چینی کراس بارڈر ای کامرس کی عالمی اہمیت اور منصفانہ مقابلے کے بیانیے کی حقیقت WhatsAppFacebookTwitter 0 22 May, 2025 سب نیوز

بیجنگ :حالیہ برسوں میں چینی کراس بارڈر ای کامرس کی تیز رفتار ترقی نے کچھ ممالک میں تنازعات کو جنم دیا ہے۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ چینی ای کامرس ادارے مغربی ممالک کی چھوٹی درآمدی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ جیسے قواعد میں موجود “خامیوں” کا فائدہ اٹھا کر کم قیمتوں پر ڈمپنگ کے ذریعے مقامی مارکیٹوں کو متاثر کر رہی ہیں، جسے غیر منصفانہ مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق G7 کے وزرائے خزانہ اور مرکزی بینکوں کے گورنرز کی اس ہفتے ہونے والی میٹنگ میں بھی اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔

کیا حقیقت واقعی ایسی ہے؟ راقم الحروف کے نزدیک یہ نقطہ نظر نہ صرف عالمی تجارت کی آزادی کی بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرتا ہے، بلکہ مارکیٹ میں مقابلے کے صحت مند نتائج کو “قواعد میں چالاکی” کے طور پر پیش کر کے صارفین کے حقوق کی عدم توجہی اور مارکیٹ کے اصولوں کی غلط تشریح کرتا ہے۔ چینی کراس بارڈر ای کامرس کا عروج عالمگیریت کے تناظر میں سپلائی چین کی کارکردگی اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان ہم آہنگی کا فطری نتیجہ ہے، نہ کہ قواعد کے ساتھ “چال بازی”۔ چھوٹی اشیاء پر ٹیکس چھوٹ کی پالیسی درحقیقت بین الاقوامی تجارتی قواعد کے تحت گردش کو آسان بنانے کے لیے وضع کی گئی ایک ایسی اسٹرکچرل ترتیب ہے جو کم قیمت اشیاء کے لیے کسٹم کے عمل کو سہل اور انتظامی اخراجات کو کم کرتی ہے۔ SHEIN اور Temu جیسے چینی پلیٹ فارمز کی عالمی مارکیٹ میں تیز رفتار ترقی کا بنیادی راز ان کے پیچھے مضبوط سپلائی چین نیٹ ورک اور مارکیٹ کی ضروریات کے درمیان بے مثال ہم آہنگی میں پنہاں ہے،

جو “میڈ ان چائنا” کی قیمت اور کارکردگی کی برتری کو عالمی صارفین کے لیے حقیقی فوائد میں تبدیل کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز قواعد میں تبدیلیوں کے مطابق اپنی حکمت عملیاں پہلے ہی ایڈجسٹ کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر بیرون ملک گوداموں کا قیام، ٹیکس چھوٹ پر انحصار میں کمی، اور “نیم ہوسٹڈ ماڈل” کے ذریعے مقامی سطح پر کارکردگی کو فروغ دینا—یہ تمام اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا کاروباری ماڈل دراصل کارکردگی کی بہتری پر مرکوز ہے نہ کہ ٹیکس رعایتوں پر۔ ساتھ ہی عالمی مارکیٹوں کے تقاضوں کے مطابق چینی کمپنیاں بڑی کوششیں کر رہی ہیں، جیسے علی بابا انٹرنیشنل کا اے آئی رسک مینجمنٹ سسٹم جو مختلف ممالک کے قوانین، تجارتی پالیسیوں اور مصنوعات کے معیارات میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مارکیٹ کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ چینی ادارے اعلیٰ معیارات کے مطابق ڈھلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔کم قیمتوں پر مقابلے کو “غیر منصفانہ” قرار دینا درحقیقت مقامی کمپنیوں کی ناکامیوں کا الزام بیرونی چیلنجوں پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ریٹیل سیکٹر طویل عرصے سے لیبر کی زیادہ لاگت اور غیر لچکدار سپلائی چین کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا ہے۔ چینی ای کامرس پلیٹ فارمز نے ڈیجیٹل پروڈکٹ سلیکشن، ٹارگٹڈ مارکیٹنگ اور تیز رفتار لاجسٹکس کے ذریعے درمیانی اور کم آمدنی والے گھرانوں کی ضروریات پوری کی ہیں۔ اگر “انصاف” کے نام پر سستی مصنوعات تک ان کی رسائی ختم کر دی جائے تو یہ مارکیٹ کے بنیادی اصولوں میں کھلی مداخلت ہوگی۔مزید یہ کہ “غیر منصفانہ مقابلے” کے الزامات اکثر دوہرے معیارات کے ساتھ چلتے ہیں۔

مثال کے طور پر یورپی یونین ایک طرف چینی مصنوعات کو “سلامتی کے معیارات پر پورا نہ اترنے” کا الزام دیتی ہے، دوسری طرف یورپی فاسٹ فیشن برانڈز کو ترقی پذیر ممالک میں پیداوار آؤٹ سورس کر کے لاگت کم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس منتخب نگرانی کے پیچھے درحقیقت معاشی مسائل کو سیاسی بنانا اور “قواعد کی نئی تشکیل” کے بہانے مارکیٹ کی حفاظت کرنا کارفرما ہے۔چینی کراس بارڈر ای کامرس پر اعتراضات عالمگیریت کے نئے دور میں کچھ ممالک کی بے چینی کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن حقیقی حل ٹیرف کی دیواریں کھڑی کرنے میں نہیں، بلکہ کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے قواعد میں بہتری لانے میں ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ کراس بارڈر ای کامرس کی عالمی عملداری نے بین الاقوامی تجارت کے روایتی ماڈلز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ چین کے صوبے یوننان کے کافی کاشتکاروں کو براہ راست یورپی صارفین سے جوڑتا ہے، اور ای وو شہر کے چھوٹے تاجروں کو امریکی قصبوں کے گاہکوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔

یہ “براہ راست رابطے کا ماڈل” مڈل مین کی اجارہ داری کو ختم کر کے عالمگیریت کو زیادہ جامع بناتا ہے۔ اگر قلیل المدتی مفادات کے لیے اس رجحان کو دبایا گیا تو نہ صرف معاشی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ عالمی سپلائی چینز کی ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچے گا۔آج جبکہ دنیا مہنگائی اور کمزور طلب جیسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، سستی اور معیاری مصنوعات عوام کی زندگیوں کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ممالک کو تحفظ پسندانہ سوچ ترک کر کے ڈبلیو ٹی او جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز کے ذریعے قواعد میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔ حقیقی منصفانہ مقابلہ انتظامی ہتھکنڈوں سے نہیں، بلکہ کھلی مارکیٹ میں مسلسل جدت اور ترقی سے جنم لیتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکیا جاپان میں تباہی آنے والی ہے؟ ’نئی بابا وانگا‘ کی پیشگوئی نے دنیا کو خوف میں مبتلا کر دیا بجٹ مذاکرات جاری؛ عوام کو ریلیف دینے کیلیے متبادل پلان آئی ایم ایف کو پیش چینی چپس کو روکنے کی امریکی کوشش ناکام، آئندہ بھی کامیابی کا امکان نہیں، چینی میڈیا سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال؛ اسٹاک مارکیٹ میں 717 پوائنٹس کی تیزی آئی ایم ایف کا ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر عدم اطمینان کا اظہار دکانداروں سمیت کاروبار میں ٹیکس چوری روکنے کیلئے جرمانوں کی شرح بڑھانے کا فیصلہ مشیرخزانہ پختونخوا نے صوبے کے بقایاجات کی ادائیگی کیلئے وفاق کو خط لکھ دیا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چینی کراس بارڈر ای کامرس کراس بارڈر ای کامرس کی کی عالمی

پڑھیں:

پاکستانی کمپنی کو عالمی مارکیٹ سے بیف کے کروڑوں روپے کے آرڈرز مل گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستانی معیشت کے لیے خوش آئند خبر یہ ہے کہ چین میں بیف کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث پاکستان کو اربوں روپے کے برآمدی آرڈرز مل گئے ہیں۔

دی اورگینک میٹ کمپنی نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو آگاہ کیا ہے کہ اسے چین سے 7.5 ملین امریکی ڈالر مالیت کے نئے آرڈرز موصول ہوئے ہیں۔ یہ معاہدہ سی پیک فریم ورک کے تحت طے پایا ہے اور اس کے ذریعے پاکستان سے ایک سال کے دوران فروزن بون لیس بیف چین کو برآمد کیا جائے گا۔

کمپنی کے مطابق چین میں حلال پروٹین مصنوعات کی مانگ میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے پاکستانی بیف ایکسپورٹ کے مواقع وسیع ہورہے ہیں۔ برآمد کیا جانے والا بیف عالمی معیار کے مطابق ہوگا تاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات کا اعتماد اور مقام مزید مضبوط ہوسکے۔

یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ لائیو اسٹاک سیکٹر کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستان اپنی پروسیسنگ اور ایکسپورٹ کے معیار کو مزید بہتر کرے تو مستقبل میں برآمدات کئی گنا بڑھ سکتی ہیں۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ یہ شراکت داری پاکستان کے زرعی اور گوشت کے شعبے کے لیے ایک بڑا موقع ہے، جس سے کسانوں اور کاشتکاروں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور دیہی معیشت کو سہارا ملے گا۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
  • کرنسی مارکیٹوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ
  • چمن میں پاک افغان بارڈر ٹیکسی اسٹینڈ پر دھماکا، 5 افراد جاں بحق
  • انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید اضافہ
  • سعودی، پاکستانی سٹریٹجک معاہدے کی اہمیت، عرب صحافت کی نظر میں
  • ہنگری میں قبر کھودنے کے 2025 کے عالمی مقابلے کا انعقاد
  • پاکستانی کمپنی کو عالمی مارکیٹ سے بیف کے کروڑوں روپے کے آرڈرز مل گئے
  • پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ ریکارڈ
  • وزیر مواصلات عبدالعلیم خان سے قازقستان کے سفیرکی ملاقات
  • انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید تگڑا