آئی ایم ایف نے بجٹ منظوری کو عملے کے معاہدے سے مشروط کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
اسلام آباد:
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے بجٹ منظوری کو عملے کے معاہدے سے مشروط کر دیا۔
آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا جہاد ازعور اس ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے اور اس دوران وزیر اعظم اور وفاقی وزیر خزانہ سے اہم ملاقاتیں متوقع ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف نے بجٹ منظوری کو عملے کے معاہدے سے مشروط کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت کی بجٹ سازی پر اختیار محدود ہو گئے ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ دفاعی اخراجات کا تخمینہ 2.
ایف بی آر نے بجٹ کے لیے وزیراعظم کو ٹیکسیشن تجاویز پیش کر دی ہیں اور اگلے مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 14.07 ٹریلین روپے ہوسکتا ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت پیٹرولیم لیوی میں نمایاں اضافہ کر سکتی ہے جبکہ وزیراعظم نے انکم ٹیکس ریلیف کو ناکافی قرار دے دیا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
بھارتی آبی جارحیت، خطے کا امن خطرے میں
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی پاکستان کا پانی روکنے کی جرات نہ کرے، چوبیس کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روکنے کا کوئی پاگل آدمی ہی سوچ سکتا ہے۔ بھارت نے پانی روکا تو پاکستان کے ردعمل کے نتائج سالوں اور دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔ بھارت کے یک طرفہ اقدامات نہ صرف پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خطے میں امن و امان کے لیے بھی چیلنج ہیں۔ پانی کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی متنازع ہے۔
پہلگام واقعے کے بعد جیسے ہی دونوں ملکوں میں کشیدگی کا آغاز ہوا، بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی شرائط کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔ بھارت کا یہ موقف ہے کہ وہ اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ ہونے دینے کا حق رکھتا ہے اور اپنے دریاؤں پر تعمیراتی کام اور ان کا پانی روکنے کا مجاز ہے۔ تاہم، سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو مغربی دریاؤں پر صرف محدود تعمیرات کی اجازت ہے، جن کا مقصد صرف بجلی کی پیداوار اور معمولی ذخیرہ ہوتا ہے اور وہ بھی اس شرط پرکہ اس سے پاکستان کے پانی کے حصے پرکوئی اثر نہ پڑے۔
فطرت کے اپنے قانون ہیں اور قدرت سے مقابلہ مہنگا پڑا کرتا ہے۔ بھارت کو معلوم تو ہوگا کہ برہم پتر دریا کی کلائی چین کے ہاتھ میں ہے، برہم پتر تبت سے بہتا ہوا بھارت کے شمال مشرقی علاقوں سے گزرکر بنگلہ دیش تک جاتا ہے۔ چین کا یہ ڈیم بنانے کا منصوبہ بہاؤ کے تغیرکا سبب بن سکتا ہے، یوں بھارت ہی نہیں بنگلہ دیش کو بھی مشکل ہوگی، بنگلہ دیش بھی سمجھ لے ویسے تو نیپال سری لنکا سمیت بھارت سبھی سے کدورت رکھتا ہے! بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فطرت کے خلاف کوئی بھی عمل دراصل زمین پر فساد پھیلانے کے مترادف ہے۔
عالمی بینک کی گارنٹی کے تحت ہوئے سندھ طاس معاہدے کی بھارت قانونی طور اورکسی بھی صورت میں خلاف ورزی کر کے پاکستان کا پانی بند نہیں کرسکتا۔ معاہدے کی شقوں کے تحت دونوں ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پانی کے حقوق کا احترام کریں گے۔ بھارت کی جانب سے کسی بھی یکطرفہ اقدام کو معاہدے کے تحت چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے لیڈر بار بار یہ دھمکیاں دے چکے ہیں کہ ہم پاکستان کو بوند بوند پانی کے لیے ترسائیں گے۔ اسی ارادے پر عمل پیرا ہوکر بھارتی حکومت نے انڈس بیسن پر مختلف پروجیکٹس پرکام شروع کردیا۔
ان میں بگلیہار، پکاڈل، ڈل ہستی، نیمو باز گو، رتلے، اوڑی، کشن گنگا اور Dumkhar سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے چھوٹے بڑے 155ہائیڈرو پاور منصوبے شامل ہیں۔ مشرقی دریا تو سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے پہلے ہی بھارت کے زیر تصرف ہیں، اب مغربی دریاؤں پر بھی اتنے منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں کہ جو پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے شدید خطرہ ہیں اور یہ بھارت کی کھلی آبی جارحیت ہے۔
بھارت نے کشن گنگا ڈیم سے 22 کلومیٹر طویل نہر نکال کر اس کے قدرتی بہاؤ میں فرق ڈال دیا ہے۔ آگے چل کر شاید یہ دریا کے بہاؤ میں کمی اور وادی نیلم کے قدرتی ماحول کو متاثرکرے گی۔ کشن گنگا ڈیم سے پاکستان کے پانی میں 27 فیصد کمی ہوگی اور اس کے نتیجے میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی پیداواری صلاحیت میں بھی واضح کمی کا امکان ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت راوی، بیاس اور ستلج پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے اور سندھ، جہلم اور چناب پر پاکستان کا۔ معاہدے کے تحت بھارت ان دریاؤں کا صرف30 فیصد پانی استعمال کرسکتا ہے۔ بھارت اس وقت بھرپورکوشش میں ہے کہ وہ مغربی دریاؤں کے پانی سے نہریں نکالے اور ان کا پانی ذخیرہ کرنے کے نئے منصوبے شروع کرے۔
بھارت نے پاکستان کو اشتعال دلانے کے لیے چناب کا پانی بند کردیا اور بہانہ یہ بنایا کہ ڈیم کی سالانہ صفائی کے بعد اسے بھرا جا رہا ہے، حالانکہ اس کے لیے جولائی، اگست کا مہینہ چُنا جاتا ہے جب شدید گرمی کے باعث گلیشیرز پگھلنے میں تیزی آتی ہے اور پانی کا بہاؤ تیز ہوتا ہے۔ اس وقت پانی کا بہاؤ پہلے ہی کم ہے جب کہ بھارت کی اس حرکت سے چناب کے پانی میں 90 ہزار کیوسک تک کی کمی ہو گئی ہے۔ یہ سندھ طاس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا بھارت طویل المدت تک پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟ فی الحال تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن بہاؤ میں کمی پاکستان میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ یہ پاکستان میں چاول کی بوائی کا سیزن ہے، ایسے میں فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری جانب بھارت نے نئے آبی منصوبوں کی بھی منظوری دے دی ہے اور ان پرکام تیزکردیا ہے۔ بھارت چار سال سے واٹرکمشنر کی میٹنگ بھی نہیں ہونے دے رہا کیونکہ اس طرح اس کی پانی چوری صاف پکڑی جائے گی۔
پاکستان کو اس معاملے کو فوری طور پر سلامتی کونسل میں اٹھانا چاہیے تاکہ یہ آبی کشیدگی کسی طویل مدتی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ملک میں نئے آبی ذخیروں پر بھی کام کرنا چاہیے۔ ہمارا قیمتی سرمایہ ضایع ہوکر سمندر برد ہورہا ہے اور بڑے شہروں میں پانی کا مسئلہ سنگین سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ کسان بھی پانی کی قلت سے نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان صرف 13 سے 15 فیصد پانی ذخیرہ کرتا ہے اور باقی تمام پانی بحیرہ عرب میں گر جاتا ہے۔ پانی کے ضیاع اور ماحولیاتی تنوع کے سبب صاف پانی کا بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پرکراچی جو ملک کا معاشی حب ہے، اس کے شہری صاف پانی کو ترس رہے ہیں اور ٹینکر مافیا کی بلیک میلنگ کا شکار ہیں۔
لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بھی صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے ملک میں ڈیمز اورکینالز کے منصوبے سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں جب کہ بھارت اب تک ڈھائی ہزار سے زائد ڈیم مکمل کرچکا ہے۔ پاکستان کی قومی سیکیورٹی کے لیے واٹر سیکیورٹی بہت اہم ہے۔ پاکستان میں پانی کے وسیع وسائل ہونے کے باوجود ہم ان کو صحیح طرح استعمال میں نہیں لا سکے۔ پاکستان کا سالانہ فریش واٹر فلو تقریباً145 ملین ایکڑ فٹ ہے اور ہم صرف 13ملین ایکڑ فٹ تک ذخیرہ کرتے ہیں۔ یہ شرح بہت کم ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم پانی کا ذخیرہ بڑھائیں اور اس سے سستی بجلی پیدا کریں جو ہماری صنعتوں، کسانوں اور عوام کو ریلیف دے۔
اس وقت بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک طرف پاکستان کے حصے کا پانی چوری کر رہا ہے اور دوسری طرف جب بارشیں ہوتی ہیں تو اضافی پانی پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے۔ پاکستان کے پاس چھوٹے بڑے آبی ذخیروں کی ناکافی تعداد کے سبب مون سون کی بارشوں کے ساتھ مل کر یہ پانی سیلاب بن کر عوام پر مسلط ہوجاتا ہے۔ اس وقت ایک بڑے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر جاری ہے جب کہ دریائے سوات پر پشاور سے 37 کلومیٹر شمال کی جانب ضلع مہمند میں مہمند ڈیم بن رہا ہے۔ یہ ڈیم ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا۔
دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے ساتھ ہمیں کالا باغ ڈیم بنانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بیشتر منصوبے سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں جب کہ بھارت دھڑا دھڑ اپنے منصوبے مکمل کرتا جا رہا ہے۔ آج وہ ہمارا پانی زیادہ دیر تک نہیں روک سکتا لیکن جس ڈگر پر وہ چل رہا ہے، آٹھ دس سال بعد صورتحال بہت حد تک تبدیل ہو چکی ہوگی۔ وہ مزید آبی ذخیرے بنا چکا ہوگا، اس لیے ہمیں اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنے آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کے لیے ہر قدم اٹھانا چاہیے۔
بھارت کی جانب سے پیدا کی گئی موجودہ سنگین صورتحال میں پاکستان کو اپنی سفارتی، قانونی اور سیاسی حکمت عملی پر ازسرنو غورکرنا ہوگا۔ اب جہاں اسے ٹھوس انداز میں بھارت کے ان غیر قانونی اقدامات کے خلاف عالمی سطح پر بھرپور اور موثر مہم چلانا ہوگی، وہیں مزید وقت ضایع کیے بغیر اپنے دستیاب آبی وسائل کو بھی بہتر طریقے سے منظم کر کے آبی وسائل کی شدید کمی سے بچنا ہوگا۔ پاکستان کو اس وقت ایک فعال اور جامع واٹر پالیسی اور واٹر مینجمنٹ کی اشد ضرورت ہے۔