بھارت اوراسرائیل کے تعلقات ایک ایسے سفرکی کہانی ہے جوسردمہری اورنظریاتی تضادات سے شروع ہوکراب ایک سٹریٹجک اتحادمیں بدل چکاہے جہاں کبھی بھارت فلسطینیوں کے حق میں کھڑاتھا،وہیں آج اسرائیل نہ صرف بھارت کاقریبی اتحادی بن چکاہے بلکہ متعصب مسلمان دشمن بی جے پی کے درندوں کوغزہ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے بھیجناہندودھرم کی خدمت سمجھ رہاہے اور کئی سو ہندوآج اسرائیلی فوج کے تحت یہ ظلم کررہے ہیں۔
جواہرلعل نہرواوران کی کانگریس پارٹی عرب قوم پرستی اورفلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے حامی تھے۔وہ فلسطینیوں کے حقوق کونظراندازکرنے پر اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے۔بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی فلسطینی عوام کی حمایت کااعلان کیا۔نہرواور ان کی کانگریس پارٹی نے اسرائیل کے قیام کوایک’’نوآبادیاتی منصوبہ‘‘ قرار دیا تھا جو عرب دنیا پرمغربی تسلط کوقائم رکھنے کے لئے بنایا گیاتھا۔ نہرونے کہاتھاکہاگراسرائیل فلسطین کی قربانی پرقائم ہوتاہے تو یہ عالمی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بھارت کی ابتدائی خارجہ پالیسی غیروابستہ تحریک کے تحت عرب ممالک کے ساتھ ہمدردی اورمسلم عوامی جذبات کالحاظ رکھتی تھی۔بھارت نے اقوام متحدہ میں1947ء کے تقسیم فلسطین کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیاتھا۔اس فیصلے تاہم، 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کوتسلیم کرلیالیکن تسلیم کرنے کی وجہ امریکا اور برطانیہ کاسفارتی دبائو بھی تھا۔تسلیم کرنے کے باوجود بھارت نے سفارتی سطح پرسردمہری برقراررکھی تاکہ عرب دنیااورمسلم ممالک کی حمایت برقراررکھ سکے۔یہ پالیسی سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے ساتھ تعلقات اورمسلم اکثریتی ملک ہونے کے داخلی دبائو کی عکاس تھی۔دونوں ممالک کے درمیان سیاسی،معاشی اورعالمی سفارتی وجوہات کی بناپرسفارتی تعلقات قائم کرنے میں42 سال لگے۔یہ تعلقات1992ء میں کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہاراکے دورمیں قائم ہوئے۔اس کاسبب بھارت کی عرب ممالک کے ساتھ تجارت،تیل پرانحصاراورداخلی مسلم آبادی کی حساسیت تھی۔
کانگریس کے وزیراعظم پی وی نرسمہارانے بھارت کی خارجہ پالیسی میں ’’پراکمیٹزم (عملیت پسندی)متعارف کرائی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعدبھارت نے امریکااور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کوضروری سمجھا۔بھارت اوراسرائیل نے1992ء میں سفارت خانے کھولے،جس کے بعددونوں ممالک میں تعاون تیزی سے بڑھا۔یہ فیصلہ اس وقت کیاگیاجب عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات(جیسے اوسلو معاہدہ)بھی بہترہورہے تھے،جس سے بھارت کو موقع ملاکہ وہ سفارتی نقصان کے بغیر اسرائیل سے قربت پیدا کرے۔
پہلی بار2003ء میں کسی اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے بھارت کادورہ کیااوریہ دورہ اس وقت ہواجب بی جے پی حکومت اقتدارمیں تھی اوراٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔ایریل شیرون کے دورے کو تاریخی اورعلامتی اہمیت دی گئی کیونکہ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی نئی جہت کوظاہرکرتاتھا۔اس کے بعدسے دونوں ممالک کے درمیان دفاع، سائبرسکیورٹی، زراعت اورانٹیلی جنس میں اشتراک بڑھا۔
کارگل جنگ بھارت اورپاکستان کے درمیان ایک محدودجنگ تھی لیکن اس کادفاعی اورسفارتی دائرہ کاروسیع تھا۔یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے بھارت کے لئے اپنی سٹریٹجک اہمیت کوعملی طورپرظاہرکیا۔ بھارت کوجنگ کے دوران جدیدہتھیاروں اورنگرانی کے نظام کی فوری ضرورت تھی۔1999ء کی کارگل جنگ میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ بھارت کونہ صرف سفارتی بلکہ عسکری مددفراہم کی۔ اس میں خاص طورپراسپائک اینٹی ٹینک میزائل،ڈرونز،اورنگرانی کے نظام شامل تھے۔اسرائیل نے یواے ویزڈرونز، لیزرگائیڈڈ میزائل اورنگرانی کے آلات فراہم کیے۔جس کے بعد بھارت کی فضائیہ کادعوی تھاکہ اس کواسرائیلی بمباری نظام کے ذریعے اہداف پردرست حملے کرنے کی صلاحیت ملی۔یہ اسرائیلی حمایت اس وقت دی گئی جب اسرائیل خودلبنان وفلسطین میں عسکری تنازعات میں الجھاہواتھا۔یہ وہ لمحہ تھاجب اسرائیل نے عملی طورپربھارت کوقابلِ اعتماد اتحادی سمجھ کرجنگی صورتحال میں کھلے دل سے مدددی۔
یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے کھل کرانڈیا کی فوجی مددکی،جس نے دونوں ممالک کے درمیان اعتمادکی بنیادرکھی۔اسرائیل نے جہاں کارگل جنگ 1999ء کے دوران انڈیاکو پاکستانی فوج کی نقل وحرکت کومانیٹرکرنے کے ریئل ٹائم انٹیلی جنس اورڈرونزفراہم کیے وہاں اس نے مسلسل اپنافوجی تعاون جاری رکھتے ہوئے پلوامہ بحران2019ء میں انڈیاکو پاکستان کے خلاف فضائی حملے کے بعداضافی فوجی امداد بھی دی اوراب حالیہ پاک بھارت جنگ میں اس نے جدیدترین ٹیکنالوجی سے لیس ہاروپ کازی ڈرون بھی دیئے جن کے بارے میں اس کادعوی تھاکہ دنیامیں کسی کے پاس ان کوتباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن پاکستان نے نہ صرف یہود وہنودکاغرورخاک میں ملایاکر79ڈرون تباہ کئے ہیں بلکہ نصف درجن سے زائدڈرون کونیچے اتارکراپنے قبضے میں بھی لے لیاہے۔
مودی پہلے بھارتی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2017ء میں اسرائیل کادورہ کیایہ واقعہ محض سفارتی نہیں بلکہ علامتی تبدیلی کی حیثیت رکھتاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے اس دورے کو ’’تاریخی سنگ میل‘‘ قراردیا۔مودی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کوایک نئی سمت دی جس میں سٹریٹجک خودمختاری اوردائیں بازوکی ہم آہنگی مرکزی اصول بن گئے ۔ 2014ء کے بعدانڈیااوراسرائیل کے درمیان تیزی کے ساتھ تعلقات میں اضافہ اورتاریخی گہرائی پیداہوئی۔
دورے میں دفاعی،ٹیکنالوجیکل، زراعت، واٹرمینجمنٹ اورخلائی تعاون کے متعدد معاہدے ہوئے۔ دونوں ممالک نے زراعت، پانی، دفاع، سائبر سکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی اور سول ایوی ایشن میں مشترکہ منصوبے شروع کئے۔اس دورے کوسفارتی حلقوں نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کے لئے نیادورقراردیا۔یہ دورہ ظاہرکرتاہے کہ اب بھارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوعوامی اورباقاعدہ طورپر عالمی سطح پرظاہرکرنے میں جھجک نہیں کرتا۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات خارجہ پالیسی دونوں ممالک اسرائیل نے اسرائیل کے کے درمیان کارگل جنگ بھارت اور بھارت نے بھارت کی نے بھارت ممالک کے کے لئے
پڑھیں:
غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مئی 2025ء) یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ اس بلاک کے تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا۔ یہ غزہ پٹی میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ قدم ہے۔
اسرائیل نے مئی کے اوائل میں جنوبی غزہ پٹی کے شہر رفح میں اور اس کے آس پاس شروع ہونے والے فوجی حملے میں شدت پیدا کی اور غزہ میں داخل ہونے والی امداد پر سخت کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔
یورپی یونین کے کئی رکن ممالک کی جانب سے برسلز پر اسرائیلی حکومت کو ایک مضبوط اشارہ بھیجنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں منگل کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا، جس میں یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اسرائیل کے ساتھ یورپی تجارتی تعلقات پر نظرثانی کے فیصلے کا اعلان کیا، جو غزہ میں جاری انسانی بحران پر سخت کارروائی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کے جواب میں پہلا باضابطہ اقدام ہے۔(جاری ہے)
یورپی کمیشن کا اعلان
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے اعلان کیا کہ یورپی کمیشن ای یو۔اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے پر نظرثانی کرے گا۔ یہ ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہے، جو دونوں فریقوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو کنٹرول کرتا ہے۔
کایا کالاس نے اگرچہ اس خبر کا خیرمقدم کیا کہ اسرائیل نے 11 ہفتوں کی طویل اور مکمل ناکہ بندی کے بعد کچھ امداد کے غزہ میں داخلے کی اجازت دی ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ ''تباہ کن‘‘ صورتحال میں یہ اقدام ''سمندر میں ایک قطرے‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا تھا کہ اسے غزہ میں امداد سامان کے کے تقریباً 100 ٹرک بھیجنے کی اجازت مل گئی ہے، کیونکہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر یہ امداد علاقے میں واپس پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن ماضی میں اقوام متحدہ کی طرف سے کہا جا چکا ہے غزہ پٹی میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے روزانہ 500 امدادی ٹرکوں اور تجارتی سامان کی ضرورت ہے۔
مارچ میں اسرائیل نے غزہ پٹی میں عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی ختم کر دی تھی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل پر دوبارہ سخت پابندیاں نافذ کر دی تھیں۔
اپریل میں یورپی یونین نے غزہ پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے لیے تین سالہ مالی امدادی پیکج کا اعلان کیا تھا جس کی مالیت 1.6 بلین یورو یا 1.8 بلین ڈالر بنتی ہے۔
کایا کالاس نے اس امر پر زور دیا کہ یورپی یونین کی یہ امداد متعلقہ افراد تک پہنچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''یہ یورپی پیسہ ہے، جسے متاثرہ افراد تک پہنچنا چاہیے۔‘‘اسپین کی طرف سے پابندیوں کا مطالبہ
یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک، خاص طور پر اسپین، آئرلینڈ، نیدرلینڈز اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ اس یورپی بلاک کے تجارتی تعلقات پر باضابطہ نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ای یو اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے زیر انتظام ہیں، جس میں ''آرٹیکل 2 ‘‘ نامی ایک شق بھی شامل ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملات میں اسے معطل کرنے کی اجازت بھی دیتی ہے۔منگل کو پیرس میں فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئل بیرو نے کہا تھا، ''ایک بار انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ثابت ہو جائیں، تو پھر 'معاہدے‘ کو معطل کیا جا سکتا ہے۔
‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کے ساتھ تجارت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔یورپی یونین سے قومی سطح تک
غزہ پٹی کے انسانی بحران کے سلسلے میں یورپی یونین کی جانب سے بہت کم مشترکہ کارروائی کے سبب کئی یورپی ممالک نے معاملات کو خود اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے پچھلے سال فلسطین کی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا تھا اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ فرانس اور بیلجیم بھی جلد ہی ایسا کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین منقسم
اکتوبر 2023 سے یورپی یونین کی ریاستیں جیسے جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور چیک جمہوریہ نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی بھرپور حمایت کی ہے اور وہ اسرائیل کے خلاف کسی بھی طرح کے تعزیری اقدامات کی توثیق کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔
جرمنی نے بارہا اسرائیل کے حوالے سے اپنی تاریخی ذمہ داری پر زور دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو غزہ پٹیمیں مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی طرف سے تحقیقات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود اس ماہ کے شروع میں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے جرمن اسرائیلی سفارتی تعلقات کے قیام کے 60 سال مکمل ہونے کے موقع پراسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات بھی کی تھی۔منگل کے روز ہسپانوی وزیر خارجہ خوزے مانوئل الباریس نے اسرائیل کے خلاف پابندیوں کا مطالبہ کیا اور یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ انسانی تباہی کو روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرے۔ لیکن مشرق وسطیٰ میں یورپی یونین کے سابق سفیر اور اب سینٹر فار یورپی پالیسی اسٹڈیز (CEPS) کے سینئر فیلو جیمز موران نے کہا ہے کہ
غزہ پٹی میں اسرائیل کے اقدامات پر اندرونی اختلافات نے یورپی یونین کو مؤثر طریقے سے سائیڈ لائن کر دیا ہے۔