زباں فہمی 254 ؛ پھر وہی توتا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
برادرِعزیز رضوان احمد صدیقی کا یہ خیال درست ہے کہ ہماری قوم بہت ہی ’فارغ‘ ہے۔ چونکہ بندہ اس وقت ذرا فارغ ہے تو سوچاکیوں نہ اپنے ’فارغ‘ قارئین بشمول معاصرین کرام کی ’دل پشوری‘ کے لیے ایسے موضوع پر طبع آزمائی ایک بار پھر کی جائے جس پر خاکسار کی تحریروتقریر سے، ہنوز بہت سے خُردوکلاں مستفید نہیں ہوئے یعنی وہی ’طوئے سے طوطا کہ تے سے توتا‘۔
اس سے پہلے کہ قبلہ ’بڑے صدیقی صاحب‘ (یعنی محترم احمد حاطب صدیقی) کا دل چسپ، دل نشیں اوردل پذیر کالم اسی موضوع کو لے اُڑے، بندہ اپنی کہی ہوئی باتیں کچھ اور وسعتِ بیان کے ساتھ مکرّر عرض کرکے ’فرسٹ‘ آنا چاہتا ہے (ورنہ ہماری خامہ فرسائی کون دیکھے گا) ۔ ہماری قوم (اگر واقعی کوئی قوم ہے تو) ہر اُس معاملے میں بہ سُرعت تمام کُود پڑتی ہے جس کا منطقی انجام، پس منظر وپیش منظر پیشگی واضح ہوتا ہے، لہٰذا طے شُدہ لسانی مباحث میں دخل اندازی بھی ہر کس وناکس نے اپنا اوّلین نہ سہی، دُوُم فریضہ سمجھا ہوا ہے۔
اِدھر کسی نے سوشل میڈیا پر کوئی سُرّی چھوڑی، اُدھر ’بھائی لوگ‘ شروع، بلکہ ایک دم ’چالُو‘ کہ ’’ یُوں نہیں، یُوں ہوتا ہے‘‘.
پچھلے دنوں کسی صاحب نے فیس بُک پر شگوفہ چھوڑا کہ ’’طوئے سے طوطا ہی پڑھتے لکھتے سُنتے آئے ہیں، یہ کس نے جدید اردو قاعدے میں تے سے توتا لکھ دیا‘‘۔ ایک فاضل دوست نے احتیاطاً لکھ کر نقل پیش کی: ’’اردو کا جنازہ ہے‘‘۔ خیر وہ بے چارے اہل زبان نہیں، جبکہ اہل زبان میں ایک بڑی تعداد ایسے معاملات میں بغیر معلومات کے ’کٹّر پنتھی‘ رویّے کا مظاہرہ کرتی ہے اور اِن دنوں بھی کررہی ہے کہ ’’ طوئے سے طوطا صدیوں سے چلا آرہا ہے، یہ اچانک تے سے کیسے ہوگیا‘‘۔
کچھ پڑھے لکھوں نے قدیم ومشہور کتاب (اور پھر اُسی عنوان سے اشفاق احمد کا ڈراما) ’توتا کہانی‘ یاد کرائی تو کچھ نے اِسے ’وقت کا ضیاع‘ قرار دے کر داخل ِ دفتر کرنا چاہا کہ ’صاحبو! اصل مسئلہ تو نفاذِاُردو کا ہے۔
یہ سب فضول مباحث ہیں‘۔ آفرین ہے بھئی! جب آپ کو مجھ جیسا کوئی بندہ بے دام یہ پیشکش کرتا ہے کہ تین چار شعبوں کے تجربات (فارسی میں کہیں تو تجارُب) کا حامل یہ ناچیز، ہمہ جہتی نفاذ وترویج کے لیے اپنے معاصرین (خصوصاً خُرد اور جواں سال) کی رہنمائی کے لیے تیار ہے، آئیے بات کریں تو اِس کے جواب میں آئیں بائیں شائیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ بقراط ہے ، اَرِسطو ہے اور افلاطون ہے ;سیکھے بغیر سِکھانے پر آمادہ ہی نہیں ، بلکہ تُلا ہوا ہے.... تو جناب! ایسے میں حکومت بشمول مقننہ و عدلیہ و منتظمہ سے کیا توقع رکھنا؟ اور پھر یہ سمجھنا کہ ہم جو کہتے ہیں ، بس آمنّا صدقنا کہتے جائیں اور زبان واَدب سے متعلق کوئی بات نہ کریں....ایں چہ بوالعجبیست؟
ماقبل اسی راقم نے اپنے کالموں، مضامین اور دیگر شذرات میں یہ بات بارہا لکھی ہے کہ اصل لفظ ’توتا‘ ہی تھا اور ہے اور اِسے ایک پھل شہتُوت عرف تُوت [Morus alba, known as white mulberry, common mulberry and silkworm mulberry] سے نسبت ہے۔ قدیم وجدید فارسی لغات میں یہ تفصیل موجود ہے کہ یہ پرندہ نہ صرف بکثرت تُوت کھانے کی وجہ سے تُوتی [Tuti]کہلایا، بلکہ اس کا سبز رنگ بھی اسی سے مماثل ہے۔ سلسلہ زباں فہمی کے مضمون نمبر 102 بعنوان ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 20 جون 2021ء میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ یہ مضمون ایکسپریس نیوز ٹی وی کی ویب سائٹ ایکسپریس ڈاٹ پی کے پر دستیاب ہے۔ اس کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں:
زباں فہمی نمبر 102 بعنوان ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘، تحقیق وتحریر سہیل احمدصدیقی سے اقتباس
’’گزشتہ دنوں واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں یہ بحث چھڑگئی کہ مشہور محاورے ''نقارخانے میں طُوطی کی آواز'' میں طُوطی کون ہے۔ فارسی زبان سے ناواقف، بعض احباب کا خیال تھا کہ یہ ہمارے توتے سے مختلف، کوئی خوش آوازوخوش رنگ، ایرانی پرندہ ہے جو تُوت یعنی شہتوت کھاتا ہے (کیونکہ اُن کے ذہن میں ہَریَل توتے کی ٹیں ٹیں ہی ہوگی، دیگر 402، اقسام کے توتوں کا نہیں سوچا ہوگا۔
ہم یہاں یہ تحقیق دُہراتے ہیں کہ طوطا ہی درحقیقت توتا ہے اور وہی طُوطی بھی۔ اصل لفظ، تے سے توتا ہی ہے جسے اس خطے میں 'عربا' لیا گیا اور طوطا لکھا جانے لگا۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ اسی طرح جیسے ایک شاعر اپنا تخلص تپش کی بجائے طپش لکھتے تھے۔ دیگر مثالیں اس پر مستزاد!)۔ ایک معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی (مؤرخہ12 جون2019ء) ہمارے بزرگ ہم عصر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ایک تحریر سے پتا چلتا ہے کہ اُنھیں بھی یہی مغالطہ ہوا کہ طُوطی، توتے سے جدا کوئی اور پرندہ ہے‘‘۔
زباں فہمی نمبر 102کا اختتامیہ یہ تھا
’’فارسی سے نابلد کوئی بھی اہل قلم کسی ایسی بحث میں اپنی رائے قطعیت سے دینے کا مجاز نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ سکوت اختیار کرے، ورنہ تقلیدِمحض میں معاملات متأثر ہوتے ہیں۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فُلاں صاحب /صاحبہ نے ایسا لکھا، کہا اور نقل کیا تو بس;اُن کا کہا ہوا تو حَرفِ آخر ہے‘‘۔ اقتباس ختم شُد
بات تو ختم ہوجانی چاہیے تھی، مگر پچھلے دنوں یہی بحث زندہ کی گئی تو ہمارے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کا وہی پُرانا کالم سامنے آیا اور اُنہی کے ایک نئے کالم کا ذکر کیا گیا جس کا حوالہ اشاعت نہیں تھا اور جو بہرحال ادھوری صداقت پر مبنی تھا۔ قارئین کرام کی تسلّی کے لیے اُس کالم سے اقتباس یہاں نقل کرکے بات منطقی انجام تک پہنچاتا ہوں:
ڈاکٹررؤف پاریکھ کے کالم بہ سلسلہ صحتِ زباں (مطبوعہ 12 جون، 2019 ء)، بعنوان توتی یا طوطی؟ سے اقتباس:
کچھ عرصے قبل انہی کالموں میں لفظ ’’توتا‘‘کا ذکر چلا تھا اور ہم نے عرض کیا تھا کہ ہرے رنگ کے اس پرندے کا درست املا ’’ت‘‘ سے توتا ہے اور اس کو ’’ط‘‘ سے طوطا لکھنا غلط ہے، اگرچہ یہ غلط املا یعنی طوئے (ط) سے طوطا اردو میں بہت زیادہ رائج ہے۔ بقول رشید حسن خاں، اردو کے اہم لغت نگاروں نے وضاحت کردی ہے کہ ’’طوطا‘‘ غلط املا ہے اور اس کو ہمیشہ ’’توتا‘‘ لکھنا چاہیے۔ (اردو املا،ص131)۔
اس پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پھر طوطی کا کیا ہوگا؟ یعنی اگر لفظ توتا درست ہے اور اس کی مؤنث توتی ہوگی، تو پھر اُردو کے محاورے ’’طوطی بولنا‘‘ کا کیا ہوگا؟ اسے توتی بولنا (ت سے) لکھا جائے گایا طوطی بولنا (ط سے)؟ اسی طرح ’’نقار خانے میں توتی (ت سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھا جائے گا ۔یا’۔’نقار خانے میں طوطی (ط سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھنا چاہیے؟ نیز یہ کہ توتی/ طوطی بولتی ہے یا توتی/ طوطی بولتا ہے میں سے کون سا استعمال درست ہے؟
عرض ہے کہ اردو کی متداول لغات میں اس ضمن میں دو مختلف الفاظ درج ہیں۔ سبز رنگ کے پرندے کے مفہوم میں ایک لفظ ’’توتا‘‘ ہے (تے سے) اور اس کی تانیث کے طور پر ’’توتی‘‘ (تے سے) کا لفظ رائج ہے۔ البتہ جو لوگ توتا کو طوئے سے طوطا لکھنے پر (غلط طور پر) اصرار کرتے ہیں وہ اس کی تانیث کو توتی (تے سے) نہیں بلکہ طوطی (طوئے سے) لکھتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا لفظ بھی لغات میں درج ہے اور یہ طُوطی۔ یا ۔تُوتی ہے جو ہرے رنگ کے پرندے یعنی توتا کی تانیث نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک بالکل الگ لفظ ہے اور اس کا تلفظ بھی الگ ہے۔
فرہنگ ِ آصفیہ میں ’’توُتی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ’’خوش آواز چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی چڑیا کا نام ہے جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی اور شہتُوت کمال رغبت سے کھاتی ہے، چنانچہ اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا۔ اہل ِدہلی اس کو مذکر بولتے ہیں گو بقاعدۂ اردو، تانیث ہے۔ فارسی والے توتے کو بھی طُوطی کہتے ہیں۔‘‘ گویا ’’تُوتی‘‘ ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ تُو تی ہے یعنی اس میں واؤ معروف ہے اور اسے واؤمجہول سے یعنی ’’موتی‘‘ یا ’’دھوتی‘‘ کی طرح نہیں بلکہ واؤمعروف سے یعنی ’’جُوتی‘‘ کی طرح بولنا چاہیے۔
دوسری بات یہ کہ تُوتی (جُوتی کا قافیہ) مؤنث نہیں ہے اور اِسے مذکر ہی کے طور پر برتا جاتا ہے، جیسے اس میدان میں فُلاں صاحب کا ’’تُوتی بولتا ہے‘‘ (نا کہ تُوتی بولتی ہے)۔ البتہ اس کا ایک املا طوئے سے یعنی طُوطی بھی درست مانا جاتا ہے یعنی ’’طُوطی بولتا ہے‘‘ بھی درست ہے۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی کتاب ’’محاکمہ ٔمرکزِاُردو‘‘ کے علاوہ اپنی لغت ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں بھی درج کیا ہے جسے ہم مختصراً پیش کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ اُستاد ابراہیم ذوق ؔدہلوی نے ایک لکھنوی شاعر کی زمین میں غزل کہی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا:
ہے قفس سے شور اِک گلشن تلک فریاد کا
خوب طُوطی بولتا ہے اِن دنوں صیّاد کا
ایک لکھنوی شاعر نے سن کر اعتراض کیا کہ آپ نے طوطی کو مذکر باندھا ہے حالانکہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی) علامت ِ تانیث موجود ہے۔ ذوق نے کہا کہ محاورے میں توتی مذکر ہی ہے اور محاورے میں کسی کا اجارہ نہیں ہوتا۔ اور پھر انھیں اپنے ساتھ دہلی کی جامع مسجد کے قریب لگنے والے پرندوں کے بازار میں لے گئے۔ ایک دہلی والے صاحب طوطی کا پنجرہ لیے آرہے تھے۔
لکھنوی شاعر نے پوچھا ’’بھیّا! تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟‘‘ اس دہلوی نے جواب دیا ’’میاں تمھاری بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے‘‘۔ لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ گویا تُوتی بولنا یا طُوطی بولنا محاورہ ہے لیکن اس میں جو پرندہ ہے وہ مذکر ہے اور یہاں یہ لفظ توتا (یا طوطا) کی مؤنث کے طور پر نہیں آتا۔ اس لیے یوں کہا جائے گا کہ ان کا تُوتی بولتا ہے اور نقار خانے میں تُوتی (مذکر) کی آواز کون سنتا ہے۔
فرہنگ ِ آصفیہ میں ’’تُوتی بولنا‘‘ اور ’’تُوتی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے‘‘ جیسے اندراجات میں تُوتی کو تے(ت) سے توتی لکھا ہے۔ گویا صاحب ِ فرہنگ ِآصفیہ اس کے املے میں ’’ط‘‘ کو نہیں بلکہ ’’ت‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں البتہ صاحب ِ فرہنگ ِ آصفیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ فارسی میں اس کا املا معرّب ہوگیا ہے لہٰذا اسے طوطی (ط سے) لکھنا بھی جائز ہے۔ اثر لکھنوی نے ’’فرہنگِ اثر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’توتی /طوطی بولنا ‘‘میں تذکیر کے ضمن میں دہلی کی تخصیص نہیں ہے،’’لکھنؤ میں بھی بلا تفریق مذکر ہے‘‘ (جلد چہارم، مقتدرہ قومی زبان، ص 772) اور پھر سحرؔ اور برق ؔکے (جو لکھنوی شعرا تھے) اشعار، مذکر کی سند کے طور پر دیے ہیں۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:
1۔ توتا کی مؤنث توتی ہے اور اس کا تلفظ واؤ مجہول سے یعنی موتی اور دھوتی کی طرح ہے۔
2۔ لیکن تُوتی ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ واو معروف سے یعنی جُوتی کی طرح ہے۔
3۔ تُوتی کا معرّب املا طُوطی بھی ہے جو فارسی میں بھی رائج ہے۔
4۔ اگرچہ طُوطی یا تُوتی ایک قسم کی چڑیا کا نام ہے لیکن اردو میں اِسے مذکر ہی بولا جاتا ہے۔ اسی لیے درست محاورہ ہوگا طُوطی (یا تُوتی) بولتا ہے۔ اقتباس ختم شُد
یہاں راقم سہیل کی عرض بھی ملاحظہ فرمائیں: لسانی تحقیق میں محض لغات سے اقتباسات نقل کرنا اور اَپنے تئیں قیاس کرنا ہی کافی نہیں;اوّلین شرط اہلِ زبان ہونا ہے اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ اگر آپ لسانیات کے آدمی ہیں تو آپ کو زیرِبحث لسانی مسئلے میں اصل زبان کے مصادر ومآخذ کا کماحقہ‘ ۔یا۔کم ازکم بنیادی علم ہو، ورنہ آپ کے لسانی قیاس کی کوئی حیثیت نہیں! دیگر یہ کہ اس تفصیل میں یہ غلط فہمی خواہ مخواہ پیدا ہوگئی کہ طُوطی /تُوتی کوئی اور پرندہ ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ فارسی کی تمام قدیم وجدید اور معتبر (کتابی شکل میں۔ یا۔ آنلائن دستیاب) لغات میں یہ نکتہ بالکل واضح ہے اور دائرۃ المعارف (Encyclopaedias) میں بھی مل جاتا ہے ;شرط ہے تلاش و جستجو۔ ایک بات اور یہ کہ لفظ توتی پہلے ’’توتک‘‘ بھی لکھا جاتا رہا ہے اور اِس کا وضاحت بھی فارسی لغات میں مل جاتی ہے، نیز اِس کی جڑ ہمارے خطے کی بڑی زبانوں بشمول سنسکِرِت (پھر ہندی) ودیگر میں موجود ہے۔ یہاں ناواقف قارئین بشمول اہل قلم کے لیے وضاحت کردوں کہ فارسی لفظ ’تُوتی‘ ۔یا۔’طُوطی‘ (توتا) مذکر ہی ہے، اردو وفارسی میں اس کی مؤنث نہیں، جبکہ اردو والوں نے توتے کی مؤنث بنائی: توتی/طوطی بروَزن دھوتی وغیرہ۔ یہ نکتہ اگر معلوم ہو تو کبھی اس بابت ابہام نہ ہوکہ مذکر کیا اور مؤنث کیا ہے۔
ہمارے یہاں ایک عجیب سا رِواج مدّتوں رہا کہ فارسی اسم یا لفظ کو ’عرباکر ‘ تبدیل کردیا گیا اور یہ عمل ہندوستان اور فارس (ایران) میں زیادہ ہوا، عرب میں کم کم۔ جیسے توتی (فارسی) سے طوطی بنایا گیا، اُسی طرح تپش سے طپش، (فورٹ ولیم کالج، کلکتہ کے مصنف وشاعرمیرزاجان طپشؔ، جن کی متعدد کتب آنلائن دستیاب ہیں)، تیّار سے طیّار (یعنی آمادہ: یہ عربی کا طیّار بمعنیٰ اُڑنے والا نہیں)، تہران سے طہران (علامہ اقبال نے بھی طہران لکھا ہے اور اَبھی سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ایکس ( X ) المعروف ٹوئیٹر پر بھی ایک رجحان [Trend] طہران دیکھنے میں آیا، مگر لکھنے والے نے فارسی وعربی کے اتباع میں ’’طھران‘‘ لکھ دیا ہے، جبکہ اردو میں ’ہ‘ اور ’ھ‘ مختلف ہیں۔
ہمارے فیس بُک دوست جناب نادرخان سرگِروہ نے ’تپش‘ ۔یا۔’طپش‘ کے موضوع پراپنے مختصر شذرے میں کلّیاتِ میرؔ سے یہ شعر بطور ِحوالہ درج کرکے ثابت کیا کہ میرؔ کے دورمیں یہ لفظ ’ط‘ سے رائج تھا:
چھوڑدیتے ہیں قلم جُوں قلمِ آتش باز
مِری شرحِ طپشِ دل کی کتابت والے
مؤلفِ فرہنگ ِ آصفیہ نے بھی اسی بِناء پر یہ لکھا کہ ’’آج کل’ت‘ سے تپش جائز ہے، اگلے لوگ ’ط‘ سے طپش لکھاکرتے تھے۔
میرزامحمد اسماعیل عُرف میرزا جان طپش (المتوفّیٰ 1814 ء ) کا سن ِ پیدائش دستیاب نہیں۔ اُن کے والد میرزا محمد یوسف، بُخارا سے دِلّی آکر بس گئے تھے۔ طپشؔ، ڈھاکہ کے نواب شمس الدولہ کے خاص مصاحب تھے۔
ہمارے باذوق قارئین کرام یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکا میں 1989ء سے فارسی میں نشریات شروع ہونے والے ایک ٹیلیوژ ن براڈکاسٹنگ ادارےPersian Broadcasting Company-PBC کا فارسی نام شبکہ تلویزیونی طپش ۔یا۔ مختصراً ’طپش‘ (بمعنیٰ دل کی دھڑکن) ہے، جسے وہ انگریزی میں Tapesh Media, LLCبھی کہتے ہیں۔
چلتے چلتے ایک لسانی شگوفہ ملاحظہ فرمائیں: مشرقی یورپ کے مُلک استونیا [Estonia] میں ایک گاؤں کا نام تُوتی [Tuti] ہے مگر اِس کا مطلب ’توتا‘ نہیں، بلکہ ’بالکل اچانک‘ (all at once) ہے جبکہ استونیئن زبان میں توتے کو Papagoi کہتے ہیں۔ اپنے مضمون ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘ میں خاکسار نے ایران کے ایک گاؤں بنام ’طُوطی‘ کا ذکر کیا تھا۔ا1ھ
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لکھنوی شاعر کون سنتا ہے وطی بولنا زباں فہمی فارسی میں کے طور پر ہے اور اس پرندہ ہے لغات میں کہتے ہیں بولتا ہے کی ا واز ہے اور ا کی مو نث کا تلفظ جاتا ہے مذکر ہی لکھا ہے اور پھر میں ایک میں بھی درست ہے ا ہے کہ ہے کہ ا کی طرح کا نام کے لیے میں یہ اور یہ ا صفیہ ی نہیں
پڑھیں:
دمے کا مرض ختم کیوں نہیں ہوتا؟
دمہ (Asthma) ایک دائمی بیماری ہے یعنی یہ عام طور پر مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی بلکہ طویل مدتی انتظام کے ذریعے اسے قابو میں رکھا جاتا ہے ۔
دمہ ختم نہ ہونے کی کئی سائنسی اور طبی وجوہات ہیں:
1 ۔سانس کی نالیوں کا مستقل حساس ہونا
دمہ میں پھیپھڑوں کی نالیاں ہمیشہ حساس رہتی ہیں۔ یہ حساسیت کئی سالوں تک رہتی ہے اور کسی محرک (مثلاً دھول، دھواں، سردی) کی صورت میں فوراً سوجن اور سکڑاؤ پیدا کرتی ہیں۔
2 ۔جینیاتی اثر
دمہ اکثر موروثی بیماری ہوتی ہے ۔ اگر خاندان میں کسی کو دمہ ہے تو دوسروں کو بھی اس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اور جینیاتی بیماریاں اکثر دائمی ہوتی ہیں اور مکمل "ختم” نہیں ہوتیں، صرف قابو میں رکھی جاتی ہیں۔
3 ۔ماحولیاتی عوامل
دھواں، پولن، ٹھنڈی ہوا، پالتو جانوروں کے بال، کیمیکل، اسموگ، جراثیم یا مٹی کے ذرات، یہ سب دمے کے حملے کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ عوامل ہمیشہ موجود ہوتے ہیں، اس لیے دمہ دوبارہ پیدا ہوجاتا ہے ۔
4 ۔مدافعتی نظام کی تبدیلی (Immune Dysregulation)
دمہ اصل میں مدافعتی نظام کے انتہائی ردعمل والی بیماری ہے ۔ جسم بعض اوقات ایسے محرکات پر بھی ردِعمل دیتا ہے جو عام لوگوں پر اثر نہیں ڈالتے ۔
5 ۔دوائیوں کا عارضی اثر
دمہ کی ادویات (مثلاً انہیلر یا Corticosteroids) علامات کو عارضی طور پر کنٹرول کرتی ہیں، لیکن جڑ سے ختم نہیں کرتیں۔ جیسے ہی دوا بند کی جائے گی، علامات واپس آجاتی ہیں۔
6 ۔جسمانی ساخت میں تبدیلی
اگر دمہ بہت عرصے تک رہے تو پھیپھڑوں کی نالیوں میں مستقل تبدیلی آ سکتی ہے جسے واپس نارمل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔