ایران کا این پی ٹی سے علیحدگی پر غور: مغرب نے الزام تراشی بند نہ کی تو سخت فیصلہ ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران:ایران نے اقوامِ متحدہ میں اپنے مستقل مندوب کے توسط سے مغربی طاقتوں کو سخت تنبیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے بے بنیاد الزامات اور پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں بند نہ کی گئیں تو وہ “معاہدہ برائے ایٹمی عدم پھیلاؤ” (NPT) سے دستبردار ہو جائے گا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائے گئے خط میں ایران کے مستقل مندوب سعید ایراوانی نے الزام عائد کیا ہے کہ مغربی ممالک ایران کے خلاف منفی مہم چلا رہے ہیں اور پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو بین الاقوامی قوانین اور ایران کے قانونی حقوق کے خلاف ہے۔
سعیدایراوانی نے کہا کہ ایران معاہدے کے آرٹیکل 10 کے تحت این پی ٹی سے علیحدگی کا عمل شروع کر سکتا ہے جو رکن ممالک کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر انہیں یہ محسوس ہو کہ معاہدہ ان کے قومی مفاد کے خلاف جا رہا ہے تو وہ اس سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں بشرطیکہ تین ماہ قبل نوٹس دے دیا جائے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر مغربی ممالک کا یہی رویہ جاری رہا تو ایران اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے، ایران اپنی ایٹمی پالیسیوں سے متعلق کسی بھی غیر منصفانہ یا سیاسی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کی مبینہ فضائی کارروائیوں کے بعد خطے میں کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا ہے، ان حملوں کے بعد ایران کی درخواست پر عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کا ہنگامی اجلاس پیر کے روز طلب کر لیا گیا ہے، جس میں ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے، سکیورٹی خدشات اور معاہدہ این پی ٹی سے متعلق امور زیرِ بحث آئیں گے۔
این پی ٹی کیا ہے؟
“این پی ٹی” یعنی Treaty on the Non-Proliferation of Nuclear Weapons (NPT) ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر 1968 میں دستخط کیے گئے تھے اور 1970 میں نافذ ہوا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا اور جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک این پی ٹی کے رکن ہیں، سوائے چند ممالک جیسے بھارت، پاکستان، اسرائیل، اور شمالی کوریا (جو پہلے رکن تھا مگر بعد میں الگ ہو گیا)۔
ایران کی ممکنہ دستبرداری بین الاقوامی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ نہ صرف خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے بلکہ ایٹمی تحفظ سے متعلق عالمی نظام کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں کیخلاف تصور ہوگی، پاک سعودیہ معاہدہ
سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے" (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ جو دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں کیخلاف تصور ہوگی، پاک سعودیہ کا دفاعی معاہدہ طے پا گیا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیرِاعظم شہباز شریف نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے" (SMDA) معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ جو دونوں ممالک کی اپنی سلامتی کو بڑھانے اور خطے اور دنیا میں سلامتی اور امن کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے، اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاع و تحفظ کو مضبوط بنانا ہے۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ایک ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت کو دونوں ملکوں کے خلاف جارحیت تصور کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی 8 دہائیوں پر محیط تاریخی شراکت داری ہے، دونوں ممالک میں مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور قریبی دفاعی تعاون کے تناظر میں معاہدہ ہوا۔