Express News:
2025-05-16@06:20:32 GMT

محمد رفیع (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

وہ بہت چھوٹے تھے جب ایک دن ایک فقیرکچھ گاتا ہوا آ نکلا، وہ محویت سے اس کا گانا سننے لگے۔ جب گانا ختم ہوا تو اپنے دوست سے کہا ’’ بابا کو کچھ کھانے کے لیے لا دو۔‘‘ وہ دوست گھر میں گیا اور گھر سے آٹا لا کر اس فقیر کو دے دیا۔ وہ جانے لگا تو اسے آواز دے کر بلایا اور کہا کہ وہ جو گیت گا رہے تھے اسے دوبارہ گا کر سنا دیں۔

فقیر نے ایسا ہی کیا، پھر وہ بولے ’’بابا! آپ نے جو گایا ہے وہ میں گا کر سناؤں؟‘‘ اس نے کہا ’’ ضرور سناؤ!‘‘ پھر انھوں نے پورا گیت گا کر فقیر کو سنا دیا۔ فقیر نے سر پہ ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا ’’ تم نے بالک! اتنی جلدی یہ گیت یاد کر لیا اور سنا بھی دیا، تم ایک دن بڑے کلاکار بنو گے۔‘‘ وہ بولے ’’میں تو بہت چھوٹا ہوں، میں بڑا کلاکار کیسے بنوں گا؟‘‘ فقیر بولا ’’ بالک! تجھے گانے کا شوق ہے، یہی شوق تجھے بڑا کلاکار بنائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ فقیر چلا گیا، یہ بچہ تھا سات سالہ محمد رفیع، جس کے نام کا ڈنکا دنیا بھر میں بجا اور جس کے مقابلے کا کوئی پلے بیک سنگر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ موسیقار او پی نیئر نے سچ کہا تھا کہ ’’محمد رفیع ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گا۔‘‘

محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو پنجاب کے گاؤں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے، انھیں بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا، ایک بارگاؤں میں ایک فقیر گاتا جا رہا تھا، انھیں اس کی گائیکی اتنی اچھی لگی کہ اس کے پیچھے پیچھے چل دیے اور ساتھ ہی اس کے گیت کی نقل بھی کرتے رہے۔ جس گلی میں فقیر جاتا یہ بھی وہیں چل دیتے، بڑا پرامن زمانہ تھا، کوئی ڈر تھا نہ کوئی خوف۔ محمد رفیع کے پانچ بھائی تھے، بڑے بھائی دین محمد اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ یہ سارا کنبہ لاہور شفٹ ہوگیا اور دین محمد نے یہاں ہیئرکٹنگ کی شاپ کھول لی۔

وہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ رکھتے، اسکول سے آنے کے بعد وہ سارا وقت بھائی کے پاس گزارتے۔ دین محمد رفیع کو سنگیت سبھا کی محفلوں میں لے جاتے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ لاہور میں کندن لال سہگل کا شو تھا۔ رفیع بھی اپنے بھائی کے ساتھ وہاں موجود تھے، اچانک وہاں کی بجلی فیل ہوگئی، سہگل نے کہا کہ جب بجلی آئے گی تبھی وہ گانا گائیں گے۔ اب منتظمین پریشان کہ اتنی دیر مجمع کوکیسے قابو کریں۔ وہیں دین محمد کے ایک واقف کار بھی بیٹھے تھے، انھوں نے ان سے کہا کہ وہ رفیع کو گوائیں، دین محمد نے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی مجمع کو اپنا گانا سنا سکتا ہے۔

منتظمین نے کہا ’’ یہ بچہ کیسے گائے گا؟‘‘ دین محمد نے کہا ’’آپ اسے موقعہ دیں۔‘‘ محمد رفیع کو اسٹیج پہ کھڑا کر دیا گیا، بغیر مائیک کے جب ان کی آواز گونجی تو سب حیران رہ گئے کہ یہ ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی آواز ہے، ان کی آواز کی اونچائی بہت زیادہ تھی، مجمع نہایت خاموشی سے گانا سنتا رہا اور جب گانا ختم ہوا تو پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ خود سہگل نے ان کی گائیکی کی بڑی تعریف کی جو ان کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔ بڑے بھائی انھیں ریڈیو اسٹیشن بھی لے کر گئے جہاں انھوں نے گیت سنا کر حیران کر دیا۔ دین محمد کی ہیئر کٹنگ شاپ پر فلم ساز شیام سندر بھی آتے تھے۔

ایک بار انھوں نے رفیع کو گاتے سنا تو بہت حیران ہو گئے اور انھیں اپنی پنجابی فلم ’’ گل بلوچ‘‘ میں گیت گوایا۔ دین محمد بھائی کو بڑا فنکار بنانا چاہتے تھے، ان کے ایک دوست عبدالحمید بھی ان سے متفق تھے۔ لہٰذا وہ اور عبدالحمید رفیع کو لے کر پہلے لکھنؤ گئے اور وہاں موسیقار اعظم نوشاد علی کے والد سے ملاقات کی اور ایک سفارشی چٹھی لکھوا کر بمبئی آئے اور نوشاد صاحب کو وہ چٹھی دی تو اسے دیکھ کر نوشاد بولے ’’ تم سفارش بھی ایسی لائے ہو کہ میں منع نہیں کر سکتا‘‘ پھر انھوں نے رفیع سے کچھ گانے کو کہا اور جب انھوں نے گانا سنایا تو وہ بھی حیران رہ گئے۔ انھوں نے پوچھا کہ ’’ کس کی شاگردی میں سیکھا ہے؟‘‘ انھوں نے اپنے استادوں کے نام بتائے اور جب یہ بتایا کہ وہ کلاسیکی راگ راگنیوں سے بھی واقف ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے لیکن یہ کہا کہ فی الحال ان کے پاس صرف ایک کورس ہے جس میں وہ شامل ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھیں گانے سے مطلب ہے خواہ وہ ایک کورس ہی کیوں نہ ہو۔

وہ سہگل کے پرستار تھے، ایک بار آکاش وانی میں سہگل آئے ہوئے تھے، رفیع اپنے بھائی کے ساتھ ان سے ملنے گئے۔ سہگل ان سے ملے اور دعا دی۔ وہاں شیام سندر بھی آئے ہوئے تھے، انھوں نے اپنی فلم ’’ گاؤں کی گوری‘‘ کے لیے سائن کیا۔ یہ رفیع صاحب کی پہلی فلم تھی، پھر انھوں نے نذیر اور سورن لتا کی فلم ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ کے گیت بھی گائے۔ ان کے والد جو پہلے گائیکی کے خلاف تھے، بیٹے کی شان، ولولہ اور شہرت دیکھ کر سنگیت کو اپنانے کے لیے تیار ہو گئے۔

اب ہر موسیقار رفیع سے گانے گوانا چاہتا تھا، لیکن ان کے ٹیلنٹ کو پہچانا نوشاد علی اور حسن لال بھگت رام نے، لیکن ان کی زندگی میں بریک تھرو آیا فلم ’’جگنو‘‘ سے جس کا ایک گیت انھوں نے نور جہاں کے ساتھ اس طرح گایا کہ سماں باندھ دیا۔ حالاں کہ ان کا ساتھ دے رہی تھیں اداکارہ و گلوکارہ نور جہاں جن کا نام بہت اونچا تھا، لیکن رفیع نے اس طرح گیت گایا کہ لوگ واہ واہ کر اٹھے، وہ گیت تھا:

یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے

محبت کر کے بھی دیکھا محبت میں بھی دھوکا ہے

’’انمول گھڑی‘‘ شوکت حسین رضوی کی فلم تھی اور مرکزی کرداروں میں نور جہاں اور سریندر تھے۔ اس فلم کے تمام گانے رفیع صاحب نے گائے تھے، فی میل سنگر تھیں خود نور جہاں۔ یہ فلم 1947 میں بنی تھی لیکن اس کے گانے 1946 میں ہی ریکارڈ کر لیے گئے تھے اور بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس فلم میں ثریا نے بھی کام کیا تھا۔ خاص کر یہ گانا بہت مقبول ہوا اور گلی گلی بجا:

تیرا کھلونا ٹوٹا بالک تیرا کھلونا ٹوٹا

محمد رفیع نے دو شادیاں کیں، پہلی شادی بشیرہ بی بی سے ہوئی، ان سے ایک بیٹا خالد ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کے دوران بلوائیوں نے بشیرہ بی بی کو خوف زدہ کردیا تھا، ان کے ماں باپ کو بلوائیوں نے قتل کردیا تھا، اسی ڈر سے وہ بھارت میں نہیں رہنا چاہتی تھیں اور رفیع صاحب بھارت نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، لہٰذا بشیرہ بی بی اپنے بیٹے کے ساتھ لاہور آ گئیں، لیکن رفیع صاحب نے اپنی ذمے داریوں سے منہ نہیں موڑا۔ وہ بیوی اور بچے کے اخراجات برابر بھیجتے رہے۔ بعد میں رفیع صاحب نے عبدالحمید کی سالی بلقیس بانو سے شادی کر لی۔

ان سے ان کے چھ بچے ہوئے تین بیٹے اور تین بیٹیاں۔ 1947 کا سال رفیع صاحب کی زندگی میں پریشانیاں لے کر آیا تھا۔ پہلے بیوی چھوڑ کے چلی گئی اور ملک تقسیم ہوگیا۔ ساتھ ہی 18 جنوری 1947 کو کے۔ایل سہگل کی وفات ہو گئی جس کا انھیں گہرا صدمہ پہنچا، وہ سہگل کو اپنا گرو مانتے تھے۔

رفیع صاحب گیت کے ساتھ سنجیدہ ہو جاتے تھے، ان کے گائے ہوئے سارے گیت انھوں نے ایسے گائے ہیں گویا یہ احساس خود ان پر گزر رہا ہو۔ محبت ہو، غم ہو، خوشی کے جذبات ہوں، حب الوطنی کے جذبات ہوں یا بجھن ہر جگہ ان کی گائیکی دل کو چھوتی ہے۔ محمد رفیع 1955 سے لے کر 1965 تک کا زمانہ ان کا سنہری دور ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب آکاش وانی اور آل انڈیا ریڈیو ہر جگہ سے ان کے گیت نشر ہوتے تھے، لیکن رفیع صاحب تو آخری سانس تک گاتے رہے۔   (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محمد رفیع رفیع صاحب نور جہاں انھوں نے رفیع کو کے ساتھ نے کہا کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

100اور 1500 مالیت کے بانڈز کی قرعہ اندازی (کل ) ہوگی

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 مئی2025ء)100اور 1500 روپے مالیت کے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی کل ( جمعرات)15مئی کو ہو گی ۔100روپے والے اسٹوڈنٹس بانڈز کا پہلا انعام7لاکھ روپے کا ایک،دوسرے انعام میں 2لاکھ روپے کے تین جبکہ تیسرے انعام میں 1000روپے کے 1199انعامات کامیاب خوش نصیبوں میں تقسیم ہوں گے ۔

(جاری ہے)

1500 روپے والے بانڈ زکا پہلا انعام30لاکھ روپے کا ایک، دوسرے انعام میں 10لاکھ روپے کے تین جبکہ 18500روپے کے 1696انعامات ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا پہلا گرین سکوک بانڈ لانچ، معیشت کی بحالی پر وزیر خزانہ کا اظہار اطمینان
  • ہم نے بھارت کے چھ طیارے گرائے، ہمارے ایک جہاز کو بھی نقصان نہیں پہنچا، اسحاق ڈار
  • مشرق وسطیٰ کو تحفظ دیں گے، ایران کے ساتھ معاہدے کے بہت قریب ہیں : ٹرمپ
  • حوصلے کا قلم، یقین کی انگلیاں، کوئٹہ کے رفیع اللہ کی بے مثال کہانی
  •  ہندوتوا کے پیروکار جنونی مودی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے امن کو خطرہ ہے، سراج الحق 
  • بجٹ سازی پر پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات کا پہلا دور آج شروع ہو گا
  • ہم حکومت نہیں قوم کے ساتھ کھڑے ہیں، شیخ وقاص اکرم
  • پی ٹی آئی غائب نہیں ہوئی یہ حکومت کی بیان بازی ہے، فیصل چوہدری
  • 100اور 1500 مالیت کے بانڈز کی قرعہ اندازی (کل ) ہوگی