Express News:
2025-11-19@04:41:06 GMT

یہ امتیاز کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT

قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور دس سال سے زیادہ عرصہ متحدہ پاکستان کا دارالحکومت رہا جب کہ لاہور مغربی پاکستان کا اور ڈھاکا مشرقی پاکستان کا دارالحکومت تھا جب کہ دونوں صوبوں کے درمیان تقریباً ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جو ہوائی جہاز یا بحری جہازوں کے ذریعے دونوں صوبوں کو ملائے ہوئے تھا۔

 لیاقت علی خان کے بعد کسی سیاسی وزیر اعظم کا اقتدار برداشت نہیں کیا گیا اور آئے دن وزیر اعظم بدلتے رہتے تھے، جنرل ایوب اسکندر مرزا کو ہٹا کر اور مارشل لا لگا کر آمر کے طور پر پہلے حکمران بنے تھے جن کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔بعدازاں ملک کا دارالحکومت کراچی سے منتقل کر کے راولپنڈی کے قریب ایک نیا شہر اسلام آباد بنایا گیا۔

اس وقت کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر تھا جہاں قائد اعظم، شہید ملت لیاقت علی خان اور گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر جیسے رہنما دفن تھے اور تینوں کا قیام پاکستان میں سب سے اہم کردار تھا اور اس وقت بھی کراچی صنعتی شہر اور ملک کی بندرگاہ تھا جس کے ٹیکسوں سے سسٹم کو قوت ملی اور آج 78 سال بعد بھی کراچی کی آمدنی سے صوبہ سندھ چل رہا ہے مگر سندھ کا کوئی حکمران کراچی کا نہیں رہا اور سب اندرون سندھ سے تعلق رکھتے آ رہے ہیں۔

قائد اعظم اور ملک کے پہلے وزیر اعظم کا تعلق کراچی سے تھا جس کے بعد کراچی سے کوئی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہوا، صرف 1999 میں اقتدار میں آنے والے مضبوط حکمران جنرل پرویز مشرف تھے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ کراچی میں دفن ہیں ، انھوں نے کراچی کا بہت خیال رکھا۔

سیاسی حکومتوں میں اب تک جو صدور یا صوبائی گورنر مقرر ہوئے وہ نمائشی اور بے اختیار تھے اور 2008 میں صدر منتخب ہونے والے آصف زرداری کہنے کا تعلق نوابشاہ سے ہے جب کہ 1988 میں منتخب ہونے والی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کے تمام بچے بھی کراچی میں پیدا ہوئے ، وہ اپنا شہر لاڑکانہ کو قرار دیتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور نواسے اور پی پی کے چیئرمین لاڑکانہ سے منتخب ہوتے رہے اور صدر آصف زرداری کا حلقہ انتخاب نواب شاہ ہے اور اب صدر منتخب ہو کر اپنی صاحبزادی کو انھوں نے نوابشاہ سے بلا مقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب کرایا تھا۔

بے نظیر بھٹو جب دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں انھوں نے اسلام آباد کو ترجیح دی اور ان کی حکمرانی میں کراچی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا مگر لیاری کو ضرور اہمیت ملی جو پی پی کا گڑھ ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی پی پی کی ہر حکومت میں ترجیح سے محروم رہا کیونکہ بھٹو دور سے آج تک کراچی پی پی کا کبھی گڑھ نہیں رہا اور کراچی کے ملیر، گڈاپ جیسے مضافاتی علاقے پی پی کی ترجیح ہیں جہاں پی پی کا بڑا ووٹ ہے، جب کہ آج کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہے۔

ہر کوئی مانتا ہے کہ کراچی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے پاکستان اور سندھ کو معاشی فوائد حاصل ہو رہے ہیں جس کی کراچی بندرگاہ قومی خزانے کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے مگر اس اہمیت کے باوجود ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں کراچی کو اس کا حق نہیں دیا اور نظر انداز کیا جب کہ کماؤ پوت ہر گھر کا تارہ ہوتا ہے۔

اسے اہمیت دی جاتی ہے اس کی مانی جاتی ہے ناراض نہیں ہونے دیا جاتا۔ ملک کا کماؤ پوت کراچی آج وفاقی اور سندھ حکومتوں سے ناراض ہے دونوں حکومتوں نے نئے بجٹ میں کراچی کو پھر نظرانداز کیا۔ کراچی کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے جیسے فنڈز رکھے گئے کسی نے بھی کراچی کو کوئی بڑا میگا منصوبہ نہیں دیا۔ وفاقی حکومت کی ترجیح اسلام آباد اور سندھ حکومت کی ترجیح اندرون سندھ ہے۔ اسلام آباد ملک کا خوبصورت ترین شہر ہے جب کہ کراچی کے حالات اچھے نہیں، عالمی سروے اس کا واضح ثبوت ہے۔ اسلام آباد میں ہر طرح ترقیاتی کام جاری، سڑکوں کی تعمیر اوور ہیڈ برجز اور انڈر پاس بن رہے ہیں بلکہ ایک نیا اوور ہیڈ برج مقرر مدت سے بھی کم وقت میں مکمل کیے جانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔

کراچی شہر کی اکثر سڑکیں تباہی کا شکار، ہر طرف نکاسی آب کا مسئلہ، گٹر ابلنا عام، تاریکی کا راج، فراہمی آب و بجلی کے لیے روزانہ احتجاج معمول بنا ہوا ہے۔

کراچی میں جدید بسوں کے لیے سالوں سے ٹریک بننے میں نہیں آ رہے بہ مشکل گرومندر نمائش کا منصوبہ مکمل ہوا مگر یونیورسٹی روڈ پر جاری کاموں سے شہری سخت پریشان ہیں۔ چند اہم شاہراہوں کے علاوہ باقی ہر بڑی چھوٹی سڑک گڑہوں سے بھری پڑی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، ٹرانسپورٹ کی سہولتیں برائے نام رہ گئی ہیں جس پر احتجاج ہوئے مگر کوئی سننے والا نہیں کیونکہ کراچی اب لاوارث شہر ہے جسے کوئی اون نہیں کر رہا باقی مسائل اور معاملات الگ ہیں اور کرپشن کا مال کمانے کے لیے کراچی دبئی مگر دبئی جیسی کوئی سہولت یہاں موجود نہیں ہے۔

کراچی کو بھرپور توجہ ملنی چاہیے اور کسی قسم کا امتیازی سلوک ختم کیا جانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا دارالحکومت اسلام آباد بھی کراچی کراچی میں کراچی کو کراچی سے کا تعلق ملک کا

پڑھیں:

وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے

بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان کا شکایتی بیان، بھارتی دفاعی صنعت پر شدید عدم اعتماد کا اظہار ہے۔

مودی کا ’’میک اِن انڈیا‘‘ دفاعی خواب بری طرح زمین بوس ہوگیا جبکہ بھارتی فوج وقت پر اسلحہ نہ ملنے کی کھلے عام شکایات کرنے لگی۔

بھارتی دفاعی صنعت کی سرد مہری نے سی ڈی ایس کو میڈیا پر آ کر قوم پرستی کی دہائی دینے پر مجبور کر دیا۔

بھارتی جریدے دی پرنٹ کے مطابق سی ڈی ایس انیل چوہان کا کہنا تھا کہ ہم آپ کی منافع کمانے والی کاوشوں میں کچھ قومیت اور حب الوطنی کی توقع رکھتے ہیں۔ دفاعی اصلاحات یک طرفہ عمل نہیں، صنعت کو اپنی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا۔

انیل چوہان نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ معاہدہ کر کے اور وقت پر ڈیلیور نہ کریں، یہ ہماری صنعتی صلاحیت کا نقصان ہے۔ آپ کو اپنی مقامی صلاحیت کے بارے میں سچ بولنا ہوگا، اس کا تعلق قومی سلامتی سے ہے۔

بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا کہنا تھا کہ بہت سی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ان کے مصنوعات 70 فیصد مقامی ہیں، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔

کرپٹ مودی کے دور اقتدار میں بھارتی دفاعی کمپنیاں اربوں کے حکومتی فنڈز لینے کے باوجود جدید ہتھیار وقت پر دینے میں ناکام ہیں۔ بھارتی سی ڈی ایس کی تنقید خود بھارتی فوج کی داخلی بدانتظامی اور ناقص پلاننگ کی گواہی دے رہی ہے۔

بھارتی فوج کی بڑھتی ہوئی مایوسی نے خطے میں ناکام ملٹری ماڈرنائزیشن اور اندرونی کھوکھلے پن کا پردہ چاک کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • 27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں
  • شادی ہالز رات 12بجے بند کرنے اورایکو پر پابندی کاخیرمقدم کرتے ہیں
  • واویلا کیوں؟
  • خاندان کا ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیوں؟
  • وزیرِ اعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ گئے
  • کراچی کی کوئی جگہ محفوظ نہیں ٗپارکس‘ گراؤنڈز وسرکاری زمینیں مافیا زکے رحم و کرم پر ہیں ٗ منعم ظفر
  • وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے
  • یہ اسرائیلوے اورٹرمپوے
  • کراچی میں موت کا رقص جاری
  • وقت پر اسلحہ کیوں نہیں ملتا؟ بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف نے شکایتوں کے انبار لگا دیے