پاک افغان تعلقات: ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
یہ چند سال پہلے کی بات ہے، ابھی افغانستان پر طا لبان حکومت کا اقتدار شروع نہیں ہوا تھا، اشرف غنی حکومت چل رہی تھی۔ پاکستان سے صحافیوں کا ایک وفد افغانستان گیا ہوا تھا۔ کابل میں ایک افغان میڈیا ہاؤس اور پاکستانی صحافیوں کے درمیان انٹرایکشن پروگرام چل رہا تھا جس کے تحت افغان صحافی پاکستان آئے اور اگلے سال ہم لوگ کابل گئے۔
مجھے یاد ہے کہ اسی دورے میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا۔ وہاں چیک اِن کے بعد فوری طور پر سب پاکستانیوں کو اکٹھا کرکے ہوٹل کے سیکیورٹی ایکسپرٹ ایک گورے نے ہمیں سیکیورٹی بریفنگ دی۔ وہ شاید کوئی کمانڈو وغیرہ تھا۔ اس نے بہت سی ہدایات جاری کیں، جیسے کمرے کے اندر لاک کے ساتھ زنجیر بھی لگاکر رکھیں، دروازہ اچانک نہ کھولیں، پہلے کی ہول سے باہر جھانکیں وغیرہ۔ یہ بھی کہا کہ بغیر کسی قابل اعتماد مقامی گائیڈ کے ہوٹل سے باہر نہ جائیں، ٹیکسی لینا ہو تو باہر سے لینے کے بجائے ہوٹل میں موجود ٹیکسی سروس استعمال کریں وغیرہ وغیرہ۔
ہم میں سے اکثر یہ ہدایات سن کر مسکراتے رہے، زیر لب بولتے رہے کہ یہ گورے ہمیں خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں کہ ہم باہر نہ نکلیں اور کابل کی حقیقی صورتحال کا اندازہ نہ لگا لیں وغیرہ وغیرہ۔ 4، 5 دن ہم رہے، سب پُرامن اور ٹھیک ٹھاک رہا۔ یہ اور بات کہ پاکستان واپسی کے 2 ہفتوں بعد ایک روز اخبار میں خبر پڑھی کہ اسی ہوٹل میں کسی اہم سرکاری کانفرنس کے موقع پر زوردار حملہ کیا گیا۔ جنگجو ہوٹل میں گھس گئے، کمروں میں گھس کر کئی لوگ یرغمال بنا لیے، وغیرہ وغیرہ۔ تب یہ سوچ کر تھرا گئے کہ ہم کتنا ایزی لے رہے تھے ان چیزوں کو۔
اسی دورے میں افغان صحافیوں کے ایک کھانے میں شریک ہوئے جس میں کھل کر باتیں بلکہ گلے شکوے ہوئے۔ افغان صحافیوں نے طعنوں اور طنز کے تیروں کی بارش کردی۔ انہی دنوں پاکستان کے ایک درمیانے درجے کے کسی مولوی صاحب نے کوئی بہت سخت بیان افغان حکومت کے خلاف جاری کیا تھا۔ افغانستان میں اس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ہر ایک نے شکوہ کیا کہ دیکھیں آپ کے فلاں عالم دین نے یہ بیان دیا ہے، بڑی زیادتی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم سنتے رہے، آخرکار ایک دو سینیئر صحافیوں نے کہا کہ آپ ان صاحب کے بیان کو سیریس نہ لیں، انہیں پاکستان میں بھی کوئی سیریس نہیں لیتا۔ وہ پاکستانی علما کے نمائندہ ہیں نہ ہی چوٹی کے عالم دین ہیں۔ یہ ان کی ذاتی اور انفرادی رائے ہے۔
افغان میڈیا نے اس بیان کو مگر ایسے سمجھا اور اہمیت دی جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا فضل الرحمان یا امیر جماعت اسلامی نے کوئی آفیشل بیان جاری کردیا ہو۔
یہ سب کچھ مجھے پاک بھارت جنگ کے دوران ملا عبدالسلام ضعیف کا بیان دیکھ کر یاد آیا۔ ملا ضعیف طالبان کے پہلے دور میں پاکستان میں افغان حکومت کے سفیر تھے۔ ابتدائی دنوں میں انہیں پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا، وہ گوانتاناموبے جیل میں کئی سال اسیر رہے۔ ملا ضعیف شاید وہ پہلے یا اکا دکا طالبان لیڈروں میں سے تھے جنہیں امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان لیڈروں کو امریکی استبداد اور گرفت سے بچائے رکھا۔ کوئٹہ شوریٰ ہو یا حقانی نیٹ ورک انہیں چھونے تک نہیں دیا گیا۔ حتیٰ کہ ملا برادر تک کو 10 سال تک گرفتار رکھا مگر امریکیوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ ملا ضعیف کے ساتھ البتہ زیادتی ہوئی، مگر ایسے ہنگام اور افراتفری میں یہ ہوجاتا ہے۔
ملا ضعیف جب امریکی جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے طالبان کی تحریک مزاحمت کا حصہ بننے کے بجائے اٖفغان سیٹ اپ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔ یعنی طالبان مخالف طرزعمل اپنائے رکھے۔ اسی وجہ سے ان کا افغان طالبان سیٹ اپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ جب افغانستان میں طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے تو ملا ضعیف کو کسی نے جھوٹوں منہ بھی نہیں پوچھا۔ کہیں کوئی معمولی سی ذمہ داری بھی نہیں دی گئی۔ آج وہ افغانستان کے ہزاروں لاکھوں غیر اہم لوگوں کی طرح ایک عام فرد ہیں۔
اسی ملا ضعیف کے ایک ٹویٹ کو ہمارے ہاں یوں اہمیت دی گئی جیسے یہ امارات الاسلامیہ افغانستان کا آفیشل مؤقف ہو۔ ہمارا سوشل میڈیا تو خیر سے جہالت کا شاہکار ہے ہی، مین اسٹریم میڈیا بھی بہت سے مغالطوں، کم علمی، کم فہمی کے پیکروں سے لبریز ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ ملا ضعیف کی اب حیثیت کیا ہے؟ اس کے ٹویٹ کو نظرانداز کردیا جائے۔
صرف ملا ضعیف ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں تو وہاں کے ایک (پنجابی محاورے کے مطابق چول اور سرائیکی محاورے کے مطابق چــبۤل) سے سوشل میڈیا انفلیونسر مبین کو جنرل مبین بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ بعض تو اسے شاید افغان آرمی کا کوئی سینیئر جنرل سمجھتے رہے ہیں، جنرل مبین یا جنرال مبین کے نام سے اس کے فضول سے ویڈیو کلپس وائرل کردیے جاتے ہیں۔ اس کا افغان فوج سے کوئی تعلق اور نہ ہی افغان طالبان حکومت سے کوئی لینا دینا۔
ایک بھارتی اخبار نے پاک بھارت جنگ کے دنوں میں افغان نائب وزیر دفاع ابراہیم صدر کے خفیہ دورہ بھارت کی خبر لگائی، بی بی سی نے بھی اس خبر کو شائع کیا۔ ہمارے ہاں بہت کچھ لے دے اس پر ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ کے ایک بیان کو بھی اہمیت دی گئی جس میں اس نے کہا کہ میں نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے گفتگو کی ہے اور پہلگام واقعے کی افغانوں نے مذمت کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں اس پر بھی بڑا شور مچا۔
ستم یہ ہوا کہ بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین ساہنی نے بھی کہہ دیا کہ اس جنگ میں بھارت کے ساتھ صرف 2 ملک کھڑے تھے، اسرائیل اور افغانستان۔ اس پر بھی ہمارے ہاں خوب سینہ کوبی ہوئی۔ دراصل یہ ہماری کمزوری اور خود اعتمادی کی کمی ہے کہ ایسی ہر خبر پر بلا سوچے سمجھے اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگ جاتے ہیں۔
2، 3 باتیں سمجھ لی جائیں۔ ایک تو یہ کہ افغان وزیر خارجہ نے اگر کچھ کہنا ہوا، اپنی حکومت کا آفیشل بیان دینا ہوگا تو وہ اپنی طرف سے بیان دے گا، پریس ریلیز جاری کرے گا یا افغان میڈیا سے بات کرے گا۔ افغان حکومت یا افغان وزیر خارجہ کا موقف بھارتی وزیر خارجہ بیان نہیں کرسکتا۔ بھارتی وزارت خارجہ اپنی شدید خفت اور تنہا رہنے پر شرمندگی مٹانے کے لیے ایسے اوچھے حربے استعمال کرتی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت نے اس تنازع میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی، مکمل غیر جانبداری اختیار کی۔ پہلگام حملے کی انہوں نے مذمت کی ہوگی، مگر وہ کس نے نہیں کی؟ خود پاکستان نے بھی اس کی مذمت ہی کی۔ سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی کون حمایت کرسکتا ہے؟ پاکستان کا البتہ یہ کہنا ہے کہ یہ خونریز واقعہ فالس فلیگ آپریشن ہے اور غالباً یہ بھارت نے خود کرایا، اسی وجہ سے تو بغیر کسی تحقیق کے اس واقعے کے چند منٹ کے اندر ہی پاکستان پر الزام تھوپ دیا گیا۔
اس 8، 10 روزہ تصادم میں افغانستان کی جانب سے کوئی شرارت نہیں کی گئی۔ پاک افغان بارڈر پُرسکون رہی۔ افغان حکومت نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس پر پاکستان احتجاج کرسکے یا ناراض ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاک افغان چین سہہ فریقی مذاکرات بیجنگ میں ہوئے ہیں، جس میں بعض حوالوں سے برف پگھلی ہے اور چیزیں بہتری کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ سی پیک کی توسیع افغانستان تک ہونے کا معاملہ بھی پاک افغان تعلقات میں بہتری لائے گا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ پاک بھارت جنگ میں افغانستان بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہ بات عملی طور پر درست نہیں۔
پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے، غلط فہمیاں ختم کی جائیں اور متنازع امور کو بھی حل کیا جائے۔ افغان حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب تک ٹی ٹی پی افغانستان میں مقیم رہے گی اور پاکستان پر حملے کرے گی تب تک پاک افغان تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ یہ مسئلہ آخرکار حل کرنا ہی پڑے گا۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ افغان عوام تک اپنی کمیونکیشن بہتر کرے۔ ہمارا مؤقف افغان عوام تک درست انداز سے نہیں پہنچ پا رہا۔ اسے بہتر بنانا چاہیے۔
ایک ذمہ دار طالبان لیڈر نے جو اچھی اردو بول لکھ لیتے ہیں، اس حوالے سے ہمارے ایک کلوزڈ واٹس ایپ گروپ میں پاکستانی میڈیا کے نام پیغام بھیجا، اپنا نام انہوں نے نہ لینے کی درخواست کی ہے۔ جو باتیں انہوں نے کہی ہیں، وہ واقعی اہم ہیں اور ان پر ہمارے اہم حلقوں کو غور کرنا چاہیے۔
وہ لکھتے ہیں: ’پاکستان کے بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان بھارت جنگ میں امارت اسلامیہ یا بقول ان کے افغان ملاؤں نے بھارت کا ساتھ دیا ہے اور پاکستانی مزاحمت کو جہاد قرار دینے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس پر یہ وضاحت دینا ضروری ہے کہ امارت اسلامیہ کے کسی بڑے اور قابل ذکر عہدیدار اور اسی طرح نامور افغان ملاؤں میں سے اکا دکا کے سوا کسی نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے جس سے مندرجہ بالا دعوؤں کی تصدیق ہوتی ہو۔ جن مٹھی بھر یا 2، 4 افراد نے اگر ایسا کوئی بیان دیا بھی ہے تو امارت اسلامیہ نے اس پر نوٹس لیا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے۔
’البتہ ایسے لوگ جو ہر مسئلے پر اپنی ایک الگ قسم کی رائے دینے کی عادت رکھتے ہیں، انہوں نے مذکورہ جنگ کو جہاد کے بجائے دو قومی جنگ قرار دیا ہے۔
‘ہمارے ہاں کے ملا ضعیف کے موقف کو پاکستان میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عرصہ ہوا ہے کہ ان کا امارت اسلامیہ سے کوئی رسمی تعلق نہیں ہے اور زنداں سے رہائی کے بعد انہوں نے کابل میں امریکا کے ایجاد کردہ افغان رجیم کے زیر سایہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ شاید ان کے ساتھ 23 سال پہلے جو ہوا ہے وہ اسے بھلا نہیں پائے اور جب بھی موقع ملتا ہے تو اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں کو خود افغانستان میں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا ہے۔ یہ تو پاکستانی میڈیا اور کرم فرماؤں کی مہربانی ہے کہ ان کی بیان کو زیادہ وقعت دی ہے۔ یہ تو ایسا ہے جیسے ہمارے سوشل میڈیا انفلوینسر مبین خان کو بہت عرصے تک پاکستانی میڈیا میں افغان جنرل اور حتیٰ کہ آرمی چیف کے حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا۔
‘یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بارے میں عام تاثر بہت منفی ہے۔ اس کے اپنے عوامل اور وجوہات ہیں۔ اس تاثر کو بدلنے کے لیے آج کے دور کے حساب سے پلاننگ اور عملی کاموں کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا ایکٹوٹسٹس کی اکثریت کی افغانستان کے بارے میں معلومات اور طرز گفتگو بہت سطحی ہوتی ہے اور اس مسئلے پر پاکستانی حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو بہت کام کرنا ہوگا۔
‘ایک اہم چیز کی کمی اور خلا جو یہاں محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا پیغام یہاں کے لوگوں کو براہ راست نہیں پہنچتا۔ پاکستان کو ایسے میڈیا/سوشل میڈیا ایڈریسز بنانے چاہیے جو مختلف زبانوں میں افغانوں کو براہ راست معلومات پہنچائیں اور اس پر پروفیشنلی بہت کام کریں۔ تازہ پاک و ہند جنگ میں پاکستانی مؤقف اور پاکستانی فوج کے برتری سے افغانوں کو خاص علم نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں کے مین اسٹریم میڈیا اور اہم سوشل میڈیا پیجز پر اس کو بوجوہ جگہ نہیں دی گئی اور پاکستان کے اپنے کوئی براہ راست ذرائع نہیں تھے جس سے عام افغانوں کو مستقل بنیادوں پر بریف کیا جاتا اور حقائق بیان کیا جاتا۔
‘نیز ان ذرائع کا ایک کام یہ ہو کہ اگر افغانستان سے کسی نے تلخ اور غیر مناسب بیان دیا ہے تو اس پر تحقیق کریں اور تجزیہ کریں کہ بیان دینے والا کون ہے اور اس کا کیا پس منظر ہے اور کیا اہمیت ہے؟ بیان دینے والے کا مکمل بائیوڈیٹا اپنے عوام کے سامنے رکھیں اور بتائیں کہ اس پر زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ابھی تو ہر ایرے غیرے کے بیانات کو پاکستانی میڈیا میں ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے یہاں کے کسی بڑے لیڈر نے بیان داغہ ہوں۔ اس سے صرف بدگمانیاں ہی پھیلتی ہیں۔’
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا
لندن (اوصاف نیوز)انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس (Institute for Economics and Peace) کی جانب سے شائع کردہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان 2024 میں دہشتگردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا۔
اس سال پاکستان میں دہشت گردی کے 1,099 واقعات پیش آئے، جن میں 1,081 افراد جاں بحق ہوئے، جو کہ 2023 کے مقابلے میں 45 فیصد اضافہ ہے۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ملک کی سلامتی کی صورتحال پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔
2025 میں بھی دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں، جن میں حالیہ بلوچستان میں اسکول بس پر حملہ شامل ہے، جس میں تین بچیاں اور دو فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے۔جبکہ ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق، برکینا فاسو دنیا کا سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثرہ ملک ہے۔
یہ مسلسل دوسرے سال اس فہرست میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ساحل (Sahel) خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں، جہاں شدت پسند گروہوں جیسے القاعدہ اور داعش سے منسلک تنظیموں کی کارروائیاں جاری ہیں۔
پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی نے دنیا کی تیسری بلند ترین12 ویں چوٹی سر کر لی