‘جنازہ گھر’ کے مالک کو 191 لاشیں چھپانے اور لواحقین کو جعلی راکھ بھیجنے پر 20 سال قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
امریکی ریاست کولوراڈو کی ایک عدالت نے ایک ‘جنازہ گھر’ کے مالک کو 191 لاشیں چھپا کر مرنے والوں کے لواحقین کو جعلی راکھ بھیجنے کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق پروسیکیوٹرز نے ملزم کے لیے 15 سال کی سزا کی درخواست کی تھی مگر جج نے حالات اور جرم کی شدت کو دیکھتے ہوئے زیادہ سزا سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معمولی فراڈ کا کیس نہیں ہے بلکہ اس میں مرنے والوں کے خاندان کے افراد کے جذبات کو بھی شدید ٹھیس پپہنچا ہے۔
پراسیکیوٹرز کے مطابق 2019 سے 2023 کے دوران آخری رسومات کی خدمات فراہم کرنے والے جون ہالفورڈ اور ان کی بیوی،کری ہالفورڈ نے لاشیں دفن اور نذر آتش کرنے کے بجائے اپنے ‘جنازہ گھر’ میں چھپائیں اور خدمات حاصل کرنے والے لواحقین کو جعلی راکھ بھیجتے رہے۔
یہ بھی پڑھیے: لوئر کرم، 4 افراد کی ہاتھ پاؤں بندھی لاشیں برآمد
عدالت کے مطابق ہالفورڈ کے دفتر سے پھیلنے والی بدبو کے باعث تحقیقات کی گئیں تو وہاں ایسی لاشوں کا انبار پایا گیا جن کی حالت ابتر تھی اور جگہ جگہ انسانی باقیات پڑی ہوئی ملیں۔
سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ لواحقین کو فراہم کی گئی ‘لاشوں کی راکھ’ دراصل سمینٹ تھی۔ بعض خاندانوں کو ان کے مرنے والے عزیزوں کے بجائے کسی اور کی لاشیں بھی دفنائے جانے کا انکشاف ہوا۔
ہالفورڈ کو یہ سزا ابھی صرف صارفین سے فراڈ کے الزام میں سنایا گیا ہے اور لاشوں کی بےحرمتی کے کیس میں انہیں سزا ہونا ابھی باقی ہے جس کا فیصلہ اگست میں متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: لواحقین کو
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
سپریم کورٹ میں محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب کے ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی عدالت کے قیام سے متعلق دلچسپ ریمارکس دیے، جس پر قہقہے گونج اٹھے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو نظرانداز کرتے ہوئے جونیئر افسران کو ترقی دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں دستاویزات سے دکھائیں کہ واقعی جونیئرز کو ترقی دی گئی اور آپ کے مؤکل کو نظرانداز کیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے دلچسپ انداز میں کہا کہ ’اگر کوئی بہت مشکل سوال ہے تو ہم وفاقی آئینی عدالت بجھوا دیتے ہیں‘، انہوں نے کہا کہ ’ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں‘، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔
وفاقی آئینی عدالت
یاد رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے پارلیمان سے بخوبی گزرنے کے بعد حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کی ازسرِنو تشکیل کا عمل شروع کر دیا ہے، اور مجوزہ وفاقی آئینی عدالت (ایف ایف سی) کے لیے 7 جج صاحبان کے نام شارٹ لسٹ کر لیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ عدالت آئین کی تشریح اور وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات کے تصفیے کے لیے قائم کی جا رہی ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے اس نئی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے، اور جسٹس امین الدین خان، جو اس وقت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ ہیں، انہیں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی کے ناموں کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خان بریچ کے نام بھی اس نئی عدالت کے ابتدائی ارکان کے طور پر زیرِ غور ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کی ابتدائی تعداد ایک صدارتی حکم کے ذریعے متعین کی جائے گی، جب کہ ججوں کی تعداد میں آئندہ کوئی اضافہ پارلیمان کی منظوری سے قانون سازی کے ذریعے کیا جا سکے گا۔