WE News:
2025-11-20@02:18:00 GMT

بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

بات نہیں کہی گئی ، بات نہیں سنی گئی

مشہور شاعر جون ایلیا نے کہا تھا ، ’ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک، بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی‘۔

ایسے ہی معاملہ عورت کے ساتھ بھی ہے، یہاں کوئی نہیں جو عورت کو سنے، سمجھے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے۔ کچھ خاموش صدائیں عدالتوں میں نہیں گونجتیں، نہ ہی تھانوں کی فائلوں میں محفوظ ہوتی ہیں۔ یہ وہ چیخیں ہیں جو انسان کے اندر ہی دب جاتی ہیں، یہ دھیرے دھیرے انسان کو ایک پراسرار دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔

کتنا افسوسناک ہے کہ ایک ہنستا کھیلتا شخص چپ سادھ لے، اس شخص کے چہرے کی رونق گھٹتے گھٹتے ختم ہوجائے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی چراغ آہستہ آہستہ بجھ جائے، جیسے بہار پہ خزاں کا غلبہ آجائے، جیسے دن رات میں ڈھل جائے۔

یہ پراسرار اور اندرون جنگ کا شکار انسان اگر عورت ہو تو حالات مزید گمبھبیر ہوجاتے ہیں، کیونکہ بلاشبہ عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ مسائل جھیلتی ہے، جبکہ تیسری دنیا کے پسماندہ معاشروں میں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو عورت کو انسان کے بجائے ایک چیز سمجھتے ہیں، جو مالک کی ملکیت ہے اور خادم و غلام ہے۔ مرد جیسا چاہیے اس سے رویہ رکھے۔

پسماندہ معاشرے کی عورت جو دن بھر گھر سنبھالتی ہے، بچوں کو پالتی ہے، شوہر کے غصے اور سماج کے طعنے سہتی ہے، جب یہ دن بھر کے کام کاج اور ذلالت سہنے کے بعد رات کو چپ چاپ اپنے آنسو تکیے میں جذب کرتی ہیں تو آنسو خشک ہونے پر وہ بستر پہ سوتی نہیں، مر جاتی ہے۔

عورت نئی صبح کو نئے امید کے ساتھ اٹھتی ہے، وہ رات کے غم کو چہرہ دھوتے وقت مٹا دیتی ہے اور اپنے گھر بار کو گیت گاتے ہوئے سجانے لگتی ہے کہ آن ہی آن میں مالک و آقا کا نزلہ ایک مرتبہ پھر اسی پر گرتا ہے، یہ آقا جب معاشرے میں کوئی ڈھنگ کا کارنامہ نہیں کر پاتا تو اپنی بھڑاس نکالنے کیلئے گھر کی معصوم و مظلوم عورت سے دو دو ہاتھ کر کے خود کو تسکین پہنچانے کی کوشش ناکام کوشش کرتا ہے۔

ویسے تو عورت زمین کی طرح جازب ہے، یہ ہر دکھ درد کو سہہ جاتی ہے، مگر ایک مسئلہ ہے، اس کے جسم پر پڑے نیل کے نشان تو شاید کچھ دنوں میں مٹ جائیں گے، لیکن اس کی روح پر لگنے والے دھبے اور زخم کبھی نہیں ختم ہوتے۔

جب جبر اور گھٹن سے عورت ٹوٹ بکھر جاتی اور گھر نما قید سے نکل کر جاتی ہے تو یہی معاشرہ اسے کبھی صلح کے نام پر واپس اسی در پر بھیج دیتا  ہے جہاں سے وہ بھاگی تھی، تو کبھی اُسے ہی موردِ الزام ٹھرا دیا جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا۔ ایسے میں نفسیاتی تکلیف، مسلسل خوف اور بےیقینی اُس کی ذات کا حصہ بن جاتی ہیں۔

پسماندہ معاشرے میں عورت پر ہاتھ اٹھانا مردانگی کی علامت ہے، اور اس جبر کو سہنا عورت کا فرض سمجھا جاتا ہے۔ اگر وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے باغی کا خطاب دیا جاتا ہے۔ یہ روایتوں میں لپٹی ہوئی خاموشی کی سزا ہے، جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔

اعداد شمار کیا ہیں ؟

اس پس منظر میں عالمی اور ملکی سطح پر گھریلو تشدد کے مسئلے کی سنگینی کو سمجھنا ضروری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک عورت کسی نہ کسی وقت جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے۔

پاکستان میں، اقوام متحدہ کی خواتین کے ادارے کے مطابق، ہر 3 خواتین میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں Aurat Foundation کے مطابق، صرف 2019 میں پاکستان میں 5,200 خواتین پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں تقریباً 55 فیصد خواتین نے کسی نہ کسی قسم کے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے۔

پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی بہت سی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں، لیکن اس جدید دور میں بھی وہ نہ کسی عدالت تک پہنچتی ہیں، نہ پولیس کے پاس جا سکتی ہیں، اور نہ ہی کسی مدد کی تلاش میں نکل سکتی ہیں۔ کیونکہ بہت سے علاقوں میں آج بھی عورتوں کا سخت پردے کا رواج ہے۔ ایسے میں وہ ایک محدود دائرہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔

یہاں ویمن کرائسز سنٹر یا دارالامان جیسی سہولیات تو موجود ہیں، مگر ثقافتی جکڑ بندیاں اتنی سخت ہیں کہ کوئی خاتون اکیلے ان دروازوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ جو خواتین سرکاری اداروں تک پہنچ بھی جائے تو اسے غیرت اور انا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

اس گھٹن زدہ ماحول میں عورت صرف جسمانی تشدد کا ہی شکار نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ذہن اور روح پر بھی زخم لگتے ہیں۔ جب روز روز کے طعنوں، مار پیٹ، اور نظر انداز کیے جانے سے اس کی نفسیاتی حالت بگڑنے لگتی ہے، جب وہ خاموش رہنے لگتی ہے، نیند نہیں آتی، خود سے باتیں کرتی ہے، یا دیر تک چھت کو تکتی رہتی ہے، تو اس کے دکھ کو کبھی ڈپریشن یا ذہنی دباؤ کو مکاری چالاکی یا جادو ٹونہ قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان کے بہت سے گاوں دیہاتوں میں آج بھی نفسیاتی مسائل کو موضوعِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے، وہاں ایسی عورت کو فوراً یہ کہہ کر چھپایا جاتا ہے کہ “اس پر جن کا سایہ ہے۔” اُسے عاملوں کے پاس لے جایا جاتا ہے، جہاں اس کی اذیت کا علاج دم درود سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس دوران وہ نہ تو مناسب دوا تک پہنچ پاتی ہے، نہ صحیح مشورے تک اور نہ ہی کسی ہمدرد انسان تک۔ وہ عورت جو صرف توجہ، تعاون اور تحفظ مانگ رہی ہوتی ہے، اسے ایک اور امتحان میں ڈال دیا جاتا ہے- یہی وہ مقام ہے جہاں جسمانی اور نفسیاتی تشدد کی لکیریں گڈمڈ ہو جاتی ہیں، اور اصل سماجی مسئلہ اندھے یقین کی نظر ہو جاتا ہے۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بہت کم خواتین اپنی قانونی اور شرعی حقوق سے واقف ہیں، خاص کر گاوں دیہاتوں میں۔ جبکہ جو خواتین اپنے حقوق سے واقف ہوں، اُن کیلئے بھی اپنا حق لینا سِہل نہیں۔

نکاح نامہ کیا ہے، اس میں کیا حقوق درج ہیں، شوہر کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ان سب کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئی پوچھے تو کہتی ہیں: “نکاح کے وقت بڑوں نے کہا دستخط کرو، ہم نے کر دیے۔” عورت کے اَن پڑھ ہونے کا فائدہ یہاں مرد کو ملتا ہے، جس سے عورت ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں رہ جاتی ہے۔

معاشرے کی ان گمنام عورتوں کی کہانیاں شاید خبروں میں نہ آئیں، نہ ہی کسی رپورٹ کا حصہ بنیں، نہ مسجد اور ایوان میں موضوعِ بحث ہو، لیکن ان کی خاموشی چیخوں سے زیادہ بھاری ہے۔ یہ وہ صدائیں ہیں جو دیواروں سے ٹکرا کر واپس عورت کے منہ پر لگتی  ہیں، یاد رہے کہ یہ تکلیف جو عورت اکیلے سہہ رہی ہے، یہ کل کو لاوا بن کر پھوٹ بھی سکتا ہے، لاوا جب پھوٹتا ہے تو زد میں آنے والے چیزوں کو راکھ کر دیتی ہے۔

وہ عورتیں جو اپنی ذات کے وجود کو روز مٹا کر گھر بسانے کا فرض نبھاتی ہیں، وہ دراصل معاشرے کی بے حسی کا بوجھ اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ یہ وزن جو آج اکیلی عورت کے سر پر ہے، کل کو یہ پورے معاشرے کے سر پر ہوگا، کیونکہ نسل عورت ہی سے چلنی ہے، عورت کو پسماندہ، مظلوم اور گھٹن میں رکھیں گے تو نسل کو کیسے کار آمد بناو گے ؟

سماجی ماہر کی رائے

پاکستانی نژاد کینیڈین شہری روبینہ یاسمین سماجی مسائل پہ برسوں سے لکھتی رہی ہیں، انہوں نے عورتوں کے مسائل کے حل کیلئے بنیادی نکات پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ’ان تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے بنیادی ضرورت تعلیم کی ہے۔ تعلیم ہی انسان کو شعور، اعتماد اور اپنے مسائل حل کرنے کے لئے درکار حکمت سے روشناس کرواتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس خاموشی کو توڑیں، عورتوں کی آواز سنیں، اور ان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیں۔ اس حوالے سے قانونی، سماجی اور تعلیمی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ عورتوں کو ان کے حقوق دیے جا سکیں اور وہ ایک محفوظ اور باعزت زندگی گزار سکیں۔

روبنیہ شاہین نے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ “بات کہی جائے، اور سنی جائے”، تاکہ ہمارے معاشرے کی عورتیں بھی ایک روشن اور محفوظ مستقبل کی امید رکھ سکیں‘۔

اب بھی وقت ہے، توانا اور صحت مند نسل چاہیے تو عورت کو زندگی کی آسائشیں دیں، زیادہ نہیں تو بس اتنا لازمی کریں جو مذہب، قانون اور انسانیت کا بھی درس ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مہ پارا ذوالقدر

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان میں دیا جاتا ہے معاشرے کی کے مطابق بات نہیں عورت کو عورت کے جاتی ہے تشدد کا اور ان ہیں جو نے کہا

پڑھیں:

حکومتی بے توجہی

26 ویں آئینی ترمیم کی حمایت پر مولانا فضل الرحمن سے ناراض پی ٹی آئی کو 27 ویں ترمیم کے خطرے کے پیش نظر مولانا پھر یاد آ گئے اور مولانا کے در پر پی ٹی آئی کا وفد پھر پہنچ گیا تھا۔ اس موقع پر علی محمد خان نے کہا کہ مولانا صاحب ہمارے ساتھ آ جاتے ہیں تو وزن بڑھے گا۔

انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ وزن کس کا بڑھے گا؟ علی محمد خان وفد میں شامل نہیں تھے اور اپنے خیالات کا اظہار انھوں نے ایک ٹاک شو میں کیا، مولانا سے ملنے والے وفد میں اسد قیصر شامل تھے ۔ اس ملاقات میں مولانا نے محمود اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی کی طرف سے نامزد کیے جانے کی حمایت کی۔ مولانا اور محمود خان ضلع پشین سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے مولانا سے رفاقت بڑھانے میں پھر پہل کی اور محمود خان کے لیے مولانا کی حمایت حاصل کر لی تھی۔

اس سے چند روز قبل بلاول بھٹو بھی مولانا فضل الرحمن سے ملنے ان کے گھر گئے تھے اور انھوں نے باہمی گفتگو کے بعد مولانا کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی جو مولانا نے قبول کر لی ہے یہ ملاقات ایوان صدر میں ہوگی یا کہیں اور یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مولانا کب اور کہاں جائیں گے۔

 بلاول بھٹو نے 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے مولانا سے ملاقاتیں کرکے ان کی حمایت حاصل کی تھی جس پر پی ٹی آئی مولانا سے کچھ خفا تھی۔ اس بار حکومتی اتحاد کی نشستیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے قومی اسمبلی میں بڑھ گئی ہیں جس سے (ن) لیگ کے ارکان کی تعداد بھی بڑھی ہے مگر (ن) لیگ سینیٹ میں پی پی سے پیچھے ہے جہاں 27 ویں ترمیم کی منظوری پیپلز پارٹی کی حمایت سے ہی ممکن ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کی آئینی برطرفی میں مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار تھا مگر جب فروری 2024 کے عام انتخابات میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے مولانا کو مکمل نظرانداز کیا تھا اور چوہدری شجاعت حسین کے گھر میں جو معاملات طے ہونے تھے ان میں مولانا سے رابطہ تک نہیں کیا گیا اور دونوں پارٹیوں نے صدر مملکت اور وزیر اعظم کے عہدے آپس میں بانٹ لیے تھے اور دونوں بڑی پارٹیوں کی طرف سے مولانا کو شاید اس لیے نہیں بلایا گیا کہ مولانا ملک کی صدارت مانگ رہے تھے اور اگر مولانا فضل الرحمن کو شامل کیا جاتا تو مولانا اپنے سابق اتحادیوں کو ان کا وعدہ یاد دلاتے اسی لیے مولانا کو بلایا ہی نہیں گیا تھا۔

آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے مگر پنجاب میں پیپلزپارٹی کو نمایاں نشستیں نہ ملیں تو زرداری صاحب نے دوبارہ صدر بننے کی خواہش کی جو باہمی معاہدے کے مطابق انھیں مل گئی تھی مگر پھر بھی دونوں بڑی پارٹیوں نے مولانا کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش تک نہ کی اور بلوچستان کی حکومت بھی پیپلز پارٹی نے حاصل کر لی حالانکہ وہاں (ن) لیگ، پی پی اور جے یو آئی کے ووٹ تقریباً برابر برابر تھے، اس لیے بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جے یو آئی کا بنایا جا سکتا تھا پیپلز پارٹی نے مولانا کے لیے یہ قربانی بھی نہیں دی تھی۔

(ن) لیگ بھی چاہتی تو مولانا کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے انھیں نائب وزیر اعظم بننے پر راضی کر سکتی تھی مگر یہ عہدہ بھی (ن) لیگ اپنے قائد کے سمدھی کو دینا چاہتی ہوگی، اس لیے یہاں بھی مولانا کو نظرانداز کیا اور دونوں بڑی پارٹیوں نے جان بوجھ کر اپوزیشن میں دھکیلا مگر مولانا پی ٹی آئی سے بھی نہیں ملے اور تنہا ہی اپوزیشن کر رہے ہیں۔

مولانا سے صدر زرداری کی خفگی کی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ گزشتہ فروری کے الیکشن میں جے یو آئی نے سندھ میں پی پی کو سخت ٹف ٹائم دیا تھا اور پی پی کے مقابلے میں اپنے امیدوارکھڑے کیے تھے مگر سندھ میں چوتھی بار بھی پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت دینی تھی، اس لیے مولانا کے امیدواروں نے بھی لاکھوں ووٹ لیے مگر کوئی نشست جے یو آئی جیت نہیں سکی تھی۔

دکھاوے کے لیے الیکشن کے بعد صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف مولانا سے ملنے ان کے گھر بھی گئے تھے۔ حکومتی بے توجہی سے مولانا کو دکھ تو ہوگا جس کی ذمے دار حکومت ہے اور حکومت جان بوجھ کر خود سے الگ رکھ کر پی ٹی آئی سے قربت بڑھانے پر مجبور کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بدل دو نظام
  • نواز شریف لندن سے وطن واپس پہنچ گئے
  • کوئٹہ کے مقبول ترین روایتی کلچوں کا سفر، تندور کی دھیمی آنچ سے دلوں تک
  • اقوام متحدہ ہو یا آسیان مودی مُنہ چھپا رہا، سات، صفر کی شکست یاد دلائی جاتی رہے گی: بلاول
  • کوچۂ سخن
  • حکومتی بے توجہی
  • بچوں کا عالمی دن! مگر غزہ کے بچوں کے نام
  • منشیات شہروں تک آخر پہنچتی کیسے ہے؟بارڈر پر کیوں نہیں روکا جاتا؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار 
  • بارڈر پر منشیات کو کیوں نہیں روکا جاتا؟ ضیاء الحق کا دیا تحفہ بھگتیں: جسٹس جمال مندوخیل
  • پی ٹی آئی والے عمران کو عقلمند سمجھتے تھے، ایک عورت نے بیچ ڈالا: خواجہ آصف