ایلون مسک کی ٹرانسجینڈر بیٹی نے ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک کی بیٹی ویوین جینا ولسن نے ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ویوین نے 15 مئی کو معروف فیشن برانڈ ’وائلڈ فینگ‘ کی نئی مہم کا حصہ بن کر اپنے ماڈلنگ کیریئر کا آغاز کیا ہے یہ ایک ایسی مہم ہے جو شناخت، خود اعتمادی اور خود اظہار کے موضوع پر مبنی ہے۔
21 سالہ ویوین جو مصنفہ جسٹین ولسن اور ایلون مسک کی بیٹی ہیں، نے اس تشہیری مہم کی تصاویر اور ویڈیوز انسٹاگرام پر شیئر کی ہیں، جن میں وہ پراعتماد انداز میں مختلف ملبوسات میں ماڈلنگ کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Vivian Jenna Wilson (@vivllainous)
ویوین نہ صرف اس مہم کا چہرہ ہیں بلکہ انہوں نے اس کے لیے ایک خصوصی ٹی شرٹ بھی ڈیزائن کی ہے، جس کی تمام آمدنی دی ٹریور پراجیکٹ کو دی جائے گی، جو LGBTQ+ نوجوانوں کے لیے خودکشی سے بچاؤ اور بحران سے نمٹنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
وائلڈ فینگ کی سی ای او ایما میکلروئے کے مطابق ویوین بہادری، ذہانت اور بے باک شخصیت کی علامت ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Vivian Jenna Wilson (@vivllainous)
یاد رہے کہ ویوین نے 2022 میں اپنا نام اور جنس قانونی طور پر تبدیل کرنے کے لیے درخواست دی تھی جس کے باعث وہ خبروں کی سرخیوں کا حصہ بنی ہوئی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
والد کی اٹلی سے پاکستان واپسی اور گھر میں ڈکیتی،دو بہنوں کے پُراسرار قتل پر والدین کی گرفتاری
صوبہ پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں قتل ہونے والی دو بہنوں کے کیس میں پولیس نے ان کے والدین کو گرفتار کرلیا، جنہوں نے خود گذشتہ ماہ اپنے گھر پر ڈکیتی اور بیٹیوں کے قتل پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔
19 مئی کو گوجرانوالہ کے علاقے نوشہرہ ورکاں میں 22 اور 19 سالہ دو بہنوں کے قتل کا مقدمہ ان کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا مگر اب پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان بہنوں کے قتل میں ان کے والدین ملوث تھے اور یہ کہ اس نے آلہ قتل کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے کی وہ رقم بھی برآمد کر لی ہے جس کا والد نے ڈکیتی اور قتل کے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا۔
عدالت نے اِن بہنوں کی والدہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل گوجرانوالہ منتقل کر دیا ہے جبکہ والد کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کیا گیا جس کے بعد 26 جون کو ملزم کو ایک بار پھر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔
عدالت میں پیشی کے موقع پر پولیس نے بتایا کہ ملزم سے تفتیش مکمل کی جانی ہے، اس کے علاوہ قتل کے محرکات کے بارے میں پوچھ گچھ کی جانی ہے جس پر عدالت نے ملزم کا 30 جون تک جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے تفتیشی ٹیم کو ہدایت کی کہ کیس کا چالان جلد مکمل کر کے عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ باقاعدہ ٹرائل شروع کیا جا سکے۔
تفتیشی افسر اور ڈی ایس پی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ انصر موہل کا کہنا ہے کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق دونوں میاں بیوی ہی اس وقوعہ کے ملزمان ہیں اور کوئی تیسرا ملزم اس میں شامل نہیں۔ تاہم مقتولین کے والد نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یہ کیس نہ صرف کمزور ہے بلکہ اس میں کوئی چشم دید گواہ بھی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈکیتی اور قتل کے اس مقدمے میں وہ خود مدعی تھے مگر پولیس نے انھیں ہی حراست میں لے لیا۔
کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے حکام کا کہنا ہے کہ کیس سے متعلقہ ضروری مواد حتمی تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک لیب لاہور بھجوا دیا گیا ہے جہاں سے رپورٹس موصول ہونے میں دو سے تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق جوں ہی پنجاب فرانزک لیب لاہور سے رپورٹس موصول ہوں گی، عدالت میں دونوں ملزمان کے خلاف مکمل چالان پیش کر دیا جائے گا تاکہ انھیں جرم کے مطابق سزا مل سکے۔
19 مئی کو نوشہرہ ورکاں کے دیہی علاقے کڑیال روڈ کے قریب ایک گھر میں 22 اور 19 سالہ دو بہنوں کی لاشیں موجود تھیں۔ اس واقعے کا مقدمہ مقتولین کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا جس میں انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ قریب بائیس سال سے اٹلی میں کام کر رہے ہیں اور واقعے سے چند روز قبل اٹلی سے واپس پاکستان آئے تھے۔
اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا وہ اٹلی کے شہری ہیں جبکہ علاقہ مکینوں کے مطابق وہ وہاں ملازمت کرتے تھے۔ والد نے مقدمے میں دعویٰ کیا کہ ڈاکوؤں نے ان کے سامنے ان کی دو بیٹیوں کا قتل کیا اور گھر سے نو لاکھ روپے بھی لے گئے تھے۔
انہوں نے پولیس کو بتایا تھا کہ صبح ساڑھے نو بجے وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک بینک سے 12 لاکھ روپے نکلوا کر گھر واپس آئے اور یہ رقم اپنی بڑی بیٹی کو سنبھالنے کے لیے دی۔ چھوٹی بیٹی نے مجھے بازار سے اپنے (ایف اے فرسٹ ایئر کے) امتحانات کے لیے کچھ چیزیں لانے کو کہا جس پر میں اور میری بیوی موٹر سائیکل پر گئے۔ مگر جب ’چیزوں کی تفصیلات پوچھنے کے لیے میں نے اپنے گھر بیٹیوں کو فون کیے تو ان کے موبائل نمبر پر کوئی کال اٹینڈ نہیں ہو رہی تھی جس پر ہمیں تشویش لاحق ہوئی۔
مقتولین کے والد نے دعویٰ کیا تھا کہ تین نامعلوم ملزمان میں سے ایک نے ’میری بڑی بیٹی کو پستول سے فائر مارے جو اسے سر اور چھاتی پر لگے۔ دوسرے ملزم نے میری چھوٹی بیٹی کو پستول سے فائر کیے جو اسے منھ پر اور سر کے پچھلے حصے پر لگے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اِن ڈکیتوں نے جان سے مارنے کی دھمکی دی اور ہاتھوں میں شاپنگ بیگ لیے فرار ہوگئے۔
ایف آئی آر میں مدعی باپ نے پولیس کو بتایا کہ فائرنگ سے دونوں بیٹیاں ہلاک ہو گئی تھیں اور سیف الماری سے 12 لاکھ پاکستانی روپے اور تین ہزار یورو غائب تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ نامعلوم ملزمان نے ڈکیتی کی اس واردات کے دوران ان کی بیٹیوں کو ناحق قتل کیا۔
کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے ایس ایس پی کیپٹن (ر) منصور امان نے بتایا کہ ’یہ حساس کیس تھا جس میں قتل کے تمام شواہد ماں باپ کی طرف ہی جاتے تھے۔انھوں نے بتایا کہ ’پولیس نے علاقے میں تمام سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ نکلوایا اور گلی سے گزرنے والے تمام افراد کے بارے میں معلومات جمع کیں۔ جو لوگ بھی گلی سے گزرے ان سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی لیکن ان میں کوئی ڈاکو نہیں تھا۔ کسی نے بھی وہاں سے تین ڈاکوؤں کو واردات کر کے گزرتے نہیں دیکھا، نہ ہی کوئی ایسے مشکوک افراد کسی سی سی ٹی وی کیمرے میں سامنے آئے۔‘
ایس ایس پی نے بتایا کہ مقتولین کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ چھوٹی بیٹی نے انھیں امتحانات سے متعلقہ اشیا خریدنے کے لیے بازار بھجوایا تھا۔ ان کے مطابق اس دکان میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لینے سے پولیس کو معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم وہاں نہیں گئے تھے اور ان کی موبائل فون پر لوکیشن بھی کسی اور جگہ کی نشاندہی کر رہی تھی۔
کیپٹن (ر) منصور امان کا کہنا ہے کہ دونوں میاں بیوی کے موبائل فونز کا فرانزک کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیچ واٹس ایپ پر بڑی بیٹی کی ’کورٹ میرج کے بارے میں بات ہوئی تھی۔ ان کے مطابق واٹس ایپ پر ان پیغامات میں والد ’سخت سیخ پا اور پریشان تھے۔ وہ جلد اٹلی سے پاکستان آنا چاہ رہے تھے۔
پولیس کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بڑی بیٹی نے دو سال قبل یونیورسٹی میں اپنے کلاس فیلو کے ساتھ ’خفیہ کورٹ میرج کر لی تھی۔ یہ بات چھوٹی بیٹی نے ماں کو بتائی اور ماں نے اپنے شوہر کو اٹلی فون کر کے آگاہ کیا۔
پولیس کو شک ہے کہ یہی بات سننے کے بعد لڑکیوں کے والد نے ’ہنگامی بنیادوں پر اٹلی سے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس نے اس کے علاوہ دیگر شواہد کی بھی نشاندہی کی۔ کیپٹن (ر) منصور امان کا کہنا ہے کہ ’گھر کا جائزہ لیں تو مین گیٹ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں جس سے گھر کے اندر جایا جا سکے۔ کرائم سین کا جائزہ لے کر یہ بات سامنے آتی ہے کہ لڑکیوں کے جسموں پر مزاحمت کے بھی نشانات نہیں۔‘
پولیس کے مطابق اس کیس میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی دفعہ 311 شامل کی گئی جو ناقابل ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ دفعہ 201 بھی شامل کی گئی ہے جو کسی جرم کو چھپانے سے متعلق ہے۔
پولیس کا الزام ہے کہ بیٹیوں پر فائرنگ ان کے والد نے کی مگر آلہ قتل کو چھپانے اور دیگر شواہد چھپانے میں مقتولین کی والدہ ملوث تھیں۔
تفتیشی افسر اور ڈی ایس پی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ انصر موہل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم سے جب تفتیشی ٹیم نے پوچھا کہ بڑی بیٹی کو خفیہ نکاح کرنے کی پاداش میں قتل کیا تو چھوٹی بیٹی کو کیوں مارا‘ تو اس پر ملزم کا جواب تھا کہ ’اسے (چھوٹی بیٹی کو) اس معاملے کا علم تھا لیکن اس نے بات چھپائے رکھی اور وہ بھی اپنی بڑی بہن کے اس مبینہ جرم میں شریک تھی۔مجھے لگا کہ اگر آج اسے چھوڑ دیا تو کل کو یہ بھی ایسا عمل (یعنی اپنی پسند سے شادی ) کر سکتی ہے۔