غزل
جاتے ہوئے جوازِ بقا لے گیا تو پھر
سیلِ بلا، فصیلِ انا لے گیا تو پھر
اس خوف سے بھی جاگتا رہتا ہوں رات بھر
آنکھوں سے کوئی خواب چرا لے گیا تو پھر
مذہب نے آ کے چھین لیے مجھ سے میرے بت
الحاد جاتے جاتے خدا لے گیا تو پھر
تم دیکھ تو رہے ہو تماشا جنون کا
صحرا اٹھا کے آبلہ پا لے گیا تو پھر
بنتا ہے کیا سخی ترے کون و مکان سے
کاسے میں ڈال کر یہ گدا لے گیا تو پھر
خوش اعتقاد شخص ہے، لڑنے سے پیشتر
دشمن بھی آ کے مجھ سے دعا لے گیا تو پھر
اِس خوف سے کہ راس نہ آئے اگر زمیں
میں آسمان ساتھ اٹھا لے گیا تو پھر
(اسد رحمان۔ پپلاں، پنجاب)
۔۔۔
غزل
سب کو دکھائی دیتی ہے میں ایسی گھات ہوں
دیوار پر تحریر اک پوشیدہ بات ہوں
میں ہونے اور نہ ہونے کے ہوں بیچ میں ابھی
میں بود اور نابودکے بھی ساتھ ساتھ ہوں
ہر شے میں جلوہ دیکھتا ہوں ایک ذات کا
کثرت کے درمیان بھی وحدت کے ساتھ ہوں
کوئی آ کے میری ساری اناؤں کو توڑ دے
میں آج کے اس دورکا اک سومنات ہوں
اک زندگی کے بعد ہے اِک اور زندگی
پھر افترا بھی ساتھ ہے کہ بے ثبات ہوں
الفت نے تیری وقت سے بیگانہ کر دیا
دن کو گمان ہوتا ہے جیسے کہ رات ہوں
ساجد ؔ میں اپنے یار سے ایسا ہوں منسلک
پرتَو ہوں اُس کی ذات کا یا عینِ ذات ہوں
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ
ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہم لوگ
اپنا قصہ سنا رہا ہے کوئی
اور دیوار کے بنے ہم لوگ
وصل کے بھید کھولتی مٹی
چادریں جھاڑتے ہوئے ہم لوگ
اس کبوتر نے اپنی مرضی کی
سیٹیاں مارتے رہے ہم لوگ
پوچھنے پر کوئی نہیں بولا
کیسے دروازہ کھولتے ہم لوگ
حافظے کے لیے دوا کھائی
اور بھی بھولنے لگے ہم لوگ
عین ممکن تھا لوٹ آتا وہ
اس کے پیچھے نہیں گئے ہم لوگ
(ضیاء مذکور۔ صادق آباد)
۔۔۔
غزل
مجھ میں جتنے بھی ترے شہر ہیں، برباد کروں
سوچتا ہوں کہ نئی بستیاں آباد کروں
چپ ہی بیٹھا رہے، مجھ پر کوئی پھبتی نہ کسے
میرے بس میں ہو تو وہ آئنہ ایجاد کروں
قفسِ دل میں جگہ ایک ہی طائر کی ہے
میں کسے قید کروں اور کسے آزاد کروں
خود سے چھپ کر تجھے سونپ آیاکلیدِ زنداں
اور کس طرح بھلا میں تری امداد کروں
نخلِ غم کے لیے ناکافی رہا ہجر ترا
کیوں نہ اس کے لیے تیّار نئی کھاد کروں
وقت کی گاچنی ملتی ہی نہیں ہے مجھ کو
کون سی تختی پہ لکھ کر مَیں تجھے یاد کروں
(سعید شارق۔اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
اک لڑکی کے رُخ پر کیا بیزاری ہے
پھولوں کو بھی کھلنے میں دشواری ہے
عشق میں جب بھی کوئی شخص اجڑتا ہے
لگتا ہے اب اگلی میری باری ہے
اس سے پوچھو خوابوں کا اب کیا ہو گا
دن میں جس نے مجھ پر نیند اتاری ہے
مرشد بس میں خود سے نفرت کرتا ہوں
مرشد مجھ کو سوچنے کی بیماری ہے
ڈوب رہے ہیں لوگ سمندر میں عمارؔ
اِس نے اُن آنکھوں کی نقل اتاری ہے
(عمار یاسر مگسی۔لاہور)
۔۔۔
غزل
یہ جو میرے اندر پھیلی خاموشی ہے
تم کیا جانو کتنی گہری خاموشی ہے
اس کی اپنی ہی اک چھوٹی سی دنیا ہے
اک گڑیا ہے، ایک سہیلی خاموشی ہے
تیرا سایہ تیرے ساتھ سفر کرتا ہے
میرے ساتھ مسلسل چلتی خاموشی ہے
فرقت کا دکھ بس وہ سمجھے جس پر بیتے
میں ہوں، سُونا گھر ہے،گہری خاموشی ہے
شب کے پچھلے لمحوں میں، اکثر دیکھا ہے
تنہائی سے مل کر روتی خاموشی ہے
یہ موسم، یہ منظر،روٹھے روٹھے سے ہیں
جیسے سرد رویے، ویسی خاموشی ہے
لگتا ہے کہ تم نے بھی کچھ دیکھ لیا ہے
ہر لمحے جو تم پر طاری خاموشی ہے
مجھ کو انصرؔ روز پریشاں کر دیتی ہے
تیرے ہونٹوں پر جو رہتی خاموشی ہے
(راشد انصر ۔پاکپتن شریف)
۔۔۔
غزل
ترے جوارِ توجہ میں جو کھڑا ہوگا
بڑے بڑوں سے بھی قد میں بہت بڑا ہوگا
اب آ رہا ہوں میں شمشیر جاں سنبھالے ہوئے
ذرا سنبھلنا کہ اب معرکہ کڑا ہوگا
میں سر جھکا نہیں سکتا کسی بھی حالت میں
مجھے یقیں ہے اسی ضد پہ وہ اڑا ہوگا
جو بات اپنے تعلق کی چھڑ گئی ہوگی
میان وہم و یقیں سخت رن پڑا ہوگا
جہاں پہ ہمتیں دینے لگیں گی سب کی جواب
وہاں پہ دیکھنا جھنڈا مرا گڑا ہوگا
نہیں ہے دل مرے سینے میں تو یقینی ہے
نگینے جیسا ترے تاج میں جڑا ہوگا
کسی کا سر جسے کہتے ہیں دیکھنے والے
ندی کے سینے پہ بہتا ہوا گھڑا ہوگا
سکوں سے بیٹھنا فطرت میں ہی نہیں اس کی
وہ نورؔ اپنی ہی پرچھائیں سے لڑا ہوگا
(سید محمد نورالحسن نور۔ ممبئی)
۔۔۔
غزل
کسی کی یاد میں دن بھر تڑپتا عشق رہتا ہے
میرے دل کے جزیروں پر مچلتا عشق رہتا ہے
کوئی تجویز دیں مرشد مجھے باہر نکلنا ہے
میرے اندر کی دنیا میں بھٹکتا عشق رہتا ہے
میری فریاد لے جائے کوئی آقا ؐ کی چوکھٹ تک
مدینے کی فضاؤں کو ترستا عشق رہتا ہے
عجب بے کیف موسم کی فراوانی ہے سینے میں
دھواں دیتی نہیں لکڑی، سلگتا عشق رہتا ہے
جسے معروف ؔدنیا سے غلامی ختم کرنی تھی
وہ خود اب قیدخانے میں چلاتا عشق رہتا ہے
(معروف شاہ۔ اسکردو)
۔۔۔
غزل
یہ رابطہ بھی اس لیے موقوف ہوگیا
میں عرصۂ حیات میں مصروف ہوگیا
حیرت ہے اپنے عہد کی گمنامیوں کے بیچ
مجھ سا فقیر شہر میں معروف ہوگیا
مجھ سے مرے گمان کی گرہیں نہ کھل سکیں
تیرا خیال رات میں ملفوف ہوگیا
صاحب کسی نگاہ کا فیضان دیکھئے
میں کہ تمام شہر پہ مکشوف ہوگیا
ہائے وہ التفات کے رنگوں کی کہکشاں
میں دیکھتے ہی دیکھتے محذوف ہوگیا
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)
۔۔۔
غزل
مشکل ہے اس قدر اب تم پر یقین کرنا
جیسے کہ آسماں کو زیرِ زمین کرنا
قیمت ہمارے دل کی کیا خوب ہے لگائی
بولی لگا کے جیسے اک دو سے تین کرنا
یہ بھی کمال اکثر محفل میں تیری دیکھا
تند خو کو اک نظر میں خندہ جبین کرنا
ہے عشق کی روایت یا معجزہ ہے اس کا
مسند کے وارثوں کو کوچہ نشین کرنا
چہروں کے داغ دھبے دائم ؔ سبھی مٹائیں
لیکن کوئی نہ چاہے دل کو حسین کرنا
(ندیم دائم۔ ہری پور)
۔۔۔
غزل
کہتے ہو جو ہر روز وہ کر کیوں نہیں جاتے
تم فرقتِ دلدار میں مر کیوں نہیں جاتے
بازار میں بک جاتی ہے غیرت کی علامت
دستار چلی جاتی ہے سر کیوں نہیں جاتے
ہر وقت پڑے رہتے ہو رستے میں ہمارے
تم لوگ گزر گاہ سے گھر کیوں نہیں جاتے
قسمت نے جنہیں کھل کے مہکنے نہ دیا ہو
ہاتھوں سے وہی پھول بکھر کیوں نہیں جاتے
میں آج سمجھ پایا تری بے قدری کو
میخانے چلے جاتے ہو گھر کیوں نہیں جاتے
حسرت سے ہی اس آنکھ کو تکتے ہو روزانہ
اس بحر میں تم صائم ؔاتر کیوں نہیں جاتے
(عابد حسین صائم۔ بورے والا، پنجاب)
۔۔۔
غزل
توُ نے جب ہم کو نہ اپنا، جانا
خوب در سے ترے جانا، جانا
پہلے ہنسنا تھا اک عادت اپنی
تجھ سے ملتے ہی تو رونا، جانا
درد سے مجھ کو دوا ہی تو ملی
میں نے گرنے سے سنبھلنا، جانا
وقت کی آنکھ بدلنے کے طفیل
بوجھ کندھوں پر اٹھانا، جانا
زندگی کیسے گزرتی ہے یہ گُر
دوسروں کو بھی سکھانا، جانا
(محبوب الرّحمان۔سینے،میاندم،سوات)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیوں نہیں جاتے عشق رہتا ہے خاموشی ہے کیوں نہ کے لیے مجھ کو ہم لوگ
پڑھیں:
سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم
سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم WhatsAppFacebookTwitter 0 28 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
کچھ واقعات دل کو اس قدر گہرائی سے چھو جاتے ہیں کہ ان کی بازگشت سیلابی پانیوں کے اترنے، چیخ و پکار کے تھمنے اور گرد بیٹھ جانے کے بعد بھی دل و دماغ پر نقش رہتی ہے۔ یہ صرف لمحے نہیں ہوتے، یہ ہمارے اجتماعی شعور پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں — اگر واقعی ہمارا شعور باقی رہ گیا ہے۔ ایسی ہی ایک المناک داستان حالیہ دنوں سوات میں پیش آئی، جہاں خوشی کے لمحے پل بھر میں سوگ میں بدل گئے اور سیر و تفریح کا خواب ایک ناقابل واپسی المیے میں ڈھل گیا۔
اس جمعہ کی دوپہر آسمان ایک ایسے سانحے کا گواہ بنا جسے کوئی دل برداشت نہیں کر سکتا۔ سوات کے نیلگوں اور پُرسکون آسمان، جو ہمیشہ سکون اور حسن کی علامت سمجھے جاتے تھے، اچانک بے بسی سے اس ہولناک منظر کو دیکھتے رہے جب ایک بے رحم پانی کا ریلا وادی میں اُمڈ آیا اور پلک جھپکتے میں قیمتی انسانی جانوں کو نگل گیا۔ بچوں کی ہنسی چیخ و پکار میں بدل گئی، دوستوں کی خوش گپیاں مدد کی دہائیاں بن گئیں، اور قدرت کا سکون ایک المناک تباہی کے منظر میں تبدیل ہو گیا۔
ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے 35 سیاحوں کا ایک گروپ فطرت کی گود میں سکون تلاش کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا تھا۔ یہ خاندان تھے، دوست، بہنیں اور بھائی—زندگی کی تھکن سے کچھ لمحوں کا فرار چاہنے والے عام لوگ۔ مگر ان میں سے تقریباً 16 افراد واپس نہ آ سکے۔ شمالی گلیشیئرز سے جڑی سوات کی خوبصورت دریا ان کے لیے ایک بے نشان قبر بن گئی۔ ان قیمتی جانوں کے آخری لمحے وہاں موجود افراد کے کیمروں میں قید ہوئے—خوف اور بے بسی کی وہ ہولناک جھلکیاں سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچیں۔ مگر ان واضح مناظر کے باوجود جو چیز نظر نہ آئی، وہ وہ چہرے تھے جو سب سے پہلے وہاں موجود ہونے چاہیئے تھے—ریسکیو اہلکار، متعلقہ افسران، اور وہ نظام جو عموما تاخیر کا شکار رہتا ہے۔
عینی شاہدوں کے مطابق متاثرہ خاندان گھنٹوں تک مدد کے لیے پکارتے رہے۔ مایوسی سے بھری ہوئی آوازیں لرزتی رہیں، بھیگے ہاتھوں میں تھامے گئے فون کانپتے رہے، ہر سانس کے ساتھ دعائیں لبوں پر آتی رہیں—مگر کوئی نہ آیا۔ یہ تاخیر جان لیوا ثابت ہوئی۔ یہ صرف انتظامی ناکامی نہ تھی، بلکہ ذمہ داری سے غداری تھی، تکلیف کے منظر میں ایک سفاک خاموشی۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے، مگر ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے—کہ ان لوگوں کے دلوں پر کیا گزری، یہ بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے، جب وہ پانی میں بہتے ہوئے آخری بار کنارے کی طرف دیکھ رہے تھے، اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی، کہیں سے، مدد کو آ جائے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی بے بسی کو تاریخ نے قلم بند کیا ہو۔ یہ بھی پہلا موقع نہیں کہ ہمارا نظام بروقت حرکت میں آنے میں ناکام رہا ہو۔ جہاں فوری عمل ہونا چاہیے تھا، وہاں ہمدردی سے کام لیا گیا؛ جہاں جوابدہی ہونی چاہیے تھی، وہاں افسوس کے بیانات دے دیے گئے؛ اور جہاں اصلاحات کی ضرورت تھی، وہاں مالی امداد کو اس زخم پر مرہم سمجھ لیا گیا جو کبھی نہیں بھر سکتا۔ کیا یہ سانحہ بھی ان حادثات میں شامل ہو جائے گا جو وقت کے دھندلکوں میں گم ہو جاتے ہیں؟ ہو سکتا ہے چند افسر معطل کر دیے جائیں، مالی امداد کا اعلان کر دیا جائے، اور نہایت احتیاط سے لکھے گئے افسوس کے بیانات جاری ہو جائیں—لیکن کیا یہ سب کچھ دریا میں ڈوب جانے والی ان قیمتی جانوں کو واپس لا سکتا ہے؟
اصل سانحہ صرف ڈوب جانا نہیں، بلکہ وہ بے حسی ہے جو اس کے بعد دکھائی دیتی ہے۔ کیا اس سے پہلے ایسے واقعات پیش نہیں آئے؟ کیا ہم نے سیلابی ریلوں میں سیاحوں کو بہنے، خاندانوں کو دریاؤں میں ڈوبتے، اور سڑکوں کو پانی میں بہتے نہیں دیکھا؟ پھر ہم نے کیا سیکھا؟ ہم نے کیا درست کیا؟ یا ہم نے ہمیشہ کی طرح اسے تقدیر کا لکھا کہہ کر شانے اچکا دیے، جیسے انسانی جان اتنی سستی ہو کہ صرف یہ کہہ کر اس کا حساب ختم کر دیا جائے کہ ”یہ تو قسمت میں تھا”؟
ہمارے ردعمل میں ایک ظالمانہ تکرار ہے۔ ہم سوگ منائیں گے، جی ہاں۔ ہم مرحومین کی تصاویر دل شکستہ کیپشنز کے ساتھ شیئر کریں گے۔ ہم اجلاس بلائیں گے، رپورٹس تیار کریں گے، اور کانفرنسوں میں سنجیدگی سے سر ہلائیں گے۔ پھر ہم آگے بڑھ جائیں گے۔ اور وہ لواحقین؟ وہ عمر بھر ایک ایسے خلا کے ساتھ جئیں گے جسے کوئی وقت، کوئی لفظ، کوئی ہمدردی پُر نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اپنے پیاروں کو دفن نہیں کریں گے، بلکہ اپنے وجود کا ایک حصہ بھی مٹی کے حوالے کر دیں گے۔ ایک ماں کے اس درد کا کوئی ازالہ نہیں جو ہنستے ہوئے بیٹے کی واپسی کی منتظر تھی اور جس کے ہاتھ میں اُس کا بے جان جسم آیا؛ اُس باپ کے دکھ کا کوئی مداوا نہیں جو بچوں کو احتیاط کا مشورہ دے کر رخصت کرتا رہا، یہ جانے بغیر کہ وہ مسکراہٹیں اُن کی آخری ہوں گی۔ مگر اس سانحہ نے تو سارے خاندان کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
دوسری قوموں میں اگر ایک بچہ بھی گم ہو جائے یا کوئی جانور مشکل میں ہو، تو پورا نظام حرکت میں آ جاتا ہے۔ سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں، ہنگامی الرٹس جاری کیے جاتے ہیں، اور ہیلی کاپٹرز فضا میں بھیجے جاتے ہیں۔ یہاں درجنوں لوگ ڈوب جاتے ہیں، اور ریاستی مشینری تب جاگتی ہے جب سب کچھ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پہلا مددگار بن جاتا ہے، اور انتظامیہ بے حسی کی عینک لگا کر محض تماشائی بنی رہتی ہے۔
اگر ہم مستقبل میں ایسے دل دہلا دینے والے سانحات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ردِعمل کے طور پر سوگ منانے کی رسم ترک کرنی ہوگی اور پیشگی منصوبہ بندی کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں ایک جامع قومی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں بروقت وارننگ سسٹمز، دریا کے کناروں کی نگرانی، ایمرجنسی مشقیں، اور سیاحوں کے لیے تیار کردہ عوامی آگاہی مہمات شامل ہوں۔ سیٹلائٹ ڈیٹا اور فوری مواصلاتی نظام کے اس دور میں پانی کی سطح کی نگرانی اور ممکنہ طغیانی کی پیشگوئی کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن ایسے تمام آلات اور نظام تب تک بے سود ہیں جب تک اُن کے ساتھ عمل کا حقیقی ارادہ اور عزم نہ ہو۔
سوات کا دریا بہتا رہے گا، اس آنسوؤں سے بے نیاز جو اس نے بہنے دیے۔ سیاح ایک بار پھر اس کی خوبصورتی سے کھنچے چلے آئیں گے، بے خبر اس تاریخ سے جو اس کے پانیوں کے نیچے دفن ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو ایک دن پھر کسی معصوم گروہ کا وہی انجام ہوگا، اور ہم ایک بار پھر خاموش، تاخیر سے پہنچنے والے، اور بہانوں سے بھرے تماشائی بنے رہیں گے۔
آئیے خود کو شاعرانہ تقدیر پسندی کے دھوکے میں نہ رکھیں۔ آئیے اپنی ناکامیوں پر کھوکھلی دعاؤں اور دکھاوے کی ہمدردیوں کا پردہ نہ ڈالیں۔ سوات میں مرنے والے لوگ محض اعداد و شمار نہیں تھے۔ وہ زندہ انسان تھے—محبتوں، کہانیوں، خوابوں سے بھرپور زندگیاں—جنہیں صرف پانی نے نہیں، ہماری غفلت نے بھی چھین لیا۔
اور اگر ہم اس سانحے کے بعد بھی نہ بدلے، تو شاید اصل سیلاب ہمارے دریاؤں میں نہیں، بلکہ ہمارے دلوں میں ہے—جو ہماری ذمہ داری، ہمدردی اور انسانیت کو بہا لے جا رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبردریائے سوات میں ڈوبنے والے ایک اور سیاح کی لاش نکال لی گئی، مرنے والوں کی تعداد 10 ہوگئی حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہ ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد… دنیا کے امتحان کا نیا دور طاقت سے امن یا امن کے بغیر طاقت؟ میزانیہ اور زائچہ مصنف فرمان علی چوہدری عجمی سوشل میڈیا کا عروج اور معاشرتی زوالCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم