data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ اکنامک پالیسی یہ ہے کہ ملک کی ترقی کو بند کر دیں، امپورٹ کو محدود کرنے سے گروتھ نہیں ہوگی، جب فیکٹریوں کے لیے خام مال نہیں ہوگا تو ملک کیسے چلے گا، ملکی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے، ہمارے پاس وسائل نہیں ہے کہ عوام دوست بجٹ لاسکیں، ہم آج پیسے اکھٹا کرنے کے لیے مستقبل کی گروتھ کو ختم کر دیں گے، ٹیکس دینا ذمہ داری ہے، پارلیمان کا ہر فرد ٹیکس ادا کرے۔

سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے آج نیوز کے پروگرام اسپاٹ لائٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ملکی سیاسی، آئینی اور معاشی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ کیا۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کالے قوانین ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں اور ان کا اثر ہمیشہ منفی ہوتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت کے پاس اس وقت سیاسی انتشار ختم کرنے کا سنہری موقع موجود ہے، اور آئین سے ہٹ کر کوئی بھی فیصلہ ملک کو مزید مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔

عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ نے بھارت کے حالیہ رویے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو ہمیشہ سے جارحیت کا موقع چاہیے ہوتا ہے، اسی لیے اس نے مساجد اور مدارس پر حملے کیے۔ تاہم، پاکستان کی فضائیہ نے بھرپور انداز میں دشمن کو جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلگام حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت آج تک سامنے نہیں آیا۔

معاشی پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے موجودہ حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی روک دینا کوئی معاشی پالیسی نہیں ہو سکتی۔ امپورٹ پر سخت پابندیاں اور خام مال کی عدم دستیابی سے صنعتی پہیہ رک گیا ہے، جو مجموعی قومی پیداوار (GDP) کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرضے مسلسل بڑھ رہے ہیں اور ریاست کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ عوام دوست بجٹ پیش کیا جا سکے۔ ہم آج کا بجٹ بنانے کے لیے مستقبل کی گروتھ کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے اپنی گفتگو میں تمام ارکان پارلیمان پر زور دیا کہ ٹیکس دینا ذمہ داری ہے، پارلیمان کا ہر فرد ٹیکس ادا کرے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی ملک کی کے لیے

پڑھیں:

بجٹ 2025-26 ء

کہنے کو یہ ایک مالی سال کے بجٹ کا آغاز ہے، مگر سننے والے کانوں میں یہ بجٹ نہیں، کفن کی سلائی کی آواز ہے۔ سرکاری کاغذوں میں اسے ’’ترقی کا منشور‘‘ کہا گیا ہے، مگر گلیوں میں یہ فاقہ زدہ چہروں کی آخری دعا بن چکا ہے۔
وزیر خزانہ ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجائے فرماتے ہیں ’’ہم نے عوام کو ریلیف دیا ہے‘‘ مگر وہ شاید کسی اور عوام کی بات کر رہے تھے ۔ کلف لگی شیروانیوں، پرتعیش عشرت کدوں ، اور خفیہ بینک اکائونٹس والے عوام کی!
ادھر، وہ عوام جن کے بچے فیس نہ دے سکیں، جن کی تنخواہیں صرف مہینے کے پہلے عشرے کی مہمان ہوتی ہیں، جن کے چولہے گیس سے نہیں، دعا کی آنچ سے جلتے ہیں ان کے لیے یہ بجٹ کفایت شعاری کا اعلان نہیں، بلکہ معاشی قتل کا پروانہ ہے۔ایک طرف ’’خود کفالت‘‘ کے نعرے، دوسری طرف آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن‘ ایک طرف ترقیاتی دعوے، دوسری طرف خالی پیٹوں پر پتھر باندھنے کی تنبیہ۔۔!
یہی وہ تضاد ہے جو اس بجٹ کو مالیاتی دستاویز نہیں، بلکہ متوسط طبقہ کا نوحہ بنا دیتا ہے یہ کیسا بجٹ ہے جومفلسوں سے لہو کا تقاضہ لئے ہے،تنخواہ دار کی جیب پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔
وزیر خزانہ2025-26 ء کا بجٹ پیش کر رہے تھے اور حکومتی بنچوں پر بیٹھے ارکان ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔جبکہ عوام کے چہروں پر ابھرتی ،پھیلتی شکنیں پسینے سے لبریز ہو رہی تھیں ۔ہندسوںکا وہی پرانہ کھیل شروع ہوا ،خوشنما لفظوں کا کھیل ،ادھورے حقائق کا کھیل ،متوسط طبقے کی قربانی کی طلب کا کھیل۔
2025-26 ء کا بجٹ جس میں دفاع کے لئے 2122 ارب روپے،ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے1500 ارب روپے،تعلیم کے لئے 110 ارب روپے ،صحت کیلئے35 ارب روپے رکھے گئے۔جبکہ تنخواہ دار طبقے کی پیٹھ پر 220 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس لادا گیا ۔
وہ متوسط طبقہ جو ہر صبح چنگ چی یا موٹر سائیکل پر جانوروں کی طرح لادے اپنے بچے اسکول چھوڑتا اور اپنی اہلیہ کی خوشنودی کا سودا سلف خرید کر اس کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے دفترپہنچتا ہے۔یہی وہ انسان نما جانور ہیں جو ہر مہینے روتے ،پیٹتے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔
سرکارکی جانب سے انہیں یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ’’قربانی تم نے دینی ہے خوشحال ہم نے ہونا ہے‘‘ اور اب تو ترقی کے فربہ ہاتھی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ہر سو بھوکے لوگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیکس نیٹ پر نظر ڈالیں تو 10پرسینٹ امیروں پر لاگو ہوتا ہے ،متوسط طبقہ اور تنخواہ دار 65 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ جبکہ 700 ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری ہونے کی شرح ہے ، کاپوریٹ سیکٹر میں ہر بار تنخواہ دار طبقے کو کٹوتیوں کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے ۔
مہنگائی کی موجودہ شرح 22.5 فیصد اور تنخواہوں میں اضافہ روتے پیٹتے 12 فیصد۔اور بھی ضروری نہیں تنخواہ بڑھے نہ بڑھے اشیائے ضروریات کی قیمتیں تو بہر حال بڑھنی ہی ہوتی ہیں۔
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ’’ یہ بجٹ نہیں شام غریباں ہے ‘‘ ہاں البتہ سیاسی وعدوں کی چوسنیاں اور بجلی سستی کرنے کاخواب روز دکھا یا جاتا ہے ۔
ملک ہمارا، ملیں ہماری ،ادارے ہمارے محنت ہماری ،،حکومت ہمارے ووٹوں سے بنتی ہے اور بجٹ آئی ایم ایف تیار کرتا ہے ۔ پڑھتا ہمارا وزیر بے تدبیر ہے جو لفظوں کا خوبصورت جال ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کا جنازہ جو ہر سال بڑی دھوم سے اٹھتا ہے آور لاشہ بیچ قبرستان کے بے کفن پھینک دیا جاتا ہے کہ’’ اگلے سال سہی‘‘ اور اگلا سال کس نے دیکھا ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ اب ایک نگاہ اپنے اور اپنے ارد گرد ممالک کی تعلیم اور تعلیمی بجٹ پر پاکستان آبادی تقریباً 24 کروڑ شرح تعلیم 58 فیصدبنگلہ دیش آبادی لگ بھگ 17 کروڑ شرح تعلیم 78 فیصدسری لنکا آبادی2.18 کروڑ شرح خواندگی 94 فیصدجنوبی کوریا آبادی 5.17 کروڑشرح خواندگی 99.5 فیصد۔
اب ذرا ان ممالک کا تعلیمی بجٹ ملاحظہ فرمائیں۔پاکستان۔وفاقی بجٹ میں صرف 97 ارب روپے رکھے گئے یعنی کل بجٹ 0.5 پرسینٹ بنگلہ دیش کل بجٹ کا7.97 فیصدسری لنکا کل بجٹ 6 ہزار ارب تعلیم کے لئے 232 ارب روپے جنوبی کوریا کل بجٹ 656بلین تعلیم کے لئے 13.3 فیصد ۔کیا ایسے ہوتی ہے غریب عوام کی خدمت؟یہی ہوتا ہے متوط طبقے کا خیال ؟

متعلقہ مضامین

  • برکس کے حامی ممالک تیار رہیں، 10 فیصد اضافی ٹیکس لاگو ہوگا، صدر ٹرمپ کا انتباہ
  • ڈاکٹر شاہد ایم شاہد؛ مخلص طیب اور منفرد ادیب
  • پاکستان میں مائیکروسافٹ کا دفتر بند: کیا ملکی ڈیجیٹل معیشت کو نقصان ہو سکتا ہے؟
  • پورانظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا، شاہد خاقان  
  • کوئی نہ آیا
  • ‘بوچا ویچس’، روس سے لڑنے والا یوکرینی خواتین کا یہ گروپ کون ہے اور کیسے وجود میں آیا؟
  • پورانظام تبدیل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا. شاہد خاقان عباسی
  • جوانی کے غصے سے بڑھاپے کے سکون تک: خواتین کیسے بدلتی ہیں؟
  • خواجہ آصف سے آئیڈیل تعلقات نہیں رہے ، حنیف عباسی
  • بجٹ 2025-26 ء