چینی کراس بارڈر ای کامرس کی عالمی اہمیت اور منصفانہ مقابلے کے بیانیے کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
بیجنگ :حالیہ برسوں میں چینی کراس بارڈر ای کامرس کی تیز رفتار ترقی نے کچھ ممالک میں تنازعات کو جنم دیا ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چینی ای کامرس ادارے مغربی ممالک کی چھوٹی درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ جیسے قواعد میں موجود “خامیوں” کا فائدہ اٹھا کر کم قیمتوں پر ڈمپنگ کے ذریعے مقامی مارکیٹوں کو متاثر کر رہی ہیں، جسے غیر منصفانہ مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق G7 کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنرز کی اس ہفتے ہونے والی میٹنگ میں بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔کیا حقیقت واقعی ایسی ہے؟ راقم الحروف کے نزدیک یہ نقطہ نظر نہ صرف عالمی تجارت کی آزادی کی بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے، بلکہ مارکیٹ میں مقابلے کے صحت مند نتائج کو “قواعد میں چالاکی” کے طور پر پیش کر کے صارفین کے حقوق کی عدم توجہی اور مارکیٹ کے اصولوں کی غلط تشریح کرتا ہے۔ چینی کراس بارڈر ای کامرس کا عروج عالمگیریت کے تناظر میں سپلائی چین کی کارکردگی اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی کا فطری نتیجہ ہے، نہ کہ قواعد کے ساتھ “چال بازی”۔ چھوٹی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کی پالیسی درحقیقت بین الاقوامی تجارتی قواعد کے تحت گردش کو آسان بنانے کے لیے وضع کی گئی ایک ایسی اسٹرکچرل ترتیب ہے جو کم قیمت اشیاء کے لیے کسٹم کے عمل کو سہل اور انتظامی اخراجات کو کم کرتی ہے۔ SHEIN اور Temu جیسے چینی پلیٹ فارمز کی عالمی مارکیٹ میں تیز رفتار ترقی کا بنیادی راز ان کے پیچھے مضبوط سپلائی چین نیٹ ورک اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان بے مثال ہم آہنگی میں پنہاں ہے، جو “میڈ ان چائنا” کی قیمت اور کارکردگی کی برتری کو عالمی صارفین کے لیے حقیقی فوائد میں تبدیل کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز قواعد میں تبدیلیوں کے مطابق اپنی حکمت عملیاں پہلے ہی ایڈجسٹ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک گوداموں کا قیام، ٹیکس چھوٹ پر انحصار میں کمی، اور “نیم ہوسٹڈ ماڈل” کے ذریعے مقامی سطح پر کارکردگی کو فروغ دینا—یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا کاروباری ماڈل دراصل کارکردگی کی بہتری پر مرکوز ہے نہ کہ ٹیکس رعایتوں پر۔ ساتھ ہی عالمی مارکیٹوں کے تقاضوں کے مطابق چینی کمپنیاں بڑی کوششیں کر رہی ہیں، جیسے علی بابا انٹرنیشنل کا اے آئی رسک مینجمنٹ سسٹم جو مختلف ممالک کے قوانین، تجارتی پالیسیوں اور مصنوعات کے معیارات میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ چینی ادارے اعلیٰ معیارات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کم قیمتوں پر مقابلے کو “غیر منصفانہ” قرار دینا درحقیقت مقامی کمپنیوں کی ناکامیوں کا الزام بیرونی چیلنجوں پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ریٹیل سیکٹر طویل عرصے سے لیبر کی زیادہ لاگت اور غیر لچکدار سپلائی چین کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز نے ڈیجیٹل پروڈکٹ سلیکشن، ٹارگٹڈ مارکیٹنگ اور تیز رفتار لاجسٹکس کے ذریعے درمیانی اور کم آمدنی والے گھرانوں کی ضروریات پوری کی ہیں۔ اگر “انصاف” کے نام پر سستی مصنوعات تک ان کی رسائی ختم کر دی جائے تو یہ مارکیٹ کے بنیادی اصولوں میں کھلی مداخلت ہوگی۔مزید یہ کہ “غیر منصفانہ مقابلے” کے الزامات اکثر دوہرے معیارات کے ساتھ چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین ایک طرف چینی مصنوعات کو “سلامتی کے معیارات پر پورا نہ اترنے” کا الزام دیتی ہے، دوسری طرف یورپی فاسٹ فیشن برانڈز کو ترقی پذیر ممالک میں پیداوار آؤٹ سورس کر کے لاگت کم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس منتخب نگرانی کے پیچھے درحقیقت معاشی مسائل کو سیاسی بنانا اور “قواعد کی نئی تشکیل” کے بہانے مارکیٹ کی حفاظت کرنا کارفرما ہے۔چینی کراس بارڈر ای کامرس پر اعتراضات عالمگیریت کے نئے دور میں کچھ ممالک کی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقی حل ٹیرف کی دیواریں کھڑی کرنے میں نہیں، بلکہ کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے قواعد میں بہتری لانے میں ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ کراس بارڈر ای کامرس کی عالمی عملداری نے بین الاقوامی تجارت کے روایتی ماڈلز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ چین کے صوبے یوننان کے کافی کاشتکاروں کو براہ راست یورپی صارفین سے جوڑتا ہے، اور ای وو شہر کے چھوٹے تاجروں کو امریکی قصبوں کے گاہکوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ “براہ راست رابطے کا ماڈل” مڈل مین کی اجارہ داری کو ختم کر کے عالمگیریت کو زیادہ جامع بناتا ہے۔ اگر قلیل المدتی مفادات کے لیے اس رجحان کو دبایا گیا تو نہ صرف معاشی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ عالمی سپلائی چینز کی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچے گا۔آج جبکہ دنیا مہنگائی اور کمزور طلب جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، سستی اور معیاری مصنوعات عوام کی زندگیوں کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ممالک کو تحفظ پسندانہ سوچ ترک کر کے ڈبلیو ٹی او جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کے ذریعے قواعد میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ حقیقی منصفانہ مقابلہ انتظامی ہتھکنڈوں سے نہیں، بلکہ کھلی مارکیٹ میں مسلسل جدت اور ترقی سے جنم لیتا ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چینی کراس بارڈر ای کامرس سپلائی چین پلیٹ فارمز قواعد میں کے طور پر ہم ا ہنگی کے مطابق کے ذریعے کرتا ہے کے لیے کر رہی
پڑھیں:
جوانی کے غصے سے بڑھاپے کے سکون تک: خواتین کیسے بدلتی ہیں؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسان کے جسمانی خدوخال میں تبدیلی آتی ہے، وہیں جذبات، احساسات اور رویے بھی بالغ اور متوازن ہونے لگتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کی نفسیات میں عمر کے ساتھ جو مثبت تبدیلی آتی ہے، وہ حیران کن اور قابلِ ستائش ہے۔
نئی سائنسی تحقیقات سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ خواتین میں عمر بڑھنے کے ساتھ غصے کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت میں نمایاں بہتری آتی ہے۔
نوجوانی اور جوانی کے ایام میں خواتین کو اکثر ہارمونی اتار چڑھاؤ، خاندانی اور سماجی دباؤ، اور خود اعتمادی کی تشکیل جیسے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ ان عوامل کے نتیجے میں ان کے جذبات میں شدت، فوری ردعمل اور بعض اوقات چڑچڑاپن دیکھا جا سکتا ہے۔ مگر جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، تجربات، مشاہدات اور سمجھ بوجھ ایک نیا زاویہ اختیار کرتی ہے۔
سائنس بتاتی ہے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون جیسے ہارمونز خواتین کے مزاج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، خصوصاً تولیدی عمر کے دوران۔ ان کی سطحوں میں آنے والا اتار چڑھاؤ اکثر موڈ کے بدلنے، چڑچڑاہٹ اور غصے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے،تاہم عمر کے ساتھ جب ہارمونز کی سطحیں مستحکم ہونے لگتی ہیں تو اس کا اثر جذبات پر بھی پڑتا ہے ۔ خواتین زیادہ متوازن، تحمل مزاج اور معاملہ فہم ہو جاتی ہیں۔
عمر کے ساتھ ایک اور اہم پہلو خود آگاہی اور ذہنی بلوغت ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق بالغ خواتین عام طور پر یہ سمجھ جاتی ہیں کہ کب جذباتی ردعمل دینا ہے اور کب خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے۔ وہ جان لیتی ہیں کہ ہر بات پر ردعمل دینا وقت اور توانائی کا ضیاع ہے اور خاموشی یا مسکراہٹ بعض اوقات سب سے طاقتور جواب ہوتی ہے۔
ایک جرمن تحقیق کے مطابق 40 سال سے زائد عمر کی خواتین میں غصے کو کنٹرول کرنے کی شرح نوجوان خواتین کی نسبت 30 فیصد زیادہ دیکھی گئی۔ اس تحقیق میں انکشاف ہوا کہ بالغ خواتین معمولی اختلافات کو سنجیدہ مسئلہ نہیں بناتیں بلکہ انہیں حکمت، صبر اور تجربے سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اسی طرح ایک امریکی مطالعے میں پایا گیا کہ 60 سال سے زائد عمر کی خواتین زیادہ پر سکون، برداشت کرنے والی اور مفاہمت پسند ہوتی ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کا ہنر سیکھ چکی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بھی زیادہ پرسکون رہتی ہیں۔
نوجوان خواتین کو اکثر معاشرتی دباؤ، خاندانی توقعات اور خود کو منوانے کی جدوجہد کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل ان کی ذہنی کیفیت کو متاثر کرتے ہیں،لیکن عمر کے ساتھ یہ دباؤ یا تو کم ہو جاتے ہیں یا ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت آ جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں خواتین کی شخصیت نکھرتی ہے ۔ ایک ایسے تجربہ کار وجود کی صورت میں جو جانتا ہے کہ زندگی میں سکون، تعلقات اور جذبات میں توازن ہی اصل دولت ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عمر رسیدہ خواتین نہ صرف جذباتی طور پر پختہ ہوتی ہیں بلکہ وہ غصے جیسے پیچیدہ جذبے پر بھی زیادہ بہتر کنٹرول رکھتی ہیں۔ ان کے رویے میں ٹھہراؤ، فیصلوں میں دانائی اور ردعمل میں توازن ہوتا ہے، جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی ایک نعمت ہوتا ہے۔