کچھ لوگ شخصیت سے پہچانے جاتے ہیں، کچھ عہدے سے، اور کچھ کردار سے۔ راجہ پرویز اشرف ان معدودے چند سیاسی شخصیات میں سے ہیں جنہیں ان کے وقار، متانت، گفتگو کی شائستگی اور قومی اداروں کے احترام کے باعث جانا اور مانا جاتا ہے۔ وہ سیاست کے خارزار میں کئی دہائیاں گزار چکے ہیں مگر آج بھی ان کی پیشانی پر نہ تو غرور کا کوئی شائبہ ہے اور نہ ہی زبان پر درشتی کی کوئی پرچھائیں۔ یہ وہی راجہ پرویز اشرف ہیں جو ایک وقت میں اس ملک کے وزیر اعظم رہے، قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر آئینی نظام کے نگہبان بنے، اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت میں شامل رہے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ان ساتھیوں میں شامل تھے جن پر وہ نہ صرف بھروسہ کرتی تھیں بلکہ قومی فیصلوں میں ان سے مشاورت بھی کرتی تھیں۔مگر قومی اسمبلی کے جاری بجٹ اجلاس کی وہ دوپہر سیاست کی تاریخ میں ایک انوکھا اور تاریخی لمحہ بن گئی جب اس خاموش طبیعت اور متوازن لب و لہجہ رکھنے والے راجہ صاحب کو غصے میں دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وقار نے گرج بن کر ایوان میں بازگشت کی اور جب تحمل مزاجی نے للکار کا روپ دھار کر سچائی کا پرچم بلند کیا۔ یہ صرف ایک تقریر نہیں تھی یہ پاکستان کی سیاست کو لاحق ناسوروں کے خلاف اعلانِ بغاوت تھا۔قومی اسمبلی میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی عالمی سفارتی کاوشوں پر گفتگو کر رہے تھے۔ ان کی آواز میں پاکستان کی نمائندگی کا فخر تھا اور ان کے لبوں پر وہ بیانیہ تھا جو عالمی ایوانوں میں پاکستان کا مقدمہ پیش کر چکا تھا۔ مگر بدقسمتی سے اس اہم اور سنجیدہ موقع پر پی ٹی آئی کے کچھ اراکین نے وہی روش اپنائی جس کی انہیں شہرت ہے۔ شور شرابا، طعن و تشنیع، نعرے بازی اور غیر سنجیدہ مداخلت۔یہ وہ لمحہ تھا جب راجہ پرویز اشرف خاموش نہ رہے۔ وہ جو ہمیشہ مصالحت کا راستہ اپناتے تھے آج انہیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ یہ ذہنی بیمار لوگوں کا ٹولہ ہے یہ نہ پارلیمنٹرین ہیں نہ محب وطن یہ جنرل فیض کی پیداوار ہیں یہ نہ صرف عمران خان کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ پاکستان کو بھی۔یہ الفاظ محض غصے کی حالت میں کہے گئے جملے نہیں تھے بلکہ وہ آئینہ تھے جس میں پی ٹی آئی کی اندرونی بدنظمی، غیر سنجیدہ پن اور قومی اداروں کے تئیں ان کے منافقانہ روئیے کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
راجہ پرویز اشرف کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ کل یہی عمران خان موچی دروازے میں کھڑے ہو کر پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا تھا اور آج یہی لوگ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ کیا یہ پارلیمنٹ کی توقیر ہے؟یہ سوال صرف پی ٹی آئی سے نہیں پورے پاکستانی سیاسی ماحول سے ہے۔ کیا ہم پارلیمنٹ کو واقعی ایک مقدس ادارہ مانتے ہیں؟ کیا ہم اس کی حرمت کو اپنے ذاتی، سیاسی، جماعتی یا انا پر قربان کرنے کو تیار ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں راجہ پرویز اشرف جیسے سیاستدانوں کی آواز کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔راجہ صاحب نے بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کو ایک پاکستانی کی تقریر قرار دیا نہ کہ کسی جماعتی قائد کی۔ انہوں نے کہا کہ بلاول نے دنیا میں جا کر پاکستان کا وہ مقدمہ لڑا جو آج کے دور میں بہت کم لوگ لڑ پاتے ہیں۔ اور یہ حقیقت ہے۔ بلاول کی عالمی سفارتکاری، ان کی شائستہ زبان، مدلل اندازِ گفتگو اور پاکستان کے دفاع پر ان کا عزم دنیا کے بڑے پلیٹ فارمز پر محسوس کیا گیا۔ مگر افسوس کہ اپنے ہی ملک میں انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا صرف اس لیے کہ وہ پی ٹی آئی کے بیانیے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔راجہ صاحب کی للکار اس قوم کے ہر باشعور فرد کے جذبات کی ترجمانی تھی۔ انہوں نے وہ کہا جسے سننے کی تمنا قوم کے دل میں تھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی سیاست دراصل سیاست کی نفی ہے۔ وہ ایک ایسا گروہ بن چکا ہے جو اداروں پر حملے کرتا ہے، پارلیمنٹ کو مذاق بناتا ہے اور پاکستان کے خارجی محاذ پر ہونے والی کامیابیوں کو ذاتی بغض و عناد کی نذر کر دیتا ہے۔یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ راجہ پرویز اشرف کی تقریر کوئی وقتی ردعمل نہیں تھی بلکہ برسوں کے تجربے، صبر، سیاسی بلوغت اور قومی مفاد کے ساتھ جڑے جذبات کا نچوڑ تھی۔ وہ شخص جو ہمیشہ مسکرا کر بات کرتا تھا جب وہ چیخ اٹھا تو پورا ایوان سنجیدہ ہو گیا۔ ان کے الفاظ میں جو گرج تھی وہ محض ایک جماعت کے خلاف نہ تھی بلکہ اس پورے رویے کے خلاف تھی جو اس قوم کو عدم استحکام کی جانب دھکیل رہا ہے۔پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اس تقریر کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھے بلکہ خوداحتسابی کے ایک آئینے کے طور پر قبول کرے۔ کوئی بھی جماعت کامل نہیں ہوتی مگر جو جماعت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں پر الزام تراشی میں مصروف رہے وہ نہ خود سنورتی ہے نہ ملک کو سنوارنے دیتی ہے۔راجہ پرویز اشرف کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ کہ یہ کمپرو مائزڈ لوگ ہیں، یہ سیاست نہیں کرتے، یہ تماشا کرتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ سچ ہے جو کتابوں میں لکھا جائے گا۔
جب قومی ادارے مضبوط ہوں، جب پارلیمنٹ کا وقار محفوظ ہو، جب خارجہ محاذ پر پاکستان کا مقدمہ عزت سے لڑا جائے تو وہی دن پاکستان کے سنہرے دن ہوتے ہیں اور ان دنوں کی حفاظت کے لیے ہمیں راجہ پرویز اشرف جیسے جرات مند، باشعور، اور وفادار سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کی سیاست کو اگر واقعی سنوارنا ہے تو ہمیں گرجتے ہوئے وقار کی یہ آواز ہمیشہ یاد رکھنی ہوگی۔اس موقع پر ایک اور اہم پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے سیاسی تربیت اور اخلاقی اقدار کی موت۔ پاکستان کی سیاست میں جو بدتہذیبی اور اشتعال انگیزی مسلسل سرایت کرتی جا رہی ہے اس کا سب سے نمایاں اظہار ایوان کے اندر پی ٹی آئی کے غیر پارلیمانی رویے میں ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری جیسا نوجوان جو ملک کے تشخص کو بہتر بنانے کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ مکالمہ کر رہا ہو، اسے طنز، تمسخر اور نعرہ بازی سے روکنے کی کوشش دراصل قومی مفادات کے ساتھ مذاق ہے۔کیا ہم نے پارلیمنٹ کو صرف شور شرابے، لعن طعن، اور پوائنٹ اسکورنگ کا مرکز بنا دیا ہے؟ کیا ایک منتخب نمائندہ، جو دنیا بھر میں پاکستان کا مقدمہ لڑ کر آ رہا ہو اسے بولنے سے روک دینا قومی مفاد ہے یا قومی نقصان؟ اگر یہ رویہ جاری رہا تو ہم اپنی آئندہ نسلوں کو کیسا سیاسی ورثہ دے رہے ہیں؟ کیا ہماری سیاست سے شائستگی، دلیل، اور مہذب مکالمہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے؟راجہ پرویز اشرف کی تقریر نہ صرف ایک سیاسی ردعمل تھی بلکہ ایک اخلاقی و نظریاتی حد بندی بھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو لوگ اداروں کی تذلیل کو آزادی اظہار کا نام دیتے ہیں وہ نہ صرف عوام کو گمراہ کرتے ہیں بلکہ ملک کے نظریاتی ڈھانچے کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ سچ کہا کہ یہ لوگ جنرل فیض کی پیداوار ہیں۔ ایک ایسا سچ جس پر کئی زبانیں لرز جاتی ہیں مگر جس کا اعتراف بہت سے باخبر اذہان نجی مجالس میں کرتے ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے، لیکن تاریخ ہمیشہ ان ہی لوگوں کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے جنہوں نے اصولوں کی خاطر آواز بلند کی۔ آج راجہ پرویز اشرف نے جو آواز بلند کی ہے وہ مستقبل کے مورخ کی تحریر میں سچ کی حیثیت سے محفوظ ہو چکی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: راجہ پرویز اشرف پاکستان کی پاکستان کا پی ٹی آئی کی تقریر کی سیاست انہوں نے کے ساتھ کیا ہم
پڑھیں:
اپوزيشن نے ترمیم کے ایک نکتے پر تقریریں کیں، مطلب باقی نکات تسلیم کرلیے: پرویز رشید
مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اپوزيشن نے ترمیم کے صرف عدلیہ سے متعلق ایک نکتے پر تقریریں کیں، اس کا مطلب ہے کہ اپوزيشن نے ترمیم کے باقی نکات کو تسلیم کرلیا۔
سینیٹ میں خطاب کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے تصویر کا وہ رخ دکھایا جو انہیں پسند ہے، تصویر کا وہ رخ نہیں دکھایا جس نے عدلیہ کو پارٹی کے آلہ کار میں بدلنے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ جج کے چوغہ کے نیچے ایک سیاسی جماعت کا جھنڈا چھپا لیا اور اس کے مقاصد کے لیے کردار ادا کیا، اب ضروری ہے کہ نظام میں بہتری لائی جائے۔
عبداللہ شاہ غازی مزار کےقریب کار فٹ پاتھ پر سوئے افراد پر چڑھ گئی، 2 افراد جاں بحق
سینیٹر پرویز رشید کے مطابق اپوزيشن نے ترمیم کے صرف عدلیہ سے متعلق ایک نکتے پر تقریریں کیں، اس کا مطلب ہے کہ اپوزيشن نے ترمیم کے باقی نکات کو تسلیم کرلیا۔
دوسری جانب سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ آئینی عدالت سے متعلق میثاقِ جمہوریت کی تجویز پر بانی پی ٹی آئی عمران خان کے دستخط بھی موجود ہیں، 2006 میں لندن میں بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کے درمیان طے ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی سے ناصرف بانی پی ٹی آئی بلکہ مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں نے اتفاق کیا تھا۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا ؟
ادھر ن لیگ کے سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ وہ عدلیہ جو آئین کی دھجیاں اڑا کر آپ کے ساتھ سہولت کاری کرتی تھی وہ آپ کو اچھی لگتی تھی، ثاقب نثار اور بندیال اپنے دوستوں کو بینچ میں ساتھ بٹھا کر فیصلے کرتے تھے، کیا وہ عدلیہ ٹھیک تھی؟
مزید :