المیہ ہے کہ جو فیصلہ آیا وہ قوم کی توقعات کے عین مطابق آیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایاز ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ آئین اور قانون کی بات یہاں کیسے ہو سکتی ہے، کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے آئین کو درست کردیا ہے، پچھلے آٹھ ججوں نے فیصلہ دے کہ آئین کو برباد کیا تھا انھوں نے اس کو درست کر دیا ہے تو اسی آئین کے تحت جب اسمبلیاں توڑی گئی تھیں تو نوے دن میں الیکشن نہیں ہوئے تھے، تو تب کہاں تھا آئین؟، تب کہاں تھا قانون؟۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بات مکافات عمل سے میرا خیال ہے کہ آگے جا چکی ہے۔
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ یہ جو فیصلہ آیا اس قوم کی توقعات اور جو ان کا گمان تھا اس کے عین مطابق آیا ہے، پوری قوم کو یقین تھا کہ یہی فیصلہ آنا ہے، یہ عدالتوں پر قوم کے اعتبار کا عالم ہے، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ اس ملک میں بندیال کے دور میں، ثاقب نثار کے دور میں، جسٹس گلزار کے دورمیں، قاضی فائز عیسٰی کے دور میں جو کچھ ہو چکا ہے اب اس سے زیادہ برا نہیں ہو سکتا، لوگوں کا گمان اور خوش فہمی دور ہو گئی۔
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس آپشن جو تحریک عدم اعتماد آئی تھی، نام نہاد تحریک عدم اعتماد جس کا مولانا صاحب نے ذکر کر دیاکہ کس کے کہنے پر لائی گئی تھی اور وہ اب کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سیاست سے دور رکھیں، جس دن سے اسٹیبلشمنٹ کی فیور ان سے گئی اسی دن سے پی ٹی آئی کی مشکلات شروع ہو گئی تھیں، اب ایک غیر منتخب حکومت جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں اس کو آپ نے دوتہائی اکثریت دیدی کہ وہ اب آئین پاکستان کے ساتھ جو وہ چاہے کر سکے۔
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ یہاں جذبات سے بھی ہم کام لیتے ہیں ہم محبت سے بھی کام کرتے ہیں، تلقین بھی کرتے ہیں لیکن ہم نے خبر تو کرنی ہوتی ہے، میںدعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ مال غنیمت کا لفظ پورے پاکستان میں نے یوز کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ مال غنیمت ان سیاسی جماعتوں میں بانٹا جائے گا، بٹ گیا، جب چھبیسویں آئی تو میں نے کہا ستائیسویں ترمیم آئے گی اور وہ آئے گی کون روک سکتا ہے۔
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ دیکھیں جب سے یہ الیکشن ہوئے ، الیکشن سے پہلے جس طرح الیکشن کمیشن کی جانب سے ہوتا رہا کہ انڈیپنڈنٹلی الیکشن لڑنا چاہتی تھی پی ٹی آئی، جیسے سسٹم کے تحت لڑنا چاہ رہی تھی، تو پھر اس کیلیے جو بھی سسٹم آیا ان کا نشان بھی چھین لیا، جو صورتحال ہے یہ سب اسی کی کڑی ہے اور وہ چلتے چلتے جو ہے آپ دیکھ لیں کہ اسمبلی میں کچھ عرصہ چلے، جب دیکھا انھوں نے پھر چھبیسویں آئینی ترمیم آ گئی، اب ستائیسویں کیلیے بھی جو لگے ہوئے ہیں کہ جو بھی ہے سسٹم ان کو ختم کرنا تھا تو بالکل ختم کر کے وفاق سے بھی اور صوبائی حکومتوں سے بھی ان کو ختم کر کے پھراپنا یعنی کہ مینڈیٹ جو ہے وہ بڑھانا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ انھوں نے ئی تھی کے دور سے بھی
پڑھیں:
پاکستانی مزدوروں کی ملک سے ہجرت کا المیہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے۔ لیکن کچھ الیٹ کلاس حکومتی طبقے کی غلط حکمتِ عملیوں کا بھگتان پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ غور کیا جائے تو بہت تیزی کے ساتھ پاکستانی مزدور ملک سے باہر روزی روٹی تلاش کرنے جارہے ہیں۔ ایسی کیا وجہ ہے کہ ہمارا ہنر مند مزدور ملک میں روزی کمانے سے بھاگ رہا ہے اور وہی مزدور بیرون ملک جانے کا خواہشمند ہے؟؟؟ کیا حکومتوں نے مستقبل میں مزدوری کا کام روبوٹس سے لینے کا سوچ لیا ہے یا وہ مزدوروں کو ملک میں انسانوں کا درجہ دینے سے بھی قاصر ہوچکی ہے؟؟؟ فی زمانہ خطے کے جو حالات ہیں اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو تیسری جنگِ عظیم کے پرندے اپنے پر تول رہے ہیں لیکن کیا ان حالات میں ملک کے مزدوروں کے ساتھ یہ ناانصافی نہیں کہ بجٹ میں حکومت مزدوروں کی تنخواہ صرف چند ہزار ہی مختص کررہی ہے اور اس میں میڈیکل، لیو انکیشمنٹ، انکریمنٹ اور ہاؤس سیلنگ کے لیے وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے۔ یعنی ہر ہر جگہ آپ کے گورنمنٹ ادارے منہ کھول کر رشوتیں مانگ رہے ہیں؟؟؟ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ اس طرح کے حرام کمائے ہوئے پیسے سے آپ اپنے بیوی بچوں اور اپنے لیے کیسی قبر تیار کر رہے ہیں۔ کیا یہ معیار ہے آپ کا اپنے ملک کی بنیادوں کو مضبوط کرنے والوں کو جانچنے کے لیے؟؟؟ یا اگر مزدور طبقہ ہڑتال کی کال دے تو ہی آپ کے کانوں میں آواز جاتی ہے؟؟؟ دفتری امور ہوں یا دفتر سے باہر کے کام یہ مزدور طبقہ ہی ہوتا ہے جو آپ کی ایک بیل پر لبیک کہتا ہے۔ جبکہ جس دفتری کمرے کا تالہ آپ کھولتے ہیں اس کی کنڈی تک مزدور کے ہاتھ کی لگائی ہوئی ہوتی ہے۔ آپ کو چھٹی چاہیے ہو تو ٹھیک لیکن مزدور کی ہاف ڈے لیو سے بھی آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ تو پھر مزدور کا آپ کے ملک میں مستقبل کیا ہے؟؟؟ اس کے بچوں کی تعلیم، گھر کا کرایہ، اضافی ٹیکس، TA/DA، علاج معالجہ، بجلی، گیس، پانی، انٹرنیٹ، کیبل، اشیاء ِ خوردونوش، اسکول، کالج، یونیورسٹی کی فیس آپ خود بتا دیں کہ یہ کہاں سے اور کیسے پورا ہوگا؟؟؟ سونے پہ سہاگا یہ کہ ہر ہر جگہ رشوتوں کا بازار گرم ہے کیونکہ جہاں افسروں نے چھاپے مارنے ہوتے ہیں وہاں رشوت لے کر AC والے کمروں میں بیٹھے بیٹھے دستخط کر دیے جاتے ہیں اور دفتری چپڑاسی اس دفتر کے افسر سے بھی بڑا افسر بنا پھرتا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ جب گھر میں کام کر کے دال دلیہ ہی نہ چل سکے تو مجبوراً گھر سے باہر قدم رکھنے پڑتے ہیں۔ جب ملک میں مزدوروں کے حقوق جانتے بوجھتے پامال کیے جائیں گے تو یہی نتائج برآمد ہوں گے۔ جس ملک میں بجلی، گیس، پانی وافر مقدار میں موجود ہو وہاں پھر مہنگائی ہونے کا مطلب حکمران ملک کے ساتھ مخلص کم اور اپنی عیاشیوں کے ساتھ زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے بڑے بڑے پروٹوکول پر عوام کا ٹیکس اُڑانے کی نہ کہ وہی پیسہ بلٹ پروف گاڑیوں کو ملک میں بنانے اور سیکورٹی کیمروں کو ٹھیک کروانے پر لگایا جائے۔ جب سے حکمرانوں میں غیر پڑھے لکھے اور چور ڈاکو ذہنیت کے لوگ آئے ہیں انہیں اپنی عیاشیوں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ بھاری قرضے لے کر اپنی عیاشیوں کو بڑھانے اور اس ملک کو بین الاقوامی سطح پر ذلت و رسوائی کے اور کیا دیا۔ کراچی جیسے روشنیوں کا شہر موئن جو دڑو اور ہڑپہ جان بوجھ کے بنا دیا گیا۔ وہ کون سا کام ہے جو 78 سال میں بھی پورا نہیں ہو پارہا؟؟؟ کیا ضرورت ہے بار بار سڑکیں کھودوانے کی سوائے عوام کا ٹیکس ضائع کرنے اور قرضوں پر عیاشیاں بڑھانے کے۔ اس سب میں مزدور کہاں کھڑا ہے؟؟؟ آپ کی دی ہوئی بھیک سے گھر نہیں چلتا بوس اور نہ ہی مزدور آپ کی طرح عیش و عشرت کی زندگی حرام کے پیسوں پر جیتے ہیں اس لیے وہ باہر کا رُخ کرتے ہیں۔ جب حکمران یہ سب مراعات فری لے سکتے ہیں تو پھر مزدور کیوں نہیں؟؟؟ اس کا حل یہ ہے کہ فوری بنیادوں پر مزدوروں کی تنخواہ، مراعات اور رہائش کی جگہ بہتر کی جائیں، مزدوروں اور عوام کے لیے فری ایمبولینس سروس کا انتظام کیا جائے۔ پتہ کیا جائے کہ چندوں کے پیسوں سے فلاحی ادارے جب چل رہے ہیں تو یہ ایمبولینس کے کرائے کیوں عوام اور مزدوروں سے بھاری بھرکم لیے جارہے ہیں؟؟؟ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں کو عقل و دانش عطا فرمائے اور حلال روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین