پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی: اپوزیشن کے 26 اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کا ریفرنس تیار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے چند روز پہلے ہونے والی ہنگامہ آرائی پر ردعمل کے طور پر اسمبلی سیکریٹریٹ نے اپوزیشن کے 26 معطل اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے لیے ریفرنس تیار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریفرنس آج کچھ دیر بعد اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کو جمع کروا دیا جائے گا۔
قانونی کارروائی کی تیاریاں مکملاسمبلی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری جنرل پنجاب اسمبلی عامر حبیب اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، جہاں وہ ریفرنس جمع کرانے کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان بھی اسلام آباد پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ سینئر قانون دانوں سے مشاورت کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ہاؤس میں بیٹھ کر کبھی حکومت کی حمایت نہیں کی، ایوان کو یرغمال نہیں بنانے دوں گا، اسپیکر پنجاب اسمبلی
ریفرنس کی تفصیلاتذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی سیکریٹریٹ نے تمام ضروری دستاویزات اور شواہد جمع کر لیے ہیں۔ ریفرنس میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ آئینی حوالہ جات کو تقویت دی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے مریم نواز کی تقریر کے دوران نعرے بازی کی سزا، پنجاب اسمبلی کے 26 معطل ارکان کی رکنیت ختم کرنے کی تیاری
علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے اسمبلی میں کی گئی ہنگامہ آرائی کی ویڈیوز، تصاویر، اور کارروائی کا ریکارڈ بھی ثبوت کے طور پر منسلک کیا گیا ہے۔
مشاورت اور قانونی تقویتاسمبلی ذرائع کے مطابق اسپیکر اور سیکریٹری جنرل اسلام آباد میں ماہرینِ قانون سے مشاورت کر رہے ہیں تاکہ ریفرنس کو آئینی اور قانونی لحاظ سے مزید مضبوط بنایا جا سکے۔ مشاورت کے بعد ہی ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کرایا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی ہنگامہ آرائی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پنجاب اسمبلی پنجاب اسمبلی ہنگامہ ا رائی پنجاب اسمبلی اسلام آباد
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اراکین کی معطلی: کیا پی ٹی آئی پنجاب میں سیاسی تنہائی کی طرف جا رہی ہے؟
سپریم کورٹ کے 27 جون 2025 کے فیصلے نے پنجاب اسمبلی میں بھی سیاسی منظرنامے کو بدل کر رکھ دیا۔ اس فیصلے کے تحت پنجاب اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔
اس فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں ایک اور واقعہ پیش آیا جس نے صورت حال مزید بدل دی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر کے دوران مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت اگلے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دی گئی، جس سے اپوزیشن کی سیاسی طاقت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب اپوزیشن پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے درکار 93 اراکین کی ریکوزیشن بھی جمع نہیں کرا سکتی۔
سپریم کورٹ کے 10 رکنی آئینی بینچ نے جولائی 2024 کے اپنے سابقہ فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی سے 22 قومی اور 55 صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستیں واپس لے لیں۔
پنجاب اسمبلی میں 27 مخصوص نشستیں مسلم لیگ ن کو دی گئی ہیں، جس سے ان کی اکثریت مضبوط ہو گئی۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت میں اتحادی حکومت قومی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت کے قریب پہنچ گئی ہے۔
پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو ’آئین اور جمہوریت کا قتل‘ قرار دیا اور احتجاج کا اعلان کیا۔ پارٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ عوامی مینڈیٹ اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف سازش ہے۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی اپنی قانونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے، کیونکہ پارٹی نے مخصوص نشستوں کے انتخاب کے قواعد و ضوابط کی مکمل پیروی نہیں کی۔
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی معطلی
وزیراعلیٰ مریم نواز کی تقریر کے دوران پی ٹی آئی نے احتجاج کیا جس کے بعد 26 ارکان کو مبینہ طور پر نازیبا زبان استعمال کرنے پر سنیچر کو سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دیا۔ اس سے اپوزیشن ارکان کی تعداد 105 سے کم ہو کر 79 رہ گئی ہے۔ اس کے باعث اپوزیشن اب اجلاس بلانے کے لیے ضروری 93 ارکان کی ریکوزیشن جمع نہیں کرا سکتی۔
لیکن یہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ پیر کو اسمبلی اجلاس سے پہلے اپوزیشن کے چار اہم اراکین کو قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی سے ہٹا دیا گیا۔ ان میں صائمہ کنول، محمد مرتضیٰ اقبال، محمد انصر اقبال اور احسن علی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ سپیکر نے 16 جون کے اجلاس میں ہنگامہ آرائی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر 10 ارکان پر جرمانہ بھی عائد کیا۔
دوسری طرف اپوزیشن رہنما ملک احمد بھچر نے معطل اراکین کے ہمراہ اسمبلی گیٹ پر احتجاج کیا، لیکن پولیس کی موجودگی کی وجہ سے احتجاج منتشر ہو گیا۔ پی ٹی آئی نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسمبلی کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، اور اب طاقت اور دھونس کا استعمال ایوان تک پہنچ گیا ہے۔ اپوزیشن اگر ایوان کے اندر احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کروا سکتی ہے تو پھر ہمارے پاس اور کیا آپشن بچتا ہے؟ ہم سپیکر کے اس عمل کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق ’پی ٹی آئی کی سخت گیر سیاسی حکمت عملی اسے تنہائی کی طرف لے جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی ہمیشہ ہر محاذ پر لڑتی ہے، چاہے اسمبلی ہو یا سڑکیں، لیکن اس کی یہ حکمت عملی اسے پارلیمانی عمل سے باہر کر رہی ہے۔ سنہ 2022 میں قومی اسمبلی سے استعفوں نے پارٹی کو قانون سازی سے دور کر دیا، اور اب پنجاب اسمبلی میں احتجاج نے اس کی آواز کو مزید کمزور کر دیا ہے۔ میرے خیال میں انہیں اب سوچنے کی شدید ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی سے عوام کی توجہ تو ملتی ہے، لیکن پارلیمانی اثر پذیری ختم ہو جاتی ہے۔ اور اب جس طرح کے حالات ہیں ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔‘
دوسری جانب سینیئر صحافی مجیب الرحمن شامی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاست عوامی جذبات پر مبنی ہے، جو اس کی طاقت بھی ہے اور کمزوری بھی۔
وزیراعلٰی مریم نواز کی تقریر کے دوران مبینہ طور نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر اپوزیشن کے 26 ارکان کی رکنیت اگلے 15 اجلاسوں کے لیے معطل کر دی گئی۔ (فوٹو: این این آئی)
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ اور معطلیاں دونوں ایسے واقعات ہیں جن کے باعث ایوانوں کے اندر تحریک انصاف کمزور ہوئی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اپنی توجہ احتجاج کے بجائے قانونی اور پارلیمانی جنگ پر مرکوز کرے۔‘
مجیب الرحمن شامی نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی کی ماضی میں بھی ایسی حکمت عملی رہی ہے جیسے استعفے دے کر اسمبلیوں سے باہر آ گئے تھے، لیکن بہت بعد میں خان صاحب یہ کہتے پائے گئے کہ وہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ آج بھی صورت حال ویسی ہی لگ رہی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ سزا بھی تھوڑی زیادہ سخت ہے۔ حکومت اور سپیکر کو چاہیے کہ وہ زیادہ برداشت کا مظاہرہ کریں، یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
پی ٹی آئی کی سیاسی تاریخ اس کی جارحانہ حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہے۔ سنہ 2022 میں قومی اسمبلی سے استعفے دینے کے بعد پارٹی قانون سازی کے عمل سے باہر ہو گئی، جس سے مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ میں برتری حاصل ہوئی۔ اب پنجاب اسمبلی میں احتجاج اور نازیبا زبان کے استعمال کی وجہ سے 26 ارکان کی معطلی نے اپوزیشن کی سیاسی طاقت کو مزید کمزور کر دیا ہے۔
ماہر قانون ڈاکٹر عثمان علی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کی پارلیمانی حکمت عملی جذباتی ہے، نہ کہ حکیمانہ۔ وہ اپنے ووٹ بینک کو متحرک کر لیتی ہے، لیکن پارلیمانی قوت کو نظر انداز کرتی ہے، جو طویل مدتی نقصان کا باعث بنتا ہے۔
’انہیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اب نئے رولز آف گیمز کیا ہیں۔ انہیں اپنی توجہ اپنی سیاست پر مرکوز کرنی چاہیے۔ اور جہاں تک 15 اجلاسوں کی معطلی کی بات ہے میرا خیال ہے کہ یہ تھوڑا زیادہ ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے اور اپوزیشن کی معطلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو قانون سازی کے لیے بغیر کسی رکاوٹ کے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ 26 اراکین کی معطلی اور قائمہ کمیٹیوں سے اپوزیشن اراکین کی برطرفی نے ان کی قانون سازی پر اثراندازی کو محدود کر دیا ہے۔