بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کی صورتحال کے بعد بھارت عالمی سیاست میں نہ صرف سیاسی مشکلات کا شکار ہوا ہے بلکہ اسے کئی محاذ پر سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کے بارے میں موجود ایک عالمی تصور جو اس کی علاقائی سیاست میں برتری کے پہلو کے طور پر موجود تھا وہ کمزور ثابت ہوا ہے۔
اسی طرح خطے کی سیاست میں تن تنہا بھارت کی برتری بھی ٹوٹی اور پاکستان نے خود کو علاقائی سیاست میں نہ صرف اپنی سیاسی بلکہ دفاعی اہمیت کو بھی منوایا ہے۔
عالمی دنیا کے میڈیا، تھنک ٹینک یا بڑے سیاسی طاقت ور ممالک میں بھی پاکستان کی اہمیت اور بھارت کے مقابلے میں برتری کے پہلو نے بھارت کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا ہے۔کیونکہ اب بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پر خطہ کی سیاست کے بڑے فریق کے طور پر دیکھ رہی ہے اور یہ بات بھارت کے لیے قبول کرنا آسان کام نہیں ہے۔
بھارت کی سفارت کاری میں پاکستان کو عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی میں مبتلا کرنا، دہشت گردوں کے سیاسی سرپرست کے طور پر پیش کرنا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل رکھ کر دباؤ کو بڑھانا، بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا یا پراکسی جنگ کو برقرار رکھنا،افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا، پاکستان سے بات چیت کے تمام دروازے بند رکھنا اس کی سیاسی اور سفارت کاری کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔بھارت اس خطہ میں اپنی بالادستی کو قبول کرانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور اس سے جڑے نتائج نے بھارت کی تمام حکمت عملیوں کو ناکامیوں سے دوچار کیا ہے اور اب وہ سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ اس سیاسی اور سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کے لیے وہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کرے۔
بھارت کی حالیہ مشکلات میں ایک اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے ۔اول، ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول حالیہ پاکستان و بھارت جنگ بندی میں ان کا کلیدی کردار تھا اور ایسا انھوں نے بھارت کے کہنے پر کیا اور تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اگرچہ اس پر بھارت مسلسل انکاری ہے۔
دوئم ، امریکی صدر نے کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے حل کے بغیر دونوں ممالک میں تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلہ کے حل میں خود کو ایک بڑے ثالث کے طور پر پیش کیا ۔امریکا کا یہ طرز عمل بھارت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہے اور اسی وجہ سے وہ مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر امریکی مداخلت یا ثالثی سے انکاری ہے۔امریکی صدر کے اس طرز عمل نے جہاں ایک طرف کشمیر کی اہمیت کو نئی عالمی حیثیت دی ہے وہیں پاکستان کے لیے سفارت کاری کے محاذ پر نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔
اسی طرح حالیہ دنوں میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی اور مالیاتی مدد کے تناظرمیں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی جو عملی طور پر کوشش کی اس پر بھی اس کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اس دہشت گردی میں ملوث کرنے کی جو کوشش کی اسے بھی عالمی سطح پر کوئی قبولیت نہیں مل سکی۔
نریندر مودی کی اس جنگی مہم جو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس پر ان کو اپنی داخلی سیاست اور حزب اختلاف سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو نریندر مودی کی وجہ سے دنیا میں سیاسی تنہائی اور شکست کے احساس کا سامنا ہے۔
ان کے بقول نریندر مودی کا یہ عمل دہلی کی برسوں سے جو جاری سفارتی کوششیں تھیں اسے الٹ دیا ہے جس کی مدد سے بھارت نے حالیہ کچھ دہائیوں میں خود کو پاکستان سے مختلف اور بہتر طور پر خود کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔بھارت میں نریندر مودی کے مخالفین کے بقول مودی اور ٹرمپ کی مشہور قربت یا کیمسٹری کے باوجود پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طورپر جوڑنا نئی دہلی کے لیے ایک بڑا سفارتی جھٹکا ہے۔کیونکہ بھارت نے خود کو پاکستان سے ایک بڑی طاقت کے طور پر عالمی دنیا میں پیش کیا تھا وہ بری طرح اسکرپٹ ناکام ہوا ہے۔
پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ اور وہاں ان کی امریکی صدر سے ون ٹو ون اہم ملاقات اور پاکستان کی سیاسی پزیرائی کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور ان کے حالیہ کردار کی تعریف نے بھی بھارت کو کافی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔
بھارت کے میڈیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور بھارت کے سیاسی بیانیہ کی زیادہ پزیرائی کا نہ ہونا اور امریکی صدر کی طرف سے بھارت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی نے بھارت کی پریشانی میں مسلسل اضافہ کردیا ہے اور اب بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ وہ ایسا کیا کچھ نیا کرے جو اس کے پرانے اور طاقت ور تشخص کو بحال کرنے میں مدد دے۔
کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ نریندر مودی نے جو سیاسی توقعات پاکستان کے تناظر میں بھارت کے حق میں امریکی صدر ٹرمپ سے لگائی تھیں اس پر ان کو بڑی ناکامی کا سامنا ہے اور اب بھارت کے سیاسی پنڈت مودی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب ان کو امریکی صدر سے زیادہ توقعات نہیں لگانی چاہیے کیونکہ مودی کا مقدمہ ہار چکا ہے۔
بھارت پر اب امریکا سمیت عالمی دنیا کی طرف سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرے ،مذاکرات کا راستہ اختیارکرے اور کشمیر کا بھی پرامن حل تلاش کیا جائے۔ یہ سب کچھ بھارت کے اس ایجنڈے کے خلاف ہے جو وہ پاکستان کو خطہ کی سیاست میں تنہا کرنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتا تھا۔
بھارت نے اپنی سفارتی بحالی اور اپنے پاکستان مخالف بیانیہ کی کامیابی کے لیے جو مختلف پارلیمانی سمیت دیگر وفود عالمی دنیا میں بھیجے اس کا بھی ابھی تک کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکا۔کیونکہ جس طرح سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور جنگی جارحیت میں جو پہل کی اسے عالمی دنیا میں قبول نہیں کیا گیا۔
بھارت کے لوگوں میں یہ احساس نمایاں ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی برتری کا سیاسی نعرہ اپنی افادیت کھوچکا ہے اور پاکستان ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔اب بھارت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر کیسے بیک فٹ پر لے جاکر خود کو دوبارہ فرنٹ فٹ پر لاسکے۔
اگر بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو اسے پاکستان سے اپنے تعلقات کی بحالی پر بھی زور دینا ہوگا اور اس کے لیے اس کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی اور سیاسی آپشن نہیں ہے۔ بھارت کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان بھی ایک سیاسی اور دفاعی حقیقت ہے ۔ جنگوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے دونوں ممالک کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بہتر کریں، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی کا سامنا ہے پاکستان کے امریکی صدر پاکستان کو پاکستان کی سفارت کاری پاکستان سے سیاست میں اور بھارت سیاسی اور کے طور پر بھارت کو بھارت کی نے بھارت بھارت نے بھارت کے ہے کہ وہ ہوا ہے ہے اور خود کو کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ نے بھارت کو ایک بار پھرسخت تجارتی اقدام کی دھمکی دے دی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے خلاف ایک بار پھرسخت تجارتی اقدام کی دھمکی دے دی ۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میںصدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم پہلے ہی بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کر چکے ہیں، مگر اب ہم اس میں نمایاں اضافہ کرنے جا رہے ہیں، جس کا اعلان آئندہ 24 گھنٹوںمیں متوقع ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی خبردار کیا کہ ایک سال میں امریکہ میں درآمد ہونے والی ادویات کی قیمتیں 150 سے 250 فیصد تک بڑھ سکتی ہیں۔ یہ بیان ممکنہ طور پر بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ بھارت فارماسیوٹیکل اشیاء کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔
بھارتی برآمدی صنعت خطرے میں
ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ ٹیرف میں اضافے سے بھارت کی برآمدی صنعت خاص طور پر ٹیکسٹائل ، فارماسیوٹیکل ، آٹو پارٹس کوشدید نقصان پہنچ سکتا ہے،یہ وہ شعبے ہیں جو امریکی منڈی پر بڑی حد تک انحصار کرتے ہیں۔
روس سے تیل خریداری پر سیاسی دباؤ
ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ تجارتی اقدام سیاسی دباؤ کا ایک حربہ ہو سکتا ہے، جس کا مقصد بھارت کو روس سے تیل کی خریداری محدود کرنےپر مجبور کرنا ہے۔ تاہم، بھارت پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ ہم اپنی قومی ضروریات کے تحت آزادانہ فیصلے کرتے رہیں گے۔
عالمی منڈیوں اور سرمایہ کاروں کی نظریں
اس صورتحال پر عالمی منڈیاں بین الاقوامی سرمایہ کاردونوں ممالک کے تجارتی حلقےبڑی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اس کا اثر نہ صرف دونوں معیشتوں بلکہ عالمی سپلائی چین پر بھی پڑ سکتا ہے۔
سوشل ٹروتھ پر صدر ٹرمپ کا سخت بیان
یاد رہے کہ ایک روز قبل صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سوشل ٹروتھ پر اپنے بیان میں بھارت پر الزام لگایا تھا کہ بھارت روس سے پیٹرول خرید کر اسے دیگر ممالک کو زائد منافع پر فروخت کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہاتھابھارت دراصل روس سے تیل خرید کر یوکرین جنگ میں روس کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے۔