Express News:
2025-09-18@17:30:32 GMT

زباں فہمی 254 ؛ پھر وہی توتا

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

برادرِعزیز رضوان احمد صدیقی کا یہ خیال درست ہے کہ ہماری قوم بہت ہی ’فارغ‘ ہے۔ چونکہ بندہ اس وقت ذرا فارغ ہے تو سوچاکیوں نہ اپنے ’فارغ‘ قارئین بشمول معاصرین کرام کی ’دل پشوری‘ کے لیے ایسے موضوع پر طبع آزمائی ایک بار پھر کی جائے جس پر خاکسار کی تحریروتقریر سے، ہنوز بہت سے خُردوکلاں مستفید نہیں ہوئے یعنی وہی ’طوئے سے طوطا کہ تے سے توتا‘۔

اس سے پہلے کہ قبلہ ’بڑے صدیقی صاحب‘ (یعنی محترم احمد حاطب صدیقی) کا دل چسپ، دل نشیں اوردل پذیر کالم اسی موضوع کو لے اُڑے، بندہ اپنی کہی ہوئی باتیں کچھ اور وسعتِ بیان کے ساتھ مکرّر عرض کرکے ’فرسٹ‘ آنا چاہتا ہے (ورنہ ہماری خامہ فرسائی کون دیکھے گا) ۔ ہماری قوم (اگر واقعی کوئی قوم ہے تو) ہر اُس معاملے میں بہ سُرعت تمام کُود پڑتی ہے جس کا منطقی انجام، پس منظر وپیش منظر پیشگی واضح ہوتا ہے، لہٰذا طے شُدہ لسانی مباحث میں دخل اندازی بھی ہر کس وناکس نے اپنا اوّلین نہ سہی، دُوُم فریضہ سمجھا ہوا ہے۔

اِدھر کسی نے سوشل میڈیا پر کوئی سُرّی چھوڑی، اُدھر ’بھائی لوگ‘ شروع، بلکہ ایک دم ’چالُو‘ کہ ’’ یُوں نہیں، یُوں ہوتا ہے‘‘.

.......’’ایسے کہنا صحیح نہیں‘‘.....’’ایسے لکھنا صحیح نہیں‘‘.....وغیرہ وغیرہ۔ جس طرح راقم کا پرانا قول ہے کہ ٹیلیوژن کے شعبہ تصنیف وتحقیق (خصوصاً ڈرامانگاری) میں ایسے بے شمار لوگوں کو براہ راست ’ڈراما رائٹر‘ ۔ یا ۔ ’ریسرچر‘ بنادیا گیا ہے جنھوں نے کبھی ڈائری بھی نہیں لکھی ہوگی، اسی طرح یہ بھی اسی ہیچ مدآں کو لکھنا اور کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اپنے نام کے معنیٰ و ماخذ سے واقف ہوں نہ ہوں، مادری زبان اردو ہو نہ ہو، ایک دم سے اچھل کر ، ماہرلسان ہی نہیں، ماہر لسانیات بن جاتے ہیں۔

پچھلے دنوں کسی صاحب نے فیس بُک پر شگوفہ چھوڑا کہ ’’طوئے سے طوطا ہی پڑھتے لکھتے سُنتے آئے ہیں، یہ کس نے جدید اردو قاعدے میں تے سے توتا لکھ دیا‘‘۔ ایک فاضل دوست نے احتیاطاً لکھ کر نقل پیش کی: ’’اردو کا جنازہ ہے‘‘۔ خیر وہ بے چارے اہل زبان نہیں، جبکہ اہل زبان میں ایک بڑی تعداد ایسے معاملات میں بغیر معلومات کے ’کٹّر پنتھی‘ رویّے کا مظاہرہ کرتی ہے اور اِن دنوں بھی کررہی ہے کہ ’’ طوئے سے طوطا صدیوں سے چلا آرہا ہے، یہ اچانک تے سے کیسے ہوگیا‘‘۔

کچھ پڑھے لکھوں نے قدیم ومشہور کتاب (اور پھر اُسی عنوان سے اشفاق احمد کا ڈراما) ’توتا کہانی‘ یاد کرائی تو کچھ نے اِسے ’وقت کا ضیاع‘ قرار دے کر داخل ِ دفتر کرنا چاہا کہ ’صاحبو! اصل مسئلہ تو نفاذِاُردو کا ہے۔

یہ سب فضول مباحث ہیں‘۔ آفرین ہے بھئی! جب آپ کو مجھ جیسا کوئی بندہ بے دام یہ پیشکش کرتا ہے کہ تین چار شعبوں کے تجربات (فارسی میں کہیں تو تجارُب) کا حامل یہ ناچیز، ہمہ جہتی نفاذ وترویج کے لیے اپنے معاصرین (خصوصاً خُرد اور جواں سال) کی رہنمائی کے لیے تیار ہے، آئیے بات کریں تو اِس کے جواب میں آئیں بائیں شائیں۔ ہر کوئی اپنی جگہ بقراط ہے ، اَرِسطو ہے اور افلاطون ہے ;سیکھے بغیر سِکھانے پر آمادہ ہی نہیں ، بلکہ تُلا ہوا ہے.... تو جناب! ایسے میں حکومت بشمول مقننہ و عدلیہ و منتظمہ سے کیا توقع رکھنا؟ اور پھر یہ سمجھنا کہ ہم جو کہتے ہیں ، بس آمنّا صدقنا کہتے جائیں اور زبان واَدب سے متعلق کوئی بات نہ کریں....ایں چہ بوالعجبیست؟

ماقبل اسی راقم نے اپنے کالموں، مضامین اور دیگر شذرات میں یہ بات بارہا لکھی ہے کہ اصل لفظ ’توتا‘ ہی تھا اور ہے اور اِسے ایک پھل شہتُوت عرف تُوت [Morus alba, known as white mulberry, common mulberry and silkworm mulberry] سے نسبت ہے۔ قدیم وجدید فارسی لغات میں یہ تفصیل موجود ہے کہ یہ پرندہ نہ صرف بکثرت تُوت کھانے کی وجہ سے تُوتی [Tuti]کہلایا، بلکہ اس کا سبز رنگ بھی اسی سے مماثل ہے۔ سلسلہ زباں فہمی کے مضمون نمبر 102 بعنوان ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 20 جون  2021ء میں بیش بہا معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ یہ مضمون ایکسپریس نیوز ٹی وی کی ویب سائٹ ایکسپریس ڈاٹ پی کے پر دستیاب ہے۔ اس کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں:

زباں فہمی نمبر 102 بعنوان ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘، تحقیق وتحریر سہیل احمدصدیقی سے اقتباس

’’گزشتہ دنوں واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں یہ بحث چھڑگئی کہ مشہور محاورے ''نقارخانے میں طُوطی کی آواز'' میں طُوطی کون ہے۔ فارسی زبان سے ناواقف، بعض احباب کا خیال تھا کہ یہ ہمارے توتے سے مختلف، کوئی خوش آوازوخوش رنگ، ایرانی پرندہ ہے جو تُوت یعنی شہتوت کھاتا ہے (کیونکہ اُن کے ذہن میں ہَریَل توتے کی ٹیں ٹیں ہی ہوگی، دیگر 402، اقسام کے توتوں کا نہیں سوچا ہوگا۔

ہم یہاں یہ تحقیق دُہراتے ہیں کہ طوطا ہی درحقیقت توتا ہے اور وہی طُوطی بھی۔ اصل لفظ، تے سے توتا ہی ہے جسے اس خطے میں 'عربا' لیا گیا اور طوطا لکھا جانے لگا۔ یہ کوئی واحد مثال نہیں۔ اسی طرح جیسے ایک شاعر اپنا تخلص تپش کی بجائے طپش لکھتے تھے۔ دیگر مثالیں اس پر مستزاد!)۔ ایک معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی (مؤرخہ12 جون2019ء) ہمارے بزرگ ہم عصر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کی ایک تحریر سے پتا چلتا ہے کہ اُنھیں بھی یہی مغالطہ ہوا کہ طُوطی، توتے سے جدا کوئی اور پرندہ ہے‘‘۔

زباں فہمی نمبر 102کا اختتامیہ یہ تھا

’’فارسی سے نابلد کوئی بھی اہل قلم کسی ایسی بحث میں اپنی رائے قطعیت سے دینے کا مجاز نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ سکوت اختیار کرے، ورنہ تقلیدِمحض میں معاملات متأثر ہوتے ہیں۔ لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فُلاں صاحب /صاحبہ نے ایسا لکھا، کہا اور نقل کیا تو بس;اُن کا کہا ہوا تو حَرفِ آخر ہے‘‘۔ اقتباس ختم شُد

بات تو ختم ہوجانی چاہیے تھی، مگر پچھلے دنوں یہی بحث زندہ کی گئی تو ہمارے فاضل بزرگ معاصر ڈاکٹر رؤف پاریکھ صاحب کا وہی پُرانا کالم سامنے آیا اور اُنہی کے ایک نئے کالم کا ذکر کیا گیا جس کا حوالہ اشاعت نہیں تھا اور جو بہرحال ادھوری صداقت پر مبنی تھا۔ قارئین کرام کی تسلّی کے لیے اُس کالم سے اقتباس یہاں نقل کرکے بات منطقی انجام تک پہنچاتا ہوں:

ڈاکٹررؤف پاریکھ کے کالم بہ سلسلہ صحتِ زباں (مطبوعہ 12 جون، 2019 ء)، بعنوان توتی یا طوطی؟ سے اقتباس:

کچھ عرصے قبل انہی کالموں میں لفظ ’’توتا‘‘کا ذکر چلا تھا اور ہم نے عرض کیا تھا کہ ہرے رنگ کے اس پرندے کا درست املا ’’ت‘‘ سے توتا ہے اور اس کو ’’ط‘‘ سے طوطا لکھنا غلط ہے، اگرچہ یہ غلط املا یعنی طوئے (ط) سے طوطا اردو میں بہت زیادہ رائج ہے۔ بقول رشید حسن خاں، اردو کے اہم لغت نگاروں نے وضاحت کردی ہے کہ ’’طوطا‘‘ غلط املا ہے اور اس کو ہمیشہ ’’توتا‘‘ لکھنا چاہیے۔ (اردو املا،ص131)۔

اس پر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پھر طوطی کا کیا ہوگا؟ یعنی اگر لفظ توتا درست ہے اور اس کی مؤنث توتی ہوگی، تو پھر اُردو کے محاورے ’’طوطی بولنا‘‘ کا کیا ہوگا؟ اسے توتی بولنا (ت سے) لکھا جائے گایا طوطی بولنا (ط سے)؟ اسی طرح ’’نقار خانے میں توتی (ت سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھا جائے گا ۔یا’۔’نقار خانے میں طوطی (ط سے) کی آواز کون سنتا ہے‘‘ لکھنا چاہیے؟ نیز یہ کہ توتی/ طوطی بولتی ہے یا توتی/ طوطی بولتا ہے میں سے کون سا استعمال درست ہے؟

عرض ہے کہ اردو کی متداول لغات میں اس ضمن میں دو مختلف الفاظ درج ہیں۔ سبز رنگ کے پرندے کے مفہوم میں ایک لفظ ’’توتا‘‘ ہے (تے سے) اور اس کی تانیث کے طور پر ’’توتی‘‘ (تے سے) کا لفظ رائج ہے۔ البتہ جو لوگ توتا کو طوئے سے طوطا لکھنے پر (غلط طور پر) اصرار کرتے ہیں وہ اس کی تانیث کو توتی (تے سے) نہیں بلکہ طوطی (طوئے سے) لکھتے ہیں۔ لیکن ایک دوسرا لفظ بھی لغات میں درج ہے اور یہ طُوطی۔ یا ۔تُوتی ہے جو ہرے رنگ کے پرندے یعنی توتا کی تانیث نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک بالکل الگ لفظ ہے اور اس کا تلفظ بھی الگ ہے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں ’’توُتی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ ایک ’’خوش آواز چھوٹی سی سبز یا سرخ رنگ کی چڑیا کا نام ہے جو تُوت کے موسم میں اکثر دکھائی دیتی اور شہتُوت کمال رغبت سے کھاتی ہے، چنانچہ اسی وجہ سے اس کا نام تُوتی رکھا گیا۔ اہل ِدہلی اس کو مذکر بولتے ہیں گو بقاعدۂ اردو، تانیث ہے۔ فارسی والے توتے کو بھی طُوطی کہتے ہیں۔‘‘ گویا ’’تُوتی‘‘ ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ تُو تی ہے یعنی اس میں واؤ معروف ہے اور اسے واؤمجہول سے یعنی ’’موتی‘‘ یا ’’دھوتی‘‘ کی طرح نہیں بلکہ واؤمعروف سے یعنی ’’جُوتی‘‘ کی طرح بولنا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ تُوتی (جُوتی کا قافیہ) مؤنث نہیں ہے اور اِسے مذکر ہی کے طور پر برتا جاتا ہے، جیسے اس میدان میں فُلاں صاحب کا ’’تُوتی بولتا ہے‘‘ (نا کہ تُوتی بولتی ہے)۔ البتہ اس کا ایک املا طوئے سے یعنی طُوطی بھی درست مانا جاتا ہے یعنی ’’طُوطی بولتا ہے‘‘ بھی درست ہے۔ اس سلسلے میں ایک دل چسپ واقعہ مولوی سید احمد دہلوی نے اپنی کتاب ’’محاکمہ ٔمرکزِاُردو‘‘ کے علاوہ اپنی لغت ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں بھی درج کیا ہے جسے ہم مختصراً پیش کرتے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ اُستاد ابراہیم ذوق ؔدہلوی نے ایک لکھنوی شاعر کی زمین میں غزل کہی جس میں ایک شعر یہ بھی تھا:

ہے قفس سے شور اِک گلشن تلک فریاد کا

خوب طُوطی بولتا ہے اِن دنوں صیّاد کا

ایک لکھنوی شاعر نے سن کر اعتراض کیا کہ آپ نے طوطی کو مذکر باندھا ہے حالانکہ اس میں یاے معروف (یعنی چھوٹی ی) علامت ِ تانیث موجود ہے۔ ذوق نے کہا کہ محاورے میں توتی مذکر ہی ہے اور محاورے میں کسی کا اجارہ نہیں ہوتا۔ اور پھر انھیں اپنے ساتھ دہلی کی جامع مسجد کے قریب لگنے والے پرندوں کے بازار میں لے گئے۔ ایک دہلی والے صاحب طوطی کا پنجرہ لیے آرہے تھے۔

لکھنوی شاعر نے پوچھا ’’بھیّا! تمھاری طوطی کیسی بولتی ہے؟‘‘ اس دہلوی نے جواب دیا ’’میاں تمھاری بولتی ہوگی، یاروں کا طوطی تو خوب بولتا ہے‘‘۔ لکھنوی شاعر بہت خفیف ہوئے اور اپنا سا منھ لے کر رہ گئے۔ گویا تُوتی بولنا یا طُوطی بولنا محاورہ ہے لیکن اس میں جو پرندہ ہے وہ مذکر ہے اور یہاں یہ لفظ توتا (یا طوطا) کی مؤنث کے طور پر نہیں آتا۔ اس لیے یوں کہا جائے گا کہ ان کا تُوتی بولتا ہے اور نقار خانے میں تُوتی (مذکر) کی آواز کون سنتا ہے۔

فرہنگ ِ آصفیہ میں ’’تُوتی بولنا‘‘ اور ’’تُوتی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے‘‘ جیسے اندراجات میں تُوتی کو تے(ت) سے توتی لکھا ہے۔ گویا صاحب ِ فرہنگ ِآصفیہ اس کے املے میں ’’ط‘‘ کو نہیں بلکہ ’’ت‘‘کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں البتہ صاحب ِ فرہنگ ِ آصفیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ چونکہ فارسی میں اس کا املا معرّب ہوگیا ہے لہٰذا اسے طوطی (ط سے) لکھنا بھی جائز ہے۔ اثر لکھنوی نے ’’فرہنگِ اثر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’توتی /طوطی بولنا ‘‘میں تذکیر کے ضمن میں دہلی کی تخصیص نہیں ہے،’’لکھنؤ میں بھی بلا تفریق مذکر ہے‘‘ (جلد چہارم، مقتدرہ قومی زبان، ص 772) اور پھر سحرؔ اور برق ؔکے (جو لکھنوی شعرا تھے) اشعار، مذکر کی سند کے طور پر دیے ہیں۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ:

1۔ توتا کی مؤنث توتی ہے اور اس کا تلفظ واؤ مجہول سے یعنی موتی اور دھوتی کی طرح ہے۔

2۔ لیکن تُوتی ایک الگ پرندہ ہے جس کا تلفظ واو معروف سے یعنی جُوتی کی طرح ہے۔

3۔ تُوتی کا معرّب املا طُوطی بھی ہے جو فارسی میں بھی رائج ہے۔

4۔ اگرچہ طُوطی یا تُوتی ایک قسم کی چڑیا کا نام ہے لیکن اردو میں اِسے مذکر ہی بولا جاتا ہے۔ اسی لیے درست محاورہ ہوگا طُوطی (یا تُوتی) بولتا ہے۔ اقتباس ختم شُد

یہاں راقم سہیل کی عرض بھی ملاحظہ فرمائیں: لسانی تحقیق میں محض لغات سے اقتباسات نقل کرنا اور اَپنے تئیں قیاس کرنا ہی کافی نہیں;اوّلین شرط اہلِ زبان ہونا ہے اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ اگر آپ لسانیات کے آدمی ہیں تو آپ کو زیرِبحث لسانی مسئلے میں اصل زبان کے مصادر ومآخذ کا کماحقہ‘ ۔یا۔کم ازکم بنیادی علم ہو، ورنہ آپ کے لسانی قیاس کی کوئی حیثیت نہیں! دیگر یہ کہ اس تفصیل میں یہ غلط فہمی خواہ مخواہ پیدا ہوگئی کہ طُوطی /تُوتی کوئی اور پرندہ ہے، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔ فارسی کی تمام قدیم وجدید اور معتبر (کتابی شکل میں۔ یا۔ آنلائن دستیاب) لغات میں یہ نکتہ بالکل واضح ہے اور دائرۃ المعارف (Encyclopaedias) میں بھی مل جاتا ہے ;شرط ہے تلاش و جستجو۔ ایک بات اور یہ کہ لفظ توتی پہلے ’’توتک‘‘ بھی لکھا جاتا رہا ہے اور اِس کا وضاحت بھی فارسی لغات میں مل جاتی ہے، نیز اِس کی جڑ ہمارے خطے کی بڑی زبانوں بشمول سنسکِرِت (پھر ہندی) ودیگر میں موجود ہے۔ یہاں ناواقف قارئین بشمول اہل قلم کے لیے وضاحت کردوں کہ فارسی لفظ ’تُوتی‘ ۔یا۔’طُوطی‘ (توتا) مذکر ہی ہے، اردو وفارسی میں اس کی مؤنث نہیں، جبکہ اردو والوں نے توتے کی مؤنث بنائی: توتی/طوطی بروَزن دھوتی وغیرہ۔ یہ نکتہ اگر معلوم ہو تو کبھی اس بابت ابہام نہ ہوکہ مذکر کیا اور مؤنث کیا ہے۔

ہمارے یہاں ایک عجیب سا رِواج مدّتوں رہا کہ فارسی اسم یا لفظ کو ’عرباکر ‘ تبدیل کردیا گیا اور یہ عمل ہندوستان اور فارس (ایران) میں زیادہ ہوا، عرب میں کم کم۔ جیسے توتی (فارسی) سے طوطی بنایا گیا، اُسی طرح تپش سے طپش، (فورٹ ولیم کالج، کلکتہ کے مصنف وشاعرمیرزاجان طپشؔ، جن کی متعدد کتب آنلائن دستیاب ہیں)، تیّار سے طیّار (یعنی آمادہ: یہ عربی کا طیّار بمعنیٰ اُڑنے والا نہیں)، تہران سے طہران (علامہ اقبال نے بھی طہران لکھا ہے اور اَبھی سماجی رابطے کی مشہور ویب سائٹ ایکس ( X ) المعروف ٹوئیٹر پر بھی ایک رجحان [Trend] طہران دیکھنے میں آیا، مگر لکھنے والے نے فارسی وعربی کے اتباع میں ’’طھران‘‘ لکھ دیا ہے، جبکہ اردو میں ’ہ‘ اور ’ھ‘ مختلف ہیں۔

ہمارے فیس بُک دوست جناب نادرخان سرگِروہ نے ’تپش‘ ۔یا۔’طپش‘ کے موضوع پراپنے مختصر شذرے میں کلّیاتِ میرؔ سے یہ شعر بطور ِحوالہ درج کرکے ثابت کیا کہ میرؔ کے دورمیں یہ لفظ ’ط‘ سے رائج تھا:

چھوڑدیتے ہیں قلم جُوں قلمِ آتش باز

مِری شرحِ طپشِ دل کی کتابت والے

مؤلفِ فرہنگ ِ آصفیہ نے بھی اسی بِناء پر یہ لکھا کہ ’’آج کل’ت‘ سے تپش جائز ہے، اگلے لوگ ’ط‘ سے طپش لکھاکرتے تھے۔

 میرزامحمد اسماعیل عُرف میرزا جان طپش (المتوفّیٰ 1814  ء ) کا سن ِ پیدائش دستیاب نہیں۔ اُن کے والد میرزا محمد یوسف، بُخارا سے دِلّی آکر بس گئے تھے۔ طپشؔ، ڈھاکہ کے نواب شمس الدولہ کے خاص مصاحب تھے۔

 ہمارے باذوق قارئین کرام یہ جان کر حیران ہوں گے کہ امریکا میں 1989ء سے فارسی میں نشریات شروع ہونے والے ایک ٹیلیوژ ن براڈکاسٹنگ ادارےPersian Broadcasting Company-PBC کا فارسی نام شبکہ تلویزیونی طپش ۔یا۔ مختصراً ’طپش‘ (بمعنیٰ دل کی دھڑکن) ہے، جسے وہ انگریزی میں Tapesh Media, LLCبھی کہتے ہیں۔

چلتے چلتے ایک لسانی شگوفہ ملاحظہ فرمائیں: مشرقی یورپ کے مُلک استونیا [Estonia] میں ایک گاؤں کا نام تُوتی [Tuti] ہے مگر اِس کا مطلب ’توتا‘ نہیں، بلکہ ’بالکل اچانک‘ (all at once) ہے جبکہ استونیئن زبان میں توتے کو Papagoi کہتے ہیں۔ اپنے مضمون ’’نقارخانے میں طُوطی، توتا‘‘ میں خاکسار نے ایران کے ایک گاؤں بنام ’طُوطی‘ کا ذکر کیا تھا۔ا1ھ

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: لکھنوی شاعر کون سنتا ہے وطی بولنا زباں فہمی فارسی میں کے طور پر ہے اور اس پرندہ ہے لغات میں کہتے ہیں بولتا ہے کی ا واز ہے اور ا کی مو نث کا تلفظ جاتا ہے مذکر ہی لکھا ہے اور پھر میں ایک میں بھی درست ہے ا ہے کہ ہے کہ ا کی طرح کا نام کے لیے میں یہ اور یہ ا صفیہ ی نہیں

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے.عمران خان کا آرمی چیف کے نام پیغام
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage