(سندھ پولیس ) خطرناک جرائم پیشہ افراد کے سرپرست آزاد
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
کراچی میںگٹکا ماوا ،منشیات ، فحاشی کے اڈے برقرار،نمائشی کارروائیاںکا سلسلہ جاری
بلوچ کالونی، جونیجو ٹاؤن نالہ کے قریب آبادی میں مجرمانہ سرگرمیاں، ڈیفنس میں فحاشی
ڈسٹرک ایسٹ کے علاقے بلوچ کالونی تھانہ کی حدود میں مبینہ پولیس کی سرپرستی میں 20 سے زائد مقامات پر گٹکا ماوا منشیات پانی چوری اور فحاشی کے اڈے قائم ہونے کی وجہ سے اہل علاقہ کی پریشانی میں اضافہ ۔ڈی ائی جی ایسٹ سے کاروائی کا مطالبہ ۔تفصیلات کے مطابق ضلع ایسٹ کے علاقے بلوچ کالونی تھانے کی حدود میں جونیجو ٹاون کے قریب جھگیوں میں کٹکا ماوا کے کارخانے اباد ہیں کزشتہ دنوں رینجر نے چھاپہ مار کاروائی کے دوران بڑی مقدار میں گٹکا ماوا برمد کیا تھا۔لیکن ایس ایچ او بلوچ کالونی کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی ۔کیو نکہ یہ کٹکا ماوا کا کارخانہ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیت کا تھا۔اور ایس ایچ او بلوچ کالونی بھی اسی سیاسی جماعت کی چھتری کے سائے میں پناہ لیئے ہوے ہے۔منظور کالونی جونیجو ٹاون میں لقمان کو گٹکا ماوا بیچنے کی اجازت دی گئی ہے ۔گزشتہ دنوں افسران بالا کی انکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے لقمان پر نمائشی کاروائی عمل میں لائی گئی ۔ لیکن ج بھی لقمان کا بھاری رشوت کیعوض تھانہ بلوچ کالونی کے علاقے میں کٹکا ماوا فروخت ہو رہا ہے.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: منظور کالونی بلوچ کالونی گٹکا ماوا کے علاقے گلی نمبر کے قریب
پڑھیں:
نئی نمبر پلیٹ کا مسئلہ!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سندھ حکومت نے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے لیے ’’اجرک‘‘ کے ڈیزائن والی نمبر پلیٹیں لازمی قرار دی ہیں انہیں استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی اور جرمانے اور ضبطی کے احکامات جاری کیے ہیں، بظاہر یہ فیصلہ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد جدید، ٹیکنالوجی پر مبنی سیکورٹی اور نگرانی کا نظام ہے تاکہ شہر کو محفوظ، پْرامن بنایا جاسکے، جرائم پر قابو پانے میں مدد ملے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں چالان گھروں تک پہنچانے میں مدد ملے، یہ منصوبہ خصوصی طور پر کیمروں، جدید سافٹ وئر، مصنوعی ذہانت (AI)، اور ڈیجیٹل مواصلاتی نظام کے ذریعے پولیس، ٹریفک کنٹرول، ہنگامی خدمات، اور دیگر سرکاری اداروں کو مربوط کرتا ہے تاکہ وہ تیز، مؤثر اور شفاف انداز میں شہریوں کی حفاظت کر سکیں۔ مگر المناک صورتحال یہ ہے کہ اس فیصلے سے کراچی کے شہری جو پہلے ہی ان گنت مسائل و مشکلات سے دوچار ہیں، ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ ٹریفک پولیس نے اسے اپنی جیب گرم کرنے کا ذریعے بنا لیا ہے، جابجا ناکے لگا کر شہریوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا گیا ہے، دو ماہ میں موٹر سائیکل ودیگر گاڑیوں کے 52 ہزار سے زائد چالان کیے جاچکے ہیں۔ صرف چالان کی مد میں 9.2 ارب روپے شہریوں سے وصول کیے جاچکے ہیں۔ نمبر پلیٹوں کی فراہمی میں تاخیر، شہریوں کے خلاف ٹریفک پولیس اہلکاروں کی سخت کارروائیوں، ہتک آمیز سلوک اور محکمہ ایکسائز کی سست رفتاری نے کراچی کے شہریوں کوسخت ذہنی اذیت سے دوچار کردیا، محکمہ ایکسائز کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024 تک سندھ میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 65 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں صرف کراچی میں 33 لاکھ سے زائد موٹر سائیکلیں اور 23 لاکھ کے قریب دیگر گاڑیاں شامل ہیں، اتنی بڑی تعداد میں گاڑیوں کے لیے نئی نمبر پلیٹوں کی بروقت ترسیل کیوں کر ممکن ہے، اس پر مستراد یہ کہ 2 ماہ تک چالان جمع نہ کرنے پر جرمانہ ڈبل، 3 ماہ تک لائسنس کی منسوخی اور 180 دنوں میں شناختی کارڈ بلاک کرنے کی دھمکی بھی دی جارہی۔ صورتحال یہ ہے کہ شہریوں کو روک روک کر موقع پر ہی بھاری چالان کیے جارہے ہیں اور اب تک ہزاروں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ضبط کیا جاچکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس صورتحال کا فوری نوٹس لے، نئی نمبرز پلیٹ جس مقصد کے تحت بنوائی جارہی ہیں اس مقصد کے حصول کے لیے سنجیدہ، ٹھوس اور عملی اقدامات کرے، نئی نمبر پلیٹ کے حصول کے لیے شہریوں کم از کم چھے ماہ کی مہلت دے، شہریوں کو آئن لائن سہولت دی جائے اور ٹریفک پولیس کے شہریوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک اور لوٹ مار کا نوٹس لیا جائے۔