پاک افغان تعلقات: ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT
یہ چند سال پہلے کی بات ہے، ابھی افغانستان پر طا لبان حکومت کا اقتدار شروع نہیں ہوا تھا، اشرف غنی حکومت چل رہی تھی۔ پاکستان سے صحافیوں کا ایک وفد افغانستان گیا ہوا تھا۔ کابل میں ایک افغان میڈیا ہاؤس اور پاکستانی صحافیوں کے درمیان انٹرایکشن پروگرام چل رہا تھا جس کے تحت افغان صحافی پاکستان آئے اور اگلے سال ہم لوگ کابل گئے۔
مجھے یاد ہے کہ اسی دورے میں ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا۔ وہاں چیک اِن کے بعد فوری طور پر سب پاکستانیوں کو اکٹھا کرکے ہوٹل کے سیکیورٹی ایکسپرٹ ایک گورے نے ہمیں سیکیورٹی بریفنگ دی۔ وہ شاید کوئی کمانڈو وغیرہ تھا۔ اس نے بہت سی ہدایات جاری کیں، جیسے کمرے کے اندر لاک کے ساتھ زنجیر بھی لگاکر رکھیں، دروازہ اچانک نہ کھولیں، پہلے کی ہول سے باہر جھانکیں وغیرہ۔ یہ بھی کہا کہ بغیر کسی قابل اعتماد مقامی گائیڈ کے ہوٹل سے باہر نہ جائیں، ٹیکسی لینا ہو تو باہر سے لینے کے بجائے ہوٹل میں موجود ٹیکسی سروس استعمال کریں وغیرہ وغیرہ۔
ہم میں سے اکثر یہ ہدایات سن کر مسکراتے رہے، زیر لب بولتے رہے کہ یہ گورے ہمیں خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں کہ ہم باہر نہ نکلیں اور کابل کی حقیقی صورتحال کا اندازہ نہ لگا لیں وغیرہ وغیرہ۔ 4، 5 دن ہم رہے، سب پُرامن اور ٹھیک ٹھاک رہا۔ یہ اور بات کہ پاکستان واپسی کے 2 ہفتوں بعد ایک روز اخبار میں خبر پڑھی کہ اسی ہوٹل میں کسی اہم سرکاری کانفرنس کے موقع پر زوردار حملہ کیا گیا۔ جنگجو ہوٹل میں گھس گئے، کمروں میں گھس کر کئی لوگ یرغمال بنا لیے، وغیرہ وغیرہ۔ تب یہ سوچ کر تھرا گئے کہ ہم کتنا ایزی لے رہے تھے ان چیزوں کو۔
اسی دورے میں افغان صحافیوں کے ایک کھانے میں شریک ہوئے جس میں کھل کر باتیں بلکہ گلے شکوے ہوئے۔ افغان صحافیوں نے طعنوں اور طنز کے تیروں کی بارش کردی۔ انہی دنوں پاکستان کے ایک درمیانے درجے کے کسی مولوی صاحب نے کوئی بہت سخت بیان افغان حکومت کے خلاف جاری کیا تھا۔ افغانستان میں اس پر شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ ہر ایک نے شکوہ کیا کہ دیکھیں آپ کے فلاں عالم دین نے یہ بیان دیا ہے، بڑی زیادتی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم سنتے رہے، آخرکار ایک دو سینیئر صحافیوں نے کہا کہ آپ ان صاحب کے بیان کو سیریس نہ لیں، انہیں پاکستان میں بھی کوئی سیریس نہیں لیتا۔ وہ پاکستانی علما کے نمائندہ ہیں نہ ہی چوٹی کے عالم دین ہیں۔ یہ ان کی ذاتی اور انفرادی رائے ہے۔
افغان میڈیا نے اس بیان کو مگر ایسے سمجھا اور اہمیت دی جیسے مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا فضل الرحمان یا امیر جماعت اسلامی نے کوئی آفیشل بیان جاری کردیا ہو۔
یہ سب کچھ مجھے پاک بھارت جنگ کے دوران ملا عبدالسلام ضعیف کا بیان دیکھ کر یاد آیا۔ ملا ضعیف طالبان کے پہلے دور میں پاکستان میں افغان حکومت کے سفیر تھے۔ ابتدائی دنوں میں انہیں پکڑ کر امریکیوں کے حوالے کردیا گیا، وہ گوانتاناموبے جیل میں کئی سال اسیر رہے۔ ملا ضعیف شاید وہ پہلے یا اکا دکا طالبان لیڈروں میں سے تھے جنہیں امریکیوں کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان لیڈروں کو امریکی استبداد اور گرفت سے بچائے رکھا۔ کوئٹہ شوریٰ ہو یا حقانی نیٹ ورک انہیں چھونے تک نہیں دیا گیا۔ حتیٰ کہ ملا برادر تک کو 10 سال تک گرفتار رکھا مگر امریکیوں کے حوالے نہیں کیا گیا۔ ملا ضعیف کے ساتھ البتہ زیادتی ہوئی، مگر ایسے ہنگام اور افراتفری میں یہ ہوجاتا ہے۔
ملا ضعیف جب امریکی جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے طالبان کی تحریک مزاحمت کا حصہ بننے کے بجائے اٖفغان سیٹ اپ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی۔ یعنی طالبان مخالف طرزعمل اپنائے رکھے۔ اسی وجہ سے ان کا افغان طالبان سیٹ اپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ جب افغانستان میں طالبان دوبارہ برسراقتدار آئے تو ملا ضعیف کو کسی نے جھوٹوں منہ بھی نہیں پوچھا۔ کہیں کوئی معمولی سی ذمہ داری بھی نہیں دی گئی۔ آج وہ افغانستان کے ہزاروں لاکھوں غیر اہم لوگوں کی طرح ایک عام فرد ہیں۔
اسی ملا ضعیف کے ایک ٹویٹ کو ہمارے ہاں یوں اہمیت دی گئی جیسے یہ امارات الاسلامیہ افغانستان کا آفیشل مؤقف ہو۔ ہمارا سوشل میڈیا تو خیر سے جہالت کا شاہکار ہے ہی، مین اسٹریم میڈیا بھی بہت سے مغالطوں، کم علمی، کم فہمی کے پیکروں سے لبریز ہے۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ ملا ضعیف کی اب حیثیت کیا ہے؟ اس کے ٹویٹ کو نظرانداز کردیا جائے۔
صرف ملا ضعیف ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں تو وہاں کے ایک (پنجابی محاورے کے مطابق چول اور سرائیکی محاورے کے مطابق چــبۤل) سے سوشل میڈیا انفلیونسر مبین کو جنرل مبین بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ بعض تو اسے شاید افغان آرمی کا کوئی سینیئر جنرل سمجھتے رہے ہیں، جنرل مبین یا جنرال مبین کے نام سے اس کے فضول سے ویڈیو کلپس وائرل کردیے جاتے ہیں۔ اس کا افغان فوج سے کوئی تعلق اور نہ ہی افغان طالبان حکومت سے کوئی لینا دینا۔
ایک بھارتی اخبار نے پاک بھارت جنگ کے دنوں میں افغان نائب وزیر دفاع ابراہیم صدر کے خفیہ دورہ بھارت کی خبر لگائی، بی بی سی نے بھی اس خبر کو شائع کیا۔ ہمارے ہاں بہت کچھ لے دے اس پر ہوئی۔ افغان وزیر خارجہ کے ایک بیان کو بھی اہمیت دی گئی جس میں اس نے کہا کہ میں نے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے گفتگو کی ہے اور پہلگام واقعے کی افغانوں نے مذمت کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ہاں اس پر بھی بڑا شور مچا۔
ستم یہ ہوا کہ بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین ساہنی نے بھی کہہ دیا کہ اس جنگ میں بھارت کے ساتھ صرف 2 ملک کھڑے تھے، اسرائیل اور افغانستان۔ اس پر بھی ہمارے ہاں خوب سینہ کوبی ہوئی۔ دراصل یہ ہماری کمزوری اور خود اعتمادی کی کمی ہے کہ ایسی ہر خبر پر بلا سوچے سمجھے اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگ جاتے ہیں۔
2، 3 باتیں سمجھ لی جائیں۔ ایک تو یہ کہ افغان وزیر خارجہ نے اگر کچھ کہنا ہوا، اپنی حکومت کا آفیشل بیان دینا ہوگا تو وہ اپنی طرف سے بیان دے گا، پریس ریلیز جاری کرے گا یا افغان میڈیا سے بات کرے گا۔ افغان حکومت یا افغان وزیر خارجہ کا موقف بھارتی وزیر خارجہ بیان نہیں کرسکتا۔ بھارتی وزارت خارجہ اپنی شدید خفت اور تنہا رہنے پر شرمندگی مٹانے کے لیے ایسے اوچھے حربے استعمال کرتی رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت نے اس تنازع میں کسی فریق کی حمایت نہیں کی، مکمل غیر جانبداری اختیار کی۔ پہلگام حملے کی انہوں نے مذمت کی ہوگی، مگر وہ کس نے نہیں کی؟ خود پاکستان نے بھی اس کی مذمت ہی کی۔ سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی کون حمایت کرسکتا ہے؟ پاکستان کا البتہ یہ کہنا ہے کہ یہ خونریز واقعہ فالس فلیگ آپریشن ہے اور غالباً یہ بھارت نے خود کرایا، اسی وجہ سے تو بغیر کسی تحقیق کے اس واقعے کے چند منٹ کے اندر ہی پاکستان پر الزام تھوپ دیا گیا۔
اس 8، 10 روزہ تصادم میں افغانستان کی جانب سے کوئی شرارت نہیں کی گئی۔ پاک افغان بارڈر پُرسکون رہی۔ افغان حکومت نے ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جس پر پاکستان احتجاج کرسکے یا ناراض ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاک افغان چین سہہ فریقی مذاکرات بیجنگ میں ہوئے ہیں، جس میں بعض حوالوں سے برف پگھلی ہے اور چیزیں بہتری کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ سی پیک کی توسیع افغانستان تک ہونے کا معاملہ بھی پاک افغان تعلقات میں بہتری لائے گا۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ پاک بھارت جنگ میں افغانستان بھارت کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہ بات عملی طور پر درست نہیں۔
پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے، غلط فہمیاں ختم کی جائیں اور متنازع امور کو بھی حل کیا جائے۔ افغان حکومت کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب تک ٹی ٹی پی افغانستان میں مقیم رہے گی اور پاکستان پر حملے کرے گی تب تک پاک افغان تعلقات نارمل نہیں ہوسکتے۔ یہ مسئلہ آخرکار حل کرنا ہی پڑے گا۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ افغان عوام تک اپنی کمیونکیشن بہتر کرے۔ ہمارا مؤقف افغان عوام تک درست انداز سے نہیں پہنچ پا رہا۔ اسے بہتر بنانا چاہیے۔
ایک ذمہ دار طالبان لیڈر نے جو اچھی اردو بول لکھ لیتے ہیں، اس حوالے سے ہمارے ایک کلوزڈ واٹس ایپ گروپ میں پاکستانی میڈیا کے نام پیغام بھیجا، اپنا نام انہوں نے نہ لینے کی درخواست کی ہے۔ جو باتیں انہوں نے کہی ہیں، وہ واقعی اہم ہیں اور ان پر ہمارے اہم حلقوں کو غور کرنا چاہیے۔
وہ لکھتے ہیں: ’پاکستان کے بعض حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان بھارت جنگ میں امارت اسلامیہ یا بقول ان کے افغان ملاؤں نے بھارت کا ساتھ دیا ہے اور پاکستانی مزاحمت کو جہاد قرار دینے سے انکار کیا ہے۔ لیکن اس پر یہ وضاحت دینا ضروری ہے کہ امارت اسلامیہ کے کسی بڑے اور قابل ذکر عہدیدار اور اسی طرح نامور افغان ملاؤں میں سے اکا دکا کے سوا کسی نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے جس سے مندرجہ بالا دعوؤں کی تصدیق ہوتی ہو۔ جن مٹھی بھر یا 2، 4 افراد نے اگر ایسا کوئی بیان دیا بھی ہے تو امارت اسلامیہ نے اس پر نوٹس لیا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے۔
’البتہ ایسے لوگ جو ہر مسئلے پر اپنی ایک الگ قسم کی رائے دینے کی عادت رکھتے ہیں، انہوں نے مذکورہ جنگ کو جہاد کے بجائے دو قومی جنگ قرار دیا ہے۔
‘ہمارے ہاں کے ملا ضعیف کے موقف کو پاکستان میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ عرصہ ہوا ہے کہ ان کا امارت اسلامیہ سے کوئی رسمی تعلق نہیں ہے اور زنداں سے رہائی کے بعد انہوں نے کابل میں امریکا کے ایجاد کردہ افغان رجیم کے زیر سایہ زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔ شاید ان کے ساتھ 23 سال پہلے جو ہوا ہے وہ اسے بھلا نہیں پائے اور جب بھی موقع ملتا ہے تو اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ لیکن ان کی باتوں کو خود افغانستان میں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا ہے۔ یہ تو پاکستانی میڈیا اور کرم فرماؤں کی مہربانی ہے کہ ان کی بیان کو زیادہ وقعت دی ہے۔ یہ تو ایسا ہے جیسے ہمارے سوشل میڈیا انفلوینسر مبین خان کو بہت عرصے تک پاکستانی میڈیا میں افغان جنرل اور حتیٰ کہ آرمی چیف کے حیثیت سے پیش کیا جاتا رہا۔
‘یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بارے میں عام تاثر بہت منفی ہے۔ اس کے اپنے عوامل اور وجوہات ہیں۔ اس تاثر کو بدلنے کے لیے آج کے دور کے حساب سے پلاننگ اور عملی کاموں کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا ایکٹوٹسٹس کی اکثریت کی افغانستان کے بارے میں معلومات اور طرز گفتگو بہت سطحی ہوتی ہے اور اس مسئلے پر پاکستانی حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو بہت کام کرنا ہوگا۔
‘ایک اہم چیز کی کمی اور خلا جو یہاں محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کا پیغام یہاں کے لوگوں کو براہ راست نہیں پہنچتا۔ پاکستان کو ایسے میڈیا/سوشل میڈیا ایڈریسز بنانے چاہیے جو مختلف زبانوں میں افغانوں کو براہ راست معلومات پہنچائیں اور اس پر پروفیشنلی بہت کام کریں۔ تازہ پاک و ہند جنگ میں پاکستانی مؤقف اور پاکستانی فوج کے برتری سے افغانوں کو خاص علم نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں کے مین اسٹریم میڈیا اور اہم سوشل میڈیا پیجز پر اس کو بوجوہ جگہ نہیں دی گئی اور پاکستان کے اپنے کوئی براہ راست ذرائع نہیں تھے جس سے عام افغانوں کو مستقل بنیادوں پر بریف کیا جاتا اور حقائق بیان کیا جاتا۔
‘نیز ان ذرائع کا ایک کام یہ ہو کہ اگر افغانستان سے کسی نے تلخ اور غیر مناسب بیان دیا ہے تو اس پر تحقیق کریں اور تجزیہ کریں کہ بیان دینے والا کون ہے اور اس کا کیا پس منظر ہے اور کیا اہمیت ہے؟ بیان دینے والے کا مکمل بائیوڈیٹا اپنے عوام کے سامنے رکھیں اور بتائیں کہ اس پر زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ ابھی تو ہر ایرے غیرے کے بیانات کو پاکستانی میڈیا میں ایسا پیش کیا جاتا ہے جیسے یہاں کے کسی بڑے لیڈر نے بیان داغہ ہوں۔ اس سے صرف بدگمانیاں ہی پھیلتی ہیں۔’
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
خطے کے استحکام کا سوال
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے طورخم سرحد کو صرف افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے دوبارہ کھولا ہے، جب تک صورتحال میں بہتری نہیں آتی، سرحدی مقامات کارگو ٹرکوں اور عام مسافروں کے لیے بند رہیں گے۔
اس وقت سیکڑوں افغان پناہ گزیں طورخم امیگریشن سینٹر پہنچ گئے ہیں اور امیگریشن عملہ ضروری کارروائی کے بعد انھیں افغانستان جانے کی اجازت دے رہا ہے۔ دوسری جانب وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں۔ جنگ کے حالات اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے درمیان، پاکستان کی وزارت خارجہ نے 6 نومبرکو جنگ بندی کے مذاکرات کے لیے اپنی توقعات کا اظہارکیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان چند روز قبل ترکیہ میں امن مذاکرات ہوئے تھے، تاہم یہ مذاکرات طالبان کی ہٹ دھرمی کے باعث بری طرح ناکام رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں استنبول میں چار روزہ مذاکرات ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔
بھارت کے بعد افغانستان نے جس طرح پاکستانی سرحدوں کو پامال کیا اور پاکستانی افواج نے جوابی حملہ کر کے طالبان اور فتنہ الخوارج اور ان کی سرحدی چوکیوں کو جس طرح تباہ کیا۔ اس سے انھیں حقیقت کا خاصا ادراک ہوگیا ہے لیکن بھارتی آشیر باد، فنڈنگ، سہولت کاری صورتحال کو نارمل ہونے میں حائل ہو رہی ہے۔ افغان انڈیا گٹھ جوڑ خطے میں امن کی بجائے بدامنی کا باعث بن رہا ہے، افغان ایک سیاہ تاریخ رقم کر رہے ہیں اور یہ تاریخ اوراقوام عالم میں احسان فراموش محسن کش کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
پاکستان نے 40 سالوں تک افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کاروبار تعلیم صحت کے مواقعے فراہم کر کے انھیں اپنے شہریوں کے برابر حقوق و سہولیات مہیا کیں اور وطن عزیز میں بطور مہمان رکھا مگر ہماری مہمان نوازی کے جواب میں یہ لوگ واپس جاتے جاتے، اپنے گھروں خیموں یہاں تک مساجد کو بھی شہید کرکے جا رہے ہیں جو کہ اسلام دشمنی اور احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔
افغانوں کے انخلاء کے بعد حکومت پاکستان کو اس بات پر بھی خاص نظر رکھنی ہوگی یہ لوگ دوبارہ پاکستان واپس نہ آجائیں تو اس کے لیے ان کا ڈیجٹیل ریکارڈ بھی رکھنا ضروری ہے۔ اب افغانستان کا چترال سے نکلنے والے دریائے کنہڑکے مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان کرنا، بھارت کا کابل میں سفارتخانہ کھولنا، ہندو بنیے سے پیسے لے کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرنا اور بھارت کے پیسوں سے پاکستان میں من پسند شریعت کے نفاذ کے دعوے، دین اسلام ،قرآن و سنت اور اللہ کے فرمان کے منافی سرگرمیاں ہیں۔
آج افغانوں کو اپنی منفی سرگرمیوں اور شرپسندی کے بھرپور جواب کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ گو نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
سوویت افغان جنگ 1979سے لے کر 1989تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاکستان نے افغان فوج کا مکمل ساتھ دیا اور تعاون جاری رکھا جب کہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی فوج کی پسپائی میں بھی پاکستان نے اہم کردار ادا کیا مگر اس کے بعد پاکستان پر دہشت گردانہ حملے اور دراندازیوں کا آغاز ہو گیا جو آج تک جاری ہے جب کہ پاکستان نے سفارتی احتجاج کیے، دہشت گردی اور دراندازی کے ثبوت بھی فراہم کیے، وفود کی ملاقاتیں بھی ہوتی رہیں، مگر افغانستان کی طرف سے ہمیشہ منفی رویہ اپنایا گیا۔
پاک افغان جنگ بندی اچھا عمل ہے مگر تاریخ کے مطابق افغان حکومت پر اعتبار کرنا کسی طور پر بھی خوشگوار نتائج کا حامل نہیں ہوگا۔بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر پر ہے، اس کی وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارت2.41 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان اس وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لیے کوشاں ہے جب کہ یہی سی پیک دنیا کو 85.9 فیصد تجارتی راستوں سے جوڑتا ہے جو براہ راست چین، وسطی ایشیاء، مشرقی وسطی اور افریقہ تک پھیل سکتا ہے، یہ بات بہت یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان دنیا کے طاقت کے توازن کو بدل رہا ہے، ایسے میں ہمیں دشمنوں کے بچھائے جال میں الجھنے اور پھنسنے کی بجائے اپنی اسٹرٹیجک صورتحال اور میلوں پر پھیلے قیمتی معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہمیں نئے دروازے کھولنے چاہیں اور پیچھے مڑ کر ماضی کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے، ماضی کے بوجھ تلے دبے رہ کر دونوں برادر ہمسایہ ممالک کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا دونوں کو بداعتمادی کی فضا ختم کرنا ہوگی۔ دانش مندانہ اور پائیدار حکمت عملی سے نئے، خود مختار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔
بھارت جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا وہ دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ماضی کی رنجشوں کو ابھارے گا، جب کہ وہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ قونصل خانے بھی کھولنے جا رہا ہے، دہلی اور کابل کے درمیان بڑھتی قربت پاکستان کے لیے نقصان دہ ہیں، پاکستان کے افغانستان پر سب سے زیادہ احسانات ہیں ،اس لیے اسے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں جذباتیت کی بجائے توازن کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا تاکہ برادر ہمسایہ ملک جس کی غذائی ضروریات کا بڑا انحصار پاکستان پر ہے، اسے دشمن کی صفوں میں شامل ہونے سے ممکنہ حد تک روکا جا سکے تاکہ ملک کو جس دہشت گردی اور بدامنی کی لہر کا سامنا ہے اس میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی اور انٹیلی جنس نمائندے ایک مشترکہ نظام کے تحت کارروائیوں کی نگرانی کریں تاکہ کسی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو، مگر افغان فریق نے اسے ’’ غیر ملکی مداخلت‘‘ قرار دے کر رد کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ اگر افغانستان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں تو پھر تصدیق کے نظام سے خوف کیوں؟ دراصل طالبان حکومت داخلی طور پر منقسم ہے۔ ایک طرف وہ بین الاقوامی شناخت چاہتی ہے، دوسری طرف ٹی ٹی پی اور القاعدہ سے روابط توڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ترکیہ اور قطر نے ثالثی کے طور پر ایک سمجھوتے کی صورت تجویز کیا کہ پہلے تکنیکی سطح پر رابطے بحال کیے جائیں، بعد میں سیاسی معاملات طے کیے جائیں۔ یہ ایک قابل عمل تجویز تھی مگر کابل کے رویے نے اس کی راہ میں بھی رکاوٹ ڈال دی۔
مذاکرات کا ایک مثبت پہلو یہ ضرور ہے کہ دونوں فریقوں نے ’’تکنیکی سطح‘‘ پر رابطے برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔ یعنی دروازہ مکمل طور پر بند نہیں ہوا۔ مگر اعتماد کا فقدان اتنا گہرا ہے کہ کوئی پیش رفت تبھی ممکن ہے جب کابل اپنے وعدوں کو تحریری شکل دے۔ زبانی یقین دہانیوں اور مذہبی حوالوں سے اب کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ افغانستان کو سمجھنا ہوگا کہ خود مختاری صرف ایک ملک کا حق نہیں، ایک ذمے داری بھی ہے۔ جب اس کے علاقوں سے پاکستان پر حملے ہوں تو وہ خودمختاری نہیں، لاپرواہی کہلاتی ہے۔
پاکستان نے اپنے عوام، فوج اور سفارت کاروں کی قربانیوں سے جو امن حاصل کیا ہے، اسے کسی دوسرے ملک کی کمزوریوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنازع میں ترکیہ اور قطرکا کردار امید کی کرن ہے۔ دونوں ممالک نہ صرف اسلامی برادری میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ان کے پاس ثالثی کا عملی تجربہ بھی ہے، اگر وہ ایک مشترکہ مانیٹرنگ کمیشن کے قیام میں کامیاب ہو گئے تو شاید مستقبل قریب میں کوئی پیش رفت ممکن ہو۔ آخر میں یہ کہنا بجا ہوگا کہ استنبول مذاکرات مشکلات کا شکار ضرور ہوئے مگر انھوں نے پاکستان کے اصولی اور حقیقت پسندانہ موقف کو بین الاقوامی سطح پر واضح کر دیا۔ اسلام آباد نے ثابت کیا کہ وہ جنگ نہیں، امن چاہتا ہے۔
مگر ایسا امن جو احترامِ خود مختاری، تصدیق شدہ عمل اور دہشت گردی سے پاک ہمسائیگی پر مبنی ہو۔ افغانستان کے حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ماضی کے خول میں بند رہنا چاہتے ہیں یا ایک ذمے دار ریاست کے طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ نئے باب کا آغاز چاہتے ہیں۔
پاکستان کا دروازہ اب بھی کھلا ہے، مگر شرط وہی ہے ’’امن کے بدلے امن۔‘‘ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی، پاک افغان جنگ بندی معاہدہ اچھی پیشرفت ہے، یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اگر اس معاہدے پر من و عن عملدرآمد ہوجاتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے عوام کو دہشت گردی سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امن و امان کے عوض سکھ کا سانس نصیب ہوگا اور خطے میں سیاسی و معاشی استحکام بھی آئے گا۔