درآمدی روئی ،یارن پر جی ایس ٹی کا نفاذ کپاس بحالی کی شروعات ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے فنانس بل 2025 میں ترمیم کے تحت درآمدی روئی اور کپاس کے دھاگے (یارن) پر 18 فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ کے حکومتی فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور اسے ملکی ٹیکسٹائل سیکٹر میں طویل عرصے سے موجود بگاڑ کو دور کرنے کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ خصوصی بات کرتے ہوئے پاکستان بزنس فورم جنوبی پنجاب کے چیئرمین ملک طلعت سہیل نے کہا کہ یہ اقدام ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم (EFS) کے تحت موجود اہم عدم توازن کو ختم کرتا ہے اور حکومت کے اس عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ٹیکسٹائل ویلیو چین میں مساوات کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ اْن کا کہنا تھا، “یہ اصلاح مقامی صنعت کی حمایت میں حکومت کے پختہ عزم کا حوصلہ افزا اشارہ ہے۔ تاہم، فورم نے مطالبہ کیا کہ مقامی روئی کے کاشتکاروں اور سپنرز کو بھی ریلیف دیا جائے۔ سہیل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ درآمدی روئی پر اب ٹیکس لاگو ہے، لیکن مقامی روئی اور یارن بدستور سیلز ٹیکس کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، جو بالآخر کسانوں پر منتقل ہو جاتا ہے۔ “مقامی سپنرز اب بھی جی ایس ٹی کے تابع ہیں، جسے وہ کسانوں سے وصول کرتے ہیں اور یوں انہیں ایک طرح سے ود ہولڈنگ ایجنٹ بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ صورتحال ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے،” انہوں نے کہا پی بی ایف نے روئی کی پیداوار سے حاصل ہونے والی ضمنی مصنوعات—روئی کے بیج اور بنولہ کھل—پر سیلز ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ بھی دہرایا، جو کہ مویشیوں کے شعبے کے لیے اہم خام مال ہیں۔ فورم نے واضح کیا کہ بڑے روئی پیدا کرنے والے ممالک میں یہ اشیاء ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔ سہیل نے خبردار کیا کہ “ان اشیاء پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کسانوں کو نفع بخش حد سے نیچے لے آتا ہے اور انہیں زیادہ پانی استعمال کرنے والی فصلوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے بلکہ روئی کی پیداوار کی کم رپورٹنگ کا رجحان بھی فروغ پاتا ہے، جو قومی محصولات پر منفی اثر ڈالتا ہے۔”پی بی ایف نے حکومت کی صنعت سے مشاورت کے عمل کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پائیدار ترقی کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جو پوری ویلیو چین کو مستحکم بنائے۔ فورم نے کہا، “جزوی اصلاحات کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ عالمی تجارتی انضمام، مقامی صنعت، روزگار یا سرمایہ کاری کی قیمت پر نہ ہو۔”اسی طرح شق 37AA پر بھی صدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب نے کھل کر پوزیشن لی جس پر ایک کمیٹی بنا دی گء گرفتاری کا سنگل اختیار ختم کروایا۔ فورم نے حالیہ معاشی اصلاحات کی بھی تعریف کی، جن میں بجلی کے نرخوں میں کمی—16–17 سینٹ فی یونٹ سے کم ہو کر تقریباً 11 سینٹ تک آنا—اور شرح سود میں 22 فیصد سے 11 فیصد تک کمی شامل ہے۔ سہیل طلعت نے کہا ان اصلاحات نے نہ صرف مہنگائی کو مستحکم کیا ہے بلکہ کاروباری طبقے کا اعتماد بھی بحال کیا ہے۔” پی بی ایف نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ ایکسپورٹ فسیلیٹیشن اسکیم کے تحت زیر التوا ٹیکس سے متعلق معاملات کو جلد از جلد حل کریں اور صنعتی ترقی کے لیے ہدفی اصلاحات کے عمل کو جاری رکھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کوئٹہ، انصاف لائرز فورم کے وفد کی ایرانی قونصل جنرل سے ملاقات
وفد نے غاصب صہیونی حکومت کیساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمتی کامیابی پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور ایران، اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کیساتھ اپنی پختہ وابستگی اور مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف کی وکلاء ونگ انصاف لائرز فورم کے وفد نے صدر سید اقبال شاہ کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قائم مقام قونصل جنرل علی رضا رجائی سے کوئٹہ میں ملاقات کی۔ اس موقع پر وفد نے غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمتی کامیابی پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور ایران، اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی اور مکمل یکجہتی کا اعلان کیا۔ اراکین وفد نے خطے کی صورتحال اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے سیمینارز اور آگاہی مہمات کے انعقاد کی تجویز دی۔ مزید برآں، دونوں ممالک کی بار ایسوسی ایشنز کے درمیان روابط کے فروغ اور وفود کے تبادلے پر بھی زور دیا گیا۔ قائم مقام قونصل جنرل علی رضا رجائی نے وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستانی عوام، بالخصوص وکلاء کی جانب سے غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حق میں اظہار ہمدردی اور حمایت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مظالم اور جنگی جرائم کو مؤثر انداز میں دستاویزی شکل دے کر عالمی قانونی اداروں میں پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس میدان میں وکلاء کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔