الفا براوو چارلی میں گُل شیر کا کردار کیسے ملا؟ کرنل (ر) قاسم شاہ نے بتادیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
پاکستان کے مقبول ترین فوجی ڈراموں سنہرے دن اور الفا براوو چارلی سے شہرت پانے والے کرنل (ریٹائرڈ) قاسم شاہ نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں دلچسپ روداد سنائی ہے۔
سابق کرنل قاسم شاہ نے بتایا کہ الفا براوو چارلی میں سب سے مشہور ہونے والا کردار گل شیر انھیں کس طرح ملا تھا۔
کرنل قاسم شاہ نے بتایا کہ ہدایتکار شعیب منصور سے دلچسپ مکاملہ ہوا تھا۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں پاکستان ملٹری اکیڈمی (PMA)میں کیڈٹ تھا اور کسی وجہ سے اکیڈمی میں سزا کے طور پر رکا ہوا تھا جب کہ باقی سب کیڈٹس چھٹی پر چلے گئے تھے۔
ریٹائرڈ قاسم شاہ نے مزید بتایا کہ ایک دن کمانڈر صاحب نے بلایا اور کہا کہ شعیب منصور دو دن کے لیے آئے ہیں، تمیں ان کے ساتھ رہنا ہے اور کمپنی دینی ہے۔
سابق کرنل قاسم شاہ نے نے بتایا کہ میں نے شعیب منصور کو اکیڈمی کے مختلف حصے دکھائے۔ وہ مسلسل مجھے دیکھتے اور مسکراتے رہے جس پر میں حیران بھی ہوا تھا۔
پھر شعیب منصور چلے گئے اور میں یہ سب بھول گیا لیکن دو ماہ بعد اچانک مجھے اکیڈمی ہیڈکوارٹر میں بلایا گیا جہاں نامور اداکار پہلے ہی بیٹھے ہوئے تھے۔
قاسم شاہ نے بتایا کہ پہلے میں سمجھا کہ مجھ سے شاید کوئی غلطی ہوگئی ہے لیکن وہاں مجھے ایک اسکرپٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ اسے پڑھو۔
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ میں گھبرا گیا لیکن جب ڈائیلاگ بولے تو سب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے، ہمیں ہمارا گل شیر مل گیا۔
سابق کرنل قاسم شاہ نے بتایا یوں مجھے الفا براوو چارلی میں گل شیر کا کردار مل گیا اور سب سے زیادہ یہی کردار مقبول بھی ہوا تھا۔
خیال رہے کہ 25 سال قبل پیش کیا گیا یہ ڈراما آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔ گل شیر کی سادگی اور معصومیت نے سب کے دل موہ لیے تھے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قاسم شاہ نے بتایا کرنل قاسم شاہ نے بتایا کہ ہوا تھا گل شیر
پڑھیں:
کردار اور امید!
1947میں تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد‘ تقریباً ڈیڑھ کروڑ نفوس دونوں اطراف سے اپنے نئے ممالک میں کوچ کر گئے۔ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔
اگر ٹائن بی کو غور سے پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ چشم فلک نے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں اور ان کے خاندانوں کو حد درجہ بے بسی سے لٹتے پٹتے ہوئے ‘ ایک ملک سے سرحد پار‘ اپنے نئے وطن میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ قتل و غارت تو خیر ہر جانب سے ہوئی۔ اس خون ریزی سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ ا گر صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ کروڑوں انسانوں نے اپنے گھر بار ‘ کاروبار اور آبائی شہروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟ کیا وجوہات تھیں کہ ان گنت نفوس‘ بغیر کسی سابقہ تجربہ کے یک دم‘ مہاجر بن گئے؟ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کی تمام جزئیات کو ایک مختصر کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔
مگر طالب علم کو دو وجوہات ایسی معلوم پڑتی ہیں جنھوں نے لوگوں کو ذہنی طور پر قائل کیا‘ اور انھوںنے فانی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا۔ پہلا عنصر تو یہ‘ اس وقت کی قیادت اور ان کے دعوؤں پر عام آدمی کو مکمل یقین تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت محمد علی جناح کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ یہی حال ‘ ہندوؤں کا گاندھی اور نہرو پر مکمل اعتماد کا تھا۔ اگر ہم صرف‘ مسلمانوں کی بات کریں۔ تو اس میں بھی ہمیں دو طرح کے رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم آبادی چورانوے ملین (94 Millin) کے لگ بھگ تھی۔ واضح اکثریت نے قائداعظم کی باتوں پر لبیک کہا اور نئے ملک یعنی پاکستان آ گئے۔ مگر‘ ہندوستان کو نہ چھوڑنے والے مسلمان بھی کروڑوں میں تھے۔
جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پاکستان نہیں آئی۔ بہر حال‘ اعداد و شمار کی بحث سے نکل کر‘ اگر ہم واقعاتی طرز پر معاملہ دیکھیں تو قائد کی شخصیت پر بھرپور اعتماد ‘ وہ بنیاد بنی‘ جس نے لوگوں کو نامعلوم شہروں کی طرف آنے پر آمادہ کر لیا۔ مگر سوچئے‘ کہ جناح صاحب اور 1947کے مسلمانوں میں تو کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی۔ قائد‘ مغربی طرز پر زندگی گزارنے والے دولت مند انسان تھے۔ مالا بار ہلز میں ان کا گھر‘ ایک محل کی طرح تھا۔ کھاناپینا بھی‘ عام لوگوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ گھر میں کانٹی نینٹل اور دیگر کھانے بنانے والے علیحدہ علیحدہ باورچی تھے۔ کپڑوں کو ملاحظہ کریں تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ برصغیرکے نناوے فیصد لوگ‘ اتنے قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جناح صاحب کے پاس‘ بیش قیمت گاڑیاں تھیں۔ قیمتی ترین سگار پیتے تھے۔
چھٹیاں گزارنے کے لیے لندن ‘ پیرس‘ اور مغربی ممالک میں رہتے تھے۔ تو پھر کیا۔ یہ سوال پوچھنا مناسب نہیں ہے کہ… ایک ایسا شخص جس کی مماثلت ‘ کسی طور پر عام مسلمانوں کے طرز زندگی سے نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پر آنکھ بند کر کے کیسے یقین کر لیا؟ جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جناح صاحب کا کردار اتنا پختہ اور مضبوط تھا کہ ان پر مسلمان تو کیا‘ غیر مسلم بھی مکمل یقین کرتے تھے۔ کردار کی عظمت وہ بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کو جواز فراہم کیا ‘ کہ آنکھیں بند کر کے‘ نئے وطن کی طرف روانہ ہوجائیں۔ خون کے دریا گزرنے سے بھی نہ گھبرائیں۔ جائیداد بھی پیروں کی زنجیر نہ بننے پائی۔ قائد کا کردار ہی وہ کنجی ہے‘ جس سے پاکستان جیسے عظیم ملک کو قائم کرنے کا تالہ کھل پایا۔
مگر اس کے علاوہ‘ ایک حد درجہ اہم عنصر اور بھی تھا۔ جسے پہچاننے اور ذہن نشین کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ یہ ‘ کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن تھی۔ یقین تھا کہ نیا وطن‘ پاکستان ان کے لیے بے پناہ مواقع لے کر آئے گا۔ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ اقتصادی ترقی‘ ان کے قدموں میں ہو گی۔ خود پاکستان کے خالق نے ان نئی جہتو ں کا متعدد بار اعادہ کیا تھا۔ بارہا اعلان کیا تھا کہ نئے ملک میں مسلمانوں کو ذاتی ترقی کے وہ تمام مواقع دستیاب ہوں گے جو آج تک ہندو اکثریت نے انھیں فراہم نہیں کیے۔
یہ بات بالکل درست تھی کہ پاکستان ایک ایسا خواب تھا‘ جو مسلمانوں کے ہر مثبت قدم کی تعبیر تھا۔ 1940سے لے کر 1947سے مسلمانوں میں امید کی یہ کرن ‘ اتنی طاقتور ہو چکی تھی کہ انھیں اپنا سب کچھ لٹانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ دلیل کو سمیٹے ہوئے‘ یہ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے بلند کردار‘ نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کے ایسے چراغ جلا دیے تھے کہ وہ سود و زیاں سے بالاتر ہو چکے تھے۔ مگر قائد کی بیماری اور وفات نے‘ ملک کو ایسے معاملات سے دو چار کر دیا جس نے تمام رموز سلطنت‘ حددرجہ ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں دے ڈالے۔
یہ وہ حکمران تھے‘ جو بذات خود‘ پاکستانیوں کے لیے ام المسائل تھے۔ شعوری طور پر لوگوں کو مفلوج کر کے ایک سراب تخلیق کیا گیا۔ جہاں پر آج تک ‘ کسی بھی پاکستانی کی رسائی نہیں ہو پائی۔ غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ وہ ناعاقبت اندیش حکمران تھے‘ جنھوں نے ملک کی بہتری اور لوگوں کی خدمت کے بجائے‘ سازش کے ذریعے ملک پر مسلسل حکمرانی کا ارادہ کیا۔ دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں گئے۔ مگر جاتے جاتے‘ ملک کی بنیادوں کو ہلا گئے۔ آمروں نے عمومی حکمرانی‘ سازش اور قومی تشخص کی کمزوری کی بنیاد پرکی ۔ کھوکھلے نعرے‘ بے مقصد تقریبات ‘ تشدد پسندی جذباتیت ‘ فرقہ پرستی اور نفرت کے ایسے بیج بوئے جو آج توانا ہو کر برگد کے درخت نہیں‘ بلکہ مہیب جنگل کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں۔ ملک کی زمین کو انھوںنے فروعی کانٹوں سے پر کر دیا‘ جو اب بارودی سرنگیں بن چکی ہیں۔ یعنی قائداعظم کی رحلت کے بعد ‘باکردار حکمران تو خیر آئے ہی نہیں‘ یا آنے نہ دیے گئے۔
ملک کے عام لوگوں کی امید کی تمام روشنی کو بھی اندھیرے میں بدل دیا ۔ سیاست دانوں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ مال و دولت کا ناجائز ذخیرہ ان کی زندگی کامقصد بن گیا۔ ہاں‘ ایک اور بات‘ جس سیاست دان یا شخص نے ملک کی بہتری کی کوئی بھی کوشش کی اسے منفی حکمت عملی سے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ جس وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا۔ نوے ہزار جنگی قیدی واپس لانے کا لازوال کارنامہ انجام دیا۔ بدلے میں عدالت کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔ جس سیاست دان نے ملک میں شہریوں کے لیے موٹرویز کا خوبصورت جال بچھایا۔ نئے ایرپورٹ تعمیر کروائے ‘ ہمسایہ ملک کے ساتھ پائیدار امن کی بات کی‘ اسے برباد کر دیا گیا اور آج بھی راندہ درگاہ ہے۔ جس خاتون وزیراعظم نے عوامی سطح کی خدمت کرنے کی جوت جگائی۔ اسے سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے‘ یہ سب منفی ترین کام کیے ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر پایا۔
گزشتہ تین برس ملک پر خصوصی طور پر بھاری پڑے۔ 30لاکھ پاکستانی ‘ اپنے اثاثے اونے پونے فروخت کر کے پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے۔ بلوم برگ جیسے معتبر چینل کے مطابق‘ یہ لاکھوں لوگ کوئی مزدوری کرنے نہیںگئے۔ یہ ان پڑھ افراد بھی نہیں تھے۔ ان میں پروفیشنل‘ کامیاب کاروباری اشخاص‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین اور اسی سطح کے لوگ تھے۔ مگر سوچیئے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ اور آج بھی کیوںبدستور جاری ہے؟ دراصل ‘ پاکستانیوں کی اکثریت ‘ اپنے حکمرانوں میں بلند کردار کے اوصاف نہیں دیکھتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سڑک چھاپ‘ سائیکل سے حد درجہ دونمبر ذرایع سے ارب پتی بن گئے۔ اور اب حق ِحکمرانی کو صرف اپنے تک محدود کر چکے ہیں۔ ہر وقت نت نئے اسکینڈل ‘ اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
مگر کسی قسم کا کوئی احتساب نہیں ہو پاتا۔ اچھے کردار کی بات کیا کرنی‘ اب تو جو حقیقتاً منفی صفات کا مالک ہے ‘ وہ خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس ناجائز حکمرانی نے لوگوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کر دی ہے۔ ان سے بہتری کی معمولی سے معمولی امید بھی چھین لی ہے۔ انھیں یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس ملک میںان کا اور ان کی اولاد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
ایک غیر جانبدار سروے کروا لیجیے۔ آپ کے سامنے ‘ حکمرانوں کے کردار اور امید کے متعلق تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سچ سب جانتے ہیں مگر سچ سننا نہیں چاہتے۔ ملک کی ناکامی کی وجوہات سب سمجھتے ہیں۔ مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے قصداً کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ سرکاری سطح پر ناکامی کو چھپانے کے لیے‘ جھوٹ کی مکمل سرپرستی کی جا رہی ہے۔ صحرا میں پل بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جانتے ہوئے کہ صحرا میں پانی کا گزر کبھی ہو گا ہی نہیں۔ ناامیدی کو اب‘ امید میں بدلنا معروضی طور پر ممکن نہیں رہا۔ اور ہاں۔ حکمران طبقہ میں بلند کردار کی بات کرنا‘ صرف اور صرف وقت کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ جناب! یہاں حالات ‘ کم از کم عوام کے تو نہیں بدلنے والے! باقی آپ خود سمجھدار ہیں!