یورینیم کی افزودگی سرخ لکیر کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکی ایک برے معاہدے کی تلاش میں ہیں، جسے وہ جب بھی ضرورت ہو، بغیر قیمت کے نظرانداز کرسکیں، لیکن ایک اچھا معاہدہ وہ ہوتا ہے، جو فریقین کیلئے قابل قبول ہو۔ ٹرمپ کے جے سی پی او اے کو پھاڑ دینے کے بعد، جس چیز نے ایران کے ہاتھ مضبوط رکھے، وہ تھا "پابندیوں کو ہٹانے اور ایرانی عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے اسٹریٹجک ایکشن" کا قانون تھا، جس نے ایران کے حق میں ایک توازن پیدا کیا۔ ایران نے افزودگی کی سطح کو بڑھا کر اور ایٹمی ایجنسی کیساتھ تعاون کی سطح کو منظم کرکے امریکیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔ تحریر: محمد جواد اخوان
ایران اور مغرب کے درمیان دو دہائیوں پر محیط جوہری مذاکرات کے دوران اختلاف کا سب سے اہم نکتہ "یورینیم کی افزودگی" کا مسئلہ رہا ہے۔ افزودگی دونوں فریقوں کے درمیان اس قدر متنازعہ کیوں ہے؟ اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جوہری ٹیکنالوجی میں، (جو برسوں سے بنی نوع انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے) "ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے سائیکل" کو ایک کلیدی عنصر سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی ملک اس عمل پر مکمل کنٹرول رکھتا ہو تو اسے حقیقی معنوں میں جوہری طاقت کہا جاتا ہے۔ اس سائیکل میں، جو سرنگوں سے یورینیم نکالنے سے شروع ہوتا ہے اور اس کی دوبارہ پروسیسنگ تک جاری رہتا ہے، اس میں سب سے اہم مرحلہ "یورینیم کی افزودگی میں اضافہ" ہے، تاکہ اسے توانائی کی پیداوار کے لیے تیار کیا جا سکے۔ دوسرے لفظوں میں، نیوکلیئر ہونے کا انحصار مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل ہونے پر ہے اور ایک مکمل نیوکلیئر فیول سائیکل صنعتی طور پر یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔
افزودگی کے عمل میں سنٹری فیوجز کی اعلیٰ سطح کا ہونا ضروری ہے، جس میں مصنوعات کو حاصل کرنے کے لیے ایک خاص درستگی اور معیار کا ہونا ضروری ہے۔ درحقیقت، جوہری ایندھن کی پیداوار کے سلسلے کا سب سے پیچیدہ حصہ افزودگی ہے۔ بلاشبہ، افزودگی مختلف سطحوں اور فیصدوں پر کی جاتی ہے اور افزودگی کی یہ شرح مختلف مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کم افزودگی (5 فیصد تک) بنیادی طور پر جوہری توانائی پیدا کرنے کے مقصد کے لیے ہے، درمیانی افزودگی (20 فیصد تک) کا استعمال ادویات اور زراعت میں ریڈیو آسوٹوپس بنانے کے لیے کیا جاتا ہے، زیادہ افزودگی (60 فیصد تک) جدید آلات جیسے آبدوزوں میں استعمال کی جا سکتی ہے اور 90 فیصد اور اس سے اوپر کی افزودگی فوجی ایپلی کیشن یا ایٹم بم کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
افزودگی کے حق کو برقرار رکھنے پر ایران کے اصرار اور امریکہ کے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ایندھن کی پیداوار کے وسیع سلسلے میں افزودگی کا کلیدی کردار ہے۔ اگر کسی ملک کے پاس افزودگی کی طاقت اور امکان نہیں ہے تو اس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس فیول سائیکل مکمل نہیں ہے۔ خاص طور پر ایران جیسا آزاد ملک، جو بڑی طاقتوں پر انحصار نہیں کرتا ہے اور سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے استعمال کے لیے دوسروں سے تیار شدہ جوہری ایندھن حاصل کرنے سے بھی محروم ہے۔ اس صورت میں، یہاں تک کہ متعدد جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر سے بھی ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور یہاں تک کہ ملک کی تمام جوہری سرگرمیاں بھی غیر استعمال شدہ رہ سکتی ہیں۔ دوسری جانب جوہری ادویات اور زراعت جیسے شعبوں میں، غیر ملکی ایندھن فراہم کرنے والوں کے وعدوں پر بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اور نقطہ نظر سے، جوہری افزودگی کی طاقت کو قومی طاقت کے توازن کو بڑھانے کے لیے ایک قسم کا آلہ و ہتھیار بھی سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی مذہبی بنیادوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں بشمول جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو ممنوع قرار دیتا ہے، لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ پرامن جوہری ٹیکنالوجی کو بھی اپنے لیے حرام قرار دے۔ آج جوہری ٹیکنالوجی کو قومی طاقت کا ایک جزو سمجھا جاتا ہے اور آج کی دنیا میں اس کی مرکزی علامت افزودگی کی صلاحیت بھی ہے۔ یورینیم کی افزودگی آج طاقت کی سطح کو منظم کرنے اور دشمنوں اور سیاسی حریفوں کا مقابلہ کرنے کا ایک بنیادی ذریعہ بن چکی ہے۔
مثال کے طور پر، امریکہ اپنی اقتصادی اور سیاسی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایران پر مختلف پابندیاں عائد کرتا ہے اور یہاں تک کہ دوسرے ممالک کو بھی ان پابندیوں کی تعمیل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو ان پابندیوں کو چیلنج کرنے اور ان پر عائد ہونے والے دباو کو روکنے کے لیے افزودگی جیسے آلے کی ضرورت ہے۔ ایک ہی وقت میں، یہ آلہ دوسرے فریق کے رویئے کو کنٹرول کرتا ہے۔ درحقیقت امریکیوں کی جانب سے ایران کو اس حق سے محروم رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر امریکی دوبارہ اپنے وعدے سے مکر گئے تو ایران کے پاس کوئی موثر جوابی اقدامات نہیں ہوں گے۔
امریکی ایک برے معاہدے کی تلاش میں ہیں، جسے وہ جب بھی ضرورت ہو، بغیر قیمت کے نظرانداز کرسکیں، لیکن ایک اچھا معاہدہ وہ ہوتا ہے، جو فریقین کے لئے قابل قبول ہو۔ ٹرمپ کے جے سی پی او اے کو پھاڑ دینے کے بعد، جس چیز نے ایران کے ہاتھ مضبوط رکھے، وہ تھا "پابندیوں کو ہٹانے اور ایرانی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسٹریٹجک ایکشن" کا قانون تھا، جس نے ایران کے حق میں ایک توازن پیدا کیا۔ ایران نے افزودگی کی سطح کو بڑھا کر اور ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون کی سطح کو منظم کرکے امریکیوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ دوبارہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
لہٰذا، افزودگی، ہر ملک کا فطری حق ہونے کے علاوہ، جوہری ایندھن کی قابل اعتماد فراہمی کی ضمانت دیتا ہے اور ساتھ ہی کسی بھی قسم کے معاہدے کی بقا کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو اس معاہدے کو زندہ رہنے کے لیے افزودگی کے حق کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے پچھلے ٹوٹے ہوئے وعدے کو دیکھتے ہوئے، افزودگی کے بغیر نہ تو توازن قائم ہوگا اور نہ ہی مفاہمت اور معاہدے کی بقا کی ضمانت دی جاسکے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یورینیم کی افزودگی کی پیداوار کے نے ایران کے افزودگی کی افزودگی کے ایندھن کی معاہدے کی کی سطح کو جاتا ہے کرتا ہے ہوتا ہے کے لیے ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل نے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی؛ ایرانی صدر کا ہولناک انکشاف
ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان نے ایک امریکی انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ان کی جان لینے کی کوشش کی تھی تاہم وہ ناکام رہا۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں ایرانی صدر مسعود پزیشکیان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی اور اس پر عمل بھی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
جب صحافی نے اُن سے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم ہوا کہ اسرائیل آپ کو مارنے کی تیاری کرچکا ہے۔
جس کے جواب میں صدر مسعود پزیشکیان نے بتایا کہ وہ ایک میٹنگ میں موجود تھے جس کا علم اسرائیلی جاسوسوں کو ہوگیا اور پھر اُس علاقے پر بمباری کی گئی لیکن میں خوش قسمتی سے محفوظ رہا۔
جب صحافی نے پوچھا کہ کیا ایران نے کبھی ڈونلڈ ٹرمپ پرحملے کے کسی منصوبے کی حمایت کی ہے؟
جس پر ایرانی صدر نے منفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے ٹرمپ پر کسی حملے کی حمایت نہیں کی۔ یہ محض اسرائیل کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے۔
تاہم انھوں نے واضح نہیں کیا کہ یہ واقعہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران یا کسی اور موقع پر پیش آیا۔
اس موقع پر صدر مسعود پزیشکیان نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ میں ملک اور قوم کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہوں۔