رات گئے جب ماسکو کے بین الاقوامی ایئرپورٹ پر پہنچا‘ تو بالکل خالی نظرآیا۔ مسافروں کی گہما گہمی ‘ نہ فلائٹس کے آنے جانے کے اعلانات‘ نہ ہی عملہ کی موجودگی ‘ ایسا لگا جیسے کسی ویرانہ میں پہنچ گیا ہوں۔ یہ رات کے دس بجے کاعالم تھا۔ پاکستان کے وفد میں ہم تقریباً آٹھ افسر تھے اور تمام لوگ‘ سرکاری طور پر روس آئے تھے۔
سب کے پاس آفیشل نیلے پاسپورٹ تھے۔بلیو پاسپورٹ پر روس کا ویزہ لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ امیگریشن کاؤنٹر پر ایک خاتون براجمان تھیں۔ میں قطار میں دوسرے نمبر پر تھا۔ آگے ایک پولیس افسر کھڑا ہوا تھا۔ جیسے ہی سرکاری بلیو پاسپورٹ ‘ خاتون نے شیشے کے نیچے سے پکڑا ‘ تو اس کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ پہلے تو اس نے انتہائی غور سے تصویر کا معائنہ کیا۔ پھر الٹ پلٹ کر کے پاسپورٹ کو غور سے دیکھتی رہی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ سفارت خانے کا جو افسر‘ وفد کو لینے آیا ہوا تھا۔ بے بسی سے دائیں بائیں دیکھنے میں مصروف تھا۔ پھر خاتون افسر نے کسی کو ٹیلیفون کیا۔ دو چار منٹ بعد‘ ایک ادھیڑ عمر کا روسی اہلکار کیبن میں آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مشین تھی ۔
اس نے بہت احتیاط سے مشین میں پاسپورٹ ڈالا۔ اور ایک دوربین سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ اب پندرہ بیس منٹ گزر چکے تھے۔ ہم‘ سب ‘ طویل سفر کے بعد‘ روس پہنچے تھے اور کافی تھک چکے تھے۔ یہ دس برس پہلے کا واقعہ ہے۔ میرے دل میں صرف ایک احساس بار بار ‘ سر اٹھا رہا تھا کہ یہ صورت حال‘ قطعاً نارمل نہیں ہے۔ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ ورنہ کسی بھی ملک کے سرکاری پاسپورٹ ‘ پر اتنا وقت نہیں لگتا ۔ بلکہ طالب علم کو یہ رویہ‘ توہین آمیز محسوس ہو رہا تھا۔ تقریباً آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب ایک تیسرے صاحب کو بلایا گیا۔
وہ بلب کی روشنی ڈال کر ہر زاویہ سے دستاویز کو پرکھتے رہے۔ جب تینوں کو یقین ہو گیا کہ نیلا پاسپورٹ درست ہے۔ تو اس نے مہر لگائی اور اس افسر کو جانے دیا۔ اس کے بعد میری باری تھی۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ تینوں روسی اہلکار سرکاری دستاویز کی جانچ پڑتال کرتے رہے ۔ صرف ایک فرق تھا۔ اس کا دورانیہ کافی کم تھا۔ آٹھ دس منٹ میں فارغ ہو گیا۔ خیر جب ہم سارے ‘ سامان لینے لاؤنج میں پہنچے۔ تو پاکستانی سفارت خانہ سے آئے ہوئے افسر سے پوچھا کہ اتنی سخت چیکنگ کی بالاخر وجہ کیا ہے۔ جواب دیا کہ آپ‘ ہمارے سفیر سے پوچھیے گا۔ جواب ہرگز ہرگز تسلی بخش نہ تھا۔ خیر اگلے دن پاکستان کے سفیر سے ملاقات ہوئی۔ سب کے ذہن میں رات ‘ ایئرپورٹ پر ہونے والے واقعہ کے متعلق سنجیدہ سوالات تھے۔ ابتدا میں ہی ‘ یہ سوال کیا گیا۔ جب سفیر نے جواب دیا تو شرم سے پسینہ آ گیا۔ اور روسی اہلکاروں کے درشت رویہ کی وجہ بھی معقول لگی۔
اب ذرا سفیر صاحب کا جواب سنئے۔ انسانی اسمگلروں کو معلوم پڑ گیا ہے کہ پاکستان کے نیلے سرکاری پاسپورٹ پر روس میں داخل ہونے پر کوئی ویزہ نہیں ہے۔ اب اس نیٹ ورک نے جعلی سرکاری پاسپورٹ بنانے کی ایک فیکٹری لگا لی ہے۔ وہاں سے افغان باشندوں کو پندرہ لاکھ روپے میں‘ یہ دستاویز مہیا کر دی جاتی ہے۔ بعض فی کس پندرہ لاکھ میں ‘ افغان ‘ روس میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ یہاں سے اسمگلروں کا گروہ‘ انھیں‘ یورپ میں داخل کرتا ہے اور اس طرح یہ افغان ‘ بڑے آرام سے یورپ پہنچ جاتے تھے۔ اور ہاں‘ عمومی طور پر یہ لوگ ‘ ماسکو کا ایئرپورٹ استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہاں سختی کافی زیادہ ہے۔ یہ ایک مضافاتی بندرگاہ کو امیگریشن کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
وہاں پر چند ہفتے قبل‘ ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی آواز پورے روس میں سنی گئی مگر پاکستان میں کسی قسم کی کوئی خبر نہ آنے دی گئی۔ سفیر صاحب تفصیل سے گفتگو کر رہے تھے۔ جب بندرگاہ پر افغان خاندان ‘ امیگریشن کے لیے پہنچا۔ خاتون اور اہل خانہ نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹ امیگریشن حکام کے حوالے کیے تو وہ تمام اہلکار پریشان ہو گئے۔ عورت برقعہ پوش تھی۔ اس کے خاوند نے عجیب و غریب چرمر کپڑے پہن رکھے تھے۔ بچے ننگے پیر تھے۔
روسی حکام نے ان سے پوچھا کہ آپ ‘ پاکستان کے کس سرکاری محکمہ میں کام کرتے ہیں۔ تو انھیں یہ سوال سمجھ نہیں آیا۔ سوال جواب‘ انگریزی زبان میں ہو رہے تھے۔ انگریزی تو دور کی بات‘ اردو تک بولنی نہیں آتی تھی۔ صرف اور صرف افغانستانی لہجے میں پشتو بول سکتے تھے۔ بڑی تگ و دو سے روسی اہلکاورں نے افغان لہجے میں پشتو بولنے والے ایک ترجمان کو بلوایا۔ جب گفت و شنید شروع ہوئی تو وہ خوفناک تھی۔
اس کنبہ سے پوچھا کہ آپ کے پاس سرکاری پاسپورٹ ہیں تو یہ بتائیے کہ آپ کس پاکستانی محکمہ میں ملازمت کرتے ہیں۔ جواب تھا کہ وہ تو کبھی پاکستان گئے ہی نہیں ہیں اور انھوں نے تو کبھی کوئی سرکاری ملازمت نہیں کی۔ جب دریافت کیا گیا کہ آپ لوگوں نے پاسپورٹ کیسے حاصل کیا جو صرف پاکستانی سرکاری ملازمین کو دیا جاتا ہے۔ جواب تھا کہ یہ تو پیسے دے کر دبئی مارکیٹ سے خریدا ہے۔ روسی حکام پریشان ہو گئے۔ خیر‘ اس خاندان کو گرفتار کیا گیا۔
اس طرح ‘ ایک ایسا نیٹ ورک پکڑا گیا جو ہمارے نیلے سرکاری پاسپورٹ کوجعلی طور پر تیار کرتا تھا ،پھر لوگوں کو فروخت کرتاتھا۔ سفیر بھی دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ ہم نے وزارت خارجہ کو فوراً مطلع کیا کہ جناب‘ دبئی میں ایک گروہ جعلی سرکاری دستاویز کا دھندا کر رہا ہے، ملک کی بدنامی ہو رہی ہے اور اس سے بیرون ملک مسائل بڑھ رہے ہیں۔ تو بتایا گیا کہ معاملہ‘ وزارت داخلہ کو بھجوا دیا گیا ہے۔
آگے آنے والی معلومات بہت زیادہ افسوس ناک ہیں۔ معلوم یہ ہوا کہ پاکستان میں اعلیٰ سطح پر سب کو علم ہے کہ دبئی میں جعلی پاکستانی پاسپورٹ تیار ہورہے ہیں۔ مگر اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ ایک حد درجہ طاقتور وزیر صاحب کی چھترچھاؤں میں ہے۔ وزیر موصوف کا دبئی میں بھی ایک محل تھا۔ مگر قدرت کا کھیل دیکھیے کہ وزیرجب فوت ہوا تو اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے ‘ کوئی بھی اہم آدمی موجود نہیں تھا۔ ساراواقعہ سن کر کم از کم میرا تو دل دہل گیا۔ تقریباً پورا دن خاموش رہا کہ خدایا کیا پیسہ اس قدر اہم ہو گیا کہ لوگ اپنے وطن کا ہی سودا کرلیں۔ بہر حال میرے سوچنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک دہائی سے پہلے کا واقعہ ہے۔
ماسکو میں قیام کیمپنسکی ہوٹل میں تھا۔ اس کی لوکیشن بہت شاندار تھی۔ کریملن کی عمارت بالکل سامنے تھی۔ ساتھ ہی ایک دیدہ زیب چرچ تھا۔ ہوٹل‘ ایک نہر کے ساتھ تھا۔ اس طرح کی نہریں پورے ماسکو میں جال کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک دن ‘ ہوٹل سے نکل کر کریملن کی طرف جا رہا تھا تو پل کے درمیان میں پھولوں کے گلدستے رکھے ہوئے تھے۔ مگر وہاں سے لوگ‘ جلدی جلدی گزر رہے تھے۔ کوئی وہاںرکتا نہیں تھا۔ ایک مقامی شخص سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ خوف زدہ ہو گیا اور تقریباً دوڑتا ہوا غائب ہو گیا۔ معلوم پڑا کہ ایک سیاسی لیڈر جو اپوزیشن سے تعلق رکھتا تھا، لوگوں میں کافی مقبول تھا۔ چند ماہ پہلے اسے نامعلوم لوگوں نے پل کے درمیان میں قتل کر دیاتھا۔ دراصل روس میں سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ سخت ماحول ہے۔
ریاستی اداروں کے سامنے کوئی چوں نہیں کر سکتا۔ اور وہ‘ مقامی طور پر خوف کی علامت ہیں۔دراصل ریاستوں کا زوال اندر سے ہوتاہے۔ بات صرف اور صرف ادراک کی ہے۔ روس میں پانچ دن رہا۔ چار دن‘ روس کی مختلف وزارتوں کے ساتھ بریفنگ میں گزر گئے۔ ایک چیز قطعی طور پر محسوس کی ۔ روس کی دوستی اور دشمنی میں‘ اخلاقیات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جس نکتہ کو وہ ‘ اپنے ملک کے لیے مناسب سمجھتے ہیں ‘ اس پر ‘ آنکھ بند کر کے عمل کرتے ہیں۔ پاکستان کے متعلق اس وقت‘ مثبت اور منفی دونوں طرح کے جذبات پائے جاتے تھے۔
منفی زاویہ تو خیر افغان جنگ کی بدولت تھا۔ اس کے باوجود‘ وہاں کی حکومت میں ایسے لوگ ضرور تھے جو ہمارے ملک سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے تھے۔روس میں کھانے پینے کی چیزیں کافی ارزاں معلوم ہوئیں۔ مگر وہاں کی روٹی بہت سخت تھی۔ اس کی وجہ سمجھ نہیں پایا۔ ایک عجیب چیز دیکھنے میں آئی۔ کہ روسی‘ ’’آتشیں سیال‘‘ کا ہروقت استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ناشتہ پر بھی یہ معاملہ نظر آیا۔ شام کے بعد تو خیر ‘ یہ عروج پر ہوتا ہے۔پانچ دن بعد‘ جب ماسکو سے واپس آیا تو ایک ایسی دنیا کے متعلق معلومات تھیں جس کو لوگ بہت کم جانتے ہیں۔ جہاز میں صرف یہ سوچ رہا تھاکہ ہمارے ملک کا جعلی سرکاری پاسپورٹ بنانا کیا واقعی اتنا آسان ہے؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرکاری پاسپورٹ پاکستان کے کرتے ہیں رہا تھا ہو گیا کے لیے گیا کہ تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان 100 بہترین ملکوں میں شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (انٹر نیشنل ویب ڈیسک) گزشتہ روز ہینلے پاسپورٹ انڈیکس نے دنیا کے 100 بہترین ملکوں کی فہرست شائع کی ہے، جس میں خوش آئند بات یہ ہے کہ اس فہرست میں گرین پاسپورٹ رکھنے والا ہمارا ملک بھی شامل ہے۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی جانب سے سال 2025ءکی رینکنگ جاری کردی گئی ہے، جس میں پاکستانی پاسپورٹ بتدریج ترقی کے بعد ٹاپ 100 پاسپورٹس میں شامل ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل رینکنگ پلیٹ فارم”ہینلے اینڈ پارٹنرز” کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ اس وقت 100 ویں نمبر پر براجمان ہے، جو 2021ءمیں 113 ویں نمبر پر تھا۔
مذکورہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک خوش آئند پہلو ہے، جو کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں اور انٹر نیشنل ریلیشن شپ میں بہتری کی جانب گامزن ہے ۔
مذکورہ پیش رفت کے تحت، یو اے ای اور پاکستان کے مابین ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ معاہدے کی رو سے سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کو ویزے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
مذکورہ معاہدے کے بعد ایسے افراد کو سفر سے پہلے ویزے کے لیے درکار رسمی کارروائیوں سے نجات ملے گی، جو سفارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔ مزکورہ تناظر میں پاکستانی پاسپورٹ پر شہری 32 ممالک میں ویزا فری سفری سہولت بھی حاصل کر سکیں گے۔
اس پیش رفت کے مطابق ڈی جی پاسپورٹس مصطفی جمال قاضی کا کہنا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ میں جدید سیکورٹی فیچرز متعارف کرادیے گئے ہیں۔ جس میں ای پاسپورٹس ہولڈرز کے لیے جلد تمام ائرپورٹس پر ای گیٹس کی سہولت میسر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے لیے آن لائن پاسپورٹ سروسز کی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں، جس کی فیس ایپ کے ذریعے ادا کی جا سکتی ہے، جلد ہی پاسپورٹ ایپ کے ذریعے شہری گھر بیٹھے پاسپورٹ بنوا سکیں گے، وزارت داخلہ کے تعاون سے پاسپورٹ رینکنگ میں بہتری کا سفر جاری رہے گا۔