Express News:
2025-06-24@01:37:21 GMT

بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی

اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کی صورتحال کے بعد بھارت عالمی سیاست میں نہ صرف سیاسی مشکلات کا شکار ہوا ہے بلکہ اسے کئی محاذ پر سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کے بارے میں موجود ایک عالمی تصور جو اس کی علاقائی سیاست میں برتری کے پہلو کے طور پر موجود تھا وہ کمزور ثابت ہوا ہے۔

اسی طرح خطے کی سیاست میں تن تنہا بھارت کی برتری بھی ٹوٹی اور پاکستان نے خود کو علاقائی سیاست میں نہ صرف اپنی سیاسی بلکہ دفاعی اہمیت کو بھی منوایا ہے۔

عالمی دنیا کے میڈیا، تھنک ٹینک یا بڑے سیاسی طاقت ور ممالک میں بھی پاکستان کی اہمیت اور بھارت کے مقابلے میں برتری کے پہلو نے بھارت کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا ہے۔کیونکہ اب بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پر خطہ کی سیاست کے بڑے فریق کے طور پر دیکھ رہی ہے اور یہ بات بھارت کے لیے قبول کرنا آسان کام نہیں ہے۔

بھارت کی سفارت کاری میں پاکستان کو عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی میں مبتلا کرنا، دہشت گردوں کے سیاسی سرپرست کے طور پر پیش کرنا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل رکھ کر دباؤ کو بڑھانا، بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا یا پراکسی جنگ کو برقرار رکھنا،افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا، پاکستان سے بات چیت کے تمام دروازے بند رکھنا اس کی سیاسی اور سفارت کاری کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔بھارت اس خطہ میں اپنی بالادستی کو قبول کرانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور اس سے جڑے نتائج نے بھارت کی تمام حکمت عملیوں کو ناکامیوں سے دوچار کیا ہے اور اب وہ سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ اس سیاسی اور سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کے لیے وہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کرے۔

بھارت کی حالیہ مشکلات میں ایک اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے ۔اول، ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول حالیہ پاکستان و بھارت جنگ بندی میں ان کا کلیدی کردار تھا اور ایسا انھوں نے بھارت کے کہنے پر کیا اور تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اگرچہ اس پر بھارت مسلسل انکاری ہے۔

دوئم ، امریکی صدر نے کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے حل کے بغیر دونوں ممالک میں تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلہ کے حل میں خود کو ایک بڑے ثالث کے طور پر پیش کیا ۔امریکا کا یہ طرز عمل بھارت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہے اور اسی وجہ سے وہ مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر امریکی مداخلت یا ثالثی سے انکاری ہے۔امریکی صدر کے اس طرز عمل نے جہاں ایک طرف کشمیر کی اہمیت کو نئی عالمی حیثیت دی ہے وہیں پاکستان کے لیے سفارت کاری کے محاذ پر نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔

اسی طرح حالیہ دنوں میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی اور مالیاتی مدد کے تناظرمیں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی جو عملی طور پر کوشش کی اس پر بھی اس کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اس دہشت گردی میں ملوث کرنے کی جو کوشش کی اسے بھی عالمی سطح پر کوئی قبولیت نہیں مل سکی۔

نریندر مودی کی اس جنگی مہم جو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس پر ان کو اپنی داخلی سیاست اور حزب اختلاف سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو نریندر مودی کی وجہ سے دنیا میں سیاسی تنہائی اور شکست کے احساس کا سامنا ہے۔

ان کے بقول نریندر مودی کا یہ عمل دہلی کی برسوں سے جو جاری سفارتی کوششیں تھیں اسے الٹ دیا ہے جس کی مدد سے بھارت نے حالیہ کچھ دہائیوں میں خود کو پاکستان سے مختلف اور بہتر طور پر خود کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔بھارت میں نریندر مودی کے مخالفین کے بقول مودی اور ٹرمپ کی مشہور قربت یا کیمسٹری کے باوجود پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طورپر جوڑنا نئی دہلی کے لیے ایک بڑا سفارتی جھٹکا ہے۔کیونکہ بھارت نے خود کو پاکستان سے ایک بڑی طاقت کے طور پر عالمی دنیا میں پیش کیا تھا وہ بری طرح اسکرپٹ ناکام ہوا ہے۔

پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ اور وہاں ان کی امریکی صدر سے ون ٹو ون اہم ملاقات اور پاکستان کی سیاسی پزیرائی کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور ان کے حالیہ کردار کی تعریف نے بھی بھارت کو کافی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

بھارت کے میڈیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور بھارت کے سیاسی بیانیہ کی زیادہ پزیرائی کا نہ ہونا اور امریکی صدر کی طرف سے بھارت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی نے بھارت کی پریشانی میں مسلسل اضافہ کردیا ہے اور اب بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ وہ ایسا کیا کچھ نیا کرے جو اس کے پرانے اور طاقت ور تشخص کو بحال کرنے میں مدد دے۔

کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ نریندر مودی نے جو سیاسی توقعات پاکستان کے تناظر میں بھارت کے حق میں امریکی صدر ٹرمپ سے لگائی تھیں اس پر ان کو بڑی ناکامی کا سامنا ہے اور اب بھارت کے سیاسی پنڈت مودی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب ان کو امریکی صدر سے زیادہ توقعات نہیں لگانی چاہیے کیونکہ مودی کا مقدمہ ہار چکا ہے۔

بھارت پر اب امریکا سمیت عالمی دنیا کی طرف سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرے ،مذاکرات کا راستہ اختیارکرے اور کشمیر کا بھی پرامن حل تلاش کیا جائے۔ یہ سب کچھ بھارت کے اس ایجنڈے کے خلاف ہے جو وہ پاکستان کو خطہ کی سیاست میں تنہا کرنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتا تھا۔

بھارت نے اپنی سفارتی بحالی اور اپنے پاکستان مخالف بیانیہ کی کامیابی کے لیے جو مختلف پارلیمانی سمیت دیگر وفود عالمی دنیا میں بھیجے اس کا بھی ابھی تک کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکا۔کیونکہ جس طرح سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور جنگی جارحیت میں جو پہل کی اسے عالمی دنیا میں قبول نہیں کیا گیا۔

بھارت کے لوگوں میں یہ احساس نمایاں ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی برتری کا سیاسی نعرہ اپنی افادیت کھوچکا ہے اور پاکستان ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔اب بھارت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر کیسے بیک فٹ پر لے جاکر خود کو دوبارہ فرنٹ فٹ پر لاسکے۔

اگر بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو اسے پاکستان سے اپنے تعلقات کی بحالی پر بھی زور دینا ہوگا اور اس کے لیے اس کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی اور سیاسی آپشن نہیں ہے۔ بھارت کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان بھی ایک سیاسی اور دفاعی حقیقت ہے ۔ جنگوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے دونوں ممالک کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بہتر کریں، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی کا سامنا ہے پاکستان کے امریکی صدر پاکستان کو پاکستان کی سفارت کاری پاکستان سے سیاست میں اور بھارت سیاسی اور کے طور پر بھارت کو بھارت کی نے بھارت بھارت نے بھارت کے ہے کہ وہ ہوا ہے ہے اور خود کو کے لیے

پڑھیں:

عالمی امن انڈیکس کی وارننگ: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)عالمی امن انڈیکس 2025 کی رپورٹ کشمیر کو جنوبی ایشیا کا سب سے خطرناک تنازع قرار دیتے ہوئے خبردار کرتی ہے کہ یہ علاقہ کسی بھی وقت ایٹمی جنگ کی چنگاری بن سکتا ہے۔

رپورٹ میں بھارت کی 1989 سے جاری ظلم و بربریت کا ذکر ہے جس میں 40 ہزار سے زائد کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بنا دیا ہے، جب کہ آزاد کشمیر میں پاکستان محض دفاعی نکتہ نظر سے 60 ہزار کے قریب افواج رکھتا ہے-یہ دونوں ممالک کے طرز عمل میں زمین آسمان کا فرق ظاہر کرتا ہے۔

پہلگام حملے کے بعد مئی 2025 میں بھارت کا پاکستان پر اچانک میزائل حملہ اس کی بے لگام عسکری سوچ اور سفارتی غیر سنجیدگی کا مظہر تھا، جو پورے خطے کو ایٹمی تصادم کے خطرے سے دوچار کر گیا۔

رپورٹ میں حملہ آوروں کے لیے “مسلح افراد” کی اصطلاح کا استعمال اس حقیقت کا مظہر ہے کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے کشمیری مجاہدین کو “دہشت گرد” قرار دینے کے بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی۔

بھارت نے نصف ملین سے زائد افواج تعینات کرکے ہمالیائی خطے کو ایک مستقل جنگی زون میں تبدیل کر دیا ہے۔ 1989 سے اب تک ہونے والے جبر میں ہزاروں کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔

اگست 2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے کشمیریوں کے ساتھ کیا گیا آئینی معاہدہ توڑ دیا، اور سابقہ ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر کے براہ راست قبضہ نافذ کیا۔

اس آئینی جارحیت کے بعد بھارت نے وادی کو مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ، ہزاروں گرفتاریوں اور بڑے پیمانے پر فوجی محاصروں سے جکڑ دیا—جس سے کشمیری عوام کی محرومی، غصہ اور مزاحمت میں شدت آ گئی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بھارت نے 5 لاکھ سے زائد فوجی اہلکار، 1.3 لاکھ پولیس فورس، راشٹریہ رائفلز اور دیگر نیم فوجی دستے تعینات کر کے مقبوضہ وادی کو ایک “فوجی پنجرہ” بنا دیا ہے، جبکہ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں ایسی کوئی عسکری یلغار نظر نہیں آتی۔

بھارت نے اس ظالمانہ پالیسی کو قومی وحدت کے دعوے میں لپیٹ کر اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو تقویت دی، مگر حقیقت میں یہ اقدام کشمیری عوام کے اعتماد کو توڑنے اور ان کی آزادی کی آواز کو کچلنے کے مترادف تھا۔

رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ کشمیر میں آئندہ بارہ ماہ کے دوران شدید جھڑپوں اور نئی جنگ چھیڑنے کا خدشہ موجود ہے، جب کہ بھارت کے اندر بھی مسلم کش تشدد کے امکانات تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔

اس فوجی تسلط کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ آزادی زندہ ہے، اور دنیا کے سامنے بھارت کی جابرانہ فسطائی پالیسی بے نقاب ہو رہی ہے*جس میں ظلم، جبر، اور خوف کے ذریعے حقِ خودارادیت کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مزیدپڑھیں:پاکستان میں مون سون کا پہلا اسپیل کب سے شروع ہوگا؟

متعلقہ مضامین

  • ایران کے ساتھ سفارت کاری؛ ٹرمپ اب بھی دلچسپی رکھتے ہیں: وہائٹ ہاؤس
  • عالمی امن انڈیکس کی وارننگ: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے
  • ٹرمپ اب بھی ایران کیساتھ سفارت کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں، وائٹ ہاؤس
  • صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ سفارت کاری میں اب بھی دلچسپی رکھتے ہیں، ترجمان وائٹ ہاوس
  • صدر زرداری کا مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اظہار تشویش، فریقین کو سفارت کاری کا مشورہ
  • جارحیت روک دی جائے تو ایران سفارت کاری کو موقع دینے کے لیے تیار ہے: عباس عراقچی
  • سندھ طاس معاہدہ غیر سیاسی، یکطرفہ کارروائی کی گنجائش نہیں، پاکستان کی امیت شاہ کے بیان پر تنقید
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ بحال کرنے سے انکار کر دیا
  • عمران خان کی سیاسی تنہائی کی وجوہ؟