گرمیوں میں کافی پینا، چند غلط فہمیوں کا ازالہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گرمیوں میں کافی پینے کے حوالے سے کئی عام غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ گرم موسم میں کافی پینا جسم میں پانی کی کمی یا گرمی کے دیگر مسائل پیدا کر سکتا ہے، لیکن ماہرین اور حالیہ تحقیق کچھ اور کہتی ہے۔
اگرچہ کافی میں کیفین شامل ہوتی ہے جو پیشاب آور اثر رکھتی ہے، تاہم روزانہ 3 سے 4 کپ کی حد میں اس کا استعمال جسم میں پانی کی کمی کا باعث نہیں بنتا۔ درحقیقت، یہ اعتدال میں پینے پر ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ نہیں بڑھاتی۔
بعض افراد کا ماننا ہے کہ گرمی میں گرم کافی پینا نقصان دہ ہو سکتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق گرم مشروبات جیسے کہ کافی، جسم میں پسینہ بڑھاتے ہیں جو ٹھنڈک پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ عمل جسمانی درجہ حرارت کو کم کرنے میں قدرتی طریقہ ہے، تاہم اگر اردگرد کا ماحول بہت زیادہ مرطوب (حبس والا) ہو تو یہ اثر کمزور ہو سکتا ہے۔
کافی کو سردیوں تک محدود سمجھنا بھی ایک عام غلط فہمی ہے۔ گرمیوں میں لوگ آئسڈ یا کولڈ کافی سے بھی خوب لطف اندوز ہوتے ہیں، جو نہ صرف تازگی بخشتی ہے بلکہ توانائی بھی فراہم کرتی ہے۔
جہاں تک دل کی صحت یا بلڈ پریشر کا تعلق ہے، اگر کسی کو پہلے سے کوئی خاص بیماری لاحق ہے تو کیفین کے استعمال میں احتیاط برتنا ضروری ہے، تاہم صحت مند افراد کے لیے دن میں 2 سے 3 کپ کافی پینا، چاہے موسم گرم ہو یا سرد، عموماً محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کافی پینا
پڑھیں:
سعودی عرب کی جدید ایف 35 لڑاکا طیارے خریدنے کی درخواست پینٹاگون نے منظور کر لی
واشنگٹن:سعودی عرب کی ایف-35 جنگی طیاروں کی خریداری کی درخواست نے پینٹاگون کے اہم مرحلے کو کامیابی سے عبور کر لیا ہے، اور یہ درخواست اب مزید منظوری کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ سے 48 جدید ایف-35 طیارے خریدنے کی درخواست کی ہے جو ایک ممکنہ اربوں ڈالرز کی سودے کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں فوجی توازن کو تبدیل کرنے کے امکانات کو جنم دے سکتا ہے اور اسرائیل کے معیاری فوجی برتری کے حوالے سے واشنگٹن کے نقطہ نظر کو چیلنج کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب نے اس سال کے شروع میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست درخواست کی تھی اور یہ طیارے لاک ہیڈ مارٹن کی مصنوعات ہیں۔
پینٹاگون ابھی اس ممکنہ فروخت پر غور کر رہا ہے اور ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اس فیصلے سے پہلے کئی مزید مراحل کی منظوری کی ضرورت ہوگی جن میں کابینہ کی سطح پر مزید اجازت، ٹرمپ سے فائنل منظوری اور کانگریس کو اطلاع دینا شامل ہے۔
پینٹاگون نے اس معاملے پر کئی ماہ تک کام کیا ہے اور اب یہ کیس دفاعی محکمہ کے سیکریٹری کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
اس سودے کے حجم اور اس کی موجودہ حیثیت کے بارے میں ابھی تک عوامی طور پر تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
لاک ہیڈ مارٹن کے ترجمان نے کہا کہ فوجی فروخت حکومت سے حکومت کے درمیان معاملات ہیں اور اس پر بہترین طریقے سے واشنگٹن ہی جواب دے سکتا ہے۔