دستاویز کی جانچ پڑتال کرتے رہے ۔ صرف ایک فرق تھا۔ اس کا دورانیہ کافی کم تھا۔ آٹھ دس منٹ میں فارغ ہو گیا۔ خیر جب ہم سارے ‘ سامان لینے لاؤنج میں پہنچے۔ تو پاکستانی سفارت خانہ سے آئے ہوئے افسر سے پوچھا کہ اتنی سخت چیکنگ کی بالاخر وجہ کیا ہے۔ جواب دیا کہ آپ‘ ہمارے سفیر سے پوچھیے گا۔ جواب ہرگز ہرگز تسلی بخش نہ تھا۔ خیر اگلے دن پاکستان کے سفیر سے ملاقات ہوئی۔ سب کے ذہن میں رات ‘ ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعہ کے متعلق سنجیدہ سوالات تھے۔ ابتدا میں ہی ‘ یہ سوال کیا گیا۔ جب سفیر نے جواب دیا تو شرم سے پسینہ آ گیا۔ اور روسی اہلکاروں کے درشت رویہ کی وجہ بھی معقول لگی۔
اب ذرا سفیر صاحب کا جواب سنئے۔ انسانی اسمگلروں کو معلوم پڑ گیا ہے کہ پاکستان کے نیلے سرکاری پاسپورٹ پر روس میں داخل ہونے پر کوئی ویزہ نہیں ہے۔ اب اس نیٹ ورک نے جعلی سرکاری پاسپورٹ بنانے کی ایک فیکٹری لگا لی ہے۔ وہاں سے افغان باشندوں کو پندرہ لاکھ روپے میں‘ یہ دستاویز مہیا کر دی جاتی ہے۔ بعض فی کس پندرہ لاکھ میں ‘ افغان ‘ روس میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہاں سے اسمگلروں کا گروہ‘ انھیں‘ یورپ میں داخل کرتا ہے اور اس طرح یہ افغان ‘ بڑے آرام سے یورپ پہنچ جاتے تھے۔ اور ہاں‘ عمومی طور پر یہ لوگ ‘ ماسکو کا ایئرپورٹ استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہاں سختی کافی زیادہ ہے۔ یہ ایک مضافاتی بندرگاہ کو امیگریشن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وہاں پر چند ہفتے قبل‘ ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی آواز پورے روس میں سنی گئی مگر پاکستان میں کسی قسم کی کوئی خبر نہ آنے دی گئی۔ سفیر صاحب تفصیل سے گفتگو کر رہے تھے۔ جب بندرگاہ پر افغان خاندان ‘ امیگریشن کے لیے پہنچا۔ خاتون اور اہل خانہ نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹ امیگریشن حکام کے حوالے کیے تو وہ تمام اہلکار پریشان ہو گئے۔ عورت برقعہ پوش تھی۔ اس کے خاوند نے عجیب و غریب چرمر کپڑے پہن رکھے تھے۔ بچے ننگے پیر تھے۔
روسی حکام نے ان سے پوچھا کہ آپ ‘ پاکستان کے کس سرکاری محکمہ میں کام کرتے ہیں۔ تو انھیں یہ سوال سمجھ نہیں آیا۔ سوال جواب‘ انگریزی زبان میں ہو رہے تھے۔ انگریزی تو دور کی بات‘ اردو تک بولنی نہیں آتی تھی۔ صرف اور صرف افغانستانی لہجے میں پشتو بول سکتے تھے۔ بڑی تگ و دو سے روسی اہلکاورں نے افغان لہجے میں پشتو بولنے والے ایک ترجمان کو بلوایا۔ جب گفت و شنید شروع ہوئی تو وہ خوفناک تھی۔
اس کنبہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس سرکاری پاسپورٹ ہیں تو یہ بتائیے کہ آپ کس پاکستانی محکمہ میں ملازمت کرتے ہیں۔ جواب تھا کہ وہ تو کبھی پاکستان گئے ہی نہیں ہیں اور انھوں نے تو کبھی کوئی سرکاری ملازمت نہیں کی۔ جب دریافت کیا گیا کہ آپ لوگوں نے پاسپورٹ کیسے حاصل کیا جو صرف پاکستانی سرکاری ملازمین کو دیا جاتا ہے۔ جواب تھا کہ یہ تو پیسے دے کر دبئی مارکیٹ سے خریدا ہے۔ روسی حکام پریشان ہو گئے۔ خیر‘ اس خاندان کو گرفتار کیا گیا۔
اس طرح ‘ ایک ایسا نیٹ ورک پکڑا گیا جو ہمارے نیلے سرکاری پاسپورٹ کوجعلی طور پر تیار کرتا تھا ،پھر لوگوں کو فروخت کرتاتھا۔ سفیر بھی دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ ہم نے وزارت خارجہ کو فوراً مطلع کیا کہ جناب‘ دبئی میں ایک گروہ جعلی سرکاری دستاویز کا دھندا کر رہا ہے، ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور اس سے بیرون ملک مسائل بڑھ رہے ہیں۔ تو بتایا گیا کہ معاملہ‘ وزارت داخلہ کو بھجوا دیا گیا ہے۔
آگے آنے والی معلومات بہت زیادہ افسوس ناک ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پر سب کو علم ہے کہ دبئی میں جعلی پاکستانی پاسپورٹ تیار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ ایک حد درجہ طاقتور وزیر صاحب کی چھترچھاؤں میں ہے۔ وزیر موصوف کا دبئی میں بھی ایک محل تھا۔ مگر قدرت کا کھیل دیکھیے کہ وزیرجب فوت ہوا تو اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے ‘ کوئی بھی اہم آدمی موجود نہیں تھا۔ ساراواقعہ سن کر کم از کم میرا تو دل دہل گیا۔ تقریباً پورا دن خاموش رہا کہ خدایا کیا پیسہ اس قدر اہم ہو گیا کہ لوگ اپنے وطن کا ہی سودا کرلیں۔ بہر حال میرے سوچنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دہائی سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ماسکو میں قیام کیمپنسکی ہوٹل میں تھا۔ اس کی لوکیشن بہت شاندار تھی۔ کریملن کی عمارت بالکل سامنے تھی۔ ساتھ ہی ایک دیدہ زیب چرچ تھا۔ ہوٹل‘ ایک نہر کے ساتھ تھا۔ اس طرح کی نہریں پورے ماسکو میں جال کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک دن ‘ ہوٹل سے نکل کر کریملن کی طرف جا رہا تھا تو پل کے درمیان میں پھولوں کے گلدستے رکھے ہوئے تھے۔ مگر وہاں سے لوگ‘ جلدی جلدی گزر رہے تھے۔ کوئی وہاںرکتا نہیں تھا۔ ایک مقامی شخص سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ خوف زدہ ہو گیا اور تقریباً دوڑتا ہوا غائب ہو گیا۔ معلوم پڑا کہ ایک سیاسی لیڈر جو اپوزیشن سے تعلق رکھتا تھا، لوگوں میں کافی مقبول تھا۔ چند ماہ پہلے اسے نامعلوم لوگوں نے پل کے درمیان میں قتل کر دیاتھا۔ دراصل روس میں سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ سخت ماحول ہے۔
ریاستی اداروں کے سامنے کوئی چوں نہیں کر سکتا۔ اور وہ‘ مقامی طور پر خوف کی علامت ہیں۔دراصل ریاستوں کا زوال اندر سے ہوتاہے۔ بات صرف اور صرف ادراک کی ہے۔ روس میں پانچ دن رہا۔ چار دن‘ روس کی مختلف وزارتوں کے ساتھ بریفنگ میں گزر گئے۔ ایک چیز قطعی طور پر محسوس کی ۔ روس کی دوستی اور دشمنی میں‘ اخلاقیات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جس نکتہ کو وہ ‘ اپنے ملک کے لیے مناسب سمجھتے ہیں ‘ اس پر ‘ آنکھ بند کر کے عمل کرتے ہیں۔ پاکستان کے متعلق اس وقت‘ مثبت اور منفی دونوں طرح کے جذبات پائے جاتے تھے۔
منفی زاویہ تو خیر افغان جنگ کی بدولت تھا۔ اس کے باوجود‘ وہاں کی حکومت میں ایسے لوگ ضرور تھے جو ہمارے ملک سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے تھے۔روس میں کھانے پینے کی چیزیں کافی ارزاں معلوم ہوئیں۔ مگر وہاں کی روٹی بہت سخت تھی۔ اس کی وجہ سمجھ نہیں پایا۔ ایک عجیب چیز دیکھنے میں آئی۔ کہ روسی‘ ’’آتشیں سیال‘‘ کا ہروقت استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ناشتہ پر بھی یہ معاملہ نظر آیا۔ شام کے بعد تو خیر ‘ یہ عروج پر ہوتا ہے۔پانچ دن بعد‘ جب ماسکو سے واپس آیا تو ایک ایسی دنیا کے متعلق معلومات تھیں جس کو لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ جہاز میں صرف یہ سوچ رہا تھاکہ ہمارے ملک کا جعلی سرکاری پاسپورٹ بنانا کیا واقعی اتنا آسان ہے؟