صرف دولہا نہیں، شہ بالا کی بھی شان
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
بینڈ، باجا اور بارات ۔ ۔ ۔ شادی زندگی کا یادگار لمحہ، عموماً زندگی میں ایک مرتبہ ہی آتا ہے، اس دن دلہن کی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ خوبصورت نظر آنے کی خواہش ہوتی ہے تو دولہا بھی سب سے منفرد دکھائی دینے کی کوشش کرتا ہے۔ شادی میں کئی رسومات ہوتی ہیں، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، بڑھ چڑھ کر ان میں حصہ لیتی ہیں، یہ قدیم رسمیں برسوں سے چلی آ رہی ہیں، کئی رسمیں وقت کے ساتھ بدلتی بھی رہتی ہیں۔ آج ہم ایک ایسی رسم کا ذکر کر رہے ہیں، برسوں سے شادی کی اہم تقریب اس کے بغیر بھی نامکمل سمجھتی جاتی ہے۔
ہم بات کر رہے ہیں شہ بالا کی، اس کے نام بھی مختلف ہیں، اردو زبان میں شہ بالا یا شاہ بالا ،پنجابی زبان میں سر بالا، یا سڑ بالا اور انگلش میں Paranymph.
یوں تو دولہا اور دلہن ہی سب کی نظروں کا محور ہوتے ہیں مگر دولہا کے ساتھ ساتھ خراماں خراماں چلتی ایک اور شخصیت بھی خود کو وی آئی پی تصور کرتی ہے اور یہ کوئی اور نہیں ہمارے بلاگ کا موضوع یعنی شہ بالا ہے ۔ ماضی کی باتیں تو بعد میں کرتے ہیں، موجودہ دور میں شاہ بالا کے لیے بچوں کا انتخاب ہی کیا جاتا ہے ۔ ایک معصوم اور پیارا بچہ دولہا کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح ہوتا ہے، اس کی سج دھج ہی الگ ہوتی ہے۔ حلیہ اور روپ بھی دولہے جیسا ہوتا ہے۔ وہی لباس، وہی شاہانہ انداز، دلہن کے بعد اس دن دولہا کا لاڈلا صرف وہ ہی ہوتا ہے۔
اس رسم کا آغاز کیسے ہوا، اس سے متعلق مختلف کہانیاں نسل در نسل چلی آ رہی ہیں، اس کے تانے بانے قدیم یونانی تہذیب سے ملتے ہیں، شہ بالا کے لیے انگلش لفظ paranymph بھی دو یونانی الفاظ ۔ numfios اور para سے ہی مل کر بنا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ماضی میں جب کوئی بارات جاتی تو یہ اکثر ڈاکو اور لٹیروں کا نشانہ بن جاتی، لوٹ مار کے دوران دولہا کو بھی کبھی کبھار مار دیا جاتا تھا، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ دولہا کے ہم عمر ایک شخص کو اس جیسے کپڑے پہنا کر اس کے پیچھے رکھا جاتا اور انتخاب کے لیے نظر اکثر دولہا کے کزنز میں سے کسی پر ٹھہرتی۔ دولہا کے قتل کی صورت میں دلہن کی شادی اسی سے کردی جاتی۔
قدیم تہذیب میں شادی کے انتظامات کی ذمہ داری شہ بالا کی ہی ہوتی تھی۔ برصغیر پاک و ہند میں یہ رسم کیسے آئی، اب اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں انگریزوں نے یہ رسم یونانیوں سے لی، ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں قدم جمائے، برطانیہ نے یہاں حکومت کی تو انگریزوں کی دیکھا دیکھی مقامی باشندوں کو بھی یہ رسم پسند آئی اور پھر شادی کی دیگر کئی رسومات میں شہ بالا کی رسم بھی شامل ہو گئی مگر انہوں نے اس میں کچھ تبدیلی کی اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید تبدیلیاں بھی آتی گئیں۔
گئے وقتوں میں ہمارے یہاں جیسے ہی دولہا کے سر سہرا سجتا تو وہ خود کو کئی پابندیوں میں گھرا محسوس کرتا، اس مشکل وقت میں اس کے دوست اس کے کام آتے۔ دولہا کچھ مانگنے میں ججھک محسوس کرتا اور چلنے میں مشکل پیش آتی تو یہ ساری ذمہ داریاں اس کا قریبی دوست یا عزیز بطور شہ بالا نبھاتا۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ دولہے کے شہ بالا کے لیے اس کے مقابلے میں کم خوبصورت فرد کا انتخاب ہونے لگا۔ دولہا کے ہم عمر فرد کو شہ بالا بنانے سے کئی مسائل پیدا ہونے لگے تو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ شہ بالا کے لیے نظر کرم بچوں پر ٹھہرنے لگی۔
شہ بالا کے لیے بچوں کا انتخاب کیسے ہوا، اس سے متعلق دو رائے پائی جاتی ہیں، ایک رائے تو یہ ہے کہ کم خوبصورت افراد کا انتخاب ہونے کے بعد کئی افراد شہ بالا بننے سے انکار کرنے لگے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ دولہا اور شہ بالا میں مماثلت کے باعث کچھ ناخوشگوار واقعات بھی ہونے لگے۔ دونوں کا چہرہ پھولوں سے ڈھکا ہوتا، لباس بھی ایک جیسا ہوتا تھا، کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ غلطی سے شہ بالا کو ہی دولہا سمجھ لیا گیا۔ ان تمام مسائل کا حل یہ نکالا گیا کہ شہ بالا کے لیے چھوٹے اور پیارے بچوں کا انتخاب کیا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔
موجودہ دور میں بچے ہی شہ بالا بنتے ہیں تو ان پر کوئی ذمہ داری تو نہیں ڈالی جا سکتی، اس طرح اب اس کا کردار صرف علامتی ہوتا ہے، شہ بالا بننے والے بچے کی بھی خوب عیاشی ہوتی ہے، خوبصورت لباس ملتا ہے تو شادی میں شریک افراد کی نظریں دولہا کے ساتھ ساتھ اس پر بھی ہوتی ہیں۔ شہ بالا کو کہیں اور نہیں، دولہا کے ساتھ اسٹیج پر جگہ ملتی ہے۔
شہ بالا تو عموماً بچے ہی بنتے ہیں مگر جون 2019 میں ایک خاص شادی میں ترک صدر رجب طیب اردوان ترکش نژاد جرمن فٹ بالر مسعود اوزیل کے ’شہ بالا‘ اور شادی کے گواہ بنے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان بھی سات سال کی عمر میں اپنے کزن کی شادی میں شہ بالا بنے تھے۔
اردو زبان میں ایک دلچسپ ضرب المثل بھی پڑھنے کو ملتی ہے’دولہا دلہن پائے، شہ بالا لاتیں کھائے‘ یعنی اصل آدمی کی قدر ہوتی ہے دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے یا پھر فائدہ کسی اور کو اور مشقت بیچارے شہ بالا کو۔
کوئی کچھ بھی کہے یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کل شادی کی تقریبات شہ بالا کے بغیر نامکمل سمجھتی جاتی ہیں، دولہا کے ساتھ ساتھ اسے بھی اہمیت دی جاتی ہے، شہ بالا کے لیے منتخب ہونے والا بچہ خود کو اسپیشل محسوس کرتا ہے تو اس کے والدین کو بھی اس پر فخر ہوتا ہے۔
کیا آپ بچپن میں شہ بالا بنے، ضرور بتایئے گا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احمد کاشف سعید گزشتہ 2 دہائیوں سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور ایک نیوز ایجنسی سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کا رخ کیا اور آجکل بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی مسائل، شوبز اور کھیل کے موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
احمد کاشف سعید دلہا دلہن شہ بالا طیب اردوان عمران خانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد کاشف سعید دلہا دلہن شہ بالا طیب اردوان شہ بالا کے لیے میں شہ بالا شہ بالا کی کا انتخاب ہوتا ہے ہوتی ہے
پڑھیں:
لا وارث لاش، لاوارث سچ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 جولائی 2025ء) ہمارا معاشرہ اب رشتوں کی نہیں توقعات کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتا ہے۔ جب بیٹی تابعدار ہو، سلیقہ شعار ہو اور خاندان والوں کے مطابق زندگی جیے تو وہ پھر باعث افتخار ہے اور جب وہ اپنی راہ کا خود چناؤ کرے، خواب دیکھے تو وہ یکدم لاوراث قرار دی جاتی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے کہ جہاں کسی والد یا اہل خانہ کو اپنے شرابی، قاتل، بدکردار، ریپسٹ، ظالم یا کرپٹ بیٹے کی لاش وصول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
لیکن اگر بیٹی طے شدہ سانچوں میں نہ ڈھلے تو تدفین و آخری رسومات کے لائق بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی سخت گیر معیار کی پٹری سے اترتا ہے تو وہ جیتے جی تنہا ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد لاوارث۔(جاری ہے)
اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی لاش جب کراچی کے ایک فلیٹ سے برآمد ہوئی تو شاید موت سے زیادہ ہولناکی اس کے بعد کی ہے کہ اس کے خونی رشتوں نے اس کی لاش کو لینے سے صاف انکار کر دیا۔
اہل خانہ کا یہ کہنا کہ "ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں" سفاکیت تو ایک جانب رہی بلکہ یہ الفاظ تہذیب کے زوال کا نوحہ ہیں۔ کیا یہ وہی غیر مشروط محبت ہے جس کی نظیر نہیں ملتی؟درحقیقت یہ وقت ہے آئینہ دیکھنے کا۔ اگر عصر حاضر کے والدین واقعی غیر مشروط محبت کے دعویدار ہیں تو انہیں اولاد کو سننا ہو گا ان کے فیصلوں کو قبول کرنا ہو گا۔
جو چیز ان کے حق میں بہتر نہیں اس کو احسن طریقے سے ہینڈل کرنا ہو گا نیز ان کی کامیابیوں میں ان کا ساتھ دینا ہو گا۔جب سے خبر آئی ہے کچھ لوگ چرب زبانی کے تحت یہ کہہ رہے ہیں کہ "دیکھا یہی ہوتا ہے انجام۔" اکیلی مری، لاوارث، عبرت بن گئی۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ عورت جو اکیلے زندگی گزار رہی ہے پسپا نہیں ہے۔ خودداری کے پیش نظر اکیلا رہنا جدوجہد کی کیٹگری میں آتا ہے۔
تنہا رہنا کوئی مافوق الفطرت بات نہیں یہ اکثر انسان کا انتخاب ہوتا ہے۔ مصروف زندگیوں، رشتوں میں رخنہ اندازی یا آزاد زندگی کی خواہش میں لوگ اکیلے رہنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن یوں اچانک انتقال کر جانا اور پھر مہینوں تک کسی کو اطلاع نہ ہونا یہ تنہائی کا وہ بھیانک چہرہ ہے جسے ہم قطعاً دیکھنا نہیں چاہتے۔ اکیلا رہنا جرم نہیں مگر لوگوں کے روگ رویے ہی کسی کے اکیلے رہنے کی بدترین تشریح کرتے ہیں۔
یہ واقعہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں۔ دراصل ہمارے نام نہاد معاشرے کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے زوال کا اب بگل بج چکا ہے۔ مزیدبرآں یہ افسوسناک واقعہ خواتین فنکاروں سے غیر منصفانہ سلوک اور نفسیاتی صحت کے مسائل کی سنگین غفلت کی علامت ہے۔
ہمارا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے کہ حمیرا اصغر کی لاش پر اہلخانہ کا رویہ انتہائی سفاک ہے۔
یہ الفاظ فقط غصے کا اظہار نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے زوال کے ساتھ ساتھ اس نام نہاد معاشرے کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جہاں رشتے توقعات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔حمیرا اصغر اس جہان فانی سے کوچ کر گئی ہیں مگر اس کا وجود سوال کر رہا ہے کہ رشتہ کیا ہوتا ہے ؟ خون کا ؟ اطاعت کا یا انسانیت کا؟۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔