اسلام ٹائمز: جوہری ابہام کی حکمت عملی مشرق وسطیٰ کے خطے میں توازن پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے، جہاں صیہونی حکومت برسوں سے یہ طریقہ استعمال کر رہی ہے۔ اس سے گروسی پر عالمی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے، جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بننے کے خواہشمند ہیں۔ یہ طریقہ کار انہیں اپنے رویئے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف یہ حکمت عملی این پی ٹی کے رکن ممالک کیلئے ایک پیغام کے طور پر کام کرسکتی ہے کہ ایران اپنے حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں نہ غیر فعال رہے گا اور نہ ہی کسی قسم کی پسپائی اختیار کریگا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی، جسے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک غیر جانبدار ادارہ ہونا چاہیئے تھا، وہ آجکل رافیل گروسی کی قیادت میں ایران کے خلاف سیاسی مقاصد کو آگے بڑھانے کا ایک آلہ و ہتھیار بن گیا ہے۔ گروسی کے اقدامات بالخصوص بغیر ثبوت کے ایران مخالف جعلی رپورٹس جمع کرانے سے لے کر ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت کرنے میں ناکامی تک، نہ صرف این پی ٹی کی واضح خلاف ورزی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر اس ادارے کی ساکھ کو برباد کرنے کے برابر ہیں۔ ایران، ایک ایسے ملک کے طور پر جس نے ایجنسی کے ساتھ برسوں سے بڑے پیمانے پر تعاون جاری رکھا ہوا ہے، ان رویوں پر ردعمل کا مکمل حق رکھتا ہے۔ ایجنسی کے ساتھ تعاون کو معطل کرنے اور جوہری ابہام کی حکمت عملی اپنانے کی تجویز کے لیے ایرانی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ حالیہ قانون ایران کے قومی مفادات کے دفاع کی سمت میں اہم اقدام ہے۔
این پی ٹی کے تحت ایران کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے یہ اقدامات، ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعلقات کی نئی تعریف اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر توازن پیدا کرنے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر یہ مطالبہ کیا جانا چاہیئے کہ بین الاقوامی برادری بالخصوص ناوابستہ ممالک جوہری کشیدگی کو بڑھانے میں گروسی اور آئی اے ای اے کے تباہ کن کردار پر توجہ دیں۔ گروسی، جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بننے کا خواب دیکھ رہا ہے، اب ایک غیر جانبدار اتھارٹی کے طور پر نہیں بلکہ صیہونی حکومت اور امریکہ کے مفادات کی خدمت کرنے والے ایجنٹ کے طور پر اپنے امور کو آگئے بڑھا رہا ہے۔ اسے اپنے اعمال کا جوابدہ ہونا چاہیئے۔ یہ نہ صرف ایران کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے بلکہ این پی ٹی معاہدے کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے بھی ضروری ہے۔
ایران کا اسٹریٹجک ردعمل اور جوہری ابہام کی پالیسی
گروسی کی قیادت میں آئی اے ای اے کے اقدامات نہ صرف این پی ٹی کی دفعات سے متصادم ہیں بلکہ عدم پھیلاؤ کے نظام کے بنیادی ستون کے طور پر اس معاہدے کو کمزور کرنے کا باعث بھی بنے ہیں۔ IAEA غیرجانبدار مانیٹر ہونے کے بجائے ایران کے خلاف دشمنانہ پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا آلہ بن گیا ہے۔ اس رویئے نے نہ صرف IAEA پر ایران کا اعتماد ختم کر دیا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بھی اس بین الاقوامی ادارے کی کے حوالے سے مشکوک کر دیا ہے۔ IAEA کے غیر ذمہ دارانہ رویئے اور NPT کی بار بار خلاف ورزیوں کے پیش نظر، ایران "جوہری ابہام" کی حکمت عملی اپنا کر اب IAEA کے اقدامات کا جواب دے سکتا ہے۔
اس حکمت عملی کا مطلب یہ ہے کہ این پی ٹی سے دستبرداری کا باضابطہ اعلان کیے بغیر اپنی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں تمام معلومات فراہم نہ کرنا۔ اس حکمت عملی کو اپنانے سے ایران کو سیاسی اور فوجی دباؤ کے سامنے اپنی اسٹریٹجک لچک میں اضافہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔ باضابطہ طور پر یہ اعلان کرکے کہ وہ اپنے افزودہ ذخیروں کو محفوظ رکھے گا اور IAEA کے سیاسی رویئے کی وجہ سے ان کے محل وقوع کو ظاہر نہیں کرے گا، ایران اس ادارے کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرسکتا ہے۔
اس نقطہ نظر کو بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جوہری ابہام کی حکمت عملی مشرق وسطیٰ کے خطے میں توازن پیدا کرنے میں مدد دے سکتی ہے، جہاں صیہونی حکومت برسوں سے یہ طریقہ استعمال کر رہی ہے۔ اس سے گروسی پر عالمی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے، جو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بننے کے خواہشمند ہیں۔ یہ طریقہ کار انہیں اپنے رویئے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف یہ حکمت عملی این پی ٹی کے رکن ممالک کے لیے ایک پیغام کے طور پر کام کرسکتی ہے کہ ایران اپنے حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے میں نہ غیر فعال رہے گا اور نہ ہی کسی قسم کی پسپائی اختیار کرے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جوہری ابہام کی بین الاقوامی کی حکمت عملی توازن پیدا کے طور پر ایران کے یہ طریقہ سکتا ہے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
’ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ‘، روس نے اپنے ایٹمی تجربات کو امریکی اقدام سے مشروط کر دیا
کریملن کے ترجمان دمیتری پسکوف نے کہا ہے کہ روس بین الاقوامی معاہدوں کے تحت نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کی اپنی ذمہ داری کو نہیں توڑے گا، تاہم اگر دیگر ممالک پابندی توڑیں تو روس بھی ٹیسٹ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیوکلیئر ٹیسٹ کے امریکی اعلان پر روس کا سخت ردِعمل، جوابی تیاریوں کا آغاز
یہ بیان پسکوف نے اس تنازع کے بعد دیا جس کی بنیاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر مبنی تھی کہ پینٹاگون نیوکلیئر ٹیسٹ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کرے۔
ٹرمپ نے روس اور چین پر ’خفیہ‘ نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے کا الزام عائد کیا، جسے دونوں ممالک مسترد کر چکے ہیں۔
صدر ولادیمیر پوتن نے بھی روس کی بین الاقوامی معاہدے کے تحت پابندی کی پختہ وابستگی کی تصدیق کی، مگر خبردار کیا کہ اگر امریکا یا دیگر ممالک ٹیسٹ دوبارہ شروع کریں تو ماسکو مناسب جوابی اقدامات کرے گا۔
پسکوف نے کہا کہ پیوٹن نے اہلکاروں کو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ یہ جانچیں کہ آیا نیوکلیئر ٹیسٹ کی ضرورت ہے، نہ کہ دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی دوسرا ملک ایسا کرتا ہے، تو ہم برابر کی بنیاد پر ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے۔
انہوں نے روس کے حالیہ نیوکلیئر پاورڈ بیوریویسٹنک کروز میزائل اور پوسائیڈن زیرِ آب ڈرون کے تجربات پر مغربی خدشات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ ان میں کوئی نیوکلیئر دھماکا شامل نہیں تھا۔
پسکوف نے مغربی ماہرین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیوکلیئر ٹیسٹ اور نیوکلیئر پاورڈ سسٹمز کے تجربات میں فرق نہیں کر پا رہے اور ماسکو واشنگٹن سے وضاحت کا منتظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایٹمی تجربات چین روس صدر ٹرمپ کریملن نیوکلیئر ہیوٹن