ایک دوسرے پر لفظی گولہ باری کے دوران امریکا اور ایران کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا پانچواں دور روم میں شروع ہو گیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جوہری مذاکرات کا آغاز تو ہوگیا لیکن امریکا اور ایران کے درمیان سخت بیانات اور غیر لچکدار مؤقف نے ان مذاکرات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی سربراہی میں وفود کے درمیان جوہری مذاکرات عمان کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔

خیال رہے کہ ان مذاکرات کا مرکزی نکتہ ایران کی یورینیم افزودگی کی سطح ہے۔ جس کے بارے میں اسرائیل سمیت عالمی قوتیں بھی اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہیں۔ 

امریکا بارہا یہی مطالبہ کرتا آیا ہے کہ ایران مکمل طور پر یورینیم کی افزودگی بند کردے تاہم ایران نے امریکی شرط کو "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے ہر بار ہی مسترد کیا ہے۔

گزشتہ روز بھی یہی مؤقف اپناتے ہوئے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا تھا کہ امریکا کا یہ مطالبہ حد سے تجاوز اور ناقابل قبول ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس قسم کے مطالبات کی موجودگی میں مذاکرات سے کسی نتیجے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تسلیم کیا کہ ایران کو شہری ضروریات کے استعمال کے لیے جوہری توانائی کی اجازت دی جا سکتی ہے لیکن افزودگی پر پابندی ہوگی۔

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا تھا ایک ایسا معاہدہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا کیوں کہ ایران کو اس پر قائل کرنا مشکل امر ہے۔ 

ایرانی وزیر خارجہ کے ایک بیان نے بھی مارکو روبیو کے اس خدشے پر مہر ثبت کردی ہے۔

عباس عراقچی نے سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ زیرو نیوکلیئر ہتھیار = جوہری معاہدہ لیکن زیرو افزودگی = کوئی معاہدہ نہیں۔ اب اس فیصلے کا وقت آ گیا ہے۔

یاد رہے کہ جوہری مذاکرات کے دوران ہی امریکا نے ایران کے تعمیراتی شعبے پر نئی پابندیاں عائد کر دیں، جس پر ایران کی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ پابندیاں غیر قانونی، ظالمانہ اور غیر انسانی ہیں۔

واضح رہے کہ 2018 میں صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ عالمی قوتوں کے ’’جوہری معاہدہ 2015‘‘ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جس پر ایران نے بھی یورینیم افزودگی میں اضافہ کردیا تھا۔

 

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مذاکرات کا کے درمیان ایران کے

پڑھیں:

قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات ناکام

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کا پہلا دور کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا ہے۔

فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیلی وفد مذاکرات میں شریک ضرور ہوا، لیکن حتمی معاہدے کے لیے ضروری اختیارات کے بغیر آیا، جس کی وجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی۔

ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ حماس کے تازہ مطالبات اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہیں، تاہم پھر بھی انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم قطر بھیجی۔

چند روز قبل حماس نے قطر اور امریکہ کی طرف سے پیش کیے گئے نئے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے مجوزہ معاہدے پر مثبت ردعمل دیا تھا، جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ فریقین معاہدے کے قریب ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل 60 دن کی جنگ بندی کے لیے تیار ہو گیا ہے اور جلد قیدیوں کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔ اتوار کو نیو جرسی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس اس ہفتے حماس سے معاہدہ ہونے کا اچھا موقع ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • قطر: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کیلیے مذاکرات جاری
  • غزہ میں سیز فائز کے لیے دوحہ میں مذاکرات جاری
  • حکومت کا ’پنکھا تبدیلی پروگرام‘ شروع کرنے کا فیصلہ
  • ایران کیخلاف جارحیت پر عالمی برادری اسرائیل اور امریکا کا احتساب کرے‘ عباس عراقچی
  • ایران کیخلاف جارحیت پر عالمی برادری اسرائیل اور امریکا کا احتساب کرے، عباس عراقچی
  • ایران پر حملے، امریکا اور اسرائیل کا احتساب ہونا چاہئے: ایرانی وزیر خارجہ
  • قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی مذاکرات ناکام
  • اسرائیل نے ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کیا، عباس عراقچی
  • امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے خطرناک مثال قائم کی: چینی وزیر خارجہ
  • جنگ سے ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ حل نہیں ہو گا، چین