پی ٹی آئی کا نیا امتحان، مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد اگلا قدم کیا ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے مخصوص نشستوں پر نااہلی کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو ایک نئے سیاسی بحران کا سامنا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی میں اپنی نمائندگی محدود ہونے پر پارٹی نہ صرف عددی اعتبار سے کمزور ہوئی ہے بلکہ مستقبل کی پارلیمانی سیاست میں مؤثر کردار ادا کرنا بھی ایک چیلنج بن چکا ہے۔
ایسی صورتحال میں اب سب کی نگاہیں اس چیز پر ہیں کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب ایسا کیا کرے گی، کس قسم کی نئی حکمت عملی مرتب کرکے سیاسی میدان میں اپنی گنجائش پیدا کی جائے گی، اور اس کے لیے اگلا سیاسی قدم کیا ہوگا؟
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کا فیصلہ مایوس کن، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں مینڈیٹ چوروں کو دے دی گئیں، بیرسٹر گوہر
سب سے پہلے پارٹی کے اندر اتحاد و اتفاق قائم کرنا ہوگا، ماجد نظامیسیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد پاکستان تحریک انصاف کا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک حکمت عملی وضع کرے جس میں اس چیز کا فیصلہ ہو کہ پارٹی کے اندر اتحاد اور اتفاق کیسے ممکن ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ پارٹی کے تمام رہنماؤں کی مختلف آرا سامنے آنے کے بعد پارٹی کی ایک متفقہ حکمت عملی نہیں بن پائی، اور اب عمران خان اور ان کے تمام پارٹی رہنماؤں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کس حکمت عملی سے اپنی جماعت کو مزید نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔
ماجد نظامی نے کہاکہ یہ بات درست ہے کہ اس وقت ریاست اور ریاستی اداروں کا انتقام پسندانہ رویہ ہے، جس کی بنیاد پر وہ تحریک انصاف کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اس مخاصمت زدہ ماحول سے راستہ نکالنا بھی سیاستدانوں کا ایک اہم کام ہوتا ہے۔ اس لیے تحریک انصاف کو سب سے پہلے اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔ اور ایک حکمت عملی بنانی ہوگی، چاہے اس پر مفاہمت ہو یا مزاحمت لیکن اس کے ذریعے خود کو اس مشکل وقت سے نکالنے کے لیے عملدرآمد کیا جائے، کیونکہ پاک بھارت جنگی کشیدگی کے بعد اسٹیبلشمنٹ ہو یا پھر حکومت وہ مضبوط ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اب مداخلت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگا، اس لیے جب ان کی جانب سے سختی بڑھے گی تو تحریک انصاف کو بھی کوئی حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔
پی ٹی آئی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے عدالتی فیصلے کو اچھالے گی، احمد ولیدسیاسی ماہر احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کا اگلا قدم یہی ہوگا کہ وہ اس چیز کو اچھالیں گے کہ ہمارے خلاف عدالتوں نے فیصلہ دیا ہے، اور اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ایک ایسی پارٹی جس کے سربراہ آزاد الیکشن لڑے اور اس پارٹی میں یہ پارٹی شامل ہو رہی ہے، اس طرح سے نشستیں نہیں مل سکتیں۔
انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے قوانین یہ اجازت نہیں دیتے کہ ایک ایسی پارٹی جس کا پارلیمنٹ میں کوئی وجود نہیں ہے، اس کو مخصوص نشستیں مل جائیں، یہ معاملہ الیکشن کمیشن سے شروع ہوا اور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک گیا، اب اس فیصلے پر تو یقیناً تنقید ہوگی، جس پارٹی کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس نے غلطی تسلیم نہیں کرنی۔
احمد ولید نے کہاکہ جماعت اسلامی کی جانب سے انہیں آفر تھی، اگر اس کے ساتھ یہ لوگ مل جاتے اور پھر ایسا فیصلہ آتا، اور الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کوئی ایسا مسئلہ کھڑا کرتے تو آپ کا کہنا بنتا تھا کہ بھئی ہم تو ایک ایسی پارٹی کے ساتھ ملے ہیں جن کے پاس پہلے ہی نشستیں تھیں، تو یہ غلطیاں وہ ان کیمرہ نہ سہی بلکہ آف کیمرہ مانتے کہ بھئی ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف صرف وکٹم کارڈ کھیل رہی ہے، کب سارا ظلم انہی کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ ظلم جمہوریت میں پاکستان میں تمام پارٹیوں کے ساتھ ہوتے رہے ہیں، لیکن انہوں نے سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھا، آپ کو بھی سیاست میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ نے یہ مرحلہ کیسے کور کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی اسٹریٹیجی پر ہی پوری پارٹی چل رہی ہے، کیونکہ کوئی اور بندہ نہیں ہے کہ وہ پارٹی کے اندر فیصلہ لے سکے، عمران خان نے جو فیصلہ کرنا ہے اسی فیصلے پر عملدرآمد ہونا ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا، رانا عثمانسیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار رانا عثمان نے کہاکہ تحریک انصاف نے تو اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس فیصلے کو ذوالقفار علی بھٹو کے فیصلے سے جوڑا ہے کہ بھٹو شہید کا پھانسی کا فیصلہ بھی غلط تھا۔
’وہ سمجھتے ہیں کہ جیسے ہی چھبیسویں آئینی ترمیم ختم ہوگی یہ فیصلہ بھی ختم ہو جائے گا، پی ٹی آئی کو اب اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اور پھر اس کا فیصلہ آتے ہوئے برسوں لگ جائیں گے، اور پی ٹی آئی کے حق میں کچھ نہیں آنا۔‘
انہوں نے بتایا کہ فیصلہ تو ہو چکا ہے، لیکن اب پی ٹی آئی کے پاس سوائے احتجاج کے کچھ نہیں بچا، یا پھر اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی کارڈ نہیں، اس موقع پر یہ کہنا کہ پی ٹی آئی کی سیاست ختم ہو چکی ہے یہ قبل از وقت ہوگا، کیونکہ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، اور پی ٹی آئی کا ایک بڑا ووٹ بینک ابھی بھی موجود ہے، لیکن یہ الگ بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اس وقت منتشر نظر آرہی ہے کیونکہ ان کو جوڑنے اور متحد رکھنے والا لیڈر جیل میں بیٹھا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پارٹی کے اندر اتنی کنفیوژن ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ پارٹی کے اندر ہونا کیا ہے بیرسٹر گوہر الگ بات کرتے ہیں، باقی قیادت الگ بات کرتی ہے جبکہ علی امین گنڈا پور کے بیانات پر الگ الزامات لگتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں الگ سے تحریک انصاف کنفیوژن اور توڑ پھوڑ کا شکار ہے، لیکن اب پی ٹی آئی کو ان حالات کے اندر کچھ ڈیلیور کرنے کی طرف جانا چاہیے، ان کے پاس ایک صوبے کی حکومت ہے، کارکردگی پر دھیان دینا چاہیے۔
’پی ٹی آئی کے پاس صوبے میں حکومت، کارکردگی پر دھیان دینا چاہیے‘رانا عثمان نے کہاکہ گزشتہ 2 برس میں جو انہوں نے اڈیالہ جیل کے باہر ڈیرے لگائے ہیں، ان کا انہیں نقصان ہی ہوا ہے، اس لیے انہیں ایک حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی سیاسی جگہ بنائیں، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب یہ اپنے مؤقف میں لچک لے کر آئیں، اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں عوام کو جواب دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں کس کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟
انہوں نے کہاکہ سوات کا واقعہ ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اور اس دوران جب لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے تو علی امین گنڈا پور اڈیالہ کے باہر عمران خان کو رہا کروانے کی کوشش کررہے تھے، اس لیے حکمت عملی اور سیاست میں گنجائش پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews الیکشن کمیشن پی ٹی آئی حکمت عملی سپریم کورٹ علی امین گنڈاپور عمران خان عمران خان رہائی مخصوص نشستیں وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن پی ٹی ا ئی حکمت عملی سپریم کورٹ علی امین گنڈاپور عمران خان رہائی مخصوص نشستیں وی نیوز پاکستان تحریک انصاف انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں کہ پارٹی کے سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی حکمت عملی پی ٹی آئی کا فیصلہ فیصلے کو اس فیصلے کے ساتھ اور اس کے پاس اس لیے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
سب کا امتحان
ٹرانس جینڈر ایکٹ :Under Section 3 of the Transgender Persons Protection of Rights Act, 2018, every transgender citizen of Pakistan has the right to be recognized as per their self-perceived gender identity. They can register or update CNIC, CRC, driving license, and passport, ensuring dignity, equality, and full legal recognition.
کراچی کے مضافاتی علاقہ ملیر کے قریب ٹرانس جینڈر برادری کے تین افراد کا قتل معاشرے کی بے حسی کا اظہار ہے۔ ان ٹرانس جینڈر کو قریب سے گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس مسلسل اس قتل کی تحقیقات کررہی ہے مگر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا ،البتہ اس سینئر افسر کے پاس ان تین افراد کے قتل کی وجوہات کے بارے میں کوئی مواد نہیں ہے۔ یہ واقعہ ذاتی دشمنی بھی ہوسکتا ہے اور ٹرانس جینڈر سے پائی جانے والی نفرت کی وجہ بھی ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں ٹرانس جینڈر مسلسل تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر مختلف شہروں سے ٹرانس جینڈر کے قتل اور ان کی لاشیں ملنے کی خبریں آتی رہتی ہیں ۔ صوبہ پختون خوا اگرچہ مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے اور ہر روز دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے اغواء اور قتل کی خبریں ذرایع ابلاغ پر نشر اور اخبارات میں شایع ہوتی رہتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن اور اس آپریشن کے دوران انسانی جانوں کے ضایع ہونے کی خبریں بھی روز سنائی دیتی ہیں۔ پھر پختون خوا کا بیشتر حصہ کلائمنٹ چینج کا شکار ہے۔ اس سال مون سون کے مہینوں میں مسلسل بارشوں اور دریاؤں میں آنے والی طغیانی سے تباہی کا مسلسل ذکر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرانس جینڈر برادری کے افراد کی ہلاکت اور ٹرانس جینڈر برادری کے خلاف مختلف نوعیت کے اقدامات کا بھی پتہ چلتا ہے۔
ٹرانس جینڈر کی اکثریت ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر عموماً بچوں کے عقیقہ اور شادی بیان کے موقع پر ناچ گانے کا کام کرتے ہیں ۔ پشاور سے 80 میل دور صوابی کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے گانے بجانے کی محفل کا انعقاد کیا۔ اس محفل میں بہت دور سے لوگ سفر کر کے شرکت کرنے کے لیے صوابی آئے تھے، یوں پروگرام والی رات اس علاقے میں بڑی رونق تھی، مگر پھر پولیس کی بھاری نفری نے اس محفل پر دھاوا بول دیا۔ 80 ٹرانس جینڈر سمیت بہت سے تماش بینوں کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس نے اس محفل کو آرگنائز کرنے والے بااثر افراد کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ غریب ٹرانس جینڈر اور کچھ تماش بینوں کو گرفتار کرلیا ۔ ضلع صوابی میں ہونے والے جرگہ کے فیصلہ کے تحت تمام ٹرانس جینڈر افراد کو ضلع صوابی سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان افراد کو رات گئے یہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا کہ تمام ٹرانس جینڈر 24 گھنٹے سے کم عرصہ میں یہ ضلع چھوڑ کرچلے جائیں۔ پولیس اور ضلع اعلیٰ حکام نے جرگہ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے کچھ اقدامات جاری کیے۔ ٹرانس جینڈر کے لیے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی۔ ٹرانس جینڈر پر فحاشی اور عریانی پھیلانے کے الزامات لگائے گئے۔
ان ٹرانس جینڈر برادری کے لیے علاقہ کو چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا ۔ ایک ٹرانس جینڈر نے اپنی پالتو بلی سے کہا ’’مانو، تو تو یہاں رہ سکتی ہے، ہم کہاں جائیں گے معلوم نہیں۔‘‘ مگر بقول ایک ٹرانس جینڈر کے ہم 80 ٹرانس جینڈر کہاں جائیں گے؟ جب صوابی کے جرگہ کے انعقاد اور اس جرگہ کے فیصلہ کے بارے میں ذرایع ابلاغ پر خبریں نشر اور شایع ہوئیں تو پولیس حکام کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔
اس دوران ٹرانس جینڈر الائنس کی صدر فرزانہ صفدر نے پشاور ہائی کورٹ میں عرضداشت دائر کی جس پر معزز عدالت نے فوری طور پر صورتحال کا نوٹس لیا۔ صوابی کی پولیس کا کہنا ہے کہ کسی فرد یا گروہ کو کسی ضلع سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ پولیس آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے کسی جرگہ کے غیر قانونی فیصلہ پر عملدرآمد کی اجازت نہیں دے گی، یوں کچھ عرصہ کے لیے اس مظلوم برادری کو کچھ تحفظ حاصل ہوا مگر ایک انسانی مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ ٹرانس جینڈر الائنس کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ اس سال صرف پختون خوا میں 150 کے قریب ٹرانس جینڈر قتل کیے جاچکے ہیں۔ پولیس ان افراد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔
تاریخ شاہد ہے کہ انسانی معاشرہ کے ارتقاء کے ساتھ ٹرانس جینڈر کے وجود کا پتہ چلتا ہے مگر ہر دور میں یہ برادری گھریلو کام کرنے، گانے بجائے اور پیغام رسائی کے کام پر مامور رہے۔ کسی دور میں ان لوگوں کو بادشاہوں کے حفاظتی دستوں میں شامل کیا جاتا تھا۔ مسلمان حکام اور بادشاہوں کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات ٹرانس جینڈر کو ریاست کے سب سے اہم مقام حاصل ہوا۔
یہ لوگ مختلف ادوار میں بادشاہوں کے قریبی مشیروں میں شامل رہے مگر تاریخ کے حقیقی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ برادری گانے بجائے اور بھیک مانگنے کے کاموں سے منسلک رہی۔ یوں یہ افراد ہمیشہ معاشرے سے کٹے رہے۔ جدید دور میں یورپ اور دیگر ایشیائی ممالک میں اس برادری کے حالاتِ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں دیگر افراد کی طرح اپنے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی اعلیٰ ترین سطح پر ٹرانس جینڈر برادری کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچ بچار شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ٹرانس جینڈر کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ دیا اور اب ٹرانس جینڈر کا باقاعدہ اندراج شروع ہوا۔ صوبوں میں ٹرانس جینڈر کے لیے ملازمتوں کے کوٹے کا بھی فیصلہ ہوا۔ 2018 میں منظور کیے جانے والے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت ہر ٹرانس جینڈر کو اپنی شناخت کے تحفظ کا حق حاصل ہوا، یوں ٹرانس جینڈر میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور پیدا ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ٹرانس جینڈر مختلف شعبوں میں زیادہ متحرک نظر آنے لگے۔
ذرایع ابلاغ پر ایک ٹرانس جینڈر ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور کئی سند یافتہ وکلاء کا ذکر ہونے لگا ہے مگر ٹرانس جینڈر کی اکثریت اب بھی ناخواندہ ہے۔ ان کا گزارا بھیک مانگنے اور گانے بجانے کی محفلوں میں ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے۔ اس برادری کو غربت سے نکالنے اور مہذب شہری بنانے کے لیے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اس ملک میں ایک ڈبل اسٹینڈرڈ کا نظام رائج ہے۔ سندھ کے بلدیاتی نظام میں ٹرانس جینڈر کے لیے نشست مختص کی گئی ہے۔ ایک ٹرانس جینڈر نے ایک پیغام میں بتایا کہ دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت نے سپریم کورٹ میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے مگر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں انھوں نے ایک ٹرانس جینڈر کو نامزد کیا۔ کراچی میں تین ٹرانس جینڈر کا قتل ایک امتحان ہے۔
یہ امتحان صرف حکومت یا پولیس کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے، اگر ہم اس پر خاموش رہ گئے تو یہ سلسلہ مزید بڑھے گا۔ کل کو شاید مزید لاشیں گریں گی اور پھر ہم صرف ’’افسوس‘‘ اور ’’مذمت‘‘ کے بیانات دیتے رہ جائیں گے۔ لیکن اگر آج ہم متحد ہو کر آواز بلند کریں، انصاف کا مطالبہ کریں اور سماجی رویے بدلنے کی جدوجہد کریں تو یہ سانحہ ایک تبدیلی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔
ٹرانس جینڈر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی محض اخلاقی فریضہ نہیں بلکہ انسانی ذمے داری ہے۔ ان کی آنکھوں میں وہی خواب ہیں جو ہماری آنکھوں میں ہیں، ان کے دل بھی ویسے ہی دھڑکتے ہیں جیسے ہمارے۔ ان کی مسکراہٹ بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی ہمارے بچوں کی مسکراہٹ۔ تو پھر ان کی جانوں کو ارزاں کیوں سمجھا جائے؟ ہم کب تک اپنے سماج کے کمزور ترین طبقات کو بے یار و مددگار چھوڑتے رہیں گے؟ کب تک ہم قاتلوں کو یہ یقین دلاتے رہیں گے کہ ان کے جرائم بے سزا رہیں گے؟ اور کب تک ہم انسانیت کے اس بنیادی سبق کو بھلا کر اپنی آنکھیں بند کرتے رہیں گے؟ وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ٹرانس جینڈر بھی اسی سرزمین کے برابر کے شہری ہیں۔
ان کا خون بھی اتنا ہی قیمتی ہے جتنا ہمارا، ان کا وجود بھی اتنا ہی معتبر ہے جتنا ہمارا۔ ان کی حفاظت کرنا، ان کوعزت دینا اور ان کے خوابوں کو سچ کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ یہی انصاف ہے، یہی انسانیت ہے اور یہی ہماری اصل پہچان ہونی چاہیے۔