Daily Ausaf:
2025-07-09@02:47:12 GMT

کارگل جنگ سے آپریشن سندورتک

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

بھارت اوراسرائیل کے تعلقات ایک ایسے سفرکی کہانی ہے جوسردمہری اورنظریاتی تضادات سے شروع ہوکراب ایک سٹریٹجک اتحادمیں بدل چکاہے جہاں کبھی بھارت فلسطینیوں کے حق میں کھڑاتھا،وہیں آج اسرائیل نہ صرف بھارت کاقریبی اتحادی بن چکاہے بلکہ متعصب مسلمان دشمن بی جے پی کے درندوں کوغزہ میں معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کے لئے بھیجناہندودھرم کی خدمت سمجھ رہاہے اور کئی سو ہندوآج اسرائیلی فوج کے تحت یہ ظلم کررہے ہیں۔
جواہرلعل نہرواوران کی کانگریس پارٹی عرب قوم پرستی اورفلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے حامی تھے۔وہ فلسطینیوں کے حقوق کونظراندازکرنے پر اسرائیل کے قیام کے مخالف تھے۔بھارت نے آزادی کے فوراً بعد ہی فلسطینی عوام کی حمایت کااعلان کیا۔نہرواور ان کی کانگریس پارٹی نے اسرائیل کے قیام کوایک’’نوآبادیاتی منصوبہ‘‘ قرار دیا تھا جو عرب دنیا پرمغربی تسلط کوقائم رکھنے کے لئے بنایا گیاتھا۔ نہرونے کہاتھاکہاگراسرائیل فلسطین کی قربانی پرقائم ہوتاہے تو یہ عالمی انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بھارت کی ابتدائی خارجہ پالیسی غیروابستہ تحریک کے تحت عرب ممالک کے ساتھ ہمدردی اورمسلم عوامی جذبات کالحاظ رکھتی تھی۔بھارت نے اقوام متحدہ میں1947ء کے تقسیم فلسطین کے منصوبے کے خلاف ووٹ دیاتھا۔اس فیصلے تاہم، 1950ء میں بھارت نے اسرائیل کوتسلیم کرلیالیکن تسلیم کرنے کی وجہ امریکا اور برطانیہ کاسفارتی دبائو بھی تھا۔تسلیم کرنے کے باوجود بھارت نے سفارتی سطح پرسردمہری برقراررکھی تاکہ عرب دنیااورمسلم ممالک کی حمایت برقراررکھ سکے۔یہ پالیسی سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کے ساتھ تعلقات اورمسلم اکثریتی ملک ہونے کے داخلی دبائو کی عکاس تھی۔دونوں ممالک کے درمیان سیاسی،معاشی اورعالمی سفارتی وجوہات کی بناپرسفارتی تعلقات قائم کرنے میں42 سال لگے۔یہ تعلقات1992ء میں کانگریسی وزیر اعظم پی وی نرسمہاراکے دورمیں قائم ہوئے۔اس کاسبب بھارت کی عرب ممالک کے ساتھ تجارت،تیل پرانحصاراورداخلی مسلم آبادی کی حساسیت تھی۔
کانگریس کے وزیراعظم پی وی نرسمہارانے بھارت کی خارجہ پالیسی میں ’’پراکمیٹزم (عملیت پسندی)متعارف کرائی۔سوویت یونین کے انہدام کے بعدبھارت نے امریکااور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کوضروری سمجھا۔بھارت اوراسرائیل نے1992ء میں سفارت خانے کھولے،جس کے بعددونوں ممالک میں تعاون تیزی سے بڑھا۔یہ فیصلہ اس وقت کیاگیاجب عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات(جیسے اوسلو معاہدہ)بھی بہترہورہے تھے،جس سے بھارت کو موقع ملاکہ وہ سفارتی نقصان کے بغیر اسرائیل سے قربت پیدا کرے۔
پہلی بار2003ء میں کسی اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے بھارت کادورہ کیااوریہ دورہ اس وقت ہواجب بی جے پی حکومت اقتدارمیں تھی اوراٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے۔ایریل شیرون کے دورے کو تاریخی اورعلامتی اہمیت دی گئی کیونکہ یہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی نئی جہت کوظاہرکرتاتھا۔اس کے بعدسے دونوں ممالک کے درمیان دفاع، سائبرسکیورٹی، زراعت اورانٹیلی جنس میں اشتراک بڑھا۔
کارگل جنگ بھارت اورپاکستان کے درمیان ایک محدودجنگ تھی لیکن اس کادفاعی اورسفارتی دائرہ کاروسیع تھا۔یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے بھارت کے لئے اپنی سٹریٹجک اہمیت کوعملی طورپرظاہرکیا۔ بھارت کوجنگ کے دوران جدیدہتھیاروں اورنگرانی کے نظام کی فوری ضرورت تھی۔1999ء کی کارگل جنگ میں اسرائیل نے پہلی مرتبہ بھارت کونہ صرف سفارتی بلکہ عسکری مددفراہم کی۔ اس میں خاص طورپراسپائک اینٹی ٹینک میزائل،ڈرونز،اورنگرانی کے نظام شامل تھے۔اسرائیل نے یواے ویزڈرونز، لیزرگائیڈڈ میزائل اورنگرانی کے آلات فراہم کیے۔جس کے بعد بھارت کی فضائیہ کادعوی تھاکہ اس کواسرائیلی بمباری نظام کے ذریعے اہداف پردرست حملے کرنے کی صلاحیت ملی۔یہ اسرائیلی حمایت اس وقت دی گئی جب اسرائیل خودلبنان وفلسطین میں عسکری تنازعات میں الجھاہواتھا۔یہ وہ لمحہ تھاجب اسرائیل نے عملی طورپربھارت کوقابلِ اعتماد اتحادی سمجھ کرجنگی صورتحال میں کھلے دل سے مدددی۔
یہ پہلاموقع تھاجب اسرائیل نے کھل کرانڈیا کی فوجی مددکی،جس نے دونوں ممالک کے درمیان اعتمادکی بنیادرکھی۔اسرائیل نے جہاں کارگل جنگ 1999ء کے دوران انڈیاکو پاکستانی فوج کی نقل وحرکت کومانیٹرکرنے کے ریئل ٹائم انٹیلی جنس اورڈرونزفراہم کیے وہاں اس نے مسلسل اپنافوجی تعاون جاری رکھتے ہوئے پلوامہ بحران2019ء میں انڈیاکو پاکستان کے خلاف فضائی حملے کے بعداضافی فوجی امداد بھی دی اوراب حالیہ پاک بھارت جنگ میں اس نے جدیدترین ٹیکنالوجی سے لیس ہاروپ کازی ڈرون بھی دیئے جن کے بارے میں اس کادعوی تھاکہ دنیامیں کسی کے پاس ان کوتباہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن پاکستان نے نہ صرف یہود وہنودکاغرورخاک میں ملایاکر79ڈرون تباہ کئے ہیں بلکہ نصف درجن سے زائدڈرون کونیچے اتارکراپنے قبضے میں بھی لے لیاہے۔
مودی پہلے بھارتی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2017ء میں اسرائیل کادورہ کیایہ واقعہ محض سفارتی نہیں بلکہ علامتی تبدیلی کی حیثیت رکھتاہے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے اس دورے کو ’’تاریخی سنگ میل‘‘ قراردیا۔مودی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کوایک نئی سمت دی جس میں سٹریٹجک خودمختاری اوردائیں بازوکی ہم آہنگی مرکزی اصول بن گئے ۔ 2014ء کے بعدانڈیااوراسرائیل کے درمیان تیزی کے ساتھ تعلقات میں اضافہ اورتاریخی گہرائی پیداہوئی۔
دورے میں دفاعی،ٹیکنالوجیکل، زراعت، واٹرمینجمنٹ اورخلائی تعاون کے متعدد معاہدے ہوئے۔ دونوں ممالک نے زراعت، پانی، دفاع، سائبر سکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی اور سول ایوی ایشن میں مشترکہ منصوبے شروع کئے۔اس دورے کوسفارتی حلقوں نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کے لئے نیادورقراردیا۔یہ دورہ ظاہرکرتاہے کہ اب بھارت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کوعوامی اورباقاعدہ طورپر عالمی سطح پرظاہرکرنے میں جھجک نہیں کرتا۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات خارجہ پالیسی دونوں ممالک اسرائیل نے اسرائیل کے کے درمیان کارگل جنگ بھارت اور بھارت نے بھارت کی نے بھارت ممالک کے کے لئے

پڑھیں:

بھارتی تنہائی کی وجہ مودی کا خبط عظمت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایک عرصے سے بھارت تنہائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ آغاز اس خبر سے کرتے ہیں کہ چار ممالک کا ایک اتحاد کواڈ کے نام سے ہے جس میں امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں یہ اتحاد امریکا نے چین کے خلاف بنایا ہے۔ چین اور جاپان کی تو آپس میں پرانی چپقلش ہے اسی وجہ سے امریکا نے اس کو اس اتحاد میں شامل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ امریکا کے علاہ ان تین ممالک کی سرحدیں بھی چین سے لگتی ہیں۔ چین کا آسٹریلیا سے تو کوئی تنائو یا کھچائو نہیں ہے باہم تجارت ہوتی اور سماجی تعلقات بہت اچھے ہیں آسٹریلیا میں بہت بڑی تعداد میں چینی رہتے ہیں وہاں چینیوں کے نام سے بڑی بڑی آبادیاں قائم ہیں۔ چین میں چونکہ ایک بچے سے زیادہ پیدائش پر پابندی ہے اس لیے بہت چینی کاروباری اور متمول حضرات آسٹریلیا میں جاکر شادی کرلیتے اور وہ چار پانچ بچوں کے باپ بن جاتے ہیں اس طرح آسٹریلیا میں رہنے والے چینیوں کی ایک بیوی چین میں اور ایک آسٹریلیا میں ہوتی ہیں۔ انڈیا کے چین سے تعلقات دوستی اور دشمنی کے درمیان معلق ہے بلکہ تھوڑا سا جھکائو دشمنی کی طرف ہی جاتا ہے۔ آئے دن سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ 1962 میں ایک بڑی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ پھر یہ کہ امریکا چین کے خلاف بھارت کو جدید اسلحے سے لیس کررہا ہے۔
کواڈ میں کیا ہوا بھارت نے سوچا کہ یہ چند بڑے ممالک کا چھوٹا سا لیکن موثر فورم ہے لہٰذا اس اجلاس میں متفقہ قرارداد میں پاکستان کو دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کرایا جائے کواڈ اتحاد نے پہل گام حملے میں بھارت کے پاکستان مخالف بیانیے کی حمایت سے انکار کردیا۔ گروپ نے کسی ملک کا نام لیے بغیر واقعہ کی مذمت کی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر بغیر کسی ثبوت کے حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا ہے اور اس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ماہ چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزارت دفاع کے اجلاس میں بھارت کو پاکستان سے اس وقت ایک اور ذلت آمیز شکست اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے پہل گام واقع سے پاکستان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کی تو بھارت کے سوا تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اس کا موقف مسترد کردیا اجلاس نے اس کے بجائے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کا موقف اپنے مشترک اعلامیے میں شامل کرلیا۔ اس پر بھارتی وفد اجلاس سے بائیکاٹ کرگیا اور اعلامیے پر دستخط بھی نہیں کیے۔ شنگھائی تنظیم مغربی ملکوں کے طاقتور بلاکس کے مقابلے میں چین اور وسط ایشیائی ملکوں کا سیاسی پلیٹ فارم ہے بھارت اس میں اس لیے شامل ہوا تھا سینٹرل ایشیا کے ملکوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھا سکے مگر وہ اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت ویسے تو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا لیکن بھارتی میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی، مغربی میڈیا نے بھارتی میڈیا پر سخت تنقید کی اور اس کا مذاق بھی اُڑایا۔ ابھی دودن قبل چین میں ایس سی او کے وزرائے مواصلات کا اجلاس تھا اس وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیر غائب رہے وہ پاکستان کا سامنا نہیں کرسکے جبکہ پاکستان سے وزیر مواصلات عبدالعلیم خان وفد کے ہمراہ شریک تھے۔
یہ تو کچھ تازہ واقعات تھے لیکن جنگ کے فوری بعد بھارت نے جو 67 رکنی وفد دنیا کے کئی ممالک میں بھیجے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اس پورے دورے میں بھارتی وفد کو شدید قسم کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کسی ملک نے بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور اس وفد کو مایوس واپس لوٹنا پڑا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے سوا کوئی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی بہت پہلے بھارت کے اپنے قریبی پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوچکے تھے ان میں بنگلا دیش، سری لنکا، برما، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ان سب ممالک سے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر مکالمہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ پچھلے سال بنگلا دیش کی حسینہ واجد کا اقتدار عوامی غیظ و غضب کے سیلاب میں بہہ کر غرق ہوگیا اور وہ بھارت فرار ہو گئیں پاکستان سے تو اس کا چھتیس کا آکڑا رہتا اور چین جو انڈیا سے کہیں بڑا ملک ہے اس سے بھی نہیں بنتی۔ سارک تنظیم کو یورپی یونین کے طرز پر چلانے کی سب کی خواہش تھی لیکن نریندر مودی کے دور حکومت میں سارک غیر فعال ہوگئی صرف اس وجہ سے اس میں بھارت اپنی چلانا چاہتا تھا اور اپنے پڑوس کے چھوٹے ممالک بالخصوص سارک سے وابستہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارت اپنا حق سمجھتا تھا اسی لہے ان ممالک سے تعلقات خراب ہوگئے اور اس طرح بھارت تنہا رہ گیا۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے بھارت کو اس صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو بھارتی حکمرانوں کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح خفیہ تنظیم سی آئی اے جس کو چاہے مروا دیتی ہے جس حکومت کا چاہے تختہ الٹ دیتی ہے، موساد بھی یہی کام کرتی ہے ایم فائیو اور کے جی بی کے بارے میں بھی اسی طرح کا تاثر ہے تو پھر ہم بھی امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور روس کے برابر ہیں اس لیے ہماری خفیہ تنظیم را کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ اپنے مخالفین کو جس ملک میں چاہے قتل کروا سکتی ہے۔ جیسا کے پچھلے دنوں کنیڈا میں ایک سکھ رہنما کو قتل کیا تھا جس پر حکومت کنیڈا نے بہت سخت احتجاج کیا تھا۔
یہ نریندر مودی کی خبط عظمت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس طرح کے قتل اور ملکوں میں مداخلت کرکے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سی آئی اے، موساد، کے جی بی نے یا کبھی ان کے ممالک نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے فلاں دشمن کو قتل کروایا ہے یہ الگ بات ہے کہ بیس پچیس سال بعد کوئی پیپر لیک ہوجائے یا کوئی صاحب اپنی کتاب میں انکشاف کریں کہ فلاں رہنما کا قتل اس تنظیم نے کیا تھا۔ یہاں تو 2015 میں مودی نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے برملا یہ کہا کہ ہم نے اپنی فوج بھیج کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اسی طرح کنیڈا، پاکستان، امریکا اور دیگر ممالک میں را نے اپنے مخالفین کے جو قتل کیے بھارتی وزراء نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اپنے مخالفین کو ان کے ملکوں میں گھس کر قتل کیا ہے۔ دو ماہ قبل نیو یارک ٹائم نے تو اس کی پوری تفصیل دی تھی کہ کس طرح را نے امریکا سمیت دیگر ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کیا ہے۔ ترقی یافتہ اور بڑے ممالک کے حکمران اسی لیے مودی سے ناراض ہیں کہ وہ ملک جہاں پچاس فی صد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی معاشی حالت بھی کوئی بہت آئیڈیل نہیں وہ اپنی پگڑی ہمارے برابر رکھنا چاہتا ہے چھوٹے ممالک پہلے ہی خفا تھے پہل گام واقع میں نریندر مودی کا غرور اور تکبر اپنے عروج پر تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک ہی جھٹکے میں پاکستان کو مزا چکھا دیں گے۔ لیکن غرور کا سر نیچا ہوا مودی جی زمین پر پڑے اکیلے کراہ رہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آرہا ہے۔ کچھ دن بعد جب مودی جی خبط عظمت کے سحر سے باہر آئیں گے تو پھر ان کو زمینی حقائق کا پتا چلے گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • بھارتی تنہائی کی وجہ مودی کا خبط عظمت
  • بنگلہ دیش: انقلاب کے بعد پاکستان اور چین کی طرف جھکاؤ، بھارت سے تناؤ
  • وزیراعظم بتائیں ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کہاں گئی؟ نعیم الرحمان
  • وزیراعظم بتائیں ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کہاں گئی؟ حافظ نعیم الرحمان
  • امید ہے کہ اسرائیل ایران جنگ ختم ہوگئی، ایران پر ایک اور حملے کی ضرورت نہیں پڑیگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ اور سوچ سے بڑھ کر جواب دیا جائے گا‘ فیلڈ مارشل
  • امریکا پاکستان اور بھارت تعلقات کی تشکیل جدید
  • پاک بھارت تعلقات میں مشاورت سے اختلافات کو دور کرنے کے حامی ہیں ، چینی وزارت خارجہ
  • چین اور برازیل کے تعلقات تاریخ کے بہترین دور میں ہیں، چینی وزیر اعظم
  • آپریشن سندور: بھارت نے ہلاک فوجیوں کو اعزازات دے کر اپنی شکست کا اعتراف کرلیا