Daily Ausaf:
2025-11-04@01:31:38 GMT

کارگل جنگ سے آپریشن سندورتک

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

بھارت اوراسرائیل کے تعلقات ایک ایسے سفرکی کہانی ہے جوسردمہری اورنظریاتی تضادات سے شروع ہوکراب ایک سٹریٹجک اتحادمیں بدل چکاہے جہاں کبھی بھارت فلسطینیوں کے حق میں کھڑاتھا،وہیں آج اسرائیل نہ صرف بھارت کاقریبی اتحادی بن چکاہے بلکہ متعصب مسلمان دشمن بی جے پی کے درندوں کوغزہ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے بھیجناہندودھرم کی خدمت سمجھ رہاہے اور کئی سو ہندوآج اسرائیلی فوج کے تحت یہ ظلم کررہے ہیں۔
جواہرلعل نہرواوران کی کانگریس پارٹی عرب قوم پرستی اورفلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے حامی تھے۔وہ فلسطینیوں کے حقوق کونظراندازکرنے پر اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے۔بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی فلسطینی عوام کی حمایت کااعلان کیا۔نہرواور ان کی کانگریس پارٹی نے اسرائیل کے قیام کوایک’’نوآبادیاتی منصوبہ‘‘ قرار دیا تھا جو عرب دنیا پرمغربی تسلط کوقائم رکھنے کے لئے بنایا گیاتھا۔ نہرونے کہاتھاکہاگراسرائیل فلسطین کی قربانی پرقائم ہوتاہے تو یہ عالمی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بھارت کی ابتدائی خارجہ پالیسی غیروابستہ تحریک کے تحت عرب ممالک کے ساتھ ہمدردی اورمسلم عوامی جذبات کالحاظ رکھتی تھی۔بھارت نے اقوام متحدہ میں1947ء کے تقسیم فلسطین کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیاتھا۔اس فیصلے تاہم، 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کوتسلیم کرلیالیکن تسلیم کرنے کی وجہ امریکا اور برطانیہ کاسفارتی دبائو بھی تھا۔تسلیم کرنے کے باوجود بھارت نے سفارتی سطح پرسردمہری برقراررکھی تاکہ عرب دنیااورمسلم ممالک کی حمایت برقراررکھ سکے۔یہ پالیسی سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے ساتھ تعلقات اورمسلم اکثریتی ملک ہونے کے داخلی دبائو کی عکاس تھی۔دونوں ممالک کے درمیان سیاسی،معاشی اورعالمی سفارتی وجوہات کی بناپرسفارتی تعلقات قائم کرنے میں42 سال لگے۔یہ تعلقات1992ء میں کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہاراکے دورمیں قائم ہوئے۔اس کاسبب بھارت کی عرب ممالک کے ساتھ تجارت،تیل پرانحصاراورداخلی مسلم آبادی کی حساسیت تھی۔
کانگریس کے وزیراعظم پی وی نرسمہارانے بھارت کی خارجہ پالیسی میں ’’پراکمیٹزم (عملیت پسندی)متعارف کرائی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعدبھارت نے امریکااور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کوضروری سمجھا۔بھارت اوراسرائیل نے1992ء میں سفارت خانے کھولے،جس کے بعددونوں ممالک میں تعاون تیزی سے بڑھا۔یہ فیصلہ اس وقت کیاگیاجب عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات(جیسے اوسلو معاہدہ)بھی بہترہورہے تھے،جس سے بھارت کو موقع ملاکہ وہ سفارتی نقصان کے بغیر اسرائیل سے قربت پیدا کرے۔
پہلی بار2003ء میں کسی اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے بھارت کادورہ کیااوریہ دورہ اس وقت ہواجب بی جے پی حکومت اقتدارمیں تھی اوراٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔ایریل شیرون کے دورے کو تاریخی اورعلامتی اہمیت دی گئی کیونکہ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی نئی جہت کوظاہرکرتاتھا۔اس کے بعدسے دونوں ممالک کے درمیان دفاع، سائبرسکیورٹی، زراعت اورانٹیلی جنس میں اشتراک بڑھا۔
کارگل جنگ بھارت اورپاکستان کے درمیان ایک محدودجنگ تھی لیکن اس کادفاعی اورسفارتی دائرہ کاروسیع تھا۔یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے بھارت کے لئے اپنی سٹریٹجک اہمیت کوعملی طورپرظاہرکیا۔ بھارت کوجنگ کے دوران جدیدہتھیاروں اورنگرانی کے نظام کی فوری ضرورت تھی۔1999ء کی کارگل جنگ میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ بھارت کونہ صرف سفارتی بلکہ عسکری مددفراہم کی۔ اس میں خاص طورپراسپائک اینٹی ٹینک میزائل،ڈرونز،اورنگرانی کے نظام شامل تھے۔اسرائیل نے یواے ویزڈرونز، لیزرگائیڈڈ میزائل اورنگرانی کے آلات فراہم کیے۔جس کے بعد بھارت کی فضائیہ کادعوی تھاکہ اس کواسرائیلی بمباری نظام کے ذریعے اہداف پردرست حملے کرنے کی صلاحیت ملی۔یہ اسرائیلی حمایت اس وقت دی گئی جب اسرائیل خودلبنان وفلسطین میں عسکری تنازعات میں الجھاہواتھا۔یہ وہ لمحہ تھاجب اسرائیل نے عملی طورپربھارت کوقابلِ اعتماد اتحادی سمجھ کرجنگی صورتحال میں کھلے دل سے مدددی۔
یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے کھل کرانڈیا کی فوجی مددکی،جس نے دونوں ممالک کے درمیان اعتمادکی بنیادرکھی۔اسرائیل نے جہاں کارگل جنگ 1999ء کے دوران انڈیاکو پاکستانی فوج کی نقل وحرکت کومانیٹرکرنے کے ریئل ٹائم انٹیلی جنس اورڈرونزفراہم کیے وہاں اس نے مسلسل اپنافوجی تعاون جاری رکھتے ہوئے پلوامہ بحران2019ء میں انڈیاکو پاکستان کے خلاف فضائی حملے کے بعداضافی فوجی امداد بھی دی اوراب حالیہ پاک بھارت جنگ میں اس نے جدیدترین ٹیکنالوجی سے لیس ہاروپ کازی ڈرون بھی دیئے جن کے بارے میں اس کادعوی تھاکہ دنیامیں کسی کے پاس ان کوتباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن پاکستان نے نہ صرف یہود وہنودکاغرورخاک میں ملایاکر79ڈرون تباہ کئے ہیں بلکہ نصف درجن سے زائدڈرون کونیچے اتارکراپنے قبضے میں بھی لے لیاہے۔
مودی پہلے بھارتی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2017ء میں اسرائیل کادورہ کیایہ واقعہ محض سفارتی نہیں بلکہ علامتی تبدیلی کی حیثیت رکھتاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے اس دورے کو ’’تاریخی سنگ میل‘‘ قراردیا۔مودی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کوایک نئی سمت دی جس میں سٹریٹجک خودمختاری اوردائیں بازوکی ہم آہنگی مرکزی اصول بن گئے ۔ 2014ء کے بعدانڈیااوراسرائیل کے درمیان تیزی کے ساتھ تعلقات میں اضافہ اورتاریخی گہرائی پیداہوئی۔
دورے میں دفاعی،ٹیکنالوجیکل، زراعت، واٹرمینجمنٹ اورخلائی تعاون کے متعدد معاہدے ہوئے۔ دونوں ممالک نے زراعت، پانی، دفاع، سائبر سکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی اور سول ایوی ایشن میں مشترکہ منصوبے شروع کئے۔اس دورے کوسفارتی حلقوں نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کے لئے نیادورقراردیا۔یہ دورہ ظاہرکرتاہے کہ اب بھارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوعوامی اورباقاعدہ طورپر عالمی سطح پرظاہرکرنے میں جھجک نہیں کرتا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات خارجہ پالیسی دونوں ممالک اسرائیل نے اسرائیل کے کے درمیان کارگل جنگ بھارت اور بھارت نے بھارت کی نے بھارت ممالک کے کے لئے

پڑھیں:

مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید

مصر کے سابق نائب صدر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کے سابق نائب صدر محمد البرادعی جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر خاموشی کے باعث عرب ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر حکومتوں، تنظیموں اور ماہرین میں اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے انسانیت کے خلاف دیگر جرائم بھی انجام دیے ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک جیسے کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، ترکی اور بولیویا نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور بنگلہ دیش، بولیویا، جزر القمر، جیبوتی، چلی اور میکسیکو جیسے ممالک نے عالمی فوجداری عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں کی اکثریت نے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہم ہی اس مسئلے کے حقیقی مدعی ہیں۔" انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں گا۔"
 
محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے اس پیغام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اظہار کو اپنے ملک کے اندر مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک مصری صافر نے جواب میں لکھا: "اگر آپ، محترم ڈاکٹر صاحب، حقیقت بیان کرنے سے خوفزدہ ہیں تو ہم کیا کریں؟ عرب ڈکٹیٹرز نے اسرائیل کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اسے اپنی عوام کو ڈرا سکیں۔" ایک اور صارف نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرب حکومتیں بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کرتی ہیں۔ اس نے مزید لکھا: "یہ صورتحال مجھے کچھ ایسے مخالفین کی یاد دلاتی ہے جو نظام کے اندر سے اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوں سزا پانے سے بچ سکیں۔" کلی طور پر محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور ان تمام پیغامات میں غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر عرب حکومتوں کی خاموشی قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔
 
یاد رہے جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس رژیم نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام دے کر نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جیسے برازیل، نکارا گویا، کیوبا، آئرلینڈ، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکی نے اس مقدمے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے اکتوبر 2024ء میں عدالت کو 500 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے آئندہ دو ماہ میں اپنی دفاعیات عدالت میں پیش کرنی ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2027ء میں عدالت کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی‘ خواجہ آصف
  • پاکستان کی سفارتکاری نئے اعتماد اور استحکام کے دور میں داخل ہو چکی ہے: خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، خواجہ آصف
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی