اسرائیل اور ایران کشیدگی میں روس کا حیران کن حد تک محتاط کردار کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
عالمی سطح پر جاری اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی میں روس نے ایک غیر متوقع مگر اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے اثرات وسطی ایشیا کے سیکیورٹی منظرنامے پر بھی پڑ رہے ہیں، حالیہ دورہ ترکمانستان کے دوران روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اپنے ہم منصبوں سے ملاقات کی۔
اشک آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں طلبا سے خطاب کے دوران ان کا مرکزی نکتہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی تھی۔
ترکمانستان، جو ایران کے ساتھ 1100 کلومیٹر سے زائد سرحد رکھتا ہے اور جس کا دارالحکومت اس سرحد سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے، اس کشیدگی سے براہ راست متاثر ہو سکتا ہے، وسیع پیمانے پر جنگ کے خدشات نہ صرف انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں بلکہ انتہا پسند نیٹ ورکس کو بھی متحرک کر سکتے ہیں، جو خطے کے اندرونی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں امریکی فوجی مداخلت کے نتائج ناقابل پیشگوئی ہوں گے، روس کا انتباہ
یہ خطرات دیگر جنوبی سابق سوویت ریاستوں تک بھی پھیل سکتے ہیں، جو روس کے ساتھ قریبی سیاسی و عسکری تعلقات رکھتی ہیں، ایسے پس منظر میں لاوروف کی جانب سے کشیدگی میں کمی اور علاقائی استحکام کی اپیل کو خاص اہمیت دی جا رہی ہے۔
ماسکو کے لیے ایران محض اتحادی نہیں بلکہ ایک ایسا تزویراتی شراکت دار ہے، جو روس کے جنوبی محاذ کو محفوظ بناتا ہے، تہران میں عدم استحکام وسطی ایشیا میں روسی اثرورسوخ کو کمزور کر سکتا ہے۔
سفارتی اشارے اور تزویراتی ترجیحات
رواں سال جنوری میں روس اور ایران نے ایک جامع تذویراتی شراکت داری معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دو طرفہ تعلقات کو باضابطہ شکل دی گئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے چند روز بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ماسکو پہنچے، جہاں انہوں نے صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔
وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بعد ازاں اس دورے کو ’مکمل باہمی مفاہمت‘ پر مبنی قرار دیا اور روس کی حمایت کی تصدیق کی۔
مزید پڑھیں: امریکا، اسرائیل نے ایران پر حملوں کے لیے آئی اے ای اے کی معلومات استعمال کیں، روس
روس، چین اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک نئی قرارداد بھی پیش کی، جس میں فوری جنگ بندی اور سیاسی حل کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی، روسی سفیر واسیلی نیبینزیا نے واضح کیا کہ اس قرارداد کا مقصد کشیدگی میں مزید اضافے کو روکنا ہے۔
تاہم ماسکو نے عوامی بیانات میں احتیاط کا مظاہرہ کیا، سینٹ پیٹرزبرگ اکنامک فورم میں صدر پیوٹن نے اسرائیل کے خلاف کوئی سخت زبان استعمال کرنے سے گریز کیا اور فریقین کے لیے قابلِ قبول سفارتی حل پر زور دیا، یہ محتاط رویہ ظاہر کرتا ہے کہ روس ایک طرف ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل کے ساتھ بھی باقاعدہ سفارتی و عسکری رابطے برقرار رکھے ہوئے ہے۔
عباس عراقچی کا دورہ اور دفاعی پیشکش13 جون کو جب اسرائیلی حملوں میں شدت آئی، روس نے فوری طور پر ان کی مذمت کی اور ایرانی خودمختاری کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا، صدر پیوٹن نے امریکی رویے کو ’بلا جواز جارحیت‘ قرار دیا۔
عباس عراقچی کے دورے سے کچھ دن قبل، صدر پیوٹن نے انکشاف کیا کہ روس نے ایران کو فضائی دفاعی نظام میں توسیعی تعاون کی پیشکش کی تھی، جسے ایران نے اس وقت قبول نہیں کیا، روسی مؤقف کے مطابق، اگر ایران یہ پیشکش پہلے قبول کر لیتا تو شاید وہ ان حملوں کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتا۔
ماسکو کے نزدیک سلامتی کا مطلب صرف بیانات نہیں بلکہ عملی نتائج ہیں، اور وہ اپنے شراکت داروں سے بھی اسی طرزِ عمل کی توقع رکھتا ہے۔
معاہدے کی قانونی حدودواضح رہے کہ 2025 میں طے پانے والے روس-ایران معاہدے میں کسی بھی قسم کی باہمی دفاعی ذمہ داری شامل نہیں ہے، یہ نیٹو کے آرٹیکل 5 جیسا معاہدہ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ روس کو ایران کی عسکری مدد پر مجبور کرتا ہے۔ صدر پیوٹن نے واضح کیا کہ یہ معاہدہ باہمی سیاسی اعتماد اور ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ جنگی تعاون کا ضامن ہے۔
معاہدے میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ دونوں ممالک کسی تیسرے فریق کی اس صورت میں حمایت نہیں کریں گے، جب وہ دوسرے پر حملہ آور ہو، روس نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے، ایران سے اظہار یکجہتی کیا ہے لیکن براہ راست عسکری مداخلت سے گریز کیا ہے۔
پردے کے پیچھے سفارت کاری؟وزیر خارجہ عراقچی کے ماسکو دورے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور ایران سے متعلق اپنا لہجہ نرم کر لیا، عباس عراقچی نے اپنے دورہ استنبول کے دوران کہا تھا کہ روس کے ساتھ بات چیت ’رسماً نہیں بلکہ تذویراتی‘ نوعیت کی ہے۔
امریکی رویے میں اس اچانک تبدیلی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر ماسکو نے خاموشی سے ثالثی کا کردار ادا کیا ہو، کیونکہ روس ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو تہران اور تل ابیب، دونوں کے ساتھ رابطے رکھتا ہے۔
خلاصہروس مشرق وسطیٰ میں ایک محتاط مگر بااثر کردار ادا کر رہا ہے، ماسکو پر یہ الزام کہ وہ ایران کا ساتھ نہیں دے رہا، سیاسی اور قانونی دونوں حوالوں سے غیر حقیقی ہے، روس جنگ کے بجائے سفارتی حکمت عملی، تعاون اور اثرورسوخ کو ترجیح دیتا ہے اور ایسی صورت حال میں جب الفاظ بھی ہتھیار بن جاتے ہیں، تو ماسکو کی پردہ نشین سفارت کاری بعض اوقات بند کمروں میں ہی نتائج پیدا کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
استنبول اسرائیل اشک آباد امریکی صدر ایران تذویراتی ترکمانستان ڈونلڈ ٹرمپ روس سرگئی لاوروف عباس عراقچی کشیدگی وزیر خارجہ ولادیمیر پیوٹن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: استنبول اسرائیل امریکی صدر ایران تذویراتی ترکمانستان ڈونلڈ ٹرمپ سرگئی لاوروف عباس عراقچی کشیدگی ولادیمیر پیوٹن صدر پیوٹن نے عباس عراقچی کشیدگی میں اور ایران سکتے ہیں ہیں بلکہ کے ساتھ کے لیے کہ روس
پڑھیں:
عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں، پی ٹی آئی سینیٹر علی ظفر
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اور پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اراکین کی نااہلی پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت اجلاس میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر علی ظفر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ورکرز پر سزاؤں کی بارش کرنے کے لیے عدالتوں کا استعمال کیا گیا، جھوٹے مقدموں میں سزائیں سنائی گئیں اور فیصلوں کے بعد فوراً الیکشن کمیشن نے اراکین کو نا اہل کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز کو نااہل کیا گیا، آرٹیکل 63 ون ایچ کے تحت ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر نااہلی نہیں ہوسکتی، حتمی فیصلے کے بعد ہی نااہلی ہوسکتی ہے۔
نااہلی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلہ ابھی ہوا ہی نہیں تھا کہ نااہل کردیا گیا، الیکشن کمیشن آزاد نہیں جانب دار ہے، کون سی ایمرجنسی تھی جس پر فوری نااہل کیا گیا؟ فئیر ٹرائل کہاں گیا؟ سیاسی جلد بازی میں نااہلی کا مقصد یہ تھا کہ اچھے بولنے والوں کو بند کردو، کارروائی کا مقصد سچ بولنے والوں کو روکنا تھا، حکومت کو عوام کی آواز سے ڈر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت ہمارے سوالات اور گفتگو سے ڈرتی ہے، یہ معاملہ ان ممبران کا نہیں اپوزیشن کا ہے، یہ ایوان اب پورس کی شکل بن چکا ہے جہاں اپوزیشن لیڈر نہیں، اپوزیشن حکومت کی دشمن نہیں ہوتی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن مل کر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ عدالتوں کو ہتھیار بنا کر ہمیں کیوں نکال رہے ہیں؟ ہم یہاں حادثاتی نہیں عوامی ووٹوں سے آئے ہیں، جلدی بازی میں غیر قانونی سزائیں دے کر ووٹرز کو سزا دے رہے ہیں، یہ معاملہ شبلی فراز وغیرہ کا نہیں ہم سب کا معاملہ ہے کل آپ کی بھی باری آسکتی ہے، سزاؤں کی جو بارش ہمارے اوپر ہورہی ہے کل آپ پر بھی ہوگی۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ایک آدمی کو عہدے سے تو ہٹایا جاسکتا ہے اس کے خیالات سے نہیں ہٹا نہیں سکتے، آپ نے تینوں جگہوں سے ہمارے اپوزیشن لیڈر تو ہٹا دیے لیکن آپ لوگوں کے دلوں سے ہمیں نہیں ہٹاسکتے، ہم سڑکوں اور ایوانوں میں بولیں گے، احتجاج کریں گے، آپ سیٹ تو چھین سکتے ہیں قوم کی آواز نہیں چھین سکتے، آپ جو کررہے ہیں کل آپ کے ساتھ بھی وہی ہوگا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ناصر بٹ نے کہا کہ آپ نے بھی کل کیا تھا جو آپ کے ساتھ ہورہا ہے، انہوں نے جو کیا ہے وہ کاٹ رہے ہیں، آپ لوگ اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اس بات پر ایوان میں شور شرابہ ہوگیا، ناصر بٹ اور پی ٹی آئی اراکین میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کا مطلب ہے میری باتیں آپ کو چبھی ہیں، میں نے آپ کو آپ کا ماضی دکھایا ہے آپ کو آپ کا چہرہ دکھایا ہے۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سینیٹر علی ظفر نے ابھی بیان دیا کہ ڈس کوالیفکیشن آخری آرڈر کے بعد ہوتی ہے، میرا خیال ہے جب سزا ہوجاتی ہے تو جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا یا معطل نہیں کیا جاتا ڈس کوالیفکیشن ہوتی ہے، حتیٰ کہ سزا ہوجانے کے بعد اگر ضمانت ہو بھی جائے تو بھی ڈس کوالیفکیشن ہوجاتی ہے، جس لمحے کسی شخص کو سزا ہوجاتی اسی وقت وہ ڈس کوالیفائی ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حنیف عباسی کو لائسنس کوٹا کے باوجود عمرقید کی سزا دے دی گئی، چیئرمین سینیٹ کے بیٹے کو ضمانت کے باوجود سپریم کورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا گیا، حمزہ شہباز کو دو سال تک جیل میں رکھا گیا۔