اسلام آباد(ویب ڈیسک ) کم عمر شادیوں پر پابندی عائد کرنے کا بل قومی اسمبلی نے منظور کر لیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی شرمیلا ہشام فاروقی کا نجی بل قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔ بل کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر مرد اور خاتون کا نکاح غیر قانونی ہو گا۔ نکاح خواں یقینی بنائے گا کہ میاں بیوی کے پاس نادرا سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ موجود ہو گا۔

بل کے تحت عملدرآمد نہ کرنے والے نکاح خواں کو ایک سال قید کی سزا دی جائے گی۔اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی سے نکاح کرنے والے مرد کو دو سے تین سال قید با مشقت کی سزا دی جا سکے گی۔اٹھارہ سال سے کم عمر افراد کے ساتھ رہنے کو چائلڈابیوز سے تعبیر کیا جائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکی کو شادی پر مجبور کرنے والے شخص کو پانچ سے سات سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔ بچوں کی سمگلنگ یا انہیں جبری طور پر ہجرت پر مجبور کرنے والے شخص کو پانچ سے سات سال سزا دی جا سکے گی۔ اٹھارہ سال سے کم عمر انسان کی شادی کرانے پر والدین کو دو سے تین سال قید با مشقت کی سزا دی جائے گی۔

ایکٹ کے تحت مقدمات کی سماعت کا مجاز محض متعلقہ سیشن جج ہو گا۔قانون سازی کی منظوری سے 1929 کا بچوں کی شادی کی ممانعت کا ایکٹ منسوخ ہوگیا۔
مزیدپڑھیں:گاڑیوں کے سوقین افراد کیلئے خوشخبری، سستی ترین الیکٹرک گاڑیاں آگئیں

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اٹھارہ سال سے کم عمر کرنے والے کی سزا دی سال قید

پڑھیں:

زائرین پر پابندی ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

اسلام ٹائمز: زائرین پر پابندی سے دہشت گردوں کے مقابلے میں ریاست کی رِٹ مزید کمزور ہوئی ہے۔ اگر ریاست اپنے تافتان و ریمدان کے راستے کو زائرین کیلئے محفوظ اور فعال بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس سے نہ صرف ہماری سیکیورٹی فورسز مضبوط ہونگی بلکہ ان مناطق میں حکومتی رِٹ بھی عملاً دکھائی دے گی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تافتان و ریمدان بارڈرز کو بند کرنے کے بجائے ملک کو درپیش اسٹرٹیجک چیلنجز کا شفافیّت کے ساتھ مؤثر مقابلہ کیا جائے۔ اگر اسٹرٹیجک چیلنجز کو حل کرنے میں شفافیّت نہ ہو تو پھر ہر اینٹ کے نیچے میر جعفر اور ہر پتھر کے نیچے میر صادق چھپا ہوا ہوتا ہے اور ایسے میں وطن کا تحفظ ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ہم نے کئی سال پہلے زائرین کے مسائل کو سنجیدگی سے اٹھانا شروع کیا تھا۔ ہمارے نزدیک تافتان روٹ پر زائرین کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک نہ صرف پاکستانی تہذیب و ثقافت کی تضحیک تھا بلکہ یہ آئین کے بھی خلاف تھا۔ ہم نے اس سلسلے میں متعدد تحریری درخواستیں لکھیں، آن لائن سیشنز منعقد کیے، اور حکومتی اداروں تک اپنی تجاویز پہنچائیں۔ ہمارے تمام تر کوششوں کے باوجود، ہماری آواز  بدقسمتی سے نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ گئی۔ جب ہم اپنی آواز بلند کر رہے تھے تو بعض احباب ہمیں خاموش کرانے کے لئے ریمدان بارڈر کی "خوشخبری" سنایا کرتے تھے، گویا تافتان کو چھوڑ کر ریمدان سے سفر کرنا اُن کے نزدیک یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ سچ کہتے ہیں کہ جو لوگ اپنے سماج کیلئے زبان نہیں ہِلا سکتے وہ اپنے سماج کے مسائل بھی حل نہیں کر سکتے۔

زائرین کے مسئلے پر کئی اہم شخصیات کی زبان پر تالے پڑے رہے۔ اسے مصلحت پسندی، غفلت، چاپلوسی، خوشامد یا سادہ دلی، جو بھی کہہ لیں یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج زائرین کیلئے پاکستان کے دونوں بارڈر بند کر دیے گئے ہیں۔ کبھی کبھار جب کسی کے ساتھ بہت زیادہ ہتک آمیز سلوک ہوتا تھا تو اُس کے شور ڈالنے سے کچھ دن سوشل میڈیا پر کوئی احتجاجی پوسٹ چلتی تھی، کبھی کبھار کوئی بول پڑتا تھا اور بس۔ اس مسئلے کے حل کو قومی سطح پر کسی  ایجنڈے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ خیر اب مسئلہ اگر  دہشت گردی کا ہے تو صرف زائرین پر ہی پابندی کیوں؟ اور مسئلہ اگر حکومتی رٹ کا ہے تو وہ تو زائرین پر پابندی کے باوجود کیوں قائم نہیں ہو رہی؟

13 اور 14 اگست 2025ء کی درمیانی شب خیبر پختونخواہ میں پولیس اسٹیشنوں اور چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا کہ ریاستی اداروں کی جغرافیائی اور عسکری پوزیشنیں دہشت گردوں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہیں۔ ان حملوں کی نوعیت اور وقت نے واضح کیا کہ دہشت گرد گروہ نہ صرف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ ریاستی طاقت کو چیلنج کرتے ہوئے مقامی سطح پر اپنی حکمت عملیوں کو کامیاب بنا رہے ہیں۔

بلوچستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں کی جغرافیائی ساخت اور قبائلی نظام نے حکومتی رٹ کو مزید کمزور کیا ہے، اور مقامی سطح پر حکومت کی موجودگی تقریباً مفقود ہو چکی ہے۔ دہشت گرد گروہ اور شدت پسند عناصر صوبے کے مختلف حصوں میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جس کا اثر پورے ملک کی سیکیورٹی پر پڑ رہا ہے۔ بلوچستان کے علاقے اور خیبر پختونخواہ کے سرحدی علاقے، جہاں ماضی میں ہمارے  ریاستی اداروں نے اپنے "مجاہد بھائیوں" کی جتھہ سازی کے مراکز بنائے تھے، وہی مراکز اب ملک و قوم کے خلاف کارروائیاں کرنے کے ٹھکانے بن چکے ہیں۔

دہشت گردوں نے یومِ آزادی جیسے اہم دن کو اپنی کارروائیوں کے لیے چنا تاکہ وہ نہ صرف عوامی سطح پر خوف و ہراس پیدا کریں بلکہ ریاستی رٹ کو چیلنج بھی کریں۔ ان حملوں کا مقصد حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کو اجاگر کرنا اور متعلقہ اداروں کی پروفیشنل تربیّت کو بے نقاب کرنا تھا۔ حملوں کے وقت اور دائرہ کار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ ہماری حکومتی فورسز کے مقابلے میں ایک بہترین و منظم حکمت عملی کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک اور اہم علامت یہ ہے کہ دونوں صوبوں میں سیکیورٹی فورسز کی استعداد کار میں کمی واقع ہو چکی ہے۔ پشاور، لوئر دیر، دیر بالا اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے اس بات کا اشارہ ہیں کہ ریاستی ادارے اپنے آپریشنز کو مؤثر طریقے سے نہ تو منظم کر پا رہے ہیں اور نہ ہی مقامی سطح پر عوامی حمایت حاصل کر پا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہ اپنی مرضی کے مطابق کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں، اور ریاست کی عملداری مزید دھندلی پڑتی جا رہی ہے۔

دوسری جانب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں حکومتی رٹ کے خاتمے کا اثر صرف سیکیورٹی فورسز اور عوامی اعتماد تک محدود نہیں رہا۔ اس کا نفسیاتی اثر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ جب عوام یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت اپنے ہی علاقوں میں اپنی عملداری کو قائم نہیں رکھ پا رہی، تو ان میں حکومتی اداروں کے خلاف شک و شبہات بڑھتے ہیں اور وہ شدت پسند گروپوں کی حمایت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ نفسیاتی جنگ صرف فورسز کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے لیے ایک خطرہ ہے۔

اس صورتحال میں حکومت کے لیے ایک ٹھوس اسٹرٹیجک پلاننگ کی ضرورت یہ ہے۔ ایک ایسی پلاننگ جس کے تحت حکومتی اداروں اور عوام کے درمیان تعلقات مضبوط  اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز مؤثر ہوں۔ اس کے لیے حکومت کو سیکیورٹی اداروں اور عوام کے درمیان دوستی کے رشتے کو فروغ دینے کے لیے پروفیشنل ٹریننگ  پروگرامز شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے تربیتی پروگرامز جو عوام کو سیکیورٹی فورسز کے کام کاج، ان کے مقاصد اور حکومتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ عوام میں سیکورٹی عملے کے بارے میں ایک مثبت اور تعمیری جذبہ پیدا ہو۔ اسی طرح سیکیورٹی فورسز کو بھی عام  آبادی کے ساتھ مؤثر روابط کے طریقے سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عوام میں موجود بدگمانیوں اور بے اعتمادی کو دور کر سکیں۔

ہمیں امید ہے کہ عوام کو سرکاری اداروں سے قریب کرنے سے عوامی حلقوں میں شکوک و شبہات کو کم کرنے اور دہشت گردوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں تمام سرکاری اداروں کے بارے میں عوام سے فیڈبیک حاصل کرنے اور ان کی مشکلات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کے دلوں کو جیتنے کیلئے ہر جگہ مقامی سطح پر سرکاری اداروں کی اصلاح  کو اہمیت دی جانی چاہیئے۔ عوام اور سرکاری اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا کیلئے  عوامی سطح پر سروے، جلسے، آنلائن سیشنز، کانفرنسز، ملاقاتوں، اور شکایات کی وصولی  کا  انتظام و اہتمام کیا جانا چاہیئے۔

عوام کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کو مقامی کمیونٹی  اور شکایت کنندگان کے ساتھ زیادہ قریبی روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی ضروریات اور مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کی جا سکے اور فوری طور پر ان پر کارروائی کی جا سکے۔ اس سے نہ صرف عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی عدمِ اعتماد کی فضا کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

اگر حکومت فوری طور پر اس بحران کو حل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو آگے چل کر یہ دونوں صوبے، اور بالخصوص ان کے سرحدی علاقے، ریاستی عملداری سے مکمل طور پر باہر ہو سکتے ہیں، جس سے نہ صرف داخلی سلامتی کی صورت حال مزید سنگین ہوگی، بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کی سیکیورٹی کی قابلیت پر سوالات اٹھائے جائیں گے۔ نیز دہشت گرد گروہ اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے، جس کا اثر پورے ملک کی قومی سلامتی پر پڑے گا۔

ان مسائل کے حل کے لیے حکومت کو اپنی سیکیورٹی حکمت عملی میں فوری تبدیلی لانی چاہیئے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں فورسز کی پروفیشنل اور پبلک ریلیشن کی استعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر نظارت و نگرانی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں پولیس کی تربیت اور وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ، مقامی عوام کے ساتھ روابط کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں کے خلاف ایک مضبوط مزاحمت قائم کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، بلوچستان میں مقامی سطح پر سیاسی و اقتصادی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ مقامی آبادی کو حکومت پر اعتماد ہو اور وہ شدت پسندی کے بیانیے سے ہٹ کر ریاست کے ساتھ جڑ سکے۔

زائرین پر پابندی سے دہشت گردوں کے مقابلے میں ریاست کی رِٹ مزید کمزور ہوئی ہے۔ اگر ریاست اپنے تافتان و ریمدان کے راستے کو زائرین کیلئے محفوظ اور فعال بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، تو اس سے  نہ صرف ہماری سیکیورٹی فورسز مضبوط ہونگی بلکہ ان مناطق میں حکومتی رِٹ بھی عملاً دکھائی دے گی۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ تافتان و ریمدان بارڈرز کو بند کرنے کے بجائے ملک کو درپیش اسٹرٹیجک چیلنجز کا شفافیّت کے ساتھ مؤثر مقابلہ کیا جائے۔ اگر اسٹرٹیجک چیلنجز کو حل کرنے میں شفافیّت نہ ہو تو پھر ہر اینٹ کے نیچے میر جعفر اور ہر پتھر کے نیچے میر صادق چھپا ہوا ہوتا ہے اور ایسے میں وطن کا تحفظ ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی یہی کہا تھا اور آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ زائرین ہمارا قومی اثاثہ ہیں، یہ ہمارے ملک میں روحانیت، نیکی، تربیّت، تجارت، معیشت اور ترقی کا وسیلہ ہیں، ان کی قدر کیجئے۔ ہماری اوّل  دِن سے یہی بات ہے البتہ یہ الگ بات ہے کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

متعلقہ مضامین

  • ملک سے فرار کی کوشش ناکام، یوٹیوبر ڈکی بھائی کو لاہور ایئرپورٹ سے گرفتار کرلیا گیا، جسمانی ریمانڈ منظور
  • سوشل میڈیا پر پاکستانی پرچم کی بےحرمتی کرنے والے ملزم گرفتار
  • پنجاب بھر کی جیلوں میں خطرناک قیدیوں کی وی وی آئی پی ملاقاتوں پر پابندی عائد
  • فرق نہیں پڑتا حکومت کون کر رہا ہے، ملکی ترقی ضروری ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • والد اور بہنوں پر فائرنگ کرنے والے مفتی کفایت اللّٰہ کے بیٹے کو گرفتار کرلیا گیا
  • زائرین پر پابندی ۔۔۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
  • ڈیجیٹل میڈیا پر غیراخلاقی مواد کی روک تھام کے لئے بل قومی اسمبلی میں پیش
  • سابق سری لنکن کرکٹر پر پانچ سال کی پابندی عائد
  • ایران کے اسپیکر قومی اسمبلی کو پاکستان کے دورے کی دعوت
  • مانسہرہ: نالے میں طغیانی کے باعث پھنسنے والے 1300 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا