بیجنگ :حالیہ برسوں میں چینی کراس بارڈر ای کامرس کی تیز رفتار ترقی نے کچھ ممالک میں تنازعات کو جنم دیا ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چینی ای کامرس ادارے مغربی ممالک کی چھوٹی درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ جیسے قواعد میں موجود “خامیوں” کا فائدہ اٹھا کر کم قیمتوں پر ڈمپنگ کے ذریعے مقامی مارکیٹوں کو متاثر کر رہی ہیں، جسے غیر منصفانہ مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق G7 کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنرز کی اس ہفتے ہونے والی میٹنگ میں بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔کیا حقیقت واقعی ایسی ہے؟ راقم الحروف کے نزدیک یہ نقطہ نظر نہ صرف عالمی تجارت کی آزادی کی بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے، بلکہ مارکیٹ میں مقابلے کے صحت مند نتائج کو “قواعد میں چالاکی” کے طور پر پیش کر کے صارفین کے حقوق کی عدم توجہی اور مارکیٹ کے اصولوں کی غلط تشریح کرتا ہے۔ چینی کراس بارڈر ای کامرس کا عروج عالمگیریت کے تناظر میں سپلائی چین کی کارکردگی اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی کا فطری نتیجہ ہے، نہ کہ قواعد کے ساتھ “چال بازی”۔ چھوٹی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کی پالیسی درحقیقت بین الاقوامی تجارتی قواعد کے تحت گردش کو آسان بنانے کے لیے وضع کی گئی ایک ایسی اسٹرکچرل ترتیب ہے جو کم قیمت اشیاء کے لیے کسٹم کے عمل کو سہل اور انتظامی اخراجات کو کم کرتی ہے۔ SHEIN اور Temu جیسے چینی پلیٹ فارمز کی عالمی مارکیٹ میں تیز رفتار ترقی کا بنیادی راز ان کے پیچھے مضبوط سپلائی چین نیٹ ورک اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان بے مثال ہم آہنگی میں پنہاں ہے، جو “میڈ ان چائنا” کی قیمت اور کارکردگی کی برتری کو عالمی صارفین کے لیے حقیقی فوائد میں تبدیل کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز قواعد میں تبدیلیوں کے مطابق اپنی حکمت عملیاں پہلے ہی ایڈجسٹ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک گوداموں کا قیام، ٹیکس چھوٹ پر انحصار میں کمی، اور “نیم ہوسٹڈ ماڈل” کے ذریعے مقامی سطح پر کارکردگی کو فروغ دینا—یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا کاروباری ماڈل دراصل کارکردگی کی بہتری پر مرکوز ہے نہ کہ ٹیکس رعایتوں پر۔ ساتھ ہی عالمی مارکیٹوں کے تقاضوں کے مطابق چینی کمپنیاں بڑی کوششیں کر رہی ہیں، جیسے علی بابا انٹرنیشنل کا اے آئی رسک مینجمنٹ سسٹم جو مختلف ممالک کے قوانین، تجارتی پالیسیوں اور مصنوعات کے معیارات میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ چینی ادارے اعلیٰ معیارات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کم قیمتوں پر مقابلے کو “غیر منصفانہ” قرار دینا درحقیقت مقامی کمپنیوں کی ناکامیوں کا الزام بیرونی چیلنجوں پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ریٹیل سیکٹر طویل عرصے سے لیبر کی زیادہ لاگت اور غیر لچکدار سپلائی چین کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز نے ڈیجیٹل پروڈکٹ سلیکشن، ٹارگٹڈ مارکیٹنگ اور تیز رفتار لاجسٹکس کے ذریعے درمیانی اور کم آمدنی والے گھرانوں کی ضروریات پوری کی ہیں۔ اگر “انصاف” کے نام پر سستی مصنوعات تک ان کی رسائی ختم کر دی جائے تو یہ مارکیٹ کے بنیادی اصولوں میں کھلی مداخلت ہوگی۔مزید یہ کہ “غیر منصفانہ مقابلے” کے الزامات اکثر دوہرے معیارات کے ساتھ چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپی یونین ایک طرف چینی مصنوعات کو “سلامتی کے معیارات پر پورا نہ اترنے” کا الزام دیتی ہے، دوسری طرف یورپی فاسٹ فیشن برانڈز کو ترقی پذیر ممالک میں پیداوار آؤٹ سورس کر کے لاگت کم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس منتخب نگرانی کے پیچھے درحقیقت معاشی مسائل کو سیاسی بنانا اور “قواعد کی نئی تشکیل” کے بہانے مارکیٹ کی حفاظت کرنا کارفرما ہے۔چینی کراس بارڈر ای کامرس پر اعتراضات عالمگیریت کے نئے دور میں کچھ ممالک کی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقی حل ٹیرف کی دیواریں کھڑی کرنے میں نہیں، بلکہ کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے قواعد میں بہتری لانے میں ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ کراس بارڈر ای کامرس کی عالمی عملداری نے بین الاقوامی تجارت کے روایتی ماڈلز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ چین کے صوبے یوننان کے کافی کاشتکاروں کو براہ راست یورپی صارفین سے جوڑتا ہے، اور ای وو شہر کے چھوٹے تاجروں کو امریکی قصبوں کے گاہکوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ “براہ راست رابطے کا ماڈل” مڈل مین کی اجارہ داری کو ختم کر کے عالمگیریت کو زیادہ جامع بناتا ہے۔ اگر قلیل المدتی مفادات کے لیے اس رجحان کو دبایا گیا تو نہ صرف معاشی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ عالمی سپلائی چینز کی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچے گا۔آج جبکہ دنیا مہنگائی اور کمزور طلب جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، سستی اور معیاری مصنوعات عوام کی زندگیوں کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ممالک کو تحفظ پسندانہ سوچ ترک کر کے ڈبلیو ٹی او جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کے ذریعے قواعد میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ حقیقی منصفانہ مقابلہ انتظامی ہتھکنڈوں سے نہیں، بلکہ کھلی مارکیٹ میں مسلسل جدت اور ترقی سے جنم لیتا ہے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: چینی کراس بارڈر ای کامرس سپلائی چین پلیٹ فارمز قواعد میں کے طور پر ہم ا ہنگی کے مطابق کے ذریعے کرتا ہے کے لیے کر رہی

پڑھیں:

میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے: وائس ایڈمرل فیصل عباسی

پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس 2025 کی میڈیا بریف کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوئی۔ اس موقع پر کمانڈر کراچی وائس ایڈمرل محمد فیصل عباسی نے میڈیا کو ایونٹ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمانڈر کراچی وائس ایڈمرل محمد فیصل عباسی نے بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کا دوسرا ایڈیشن 3 سے 6 نومبر 2025 تک کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: میری ٹائم شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ یہ نمائش پاکستان کی بلیو اکانومی کے فروغ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس ایونٹ میں دنیا کے قریباً تمام خطوں کے نمائندے شریک ہوں گے۔

وائس ایڈمرل محمد فیصل عباسی نے مزید بتایا کہ نمائش میں دنیا بھر سے 178 نمائش کنندگان حصہ لیں گے، جن میں 28 بین الاقوامی ادارے اور 150 مقامی ادارے شامل ہیں۔ مزید برآں، یورپ، ایشیا، شمالی و جنوبی امریکا اور مشرق بعید سے تعلق رکھنے والے 133 بین الاقوامی وفود بھی اس تقریب میں شرکت کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ان وفود میں برطانیہ، اٹلی، ایران، تُرکیہ، سعودیہ، آسٹریلیا، مصر اور چین سمیت 44 ممالک کے نمائندے شامل ہیں ۔

انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ مقامی نمائش کنندگان کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کے پویلین بھی نمائش میں موجود ہوں گے جن کا مقصد ملکی بحری شعبے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔

کمانڈر کراچی نے میڈیا کے کردار کو سراہتے ہوئے اس اعتماد کا اظہار کیاکہ میڈیا حسبِ روایت اس اہم قومی ایونٹ کی بھرپور تشہیر میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس 25 میں میری ٹائم کے مختلف شعبوں کی نمائش کے ساتھ ساتھ بی ٹو بی اور بی ٹو جی ملاقاتیں، اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط شامل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان اعلیٰ سطحی ملاقاتوں کا مقصد غیر ملکی مندوبین، سرکاری حکام، اور بحری صنعت سے وابستہ اسٹیک ہولڈرز کے مابین تعاون کو فروغ دینا اور بندرگاہوں، شپنگ، ماہی گیری، اور ساحلی ترقی جیسے اہم شعبوں میں شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے۔

کمانڈر کراچی نے مزید کہاکہ نمائش کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل میری ٹائم کانفرنس بھی منعقد کی جائے گی، جو 4 تا 5 نومبر 2025 تک دو روزہ پروگرام کے طور پر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میری ٹائم افیئرز کے زیرِ انتظام منعقد کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پاکستانی بندرگاہوں پرمیری ٹائم سیکیورٹی ہائی الرٹ

’اس کانفرنس کا موضوع ’پائیدار ترقی کے لیے بلیو اکانومی کی صلاحیتوں سے استفادہ‘ ہے، جس میں چار سیشنز کے دوران ممتاز قومی و بین الاقوامی ماہرین اور اسکالرز کی جانب سے 14 تحقیقی مقالے پیش کیے جائیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پریس بریفنگ میری ٹائم ایکسپو وائس ایڈمرل فیصل عباسی وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • عالمی مارکیٹ میں سونا مہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر بھی قیمتوں میں مزید اضافہ
  • چینی کی قیمت میں کمی نہ ہوسکی، انتظامیہ دفاتر تک محدود
  • فلمی ٹرمپ اور امریکا کا زوال
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • پاکستان کی بلیو اکنامی کیلئے پائیمک ایکسپو اہمیت کی حامل ہوگی، وائس ایڈمرل فیصل عباسی
  • میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے: وائس ایڈمرل فیصل عباسی
  • پاکستان کی بلیو اکنامی کیلئے پائیمک ایکسپو اہمیت کی حامل ہوگی: وائس ایڈمرل فیصل عباسی
  • سونے کی قیمت میں آج بھی کمی ریکارڈ، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
  • آئمہ کرام کی رجسٹریشن کیلئے کوئی قواعد و ضوابط جاری نہیں کیے، محکمہ داخلہ