مرحوم کلینی کی کتاب "الکافی" کا تعارف
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: زیادہ تر شیعہ محققین کا ایک منصفانہ اور معتدل نظریہ ہے کہ اگرچہ کتاب کافی بے شمار خوبیاں اور اہم خصوصیات رکھتی ہے، لیکن اس میں کچھ ایسی روایات بھی موجود ہیں، جو ضعیف السند (یعنی سند کے اعتبار سے کمزور) ہیں۔ تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
کتاب کافی، صرف اوراق کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک روحانی سفرنامہ ہے، جو قاری کو عقل و نقل کے سنگم پر لا کھڑا کرتا ہے۔ شیخ کلینی کی یہ عظیم تالیف اُن زمانوں کی یادگار ہے، جب علمِ روایت زبانی و حفظی خطوط سے قلمی زباں میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ یہ کتاب اسلامی فکر کی تہذیب، اخلاق اور روحانی تاریخ کا معتبر حوالہ ہے۔ جس میں فقہ، عقائد، ایمان، اخلاق، قیادت اور معاشرت کے وہ لطیف و عمیق پہلو موجود ہیں، جنہوں نے امت کے فکری خدوخال تراشے اور ضمیر کو جلا بخشی۔
کتاب کا نام
ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینی نے اپنی اس تصنیف کو خود کوئی خاص نام نہیں دیا، اس لیے اسے ابتدائی طور پر "کتابِ کلینی" کہا جاتا رہا۔ بعد ازاں شیخ طوسی و نجاشی نے اسے "الکافی" کا نام دیا۔ جو ممکنہ طور پر اس عبارت سے ماخوذ ہے، جہاں مرحوم کلینی نے کہا: "و قلت أنك تُحِبُّ أن يكون عندك كتاب كاف يجمع فيه من جميع فنون علم الدين .
...." نیز نجاشی نے بھی اپنی کتاب "رجال" میں لکھا "صنف الكتاب الكبير المعروف بالكليني، يُسمى الکافی" مرحوم کلینی نے ایک عظیم کتاب تصنیف کی جو (کلینی کی کتاب) کے عنوان سے معروف ہوئی اور بعد میں اسے "الکافی" کا نام دیا گیا۔ مرحوم کلینی نے اس کتاب کو بیس سال کے عرصے میں مکمل کیا۔
کتاب کی مرحوم کلینی طرف کی نسبت!!
کتابِ کافی کا انتساب شیخ ابو جعفر محمد بن یعقوب کلینیؒ کی جانب مسلم اور مشہور ہے۔ شیعہ فہرست نویس جیسے نجاشی (متوفی 450ھ) اور شیخ طوسی (متوفی 460ھ) نے واضح طور پر اسے کلینیؒ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ نجاشی لکھتے ہیں: "کہ ایک بڑی اور زخیم کتاب کہ جو کافی کے نام سے مشہور ہے، شیخ کلینی کی تصنیف ہے۔" اسی طرح شیخ طوسی نے بھی کافی کو کلینیؒ کی متعدد کتابوں میں شمار کیا ہے۔ الکافی کے تینوں حصے "اصول، فروع اور روضہ" سبھی کلینیؒ کی طرف منسوب ہیں۔ البتہ بعض اخباری علماء، خصوصاً ملا خلیل قزوینی (متوفی 1089ھ)، نے روضۂ کافی کی نسبت پر شبہ ظاہر کیا ہے اور اسے ابن ادریس حلی کی تالیف قرار دیا، اس بنیاد پر کہ روضہ میں موعظہ و تاریخ زیادہ اور فقہی روایات کم ہیں۔ چونکہ فقہاء ان موضوعات میں سند کی سختی نہیں برتتے تھے، اس لیے روضہ کی روایات میں سندی و متنی ضعف نسبتاً زیادہ ہے۔
تاہم یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کیونکہ:
1۔ روضہ کی اسنادی ساخت وہی ہے، جو اصول و فروع کافی میں ہے، مثلاً "عدة من أصحابنا" کی تعبیر، عنعنہ، اور اختصارات وغیرہ۔
2۔ روضہ میں بھی اکثر اسناد کلینی کے مشائخ سے شروع ہوتی ہیں، جبکہ ابن ادریس اور کلینی کے درمیان تقریباً ڈھائی سو سال کا فاصلہ ہے، اس لیے ابن ادریس کے لیے ان مشائخ سے براہِ راست روایت کرنا ممکن نہیں۔
3۔ نجاشی اور شیخ طوسی جیسے متقدم علماء نے بھی اپنی فہرستوں میں روضہ کو کتاب کافی کا حصہ اور کلینی کی تصنیف قرار دیا ہے۔ لہٰذا "روضة کافی" بھی اصول و فروع کی طرح کلینیؒ کی معتبر و مسلم الثبوت تصنیف ہے۔
تالیف کا مقصد:
مرحوم کلینی نے کتاب کافی کے آغاز میں اس کی تالیف کا مقصد بیان کیا ہے۔ کتاب کے مقدمے جو بظاہر کتاب کی تالیف کے بعد تحریر کیا گیا ہے، یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ جامع کتاب اپنے ایک دوست کی درخواست پر لکھی۔ مرحوم کلینی نے اس کا جواب یوں دیا: "و ذكرت أن أموراً قد أشكلت عليك، لا تعرف حقائقها لاختلاف الرواية فيها و أنك تعلم أن اختلاف الرواية فيها لاختلاف عللها و أسبابها و أنك لا تجد بحضرتك من تذاكره و تفاوضه ممن تثق بعلمه فيها وقلت إنك تُحب أن يكون عندك كتاب كاف يجمع فيه من جميع فنون علم الدين ما يكتفى به المتعلم و يرجع إليه المسترشد و يأخذ منه من يُريدُ علم الدين و العمل به بالآثار الصحيحة عن الصادقين (علیهم السلام)"، "تم نے اپنے خط میں لکھا کہ کچھ امور تمہارے لیے پیچیدہ ہوچکے ہیں، جن کی حقیقت تم روایات کے اختلاف کی وجہ سے نہیں سمجھ پاتے اور تم جانتے ہو کہ ان روایات کے اختلاف کی اپنی علتیں اور اسباب ہیں۔ نیز تم نے یہ بھی لکھا کہ تمہارے علاقے میں ایسا کوئی قابلِ اعتماد عالم موجود نہیں ہے، جس کے ساتھ ان امور پر علمی گفتگو کی جا سکے اور تم نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ تمہارے پاس ایک ایسی کتاب ہونی چاہیئے، جو دینی علوم کے تمام شعبوں پر مشتمل ہو، جو طالب علم کے لیے کافی ہو، رہنمائی کا خواہشمند اس کی طرف رجوع کرے اور جو شخص دینی علم حاصل کرنا اور صحیح روایات کے مطابق عمل کرنا چاہے، وہ اس کتاب سے فائدہ اُٹھا سکے۔"
کتاب کافی کے مصادر:
شیخ کلینی نے کتاب کافی میں واضح طور پر ان مصادر کا ذکر نہیں کیا، جن سے انہوں نے اس کتاب کی تالیف میں استفادہ کیا۔ تاہم اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ الأصول الأربع مائة (چار سو اصولی کتب) اور ابتدائی حدیثی مجموعوں کے زمانے کے بہت قریب تھے اور یہ کتابیں اُس وقت رائج تھیں، یہ احتمال قوی ہے کہ کلینی نے ان منابع سے استفادہ کیا ہو۔ کافی کی اسناد کا مطالعہ بھی اس کی تائید کرتا ہے، کیونکہ ان میں ایسے افراد کے نام آتے ہیں، جو کلینی کے مشائخ کے بعد کی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اور خود حدیثی کتابوں کے مؤلفین میں شمار ہوتے ہیں۔ مثلاً احمد بن محمد بن خالد برقی، جو کتاب "محاسن" کے مصنف تھے اور جن سے کلینی نے اپنے کئی اساتذہ کے واسطے سے روایت نقل کی ہے۔ لہٰذا اس طرح کی کتابوں کو کتاب کافی کے مصادر میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
احادیث کی تعداد
اکثر محققین کے نزدیک کافی میں احادیث کی تعداد 16199 ہے جبکہ بعض نے اس تعداد کو 16121 اور بعض نے 15508 بھی لکھا ہے۔
کتاب کا ڈھانچہ
مرحوم کلینی نے نہایت مؤثر انداز میں کتاب کو تین بنیادی حصوں پر ترتیب دیا ہے۔
1۔ اصول کافی
2۔ فروع کافی
3۔ روضہ کافی
اصول اور فروع کافی کو درختی ساخت (Tree Structure) کے مطابق منظم کیا گیا ہے، یعنی: ہر حصے میں کئی کتب شامل ہیں، ہر کتاب میں متعدد ابواب ہیں اور ہر باب میں کئی احادیث ذکر کی گئی ہیں۔ البتہ روضہ کافی میں ابواب بندی نہیں کی گئی اور احادیث کو مسلسل اور پیہم طریقے سے ایک کے بعد ایک ذکر کیا گیا ہے۔
اصول کافی
اصول کافی میں اعتقادی اور اخلاقی موضوعات شامل ہیں۔ یہ حصہ 8 کتابوں،
499 ابواب اور 3786 روایات پر مشتمل ہے۔
اصول کافی کی تقسیم
اصول کافی کو مندرجہ ذیل آٹھ کتابوں (حصوں)میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔ کتاب العقل والجهل
2۔ کتاب فضل العلم
3۔ کتاب التوحید
4۔ کتاب الحجة، شیخ کلینی نے خمس کے مسائل کو بھی کتاب الحجة کے آخر میں ذکر کیا ہے۔
5۔ کتاب الإیمان و الکفر
6۔ کتاب الدعاء
7۔ کتاب فضل القرآن
8۔ کتاب العشرة
فروع کافی
یہ حصہ فقہی مباحث پر مشتمل ہے، جس میں 26 کتابیں، 1744 ابواب اور 10,800 احادیث شامل ہیں۔
فروع کافی کی کتب درج ذیل ہے:
1۔ کتاب الطهارة (پاکی)
2۔ کتاب الحيض (حیض)
3۔ کتاب الجنائز (جنازہ)
4۔ کتاب الصلاة (نماز)
5۔ کتاب الزكاة (زکات)
6۔ کتاب الصيام (روزہ)
7۔ کتاب الحج والزيارات (حج اور زیارات)
8۔ کتاب الجهاد (جہاد)
9۔ کتاب المعيشة (معاش و زندگی)
10۔ کتابِ النكاح (نکاح)
11۔ العقيقة (عقیقہ)
12۔ الطلاق (طلاق)
13۔ العتق و التدبير و الكتابة (آزاد کرنا، تدبیر اور مکاتبت)
14۔ الصيد (شکار)
15۔ الذبائح (ذبیحہ)
16۔ الاطعمة (خوراکیں)
17۔ الاشربة (مشروبات)
18۔ الزي و التجمل والمروة (لباس، زیب و زینت اور مردانگی)
19۔ الدواجن (پالتو جانور)
20۔ الوصايا (وصیتیں)
21۔ المواريث (وراثت)
22۔ الحدود (حدود)
23۔ الديات (دیت)
24۔ الشهادات (گواہیاں)
25۔ القضاء والاحكام (قضا و احکام)
26۔ الأيمان والنذور و الكفارات (قسمیں، نذریں اور کفارے)
روضة الکافی
یہ حصہ صرف ایک کتاب پر مشتمل ہے اور اس میں مختلف موضوعات شامل ہیں، جیسے: ائمہ علیہم السلام کے خطبے اور خطوط، نصیحت آموز باتیں، قصے اور تاریخی مطالب۔ اس حصے کی کل احادیث کی تعداد 597 ہے۔
کتاب کافی کی نمایاں خصوصیات
1۔ حدیث کے اصل الفاظ کا ذکر اور نقل بالمعنی سے پرہیز۔ اسی وجہ سے مرحوم کلینی کو (اضبط المحدثین) کہا گیا۔ مرحوم غفاری لکھتے ہیں: "علماء کی کتابوں اور اقوال میں جتنا بھی تلاش کرو، کہیں یہ اشارہ نہیں ملتا کہ شیخ کلینی (رح) نے حدیث کے الفاظ میں تصرف کیا ہو، یا حدیث کو مفہوم کے ساتھ نقل کیا ہو، یا اسے حافظے سے بیان کیا ہو۔"
2۔ اختلافی روایات سے گریز اور اپنے فقہی رجحان پر اکتفا۔
3۔ واضح و صریح روایات کو ترجیح دینا
4۔ زمانۂ غیبتِ صغریٰ میں تألیف ہونا
5۔ جامعیت
6۔ احادیث کی زیادہ تعداد: کافی میں تقریباً 16,000 احادیث ہیں۔
7۔ تدوین پر بیس سال کی محنت۔
8۔ ثلاثیات (عالی السند روایات): یعنی وہ روایات جن میں صرف تین واسطوں سے معصوم علیہ السلام تک سند پہنچتی ہے۔
9۔ سند کا مکمل ذکر
10۔ ابواب کے دقیق اور مختصر عنوانات۔
11۔ بعض موارد میں مصنف کی اپنی وضاحت
سند نقل کرنے کا انداز
1۔ غیر معصوم سے روایت نقل نہ کرنا۔ مرحوم کلینی نے پوری کوشش کی ہے کہ "کافی" میں صرف معصومین (علیہم السلام) کی روایات کو جمع کیا جائے، جیسا کہ انہوں نے خود اس کتاب کے مقدمے میں کہا: بالآثار الصحيحة عن الصادقين (ع)
2۔ مکمل سند کا ذکر جو معصوم تک پہنچے۔
3۔ ایک روایت کے مختلف طرق کا ذکر۔ ایک ہی روایت کے مختلف طرق (اسناد) کا ذکر کرنا، حدیث کو استفاضہ یا شہرت کے درجے تک پہنچانے میں مؤثر ہوتا ہے۔ مرحوم کلینی ایسے مواقع پر، جب سند بالکل مختلف ہو، تو حدیث نقل کرنے کے بعد دوسرا سندی سلسلہ بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے لیے لفظ "مثله" استعمال کرتے ہیں اور جب روایت کی سند جزوی طور پر مختلف ہو، تو کلینی (رح) تحویلِ سند کا طریقہ اپناتے ہیں، تاکہ متعدد سندوں سے مروی حدیث کو یکجا بیان کیا جا سکے۔
4۔ سند کے بیان و نقل میں امانت داری۔
5۔ سند کو مختصر کرنے کے مختلف طریقوں کا استعمال۔
اگرچہ مرحوم کلینی مکمل سند ذکر کرنے کا اہتمام کرتے، تاہم اختصار کی خاطر اور قرائن پر اعتماد کرتے ہوئے بعض اوقات سند کا کوئی حصہ، یا اس کی ابتدا حذف کر دیتے۔ یہ حذف مندرجہ ذیل طریقوں سے انجام دیا گیا ہے۔
(۱) پچھلی سند پر اعتماد کرتے ہوئے، یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کسی روایت کی سند کا ابتدائی حصہ، اس سے پہلے والی روایت کی سند کے آغاز سے مشابہ ہو۔ ایسے موقع پر کلینی دوسری روایت کی سند کی ابتدا کو، پہلی سند پر اعتماد کرتے ہوئے حذف کر دیتے ہیں اور وہاں "بِهٰذَا الإِسْنَاد" جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
(۲) تحویل سند۔
(۳) راویوں کے ناموں میں اختصار۔ کلینی (رح) نے بہت سے مقامات پر، خصوصاً بار بار آنے والی اسناد میں اختصار کی غرض سے راویوں کے مکمل نام ذکر کرنے سے اجتناب کیا۔
(۴) جمع کے صیغے کا استعمال۔ "عدةٌ من أصحابنا" (ہمارے چند اصحاب) سے مراد کلینی (رح) کے چند مشائخ ہیں، جن کے نام انہوں نے اختصار کی خاطر واضح طور پر ذکر نہیں کیے۔
یہ "چند اصحاب" دو قسموں میں تقسیم ہوتے ہیں:
عدہ معلوم: مشخص راوی
احمد بن محمد بن عیسیٰ
احمد بن محمد بن خالد البرقی
سھل بن زیاد
عدہ مجهول: نامعلوم راوی
6۔ لفظ عن کے ذریعے سند کا نقل کرنا۔
7۔ بعض روایات کا مرسل ہونا۔ کافی کی بعض اسناد میں شیخ کلینی نے بعض راویوں کو ذکر کیے بغیر، مبہم الفاظ جیسے عمّن رواہ "عمّن حدّثه" عن رجل "عن بعض أصحابه"، یا "رفعه" کے ذریعے روایت نقل کی ہے۔ تاہم یہ ارسال نادر اور محدود تعداد میں ہے۔
کافی میں شیخ کلینی کا نام
کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم کلینی کا نام کتاب میں چند مقامات پر آیا ہے:
1۔ بعض اوقات روایت کی شرح کے آغاز میں جیسے: "قال الكليني: معنی الحدیث الأول أن..."۔ بظاہر یہ تعبیر ایسے ہی ہے، جیسے مؤلفین "أقول" کہہ کر اپنی توضیحات شروع کرتے ہیں، تاکہ اصل متن اور شرح کے درمیان فرق واضح ہو۔
2۔ بعض مواقع پر سند کے آغاز میں جیسے: "قال أبو جعفر محمد بن یعقوب..."۔ یہ تعبیریں زیادہ تر کتاب کے پہلے باب کی روایات میں جیسے "حدثنا..." یا "أخبرنا محمد بن یعقوب عن..."
کتاب کافی کے موجودہ نسخوں کی حیثیت
کتبِ اربعۂ شیعہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتابیں اپنی تالیف کے بعد سے ہی شیعہ علمائے کرام کی بھرپور توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ابتدا ہی سے ان کے کئی نسخے تیار کیے گئے اور ان کے مضامین سماع، قراءت اور اجازہ کے طریقوں سے مجالسِ تحدیث میں شاگردوں تک منتقل ہوتے رہے۔ مرحوم شیخ کلینی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بغداد کا سفر کیا اور وہاں تدریس کی مجالس قائم کیں، جس سے کتاب کافی کی اشاعت کی راہ ہموار ہوئی۔ ان کے بعض ممتاز شاگرد، جیسے احمد بن محمد ابو غالب زراری اور محمد بن ابراہیم نعمانی (جو ابن ابی زینب کے نام سے مشہور ہیں)، کافی کے راوی ہیں اور اس کتاب کو براہِ راست مرحوم کلینی سے روایت کرتے ہیں۔ اب تک کتاب کافی کے تقریباً 1200 خطی نسخے (مکمل یا جزوی) دریافت ہوچکے ہیں، جو اس کتاب کی مقبولیت اور اہمیت کا واضح ثبوت ہیں۔
احادیث کی صحت پر مختلف آراء
کتاب کافی کے بارے میں ایک اہم بحث یہ ہے کہ اس کتاب میں موجود احادیث کس حد تک معتبر اور قابلِ اعتماد ہیں۔ یہ مسئلہ شروع سے ہی شیعہ علماء، فقہاء اور محدثین کے درمیان اختلاف کا باعث رہا ہے۔ مجموعی طور پر اس بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:
1۔ افراط پر مبنی نظریہ (اخباریوں کا نظریہ)
شیعہ اخباری مکتب فکر کے پیروکاروں کا ماننا ہے کہ کتب اربعہ (جن میں کتاب کافی بھی شامل ہے) کی تمام روایات صحیح اور قطعی الصدور (یقینی طور پر امام معصوم سے صادر شدہ) ہیں۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ کتاب کافی کو نوابِ خاص نے امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خدمت میں پیش کیا اور امام (عج) نے اس کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا: «الکافی کاف لشیعتنا» (یعنی: یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے) لیکن اس پر دو اشکالات وارد ہوتے ہیں:
اولاً: ہمارے پاس کوئی قطعی قرینہ یا معتبر تاریخی روایت موجود نہیں، جو یہ ثابت کرے کہ شیخ کلینی کی نوابِ خاص سے ملاقات ہوئی ہو۔ ثانیاً: یہ قول «الکافی کاف لشیعتنا» بھی قطعی طور پر امام زمانہ (عج) سے ثابت نہیں، کیونکہ اس روایت کا راوی نامعلوم ہے اور کسی نے اس کا نام ذکر نہیں کیا، یہاں تک کہ محدث استرآبادی (متوفی 1036ھ) جو اخباریوں کے سربراہ اور تمام روایاتِ کافی کے قطعی الصدور ہونے کے قائل تھے، وہ کہتے ہیں «یہ حدیث نہ سند رکھتی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل ہے۔»
اخباریوں کی ایک اور دلیل
اخباری مکتب کے نزدیک کتاب کافی کی احادیث کی صحت پر سب سے بڑی دلیل شیخ کلینی کی کتاب کے دیباچے میں موجود یہ عبارت ہے: ... بالآثار الصحیحة عن الصادقین علیہم السلام" (یعنی: ہم نے یہ احادیث صادقین علیہم السلام سے صحیح آثار کی بنیاد پر نقل کی ہیں) اخباری حضرات اس عبارت کو شیخ کلینی کی طرف سے کتاب میں موجود تمام روایات کی صحت پر گواہی کے طور پر لیتے ہیں۔
۲۔ منصفانہ نظریہ
زیادہ تر شیعہ محققین کا ایک منصفانہ اور معتدل نظریہ ہے کہ اگرچہ کتاب کافی بے شمار خوبیاں اور اہم خصوصیات رکھتی ہے، لیکن اس میں کچھ ایسی روایات بھی موجود ہیں، جو ضعیف السند (یعنی سند کے اعتبار سے کمزور) ہیں۔
حدیثِ صحیح کا مفہوم: قدما اور متأخرین کے نزدیک
قدیم شیعہ علماء (جیسے شیخ کلینی، صدوق و طوسی رحمہم اللہ) کے نزدیک "حدیثِ صحیح" کا مفہوم متأخرین سے مختلف تھا۔
قدما کے نزدیک تعریف
صحیح وہ حدیث ہے، جس کے معصومؑ سے صادر ہونے پر اطمینان حاصل ہو، چاہے یہ اعتماد راوی کی وثاقت سے ہو یا کسی اور قرینے سے۔ مثلاً
1۔ حدیث کا متعدد اصول اَربعماء (چار سو اصل) میں پایا جانا؛
2۔ ایک مضمون کا مختلف اسناد سے تکرار ہونا؛
3۔ حدیث کا اصحابِ اجماع جیسے زرارہ یا صفوان کی کتاب میں ہونا؛
4۔ ایسی کتاب میں ہونا، جس کی امامؑ نے توثیق فرمائی ہو، جیسے کتاب یونس بن عبدالرحمن یا فضل بن شاذان۔
وقت گزرنے کے ساتھ وہ قرائن جو قدما حدیث کی صحت کے لیے استعمال کرتے تھے، ختم ہوگئے۔ چنانچہ سید ابن طاؤوس (متوفی ۶۷۳ھ) کے بعد شیعہ علماء نے احادیث کو راویوں کی سندی حالت کے مطابق چار اقسام میں تقسیم کرنا شروع کیا: صحیح، حسن، موثق، ضعیف۔ متأخرین کے مطابق "صحیح" وہ حدیث ہے، جس کی سند معصومؑ تک متصل ہو اور تمام راوی امامی و عادل ہوں، جبکہ قدما کا معیار وسیع تر تھا: وہ راوی کے ثقہ ہونے یا قرائن کی بنیاد پر حدیث کو "صحیح" کہتے تھے، چاہے وہ مرسل یا ضعیف السند ہو۔ اسی لیے کتابِ کافی میں ایسی روایات بھی ہیں، جو متأخرین کے نزدیک ضعیف مگر قدما کے نزدیک صحیح ہیں۔ یہ بھی قابل توجہ ہے کہ متأخرین کے نزدیک اگر کسی ضعیف السند حدیث پر فتویٰ دیا گیا ہو یا مضمون قوی ہو، تو وہ "معتبر" شمار کی جا سکتی ہے (مثلاً حدیثِ مقبول)۔ لہٰذا اگر کلینی کی عبارت "بالآثار الصحیحۃ عن الصادقینؑ" کو کتاب کی تمام روایات پر ان کی توثیق سمجھا جائے، تو یہ قدما کے معیار پر مبنی ہوگی، نہ کہ متأخرین کے۔
کافی کی روایات کی جانچ متاخرین کے نزدیک
1۔ شیخ یوسف بحرانی کے مطابق کتاب کافی میں
5072 صحیح، 144 حسن، 1118 موثق، 302 قوی، 9485 ضعیف احادیث ہیں۔
2۔ شہید ثانی کے بیٹے شیخ حسن (متوفی 1011ھ) نے منتقی الجمان فی الاحادیث الصحاح والحسان میں صرف صحیح و حسن احادیث نقل کیں۔
3۔ علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول میں کافی کی روایات کو متأخرین کی اصطلاحات کے مطابق درجہ بندی کیا ہے۔
4۔ علی اکبر بہبودی نے صحیح الکافی میں 4428 احادیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
5۔ درایۃ النور سافٹ ویئر جو سید جواد شبیری کی نگرانی میں مرتب ہوا، میں
9488 صحیح، 3720 موثق، 6328 ضعیف احادیث ہیں۔ یہ اعداد و شمار علم رجال اور راویوں کی توثیق و تضعیف کے اصولوں میں اختلاف کی بنیاد پر مختلف ہیں۔
کافی پر لکھی جانے والی شروحات
1۔ شرح اصول کافی، از صدر المتألهین محمد شیرازی (متوفیٰ 1050ھ)
اس شرح میں صرف اصول کافی کے کچھ حصے کی تشریح کی گئی ہے۔
2۔ شرح اصول الکافی للمـازندرانی، از مولیٰ محمد صالح مازندرانی (متوفیٰ 1081ھ)
اس میں صرف اصول اور روضہ کافی کی شرح کی گئی ہے۔
3۔ مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، از علامہ محمد باقر مجلسی (متوفیٰ 1110ھ) یہ شرح اصول، فروع اور روضہ کافی پر مشتمل ہے۔
4۔ الذریعۃ الی حافظ الشریعۃ، بقلم: محمد بن محمد مؤمن گیلانی، یہ عربی میں ہے۔
5۔ الشافی فی شرح اصول کافی، 3 مجلدات، عبدالحسین المظفر (مطبعة الغری، نجف اشرف)
کتاب کافی کے مختلف ترجمے
1۔ اصولِ کافی۔۔۔۔ ترجمہ و شرح: سید جواد مصطفوی
2۔ شرح اصولِ کافی۔۔۔۔ ترجمہ و شرح: محمد باقر کوہ کمرہ ای
3۔ الروضہ من الکافی۔۔۔۔ ترجمہ و شرح: سید ہاشم رسولی محلاتی
4۔ الکافی۔۔۔۔۔ انگریزی ترجمہ: المؤسسہ العالمیہ للخدمات الاسلامیہ
5۔ الشافی ترجمہ اُصول کافی، (اردو زبان)سید ظفر حسن نقوی
حواشی
1۔ ملا محمد امین استرآبادی (متوفی 1036ھ) کی حاشیہ نگاری۔
2۔ رفیع الدین محمد بن حیدر نائینی (متوفی 1080ھ) کا حاشیہ۔
3۔ شیخ عبدالحسین مظفر کا حاشیہ جس کا نام ہے: الشافی فی شرح اصول الکافی
تلخیصات
خلاصۂ اصول کافی
(فارسی ترجمہ) علی اصغر خسروی شبستری، مطبوعہ تہران، کتاب فروشی امیری، 1351ہجری شمسی؛
درخشان پرتوی از اصول کافی، [[سید محمد حسین ہمدانی[[ جس کو 1406ہجری میں قم سے شائع کیا گیا ہے۔
معاجم
1۔ المعجم المفھرس الفاظ اصول کافی الیاس کلانتری (تہرانی انتشارات کعبہ).
2۔ المعجم الفھرس لالفاظ الاصول من الکافیح، علی رضا برازنش، تہران، منطقہ الاعلام الاسلامی، 1408ھ ،1988ع.
3۔ الھادی الی الفاظ اصول کافی سید جواد مصطفوی.
4۔ فھرست احادیث اصول کافی، مجمع البحوث الاسلامیہ.
5۔ فھرس احادیث الروضہ من الکافی، مجمع البحوث الا سلامیہ
رجالِ کافی کے متعلق
1۔ تجرید اسانید الکافی و تنقیحھا، حاج میرزا مھدی صادقی۔
2۔ الموسوعة الرجالیة، حسین طباطبایی بروجردی۔
کتاب کافی پر بنائے گئے سافٹ ویئر
1۔ مکتبة اهل بیت، مرکز معجم فقهی حوزه علمیه قم۔
2۔ جامع الاحادیث، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی۔
3۔ نشر حدیث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ: یہ مضمون ڈاکٹر ھادی حجت کی فارسی زبان میں کتاب "جوامع حدیثی شیعہ" سے لیا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مرحوم کلینی نے علیہم السلام شیخ کلینی نے روایت کی سند شیخ کلینی کی تمام روایات پر مشتمل ہے ضعیف السند متأخرین کے کیا گیا ہے کی روایات روضہ کافی کرتے ہوئے فروع کافی احادیث کی کتاب میں کرتے ہیں کے مختلف شامل ہیں شرح اصول کافی میں انہوں نے بنیاد پر قرار دیا کے مطابق کے نزدیک یہ ہے کہ اس کتاب کتاب کے ہوتا ہے کی کتاب کے آغاز کتاب کی یہ کتاب کتاب کا نہیں کی ہیں اور حدیث کو کافی کا کافی کو کافی کی کی گئی کیا ہو سند کا کا ذکر اور تم کے بعد اور اس کے لیے نقل کی کیا ہے کے نام دیا ہے سند کے ذکر کی اصول ا کی صحت کیا جا کا نام
پڑھیں:
نئے دور میں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نظریات پر مطالعے کی چینی صدر کی کتاب کا نیا ایڈیشن جاری
نئے دور میں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نظریات پر مطالعے کی چینی صدر کی کتاب کا نیا ایڈیشن جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 19 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ : نئے دور میں چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نظریات پر مطالعے شی جن پھنگ کی کتاب کی گیارہویں تا پندرہویں جلد حال ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کی پارٹی ہسٹری اینڈ لٹریچر ریسرچ اکیڈمی کی جانب سے شائع ہوئی اور اسے ملک بھر میں تقسیم کیا گیا ۔
اس کتاب میں نومبر 2023 سے اب تک لکھے گئے تقریباً دو لاکھ تیس ہزار الفاط پر مشتمل کل 29 نظریاتی مضامین شامل ہیں جو پیپلز ڈیلی اور چھیوشی میگزین میں شائع ہوئے ہیں ۔ یاد رہے کہ اس کتاب کی پہلی تا پانچویں جلد اور چھٹی تا دسویں جلد بالترتیب 2020اور2023 میں شائع ہو چکی ہے ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملک کی پندرہویں پانچ سالہ منصوبہ بندی ، اعلیٰ معیار کے ساتھ تشکیل دی جائے، چینی صدر ملک کی پندرہویں پانچ سالہ منصوبہ بندی ، اعلیٰ معیار کے ساتھ تشکیل دی جائے، چینی صدر آپ جہنم کے ہی حقدار ہیں، جاوید اختر کے متنازع بیان پر پاکستانی فنکاروں کا سخت ردعمل آئی ایم ایف نے پاکستان کی معاشی ترقی میں کمی کی پیشگوئی کردی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو سے کمبوڈیا میں ترقی کا فروغ آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ 17ہزار600ارب روپے سے تجاوز کرنے کا امکان چین کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں ، چینی صدرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم