لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 جون2025ء) جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، جس جج نے اگرغلطی کی ہوگی تو وہی اسے درست کرے گا۔ تفصیلات کے مطابق مخصوص نشستوں کیس میں آئینی بنچ سے متعلق جسٹس جمال مندوخیل کے اہم ریمارکس سامنے آئے ہیں۔ کیس کی سماعت کے اختتام پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "اپیل اور نظرثانی میں فرق ہوتا ہے، نظرثانی میں کوئی غلطی ہو تو اسے درست کیا جاتا ہے، میں نے اگرغلطی کی ہوگی تو میں ہی اسے درست کروں گا، میں کہہ سکتا ہوں ہاں یہ حقائق پہلے میرے سامنے نہیں تھے غلطی ہوگئی لیکن میں اپنے ساتھی ججز کا دیا گیا فیصلہ نظرثانی میں نہیں بدل سکتا، دوسرے ججز کا فیصلہ مجھے پسند نہ ہو تو نظرثانی میں بدل نہیں سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم نے ایک پارٹی کو نہیں عوام کے حق کو دیکھ کر مکمل انصاف کیا، پی ٹی آئی نے کبھی بھی مخصوص نشستوں پر دعویٰ جتایا ہی نہیں تھا، نہ الیکشن کمیشن، نہ ہائیکورٹ نہ یہاں انہوں نے مخصوص نشستیں مانگیں۔

(جاری ہے)

" واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دےدیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشتیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔

جمعرات کے روز سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعتیں مکمل کرلیں۔ آج کی سماعت آئینی بینچ کے گیارہ کے بجائے دس رکنی بنچ نے کی جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے دلائل مکمل ہوئے۔ بینچ نے آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور وقفے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کردیا۔

فیصلہ بینچ کے سات ارکان نے اکثریت کے ساتھ سنایا جس میں سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ ،جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔ بینچ نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں۔ فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22 نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی 55 نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخل نے 39 نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمیشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔ فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا گیا تھا۔ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس جمال مندوخیل مخصوص نشستوں کی سماعت کا فیصلہ غلطی ہو

پڑھیں:

میاں نواز شریف ہمیشہ سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مخالف رہے، رانا ثناء اللہ

وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور میاں نوازشریف ہمیشہ سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مخالف رہے ہیں۔

نجی ٹیلی ویژن چینل’ جیو‘ کے ایک ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ سے جب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد قیصر کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو رانا ثناء اللہ نے کہا کہ  میاں نواز شریف کا واضح موقف رہا ہے کہ ایکسٹینشن نہیں ہونی چاہیے۔  میاں نواز شریف کے اپنے دور اقتدار میں جب بھی ایک یا دو مرتبہ موقع ملا ہے، انہوں نے اپنے موقف پر عمل کرکے دکھایا ہے۔ انہوں نے ایکسٹینشن نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیے ملک میں عملاً مارشل لا نافذ، جنرل باجوہ کو ایکسٹیشن دینا غلطی تھی، پی ٹی آئی

یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ ملک میں جو نظام رائج ہے، وہ نہ آئینی ہے اور نہ ہی قانونی، بلکہ حقیقت میں ملک پر عملاً مارشل لا مسلط ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ہماری تاریخی غلطی تھی، اس سنگین غلطی پر قوم سے معافی مانگتے ہیں۔ آئندہ کسی ایکسٹینشن کو سپورٹ نہیں کریں گے۔

یہ بات انہوں نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین، سابق وزیراعظم عمران خان بھی جنرل باجوہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینے کے فیصلے کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دے چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے مجھے کمزور حکومت اور جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن نہیں دینی چاہیے تھی، عمران خان نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرلیا

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ان کی سب سے بڑی غلطی تھی اور کمزور اتحادی حکومت لینے کی بجائے انہیں دوبارہ انتخابات کروانے چاہیے تھے۔

’اپنی دو غلطیاں تسلیم کرتا ہوں کہ جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع دینا میری سب سے بڑی غلطی تھی اور کمزور اتحادی حکومت لینے کی بجائے مجھے دوبارہ انتخابات کروانے چاہیے تھے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • عمران خان سے ملاقات اور مذاکرات کو ایک ساتھ جوڑنا درست نہیں،رانا ثنا ء اللہ
  • ایسی فائنڈنگ نہیں دینگے جس سے کوئی کیس متاثر ہو، چیف جسٹس: بانی کی  8 اپیلوں پر نوٹس
  • سپریم کورٹ رولز 1980 منسوخ، رولز 2025 نافذ، فیس چارٹ بھی جاری
  • عمران خان کی ضمانت درخواستیں خارج کرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس کے سوالات
  • عدالت کوئی ایسی فائنڈنگ نہیں دے گی جس سے کسی کا کیس متاثر ہو؛سپریم کورٹ کے بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر ریمارکس، پنجاب حکومت کو نوٹس جاری
  • عمران خان کی ضمانت درخواستیں خارج کرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے سوالات
  • 45برس بعد سپریم کورٹ کے نئے رولز کا اعلان، 6 اگست سے اطلاق
  • اے ڈی سی آر سے میراکوئی تعلق نہیں ، اگر اس کے خلاف شکایت درست ہوئی تو سزا ہوگی: خواجہ آصف 
  • پٹوار خانوں میں خالی نشستوں پر بھرتیوں کا کیس: ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے طریقہ کار جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا
  • میاں نواز شریف ہمیشہ سروسز چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے مخالف رہے، رانا ثناء اللہ