اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے رابطہ کیا اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے کوششوں پر ایرانی صدر کا شکریہ ادا کیا، وزیراعظم نے تہران کے سرکاری دورے کی ایرانی صدر کی دعوت قبول کرلی، وزیراعظم اگلے ہفتے ایران جائیں گے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے 
اعلامیے کے حوالے سے بتایا کہ ٹیلی فونک گفتگو میں وزیراعظم نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا، وزیراعظم نے جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کے لئے کوششوں پر ایرانی صدر کا شکریہ ادا کیا۔وزیرِ اعظم نے بحران کے دوران ایرانی وزیر خارجہ کو خطے میں بھیجنے پر شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت کے بلا اشتعال حملوں میں خواتین، بچوں اور معصوم شہریوں کی شہادت ہوئی، پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں ہے۔
وزیر اعظم نے بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی کوشش پر تشویش کا اظہار کیا اورکہا کہ بھارت کے اس اقدام کو غیر قانونی اور پاکستان کے لئے سرخ لکیر سمجھتے ہیں، جموں و کشمیر کا تنازع جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے، مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی کلید ہے۔
دونوں رہنماو¿ں نے تجارت، علاقائی روابط اور سلامتی میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم نے تہران کے سرکاری دورے کی ایرانی صدر کی دعوت قبول کرلی، وزیراعظم شہبازشریف آئندہ ہفتے ایران کے دورے پر جائیں گے۔

آپریشن بنیان مرصوص پاک فوج کی بڑی کامیابی ہے:امریکی اخبار میں مضمون

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: جنوبی ایشیا میں شکریہ ادا کیا ایرانی صدر کے لئے

پڑھیں:

اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (پہلی قسط)

اسلام آباد میں تعینات ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاء اللہ شاکری میڈیا سے وقتا فوقتا گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایران کی اوپن اسلامی یونیورسٹی کی نیوز ایجنسی سے پاک ایران تعلقات کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو کو اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے دو قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے۔ امید ہے یہ انٹرویو قارئین کی معلومات میں اضافے کا باعث بنے گا۔ ترجمہ: علی واحدی

سوال: براہ کرم ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو گہرا کرنے اور اسکے فروغ کی کیا ضرورت ہے اور اس کی سیاسی و تاریخی وجوہات کیا ہیں؟
سب سے پہلے یہ عرض کروں کہ ہمارے تمام ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان، ترکی، عراق، اور افغانستان کے ساتھ عقیدتی، تاریخی اور تہذیبی مشترکات ہیں اور انکے ساتھ ہماری ایک مشترکہ سرحد بھی ہے۔ اسی طرح ہمارا ان ممالک کے ساتھ مفادات اور علاقائی مسائل کے حوالے سے کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ درحقیقت ان میں سے کچھ ممالک اپنے آپ کو اسلام کی تہذیب کی توسیع سمجھتے ہیں، جو قدیم ایران میں بنی تھی اور بعد میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں سمیت دیگر حصوں کو برآمد کی گئی تھی۔

پاکستان کی آزادی کے بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت پہلے سے ایک طرح کی قربت اور ہم آہنگی رہی ہے لیکن میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی اصل کو ملک پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا وقت نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس تاریخ سے بہت پہلے پاکستان کے مشہور شاعر علامہ اقبال لاہوری مرحوم کی شخصیت اور شاعری کو سمجھتا ہوں۔ انکی ملک ایران سے خصوصی دلچسپی تھی۔ ان کا انتقال 1938ء میں ہوا، یعنی پاکستان کی آزادی سے 9 سال پہلے، اور ان سے پہلے، امیر خسرو دہلوی جیسی کئی ایرانی ہستیاں برصغیر پاک و ہند میں مقیم تھیں۔

اسلام سے پہلے کی تاریخ میں بھی بزرگمہر حکیم نے خسرو انوشیروان کی طرف سے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں سے کتاب کلیلہ اور دمنہ ایران لے کر آئے۔ بہرصورت برصغیر پاک و ہند اور ایران کے درمیان ثقافتی تبادلہ بہت مضبوط رہا ہے اور اسلام کے بعد یہ مسئلہ اور شدت اختیار کرگیا اور پاکستان کی آزادی کے بعد ایران اور پاکستان کے درمیان ایک قسم کا شناختی بندھن قائم ہوگیا ہے۔ اس لیے اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کی ضرورت کی بہت ساری وجوہات ہیں۔

سوال: ان تعلقات کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران اور نظام کے سربراہ کی حیثیت سے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا اسٹریٹیجک نقطہ نظر کیا ہے؟
سب سے پہلے، رہبر انقلاب نے اسقلال ھند "انڈین انڈیپنڈنس" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے ہندوستان کی تحریک آزادی کی تشکیل میں مسلمانوں کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ حال ہی میں، میں نے ایک اور کتاب دیکھی جس کا نام "سرزمین پاک" ہے جو کہ پاکستان کی سرزمین کے حوالے سے ان کے بیانات کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ، اپنے دور صدارت میں ان کا ایک بہت ہی شاندار غیر ملکی دورہ، دورہ پاکستان تھا، جس کا اس ملک کے عوام اور حکومت نے بہت وسیع سطح پر استقبال کیا تھا۔ اس لیے، اول، قائد انقلاب خود ایک برصغیر کے ماہر، دوم، پاکستان کے ماہر، اور سوم، وہ ایک دوراندیش اور بابصیرت شخصیت ہیں۔ لہٰذا سرزمین پاکستان پر ان کی خصوصی توجہ نمایاں ہے۔

دوسری جانب ان کے رہنما اصول یہ ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ سفارتی تعلقات اعلیٰ ترین سطح پر ہونے چاہئیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان 240 ملین سے زیادہ آبادی کا ملک ہے، ہمارا سب سے بڑا ہمسایہ اور اہم اسلامی ممالک میں سے ایک ہے۔ اس ملک نے ECO تنظیم جیسی مشترکہ تنظیموں کے قیام کے عمل میں بھی ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے اور بعض بین الاقوامی اداروں جیسے کہ اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی بہت مضبوط موجودگی بین الاقوامی میدان میں ایک بہت اہم، ممتاز اور اسٹریٹیجک حیثیت کی حامل ہے۔ پاکستان خطے کا بااثر کھلاڑی ہے۔

سوال: آپ ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان حالیہ 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے ایران اور پاکستان کے تعلقات پر کیا اثرات دیکھتے ہیں؟
پاکستان نے مختلف وجوہات کی بناء پر اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی  بھرپور حمایت کی۔ اس حمایت کا اظہار پہلے عوامی سطح پر اور میڈیا اور دانشوروں کی سطح پر مختلف شکلوں میں ہوا اور پھر حکومت، جماعتوں اور قانون ساز اداروں پارلیمنٹ اور سینیٹ کی سطح پر نمایاں ہوا۔ صیہونی حکومت کے خلاف ہمارے مؤقف کی انتہائی واضح، دانشمندانہ اور مستند انداز میں حمایت کرنے والے ممالک میں سے ایک پاکستان تھا۔ قدرتی طور پر، ایک ایسے ملک کے طور پر جسے اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں میں قبول کیا جاتا ہے، ہم نے اس سال مئی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی جنگ میں ثالثی کی کوشش کی ہے۔

ہم نے آگ بجھانے کا کردار ادا کیا اور ماحول کو اس طرح نرم کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان کے تئیں ہمارے ملک کی خیرسگالی کا بھرپور مظاہرہ ہوا۔ اس واقعے کے بعد جناب شہباز شریف نے شکریہ کے طور پر ہمارے ملک کا دورہ کیا اور 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے بعد ہمارے صدر جناب ڈاکٹر پزشکیان نے کابینہ کے ارکان کی ایک قابل ذکر تعداد کے ساتھ پاکستان کا سفر کیا، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے 12 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ یہ دورہ ایک طرح سے ایران کے لیے پاکستان کی جامع حمایت کے لیے شکریہ اور تعریف بھی تھا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں تعینات سابق ایرانی سفیر ڈاکٹر ماشاءاللہ شاکری کے انٹرویو سے اقتباس (پہلی قسط)
  • برطانوی وزیر خارجہ کا نائب وزیراعظم سے رابطہ، سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر اظہار افسوس
  • بھارت میں شیڈول ایشیا ہاکی کپ کے منتظمین کا پاکستان کی جگہ متبادل ٹیموں سے رابطہ
  • ایشیا کپ اور سہ ملکی سیریز کیلئے قومی اسکواڈ کا اعلان، بابر اور رضوان باہر
  • ایرانی صدر مسعود پزشکیان کا پاکستان کی حکومت اور عوام کے نام تعزیتی پیغام
  • ایرانی صدر کا پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریوں پر اظہار افسوس، امداد کی پیشکش
  • مسعود پزیشکیان کا پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریوں پر اظہار افسوس، امداد کی پیشکش
  • وزیراعظم کا ہنگامی اجلاس طلب، بارشوں اور سیلابی صورتحال پر غور
  • ایشیا کپ، 3 ملکی سیریز: اسکواڈ کے انتخاب کیلئے ابتدائی مشاورت
  • ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے پاکستان کی معیشت پر عالمی اعتماد بحال، موڈیز نے کرنسی ریٹنگ اپ گریڈ کر دی