طورخم بارڈر پر کسٹم عملے نے کام روک دیا، وجہ کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
کسٹم حکام نے ’غیر متعلقہ افراد کی مداخلت‘ پر بطور احتجاج طورخم بارڈر سے اپنا اسٹاف ہٹالیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے کسٹمز کلیئرنس کے خود کار نظام ’فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ سسٹم‘ کا افتتاح کردیا
بارڈر پر ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کے مطابق کسٹم اہلکاروں کو پوسٹوں سے احتجاجاً ہٹا دیا گیا ہے۔
ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ غیر متعلقہ حکام جن کا کسٹم کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں کسٹم کے معاملات میں بیجا مداخلت کررہے تھے جس کی وجہ سے آپریشن معطل کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ہوم ڈیلیوری کس طرح کی جارہی ہے؟
اہلکار نے بتایا کہ بیجا مداخلت سے تنگ آکر احتجاجاً کلیرنس کا عمل روک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاک افغان تجارت معطل ہو گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک افغان تجارت طورخم بارڈر کسٹم کسٹم عملے کا احتجاج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک افغان تجارت کسٹم عملے کا احتجاج
پڑھیں:
عالمی برادری اسرائیل کیساتھ تجارت بند اور تعلقات منقطع کردیں؛ نمائندہ اقوام متحدہ
نیویارک (اوصاف نیوز)اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقے فرانسسکا البانیزے نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی و مالی تعلقات منقطع کردے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ بیان انھوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔
انھوں نے کونسل میں ایک رپورٹ ’’قبضے کی معیشت سے نسل کشی کی معیشت تک‘‘ بھی پیش کی جس میں اُں 60 سے زائد کمپنیوں کے نام شامل ہیں جو فلسطینیوں کے خلاف جبر اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں۔
فرانسسکا البانیزے نے کہا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں صورت حال قیامت خیز ہے۔ اسرائیل جدید تاریخ کے سفاک ترین نسل کشی میں سے ایک کا ذمہ دار ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ اسرائیل کے آبادکاری منصوبے، فلسطینی زمینوں پر قبضے، نگرانی، قتل و غارت، اور جبری بے دخلی جیسے اقدامات میں متعدد کارپوریٹ ادارے شامل ہیں جن میں اسلحہ ساز کمپنیاں، ٹیکنالوجی کمپنیاں، بھاری مشینری تیار کرنے والے ادارے اور مالیاتی ادارے شامل ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق سیاسی قیادت کی بے عملی کے دوران کئی کارپوریٹ ادارے اسرائیل کے غیر قانونی قبضے، نسل پرستی اور اب نسل کشی کی معیشت سے منافع کما رہے ہیں۔
فرانسسکا البانیزے نے کہا کہ ہر ریاست اور نجی ادارے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معیشت سے اپنے تعلقات مکمل طور پر ختم کریں۔ اگر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ کمپنیاں اسرائیلی معیشت سے پوری طرح الگ ہو چکی ہوتیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ جنگ کے دوران اب تک اسرائیلی اسٹاک ایکسچینج میں 200 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس سے 220 ارب ڈالر سے زائد کا منافع کمایا گیا جب کہ فلسطینی عوام پر تباہی، قتل اور بے دخلی مسلط کی گئی۔
فرانسسکا البانیزے نے کہا کہ ایک قوم کو مالا مال کر دیا گیا اور دوسری کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ظاہر ہے بعض کے نزدیک نسل کشی ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
قوام متحدہ کی نمائندہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معیشت میں عسکری صنعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلسل فوجی کارروائیاں جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی جانچ کے میدان بن چکی ہیں۔
فرانسسکا البانیزے نے مطالبہ کیا کہ نجی شعبے کو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر قانونی نتائج کا سامنا کرنا چاہیے اور ایسے تمام اداروں کو احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔
9 محرم کے جلوس ، سیکورٹی ہائی الرٹ ، کئی شہروں میں موبائل فون سروس ، معطل ، حساس مقامات سیل